تازہ ہوا بہارکی دل کا ملال لے گئی (قسط اول)

اسوہ ٔ رسول اکرم ﷺ جس طرح امت مسلمہ کے ہر فرد کی خاطر تمام عمرنمونۂ حیات ہے اسی طرح سیرت النبی ﷺکے حالات و واقعات ملت اسلامیہ کی ہر ہر موڑ پر رہنمائی کرتے ہیں ۔ گزشتہ شعبان سے لے کر اس سال شوال تک رونما ہونے والے عالمی واقعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو بےساختہ عام الحزن یعنی غم کا سال یاد آجاتا ہے۔ نبوت کا دسواں سال جس میں ایک ایک کرکے سارے دنیاوی سہارےبکھرتے چلے گئے۔ گھر کے اندر نبی کریم ؐ کی دمساز و غمگسار ، تمام مشکلات و پریشانیوں میں آپ کے شانہ بشانہ نبرد آزما رہنے والی زوجہ محترمہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓداغ مفارقت دے کرعدم آباد کی جانب کوچ کرگئیں ۔

مکہ مکرمہ کے اندر قبیلہ بنو ہاشم کے سردار اور آپ ﷺ کے سرپرست و نگہبان، دشمنانِ اسلام کی ہر مخالفت کا سینہ سپر ہو کر چٹان کی مانند دفاع کرنے والے شفیق و مہربان چچا حضرت ابوطالب نے بھی جہانِ فانی کو خیرباد کہہ دیا ۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوا کہ آپؐ کا اولین دشمن ابو لہب بنو ہاشم کا سردار بن گیا اور جب آپؐ نے ان حالات میں جائے پناہ کی خاطر میں طائف کا سفر فرمایا تو آپؐ کو اپنی زندگی کے سب سے سخت ترین دن کا سامنا پیش آیا گویا ایک ایک کے بعد ابتلاءو آزمائش میں بدستور اضافہ ہوتا ہی چلا گیا۔ اس دوران نبیٔ کریم ﷺ کے ساتھ آپؐ کے جاں نثارصحابۂ کرام بھی نت نئی آزمائشوں سے دوچار ہوتےرہے لیکن مشکلات کےاس ٹھاٹیں مارتے سمندر کے اندر پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی اس لئے کہ انہیں یقین تھا ؎
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

عالمِ اسلام گزشتہ سال اسی قسم کےسنگین حالات سے دوچار تھا کسی جانب سے کوئی خوشخبری سنائی نہیں دیتی تھی ۔ اس سے پہلے کہ ایک گھاؤ بھرتا نیا زخم لگ جاتا تھا ۔ ہندوستان میں اس کی ابتداء مظفر نگر فسادات سے ہوئی جس کی مثال اتر پردیش کی تاریخ میں نہیں ملتی اس کے بعد بوڈو لینڈ میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور بالآخر دہلی میں نریندر مودی کی حکومت کو دو تہائی اکثریت ۔ برما کے اندر روہنگیا مسلمان انتہا پسندبو دھ بھکشووں کے مظالم اور حکومت کی مسلسل بے اعتنائی کا شکار رہے ۔ بنگلہ دیش میں دوبارہ اقتدار پر قابض ہونے کی غرض سے شیخ حسینہ تحریک اسلامی کی دشمنی پر اتر آئیں اور ایک بے بنیاد مقدمہ میں شہیدعبدالقادر ملا کی تختۂ دار تک پہنچا دیا۔

مصر کے اندر ڈاکٹر محمد مورسی کی حکومت کا تختہ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت الٹ دیا گیا جس میں اپنے پرائے سب شامل تھے اور پھر اس کے بعد اخوانیوں کے ساتھ خود مصری فوج نے جس ظلم و سفاکی کا مظاہرہ کیااس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے۔ لیبیا میں جنرل ہفتار کا اسلام پسندوں کی منتخبہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکےسیکولر آمریت قائم کردینا بھی ایک بری خبر تھی۔ شام کے اندر بشار الاسد کے ساتھ مغرب نے کیمیاوی اسلحہ کو ضائع کرنے کا ناٹک کرکے رشتہ استوارکرلیا اور پھر وہ انتخاب کے ڈرامہ میں اس طرح کامیاب ہوا کہ گویا اب کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا ہے ۔ عراق میں نورالمالکی اپنی تمام تر نااہلی کے باوجود انتخاب میں کامیاب ہو کر اقتدار کا دعویدار بن گیا۔ ترکی میں رجب طیب اروان کے خلاف اشتراکی تقسیم چوک پر مظاہرہ کرہی رہے تھے کہ معروف عالم دین فتح اللہ گلین بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے اور ذرائع ابلاغ نے ایسی ہوا بنائی کہ گویا ان کا اقتدار بھی جلد ہی یہ جا وہ جا ہواچاہتاہے۔ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ حماس کی بیخ کنی کے ناپاک ارادے سے اسرائیل نے غزہ پر ہلہّ بول دیا۔ اس بارعرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ اشتراک و عمل کا شرمناک نظارہ بھی فلک گیتی نےکر لیا۔

حالات کی یہ سنگینی دراصل بالعموم اہل ایمان اور بالخصوص اسلامی تحریکات کی روز افزوں تقویت کے خلاف دشمنانِ اسلام کے اضطراب وپریشانی کا اظہار تھا ۔ سیرت النبی ؐ کے واقعات میں بھی ہمیں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں ۔ دینِ اسلام جب تک ایک ٹمٹماتے ہوئےچراغ کی مانند تھا اس وقت تک مشرکین مکہ اسے ناقابل اعتناء بتا کر نظرانداز کرنے کا ڈھونگ رچاتے رہے۔ لیکن جیسے جیسےاس کی روشنی پھیلتی چلی گئی مخالفت میں شدت آتی گئی۔ جب لعن طعن،الزام تراشی اور دشنام طرازی بے فائدہ ہوگئی تو مارپیٹ اور ایذارسانی کی نوبت آگئی۔ اسی دورِ ابتلاء میں حضرت امیر حمزہ ؓاور حضرت عمرؓ جیسے طاقتور پھول گلشن اسلام کی زینت بن گئے اور پورا قبیلۂ بنو ہاشم حضور اکرم ؐ کے تحفظ و حمایت میں کھڑا ہو گیا۔

اس کامیابی نے دشمنانِ اسلام کی نیند حرام کردی اور ان لوگوں نے معاشی مقاطعہ کا فیصلہ کردیا جس کے نتیجہ میں پورے قبیلہ بنو ہاشم کوشعب بن ابی طالب کے اندر محصور ہونا پڑا۔ یہ اقدام اسلامی تحریک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلئے آزمایا گیا تھا۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے غزہ کی حصار بندی باطل کا پرانا حربہ ہے جسے پہلے بھی آزمایا جاچکا ہے۔ یہ اور بات ہے دشمنان اسلام کو اس میں نہ پہلے کامیابی ملی تھی اور نہ اب ملی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اسلام کی قوت و شوکت میں جس قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس کے شانہ بشانہ مخالفت بھی اسی شدت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سیرت کے واقعات شاہد ہیں کہ عام الحزن اور طائف سے گزر کر تحریک اسلامی کا یہ قافلۂ سخت جان معراج النبی ؐ کی بلندترین منازل کو طے کرتاہوا مدینہ منورہ میں خیمہ زن ہو گیا اور آفتاب رسالت کی کرنوں نےعالم انسانیت کو منور کردیا۔ اس دوران اہل ایمان کبھی حزن و مایوسی کا شکار نہیں ہوئے اس لئے کہ بقول ساغر صدیقی ؎
ایک ننھا سا آرزو کا دیا ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

عصرِ حاضر کے حالات بھی گواہی دے رہے ہیں کہ تاریکی نے جب سارے عالم کو اپنے پنجے میں جکڑ لیا تو اچانک چہار جانب سے ایک ایک کرکے روشنی کے ننھے ننھے چراغ روشن ہونےلگے ۔ خزاں رسیدہ چمن میں سبک خرام بادِ بہاری داخل ہوگئی ۔ ہوا کا رخ اس سمت سے بدلا جس کا کسی کو گمان تک نہیں تھا۔ قطع نظر اس کے کہ شام و عراق کی سرحد پر عالم وجود میں آنے والی یہ نئی ریاست کب تک باقی رہتی ہے اس کا قائم ہو جانا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا چمتکار ہے۔اس نے ساری دنیا کو حیرت زدہ کررکھا ہے۔ داعش کے حوالے سے بے شمار افواہوں کا بازار گرم ہے لیکن النصرہ نامی تحریک جو مغرب اور اس کے حلیفوں کی مخالفت کے باوجود بشار کے آگے سینہ سپر رہی ہے فی الحال داعش کے ساتھ ہے ۔ اس لئے اسے امریکہ یا سعودی عرب کا ایجنٹ قرار دیے کر یکسر مسترد کردینا درست نہیں لگتا۔

موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ داعش کے خلاف امریکہ اور سعودی عرب ، ایران اور بشار کا تعاون کرنے پر راضی ہو گئے ہیں ۔ داعش کےجملہ مظالم کو ہزار سے بھی ضرب کردیا جائے تب بھی وہ بشار کے مقابلے عشر عشیر ہی ہوں گے ایسے میں داعش کے خلاف بشار کی مدد کرنا یا اس سے تعاون لینا چہ معنی دارد؟ کل تک جو ایران مرگ بر امریکہ کے نعرے لگاتا تھا اور جو سعودی عرب اس کو علاقائی امن و امان کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا تھا وہ دونوں اب امریکہ کی سرپرستی میں یکجا ہو گئے ہیں ۔ منفی مقاصد کے حصول کی خاطر سہی ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستی و مفاہمت پیدا کرنے کامنفرد کارنامہ داعش نے انجام دیا ہے ۔ اس نئی صف بندی سے جنم لینے والے اندیشوں پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
جشن بہار نو ہے نشیمن کی خیر ہو
اٹھا ہے کیوں چمن میں دھواں روشنی کے ساتھ

داعش کے ساتھ ایسے انتہا پسند گروہ شامل ہیں جن کی سفاکی اور شعائر اسلام کی بے حرمتی یقیناً قابل مذمت ہے لیکن وہ ایسے لوگوں کی حرکات ہو سکتی ہیں جو داعش کے قابو سے باہر ہوں ۔ ویسے اب تو وہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے اور امریکی ان کے نشانے پر ہیں۔ داعش کی کامیابی نے پہلے تو اس غلط فہمی کا خاتمہ کیا کہ بشار کامیاب ہو چکا ہے ۔ اول توشامی تیل کے ذخائر دیکھتے دیکھتے نئی ریاست کے قبضے میں چلے گئے ہیں اور بشار ہاتھ ملتا رہ گیا ہے۔ اس کےبعدعراق کے ایک بڑے علاقہ اور اس میں موجودسب بڑی ریفائنری اس کے ہاتھ لگ گئی۔ عراقی فوج جو اسلحہ اور گولا بارود چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی وہ ان کے پاس ہیں ۔ حال میں مجاہدین شام النصرہ کی گولان سرحد اسرائیل کے ساتھ بھی جھڑپ ہو چکی ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ ایک نئی ریاست کے بن جانے کو اور اس کے ابتدائی مرحلے میں ہونے والے خون خرابے کو بہت ہی حیرت انگیز خبر بنا کر پیش کررہا ہے حالانکہ ابھی چند سال قبل سوڈان کو تقسیم کرکے جنوبی سوڈان کو الگ کردیا گیااور ایک نئی ریاست عالم وجود میں آگئی۔ جنوبی سوڈان کے بنانے کا جواز یہ تھا کہ وہاں کے باشندوں کو خرطوم کی حکومت پر اعتماد نہیں تھا۔ اب اگر عراق و شام کے سرحدی علاقہ کے عوام کا اعتمادبغداد و دمشق کے اوپر سے اٹھ جائے تو کیا ایک نیا ملک نہیں بن سکتاہے؟کیااس پر اقوام متحدہ کی مہر ضروری ہے؟ جبکہ اس ادارے کا امتیاز ی رویہ جگ ظاہر ہے ۔ جنوبی سوڈان میں چونکہ اب خلفشار ہے اس لئے کیاساری دنیا کی فوجیں وہاں حملہ آور ہو گئی ہیں؟ اگر نہیں تو یہ پیمانہ صر ف عراق و شام کے درمیان قائم ہونے والی نئی ریاست کیلئے کیوں ہے؟ جنوبی سوڈان کی مانند اسے بھی تسلیم کرکے اس کا تعاون کیوں نہیں کیا جاتا؟

حالیہ بحران کا ایک بڑا فائدہ تونورالمالکی کے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس معاملے شیعہ سنی تنازع بنا کر پیش کرنے کی مذموم کوشش نہیں ہو سکی اس لئے کہ نورالمالکی سے نہ صرف اہلسنت، اہل تشیع بلکہ کرد بھی یکساں طور پر بیزار تھے۔ علامہ سید علی سیستانی نے اول توڈھکے چھپے الفاظ میں المالکی کوسبکدوش ہونے کیلئے کہا مگر پھر صاف خط لکھ دیا۔ مالکی نےعدالت سے رجوع کیا، وہاں سے ناکامی کے بعد اس کی اپنی جماعت الدعوہ نے ہاتھ کھینچ لیا اوربالآخر ایران کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا اس طرح عراق کو نورالمالکی سے نجات دلانے کا سہرہ یقیناً داعش کے سر ہے ۔

بنگلہ دیش اور میامنار میں فی الحال پہلے جیسی ہیجانی کیفیت نہیں پائی جاتی ۔ اسی کے ساتھ ہندوستان کے اندر بھی مودی کا جادو تیزی سے روبہ زوال ہے ۔ اس موقع پر سب سے زیادہ خوش کن خبر ترکی سے آئی جہاں رجب طین اروان پہلے ہی راؤنڈ میں ۵۲فیصد ووٹ حاصل کرکے اولین عوامی صدر بن گئے ۔ اس کامیابی کی اہمیت کا اندازہ حزب اختلاف کےسیکولر امیدوار اکمل الدین احسان اگلو کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے۔ انتخاب سے قبل جب ان سےسوال کیا گیا کہ آپ روشن خیال مسلمان ہیں کہ قدامت پرست تو جواب تھا میں خداترس مسلمان ہوں ۔ جس ترکی میں اسلام پسندوں کو بھی ببانگ دہل اسلام کی شہادت دینے سے روکا جاتا تھا وہاں ایک سیکولر رہنما کا مذکورہ اعتراف ترکی میں برپا ہونے والے عظیم انقلاب کا مظہرہے ۔

صدر مملکت رجب طیب اردوان نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعد استنبول سے انقرہ جاتے ہوئے ایوپ سلطان مسجد میں رک کر نمازدوگانہ ادا کی ۔ یہ وہی تاریخی مسجد ہےجہاں خلافت عثمانیہ کے دور میں تاجپوشی سے قبل خلیفہ وقت روایتی طور پرنماز شکرانہ ادا کرتا تھا ۔ یہ علامتی قدم مرغِ بادبان کی مانندہوا کے رخ کانقیب اور قرآن مجید کی اس بشارت کا ترجمان ہے جس میں فرمایا گیا ’’(اے نبیؐ) کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو جن لوگوں نے اِس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘

ایک اور خوشخبری حال میں لیبیا سے موصول ہوئی جہاں جنرل خلیفہ ہفتار کی فوج کو طلوع لیبیا کے فوجی دستے نے طرابلس سے ماربھگایا۔ خلیفہ ہفتار نے اسلام پسندقومی پارلیمان کے خلاف بن غازی میں بغاوت کردی تھی ۔ اس ماہ مئی میں احتجاج کے بعد جنرل ہفتار کے حامیوں نے قومی پارلیمان کو برخواست کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور انتخابی ڈرامہ کرکے نمائندوں کی مجلس قائم کردی ۔ جنرل ہفتار کے اقتدار کو بچانے کیلئے آخری لمحات میں مصرکےالسیسی نےاپنے قومی مفاد پر داؤں پر لگا کر فوجی مداخلت بھی کی لیکن وہ بارآور نہ ہو سکی ۔ طرابلس میں پھر ایک قومی پارلیمان پر سرِ اقتدار آچکی ہے جو السیسی اور اس کے حامیوں کیلئے بری خبر ہے۔

فلسطین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانے کا بیڑہ ماضی میں مصرو شام نے مل کر اٹھایا تھا۔ جزیرۃ العرب کے ممالک ان کی زبانی حمایت کرتے تھے مگر وہ یکے بعد دیگرے ناکامی سے دوچارہوتے رہے۔ اس بار اپنی آزادی کیلئے جب سرفروش اسلام پسند غزہ کے اندر کمر بستہ ہوئے تو وہی روایتی ہمدردو مددگار دشمنی پر اتر آئے اور دشمنوں سے ساز باز کر لی ۔ یہ ایسا ہی تھا کہ جیسے قرآن عظیم کا بیان ہے ’’ کیا اِن لوگوں نے کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ اچھا تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کیے لیتے ہیں ۔ کیا اِنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم اِن کی راز کی باتیں اور اِن کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے اِن کے پاس ہی لکھ رہے ہیں‘‘ ۔ غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملہ کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ جنرل عبدالفتاح السیسی نےاپنے آقاؤں کے اشارےتحریک اسلامی کو نیست و نابود کرنے جو بیڑہ ایک سال قبل اٹھایا ہےاسے غزہ میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

جنرل صاحب اس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ اسرائیل کی بمباری سے خوفزدہ ہو کر حماس ہتھیار ڈال دے گی اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی شرائط پر فلسطینیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر جنگ بندی کرادیں گے ۔ غزہ سے حماس و محمود عباس کو بے دخل کرکے اس کا انتظام وانصرام محمد دہلان کے حوالے کردیا جائیگا۔ اس طرح ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایک طاقتور ثالث کے طور پر مشرق وسطیٰ میں السیسی کی حیثیت کالوہا منوالیا جائے گا۔ لیکن ۵۰ دن کی اس جنگ نے ان ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور وہ اپنے سارے حلیفوں سمیت بے نیل و مرام رہ گئے۔ جس تحریک کو وہ دہشت گرد گردانتے تھے اس کے رہنماؤں کا انہیں قاہرہ میں استقبال کرنا پڑا اور ان کی شرائط پر جنگ بندی کیلئے مجبور ہونا پڑا۔

اس جنگ نے السیسی کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ وہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا یہودی رہنماؤں نے کھلے عام پذیرائی کرکے اس کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی ۔ جس روز وہ اپنی اجرت لینے کیلئے جدہ پہنچا اس کے ہاتھ خالی تھے مگر گلے میں شاہ عبداللہ کی جانب سے عطا کردہ نقرئی ہار لٹک رہا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ شکست کا غم غلط کرنے کیلئے عطا کیا گیا ہے۔لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دن ہیومن رائٹس واچ نے ایک سال قبل السیسی کے ہاتھوں ڈھائے جانے والےمظالم کی

رپورٹ کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرکے اس کی مٹی پلید کردی ۔ ہیومن رائٹس واچ کے وفد کا داخلہ ممنوع قرار دے کر السیسی نے اپنے جرائم اور کمزوری کا بلا واسطہ اعتراف کرلیا۔ حماس کے ہاتھوں اسرائیل کو جو شکست ہوئی ہے اس کا بیان ایک علٰحیدہ مضمون کا تقاضہ کرتا ہے اس لئے قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس شعر کے ساتھ دوسری قسط کا انتظار کریں ؎
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقۂ گردش حال لے گئی
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1235368 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.