اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ

 ( آئینہ خانہ کے تناظر میں )

ہر اچھے تخلیق کار کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ اسے جس رخ سے بھی دیکھو اس کے ہنر کا کوئی ناکوئی کمال دکھائی دے۔ اس تخلیق میں نئی فکر کے کئی گوشے پوشیدہ ہوں۔ استعمال کیا گیا مواد‘ ناصرف نیا ہو بلکہ ہر اگلی نئی تخلیق کے لیے‘ کار آمد ثابت ہو۔ مواد کی ہئیتی‘ معنوی اور اشکالی تبدیلیوں سے‘ تخلیق کی دنیا میں‘ آسانیوں کے دروازے کھلتے ہوں۔ ایسا بالغ فکر تخیلق کار‘ کسی ناکسی حوالہ سے‘ انسانوں کی دنیا میں یاد رکھا جاتا ہے۔ نہ بھی رکھا جائے‘ تو بھی وہ‘ ہر نئے کے باطن میں زندہ رہتا ہے۔ مارکونی بڑی حد تک‘ انسان کو بھول گیا ہے لیکن وائرلس؛ ٹی وی‘ ریڈار موبائل وغیرہ کے باطن میں‘ فکری حوالہ سے زندہ ہے۔

دوسری طرف‘ یہ بات بھی بڑی معنویت کی حامل ہے‘ کہ استعمال کنندہ‘ استعمال کے حوالہ سے‘ استعمال کے نئے رستے تلاشنے اور نکالنے والا ہو۔ حظ اٹھانا‘ اپنی جگہ پر مسلم ہے‘ لیکن اس حظ کو دوچند کرنے کے لیے‘ استعمال کی دیگر راہیں کھوجنا‘ اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں۔ کوئی استعمال کنندہ اس اہلیت سے خالی نہیں ہوتا‘ ہاں اس انداز سے سوچنے اور کھوجنے والے‘ بہت کم ہوتے ہیں۔ جو ہوتے ہیں‘ اپنی اصل میں تخلیقی جوہر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں سے‘ قطعی ہٹ کر سوچنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اس تخلیق میں رہ گئی کمی بیشی کی بھی نشان دہی کرتے ہیں گویا وہ بہتری کی طرف بڑھنے کا رستہ بتاتے ہیں۔

ادبی فن پاروں کی بھی‘ یہ ہی صورت ہوتی ہے۔ میر صاحب نے‘ اپنی شاعری میں ناصرف‘ اپنے عہد کو عیاں کیا ہے‘ بلکہ نئی زبان بھی عطا کی ہے۔ غالب نے‘ زبان یعنی تخلیقی مادے کو‘ طرح داری سے سرفراز کیا ہے۔ لفظوں کے استعمال کے حوالہ سے‘ نئی معنویت اور نیا نفسیاتی شعور سامنے آیا ہے۔ اقبال نے‘ لفظ کو فلسفے اور نظریاتی مقصدیت عطا کی ہے۔ ذوق نے‘ محاورہ سے اردو زبان کا دامن بھر دیا ہے۔ گویا سچا تخلیق کار نئی فکر و زبان سے متعلقہ زبان کو ابلاغی اور معنوی ثروت عطا کرتا ہے۔

اختر حسین جعفری کا شمار‘ جدید اردو شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو زبان کو اپنی جدت طبع کے سبب‘ حیرت انگیز استعمالی و معنوی تبدیلیوں سے نوازا ہے۔ ان کی زبان پڑھتے ہوئے عجب لطف اور سرشاری سی میسر آتی ہے۔ یہ بات بہرطور پیش نظر رہنی چاہیے‘ کہ کسی بھی شعر پارے کی اس وقت تک درست تفہیم ممکن ہی نہیں‘ جب تک اس کی زبان کا پوری صحت مندی سے مطالعہ نہ کر لیا جائے۔ اختر حسین جعفری کی فکر تک رسائی کے لیے‘ ان کی زبان کی تفہیم اور فنی باریکیوں کو سمجھنا بہرطور ضروری ہے۔

زبان میں‘ محاورے کو کلیدی حثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہر شاعر کا‘ اس کی شاعری سے مخصوص محاورہ اور تکیہءکلام ہوتا ہے‘ جو شعر کی تخلیق کی دنیا میں‘ الگ سے پہچان ہوتا ہے۔ گلی میں آ کر نئی اشکال و معنویت حاصل کرتا ہے۔ لازم نہیں ہر محاورہ گلی میں آئے یا وہ گلی سے اٹھے۔ جو بھی صورت رہی ہو‘ وہ محاورہ زبان کا اہم ترین اثاثہ ہوتا ہے۔ آتے کل کو‘ اس محاورہ کے حوالہ سے‘ گزرے کل کی تخلیقی‘ سماجی‘ سیاسی‘ نفسیاتی اور معاشی اطوار کی گواہی دستیاب ہوتی ہے۔

اختر حسین جعفری حسینی قافلے سے متعلق ہیں‘ یہ ہی وجہ کہ ان کے محاورہ‘ اور تکیہءکلام میں حریت کے عناصر نظر آتے ہیں۔
ان کے محاورے کی نشت و برخواست میں‘ شدت اور اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ بادی النظر میں‘ زبان کلاسیکل ہے‘ لیکن زبان کا استعمال اور معنویت‘ کلاسیکیت سے لگا نہیں رکھتی۔ ان کی ترکیب وترتیب اور استعمال کلاسیکیت سے قطعی ہٹ کر ہے۔ ان کے چند ایک محاورے‘ جو نظم ۔۔۔۔آئینہ خانہ۔۔۔۔۔ سے لیے گیے ہیں‘ ملاحظہ ہوں۔

حرف جگانا جگائیں حرف کو خواب سفر سے اور پوچھیں
خشت اٹھانا اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
خود اپنے آپ سرکتی فصیل ذات کی خشت خشت سرکنا
خوشبو کشید کرنا وہ روشنائی‘ وہ خوش بوئے غم کشید کریں
راکھ سجنا سجی ہے کون سی نوک مژہ پہ ابر کی راکھ
رحم کے سکے گرنا گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر
سمندر چھاننا صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
خود اپنے آپ قدم چھوڑتی زمین فرار قدم چھوڑنا
قدم نہ کھینچ کہ اس راہ پر ہمارے سوا قدم کھیچنا
بدن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی لوح پر اترنا
مکان جاگنا مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں

اختر حسین جعفری کی نظم کے مصرعوں کے پہلے لفظ ہوں یا آخری ان سے کچھ ناکچھ ضرور تشکیل پاتا ہے۔

صدا اٹھانا اٹھائیں سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
مکین جگانا جگائے رکھتی ہے سب کو حجر وہ ہو کہ شجر
مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں
قدم اکھاڑنا قدم نہ کھینچ کہ اس عہد منحرف کی ہوا
اکھاڑ آئی ہے پہچان کے خیاباں سے
خشت دیکھنا اٹھائیں سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
بدن سے اترے شکن در شکن لباس ہوا ہوا رکنا
لہو کی لہر کسی ساحل یقیں پہ رکے
اک اور شور قیامت کہ بند قبر کھلے آئینہ کھلنا
اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ
پردہ ہٹنا ہٹے نگاہ کے شیشے سے عکس کا پردہ
دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرہ چہرہ دیکھنا
نمو دینا نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا

اب کچھ مرکب ملاحظہ ہوں
فراق ہجوم سحر
فراق حسن تمنا میں خود کشی کر لی
ہجوم رہگزر منتظر ہے کس کے لیے
سحر ہوئی تو در نیم وا پہ قفل پڑا
رخ نشیب شکستہ

رخ ہوا کی اطاعت میں رخ بدلتے ہیں
نشیب درد میں اتروں تو قتل گاہ کی خاک
شکستہ خول‘ کھلی بکتریں‘ جلے ہتھیار

طلسم محال طلسم خواب سی وہ چاندنی شب وعدہ
محال تر سفر شوق جستجو ہے کہ اب

نمو دونیم نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا
دونیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے

آواز جگنو
ہوا کے جھنڈ میں مہتاب گوش بر آواز
سواد زخم خود افروز سوچتا جگنو

فرار تفہیم

خود آپ اپنے قدم چھوڑتی زمین فرار
وہی نگاہ‘ وہی چاک حرف کی تفہیم

بعض اوقات بڑے کمال کی نظمیں تشکیل پا گئی ہیں۔ مثلا
چاند راہیں ہیں
پناہ دیوار کی
پر نہیں
سفر
نشان منزل دکھائے
قدم
جہاں افق بنیں
نظم آئینہ خانہ

بجھے
خود مرے ثبوت
نشان سواد سپیدہء بدن
خوابیدہ بھی گواہ کروں
لیکن نہیں
ظلمت ہوئی گواہ
نظم آئینہ خانہ

ہوا رکے پردہ آئے
درد ابد
پرواز پر ہے
نظم آئینہ خانہ

نہ نہ
در فصیل ذات ہے
گلیم فسردہ
چراغ حریم دار
بلاد عمر دربدری
حلیف سوال
بےترتیب نہیں
نظم آئینہ خانہ

متعلقات کا استعمال خوب خوب کرتے ہیں
حرف۔۔۔۔۔۔نقطہ بغیر حرف بھی نقطہ وجود رکھتا ہے
ہاتھ۔۔۔۔۔۔تحریریں ہوا کے ہاتھ کی سب ناتمام تحریریں
مکان۔۔۔۔مکی مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں
تاگا۔۔۔۔۔گرہ گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے تاگے کی
شب۔۔۔۔۔چراغ چراغ جو شب آتش بجاں سے جلتے نہیں
زبان تشنہ۔۔۔۔آب شور زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر کہ مری
آشیاں۔۔۔۔طیور طیور لوٹ کے آئیں گے آشیانوں میں

تکرار لفظی کلام میں حسن اور شائستگی پیدا کرتی ہے۔ اختر حسین جعفری کے ہاں اس کی مختلف صورتیں ملتی ہیں
اٹھا رہا ہوں زمیں سے دونیم حرف کا چاند
دکھا رہا ہوں وہ انگشت معجزہ جس پر
چھپا رہا ہوں تہ سنگ استخوان صدا
چھپا رہا ہوں وہ مقتل جہاں پہ لفظوں نے

وہ سن رہا تھا زمیں کا خروش‘ دزد کی چاپ
وہ گن رہا تھا ستارے‘ شجر‘ تبر کے نشاں
وہ چن رہا تھا رسن‘ سوختہ سفال چراغ

اسی کے نام کٹری دوپہر میں جلتے بدن
اسی کی نذر بجھے حوصلوں کی مزدوری
اسی کی نذر قلم‘ حاشیے‘ سیاق و سباق
اسی کے نام یہ تعویز نا فرستادہ
اسی کی نذر فرد رفتہ زمیں باغات
اسی کی نذر رکی آب جو‘ تہی دریا

اک اور شور قیامت کہ بند قبر کھلے
اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ
اک اور ضرب کہ بود ونبود کی تقسیم
قدم اک اور کہ اس کاخ وکوہ میں روشن ہے
قدم اک اور کہ آگے وہ معرکہ ہے جہاں

چراغ ایک سے ہیں‘ آنکھیں ہیں ایک سی جن کی

مژہ پہ خواب رہائی کی بوند بوند شفق بوند بوند
دن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی سطر سطر
شاخ شاخ اس استخواں پہ پڑیں جس کی شاخ شاخ پہ پھول
کلی کلی پہ پریشان خیال کی تتلی کلی کلی
گلی گلی میں ہراساں پیمبروں کی صدا گلی گلی
پروں سے جن کے افق تا افق دم پرواز افق تا افق
بدن سے اترے شکن در شکن لباس ہوا شکن در شکن

تکرار حروف سے فکری کیف پیدا کا دیتے ہیں اور قاری کو قریب تر کر لیتے ہیں
نہ اسم ذات مرے کاغذات سے نکلا
مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں
زباں گرفتہ زن پیر اور سگ تشنہ
گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر

تکرار حروف نے ناصرف گائیکی کو کمال دیا ہے مطالعہ کو کیف آور بنا دیا ہے
دھنک کے رنگ میں گرد ممات گرتی ہے

صنعت فوق النقط کا استعمال
مرے خلاف صف آرا‘ مرے خلاف گواہ

صنعت تحت النقط کا استعمال
میں ایک پر کے سہارے عبور کر لوں گا

ایک صورت یہ بھی ہے
دھنک کے رنگ میں گرد ممات گرتی ہے

بانقط اور بےنقط آمیزہ ملاحظہ ہو

وہی پناہ کا جنگل‘ وہی سگ مامور

تلمیع اختصار اور بلاغت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اس سے امکانی مماثلت بھی سامنے آتی ہے۔ اختر حسین جعفری کے ہاں اس صنعت کا بڑی خوبی اور کمال کی ہنرمندی سےاستعمال ملتا ہے۔ اس ذیل میں یہ مثال ملاحظہ ہو۔

زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر کہ مری
خمیدہ پشت پر رکھا ہے اب بھی مشکیزہ

ان کا سوالیہ انداز ان کے لفظوں کو زندگی کے کرخت مناظر سے ادھر ادھر ہونے نہیں دیتا۔ مثلا
کہاں ہے جوہر صورت کہاں زر معنی
بتا کہ کون سے بازو پہ ہے رسن کا نشان
سوال عدل تھا یا احتجاج تھا‘ کیا تھا
یہ کیسے خواب کا پانی ہے کور آنکھوں میں
خلاف کس کے ہے صبح عناد کا دعوے
سوال معنویت تلاشتے اور مقصدیت کو واضح کرتے ہیں۔ یہ اپنے عہد کے جبر اور تشنہءتکمیل آرزوں‘ خواہشوں اور ضروتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ زندگی کے جمود کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ سوال درحقیقت زندگی کو رستہ دکھاتے ہیں اور سوچوں کے عمل کو متحرک رکھتے ہیں۔
سردست‘ میرے پیش نظر اختر حسین جعفری کی نظم آئینہ خانہ ہے اور اسی کے حوالہ سے‘ ان کے کلام کی زبان کا مطالعہ پیش کر سکا ہوں۔ میرا اصرار ہے‘ کہ انہوں نے کلاسیکل زبان میں‘ اپنے آج کو‘ بڑی کامیابی سے واضح کیا ہے۔ نئی اور عصری فکر کے لیے‘ نئی اور عصری زبان کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اختر حسین جعفری نے ثابت کر دیا ہے‘ کہ زبان کا استعمال ہی‘اصل کمال ہنر ہے۔ سب کچھ نیا اور عصری ہو‘ لیکن پیش کش سلیقے سے عاری ہو‘ تو لطف غارت ہو جاتا ہے۔

اختر حسین جعفری کا کلام‘ ہر عہد میں‘ اس امر کی دلیل رہے گا‘ زبان کا درست اور برمحل استعمال نئے اور پرانے کی تخصیص کو ختم کر دیتا ہے۔ صاحب سلیقہ زبان کی انگلی نہیں پکڑتا زبان کو اس کی انگلی پکڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مہدی حسن اور پٹھانے خان کے طبلہ نواز پسینے میں ڈوب گیے ہیں۔ ہر دو فن کاروں کے طبلہ نواز بڑے پھنے خاں تھے لیکن دب کر رہے۔ یہ ہی مہدی حسن اور پٹھانے خان کی آواز کا جادو تھا۔ اختر حسین جعفری کے ہاں بھی لفظوں کی یہ ہی حالت ہوتی ہے۔ نئے مفاہیم لیتے‘ انہیں پسینہ آ جاتا ہے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ لفظوں کو اختر حسین جعفری کی انگلی پکڑنا پڑتی ہے اور اپنی مرضی ومنشا سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ لغوی اور مستعملی مجبوری یکسر دم توڑ دیتی ہے۔

فرش سماعت‘ مفہوم کا چہرہ‘ سحر کی شاخ‘ برہنہ آنکھ‘ ‘نشیب درد‘ لذت لاحاصلی۔۔۔۔۔سسی فس۔۔۔۔۔وغیرہ سے مرکبات کب پڑھنے سننے میں آئے ہیں۔
لفظ اختر حسین جعفری کے ہاتھ میں کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی مرضی کے معنی دیتے ہیں اور اپنی مرضی کی فکر ان کے باطن میں اتارتے ہیں۔ قاری ان کی زبان سے ناصرف لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ اسے ان کی معنویت تک رسائی کے لیے رکنا بھی پڑتا ہے۔ اسی حوالہ سے چند مصرعے ملاحظہ ہوں

فلک کی شاخ سے اتریں وہ طائران ابد
شنید و دید کے کاسہ بدست منظر کب
طلب کریں گے بہا‘ چشم سیر لوگوں سے
فقیہ شہر نے دیکھا ہے روئے قاتل میں
جلی زمین کا چہرہ‘ شکستہ شاخ کا زخم
اس استعاراتی زبان کے مطالعہ کے لیے‘ بلاشبہ گہرے سوچ کی ضرورت‘ ہر قدم پر محسوس ہوتی ہے۔ اختر حسین جعفری سے لوگ ہی‘ اہل زبان کی صف میں کھڑے اچھے لگتے ہیں اور قلب ونظر کا سرور ٹھہرتے ہیں۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.