غربت حسنِ لطافت کو مٹا دیتی ہے - ایک تقریر

تحریر: اشتیاق احمد سینئر ماہرِ مضمون طبعیات گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹبہ سلطان پور وہاڑی

نحمدُہ ونصلّی علی رسولہِ الکریم اما بعد:صدرِ ذی وقار اور سامعینِ سلیقہ شعار۔! السلام علیکم۔

ہاں غربت حسنِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مفلسی سے پناہ مانگی ہے کیونکہ یہ ایمان اور عزت کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ میری بات گوشِ ہوش سے سنو کہ دنیا کے ہر شخص کی بات غلط ہو سکتی ہے مگر میرے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بات غلط نہیں ہو سکتی۔ ہاں ہاں مفلسی حسنِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو گندگی کے ڈھیروں پر بوسیدہ و دریدہ پوشاکوں میں ملبوس بچوں کو دیکھ لیجئے جو روٹی کے غلیظ ٹکڑوں کو کھا کر پیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور ہیں۔ فٹ پاتھوں، بڑے بڑے چوراہوں، پارکوں حتیٰ کی گلیوں اور بازاروں میں یتامت و مسکنت کی ان زندہ تصویروں کو دیکھئے جن کی عمر سکول جانے کی ہے مگر وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لیے دن بھر مزدوری کرتے ہیں۔ ایک طرف مجبوری، محرومی اور لاچارگی کا یہ نقشہ اور دوسری طرف وہ مخلوق جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اس مخلوق کے بچے کالے، کلوٹے اور کوہجے بھی ہوں تو مرقع حسن و لطافت اور مبدا عزت و حشم ٹھہرتے ہیں اور غربت کی چکی میں پسنے والی بے سہارا گدڑی کے لعلوں کی تعلیم، تہذیب اور حسنِ لطافت گندی گلیوں کی خاک، بدبو اور ورکشاپوں کے دھوئیں اور کالک کی نذر ہو جاتی ہے۔ ان کی زبانِ حال کو محسن نقوی نے کچھ اس طرح زبانِ قال کے سانچے میں ڈھالا ہے کہ
ساعتِ حشر کی اذیّت تک اور کتنی اذیتیں ہوں گی
اُس قیامت سے پیشتر یارب اور کتنی قیامتیں ہوں گی

صدرِ عالی وقار! حسنِ لطافت دراصل خیالات و تصورات، خودی اور عزتِ نفس جیسے نازک اور لطیف جذبات کا ہی پرتو ہوتا ہے جو شخصیت میں حُسنِ لطیف کے طور پر ہویدا ہوتا ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر کرنے اور اس میں حُسنِ لطافت کے جوہر کی آبیاری کرنے والے ان عناصرِ ترکیبی کو تو اُسی وقت گہری قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے جب پوری قوم کو بھیک مانگنے کی سرکاری سطح پر تربیت دی جاتی ہے۔ ایک ایک کلو چینی کے لیے دن بھر قطاروں میں کھڑے رہنے والے، ڈاکخانوں کے باہر ہر ماہ ایک ایک ہزار کی بھیک مانگنے والے شہری کس طرح ایسے لطیف و نازک جذبات کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دے سکتے ہیں۔

جنابِ صدر!جسم غلام ہوں مگر قلب و ذہن آزاد ہوں تو قوم کے مفلس بھی اپنی غربت سے نباہ کر لیتے ہیں، ان کی عزتِ نفس، خودی اور تصورات کی اُڑان ان کے حسنِ لطافت کو بچا لیتی ہے مگر جس قوم کے قلب و ذہن غلام ہو جائیں وہ اس جُثے کی طرح ہو جاتی ہے جس کا قلبوت تو بظاہر نظر آتا رہے مگر اس میں سے روح نکل چکی ہو۔ افسوس اس بات کا ہے غربت ختم کرنے اور تعلیم مفت کرنے کے جتنے بھی منصوبے ہیں اس سامراجی امداد کے عوض چل رہے ہیں جو قوموں کو خوابِ گراں اور بے عملی کے ایسے اندھے راستوں کا مسافر بنا دیتے ہیں جن پر چل کر منزل کھوٹی کرنے کے سوا کچھ اور ہاتھ نہیں آتا۔ کشکول بردار اور کاسہ لیس قوم کا ضمیر مُردہ اور غیرت اتنی سستی ہو جاتی ہے کہ ہر جگہ نیلام ہوتی پھرتی ہے۔ اُس قوم کے انسان یا تو بے غیرتی کا منحوس لبادہ اوڑھ لیتے ہیں یا جرم کی ایک ایسی دنیا بسا لیتے ہیں جہاں انسانیت کی سب قدریں موت کی گہری نیند سو جاتی ہیں۔ ایسا ہی نقشہ امیر الاسلام ہاشمی نے اپنی قوم کا کھینچا ہے کہ
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ ِاتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

صدرِ عالی مقام!غریب کے اس لق و دق صحرا میں حسنِ لطافت کی بات کرتے ہوئے دل دُکھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک طرف امیروں، جاگیرداروں، زرداروں اور سامراج کے وفاداروں کے کتے اور گھوڑے تو سیبوں کے مربے کھائیں اور دوسری طرف حسنِ لطافت کے طلب گار غریب اپنے پیٹ کے تندور میں سوکھے ٹکڑے ڈالنے کو ترسیں۔ ایک طرف طبقہ اشرافیہ کے کتے کو زخم ہو جائے تو مہنگے ترین ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہو جاتی ہیں اور دوسری طرف غربت کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مرنے والوں کے منہ میں کوئی پانی کا قطرہ نہیں ڈالتا۔ انسانوں کی بستی میں جہاں جنگل کے قانون کا راج ہو۔ ضمیر و ظرف کے سوداگر چند ڈالروں کے عوض ملک و قوم کا وقار اور عزت داؤ پر لگا رہے ہوں۔ طبقاتی تفریق کے علمبرداروں اور انگریز کے وفاداروں اور نمک خواروں نے وطن کی فضاؤں میں وہ زہرقاتل گھول دیا ہو کہ جس نے اس کے باسیوں کا سانس لینا دوبھر کر دیا ہے۔ اسی بادِ سموم میں جوہر کانپوری کا دم گھٹا تو زبانِ سُخن میں چیخ اٹھا کہ
تجارت کر کے لاشوں کی محل تعمیر کرتے ہو
غریبوں کے لہو سے زندگی میں رنگ بھرتے ہو
یہ کمزور آدمی کیا، جانور گھبرائے گا تم سے
جیو گے جب تلک شیطان بھی شرمائے گا تم سے

صدرِ عالی جاہ! کسی ملک کا تعلیمی نظام ہی وہ جوہرِ نایاب ہوتا ہے جو اس ملک کے محروم و مقہور طبقے کو حسنِ لطافت اور عزت و وقار کی دولت عطا کرسکتا ہے۔ وہ تعلیمی نظام ہی ہوتا ہے جو امیروں اور غریبوں کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دیتا ہے۔ وطنِ عزیز میں سامراجی امداد سے پلنے والے انگلش میڈم مافیا نے تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے غریبوں کے لیے آگے نکلنے کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔ امیر کے بچے پیسے کے زور پر آگے نکل جاتے ہیں اور غریبوں کی ذہانت گلیوں اور بازاروں میں رُل جاتی ہے۔ اگر کوئی غریب ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچے کو پڑھاتا ہے تو انٹری ٹیسٹ جیسے تیرِ ستم اس کے سینے میں پیوست کر کے اسے پسپائی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ مقابلے کے امتحانات سامراجی ایجنٹوں نے انگریزی میں لازمی قرار دیے ہیں تاکہ غریب کا بچہ آگے نکل کر حسنِ لطافت، عزت اور روزگار حاصل نہ کر سکے۔ اس حقیقت کو میں بر ملا اور واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتی ہوں کہ اگر ملک کا نظامِ تعلیم اور مقابلے کے تمام امتحانات ہماری قومی زبان اردو میں منعقد ہوں اور اِسے یکساں نظامِ تعلیم کے طور پر پورے ملک میں رائج کر دیا جائے اور سامراجی امداد سے چلنے والے اور ان کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جائے تو وہ خواب جو قائد نے دیکھا تھا، وہ نظریہ جس کی خاطر ہم نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، پورا ہو جائے گا اور ہر غریب کو حسنِ لطافت کی وہ دولت مل جائے گی جو انگریز کے وظیفہ خواروں نے اپنے قبضے میں لے رکھی ہے۔ اسی طبقاتی تفریق کی درد انگیز داستان کو ساحر لدھیانوی نے یوں اشعار کے قالب میں ڈھالا کہ
مجبور بڑھاپا جب سُونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سُولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
والسّلام
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 168734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.