سیاسی جماعتوں کا حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی

14اگست سے ملک کے دارالحکومت میں ڈیرے لگائے بیٹھے ”انقلابیوں“ کا معاملہ سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہا، بلکہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان اپنے سربراہوں کی قیادت میں مارچ اور دھرنے سے ہوتے ہوئے لشکر کشی اور بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ ”مقبوضہ ریڈزون“ کی آزادی تو کیا ممکن ہوتی ”انقلابی“ ریاستی اداروں پارلیمنٹ اور قومی نشریاتی ادارے پر بھی دھاوا بول چکے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی قیادت شیریں مزاری، عارف علوی اور شاہ محمود قریشی اور کارکنوں نے سیکرٹریٹ پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول کر اپنے رکنوں کو چھڑوایا، جس پر حکومت نے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے رہنماﺅں اور ورکز کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لیے درخواست جمع کرائی تھی، جس پر بعد ازاں انسداد دہشتگردی ایکٹ، بغاوت کے لیے پاکستان پینل کوڈ کی شق 124اے، اقدام قتل کی دفعہ 324، سرکاری ملازمین پر حملہ یا فرائض کی ادائیگی سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال پر دفعہ 353، توڑ پھوڑ جلاﺅ گھیراﺅ پر دفعہ 148، غیرقانونی اجتماع پر دفعہ 149، آتش زنی یا دھماکہ خیز مواد سے کسی املاک کو نقصان پہنچانے کا ارادے پر دفعہ 436 اور دیگر کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور پی اے ٹی کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی دیگر افراد کے ساتھ اس مقدمے میں نامزد کیا گیا۔ مارگلہ پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف آنسو گیس کے شیل فائر کرنے والے ہتھیار چھیننے اور پولیس کی ایک گاڑی نذر آتش کرنے پر دو الگ الگ مقدمات درج کیے۔ اس طرح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان کے خلاف درج مقدمات کی تعداد نو ہو گئی ہے۔ مقدمات اسلام آباد میں تھانہ کوہسار میں رجسٹر کیے گیے۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لیے دائر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کرخارج کردیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ریاستی اثاثوں پر لشکر کشی ہوئی، چند ہزار لوگوں کا گروہ جمہوریت کا سہارا لے کر ایوان کے دروازے تک آپہنچا، یہ لوگ آزادی اظہار کا سہارا لے کر ایوان کے دروازے تک آپہنچے، دھرنے والے ہر غیر آئینی قدم اٹھا رہے ہیں، لیکن لشکر کے خلاف پارلیمنٹ اور قوم متحد ہے۔ دھرنے والے ہر غیر آئینی قدم اٹھارہے ہیں۔ یہ احتجاج اور دھرنا سیاسی اجتماع نہیں، بلکہ پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت ہے۔ یہاں موجود ڈیڑھ سے دو ہزار لوگ باقاعدہ تربیت یافتہ ہیں اور ایک عسکری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے منگل کو ممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پاکستان عوامی تحریک سمیت پندرہ پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں، تاہم کچھ جماعتوں کے نام اس فہرست میں شامل نہیں کیے گئے۔ درخواست گزار ذوالفقار نقوی نے مو ¿قف اختیار کیا تھا کہ تمام جماعتوں کو بلا کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے اور اسے عدالتی حکم کا حصہ بنایا جائے، تاکہ موجودہ سیاسی بحران پر قابو پایا جا سکے۔ جن جماعتوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں، ان میں صرف پاکستان عوامی تحریک پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہے۔ نمائندے کے مطابق جن جماعتوں کے نام نہیں دیے گئے، درخواست گزار کو ان کے نام شامل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے بعد ان کو بھی نوٹس جاری کیے جائیں گے اور ان کی رائے لی جائے گی۔
دوسری جانب منگل کے روز قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں موجودہ سیاسی بحران پر ارکان کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف سمیت حکومتی وزرا اور اپوزیشن رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ قادری اور عمران 21 روز سے قوم کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔ عمران خان پرویز خٹک سے تو استعفیٰ لے نہیں سکے، وزیر اعظم سے کیا استعفیٰ لیں گے۔ پرویز خٹک نے بڑی ہوشیاری سے اپنی حکومت بچائی۔ ایسی 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کس خلا میں ہے، جہاں 2 سے 3 ہزار لٹھ برداروں کو جمع ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت اور کابینہ برقرار رہے گی اور اپوزیشن جماعتیں جمہوریت اور حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن وزیراعظم نواز شریف کو موجودہ بحران کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی۔کوئی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے خلاف یلغار غیر قانونی ہے۔ پارلیمنٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازش پکڑ لی گئی ہے اور ملکی سیاسی قیادت جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کو ناکام بنا دے گی، بات نواز شریف کی نہیں، بلکہ منتخب وزیراعظم کی ہے، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی وہ چھٹی پر جائیں گے، بلکہ وزیراعظم پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔ پوری دنیا میں پاکستان کی تذلیل ہو رہی ہے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کردی گئیں، آج کے بعد حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کو جتھوں سے پاک کردیا جائے، اگر صوفی محمد پر بغاوت کا کیس بن سکتا ہے تو پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، کسی نے نظام لپیٹنے یا مائنس ون کا فارمولا بنایا تو وہ ناکام ہوچکا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر ہم سول نافرمانی کا اعلان کرتے تو ہم پر آرٹیکل 6 لگا دیا جاتا، لیکن دھرنا دینے والی جماعت کے سربراہ نے سول نافرمانی اور ہنڈی کے ذریعے پیسے لانے کے لیے عوام کو مشورہ دیا، ان پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کیا جاتا؟ اجلاس میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آج سب اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو روکیں گے، پارلیمنٹ پر حملہ بغاوت اور دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے، حکومت نے 50 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی جگ ہنسائی کرادی۔ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 نافذ ہے، اس کے باوجود مظاہرین اسمبلی میں کس طرح داخل ہوگئے، مظاہرین کو ہر حال میں پارلیمنٹ چھوڑ کر جانا ہوگا۔ پارلیمنٹ کے باہر خیمہ زنی دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے۔ ملکی سیاست اور سیاسی جماعتیں درست راہ پر چل پڑی ہیں، اگر تمام جماعتیں آئین کی بالادستی کے لیے احتجاج کا اعلان کردیں تو پورے ملک میں 5 کروڑ عوام سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے بھی پارلیمنٹ میں تقریر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی میں تحریک انصاف کا منتخب صدر ہوں۔ ملک کو آئین اور پارلیمنٹ سے ہی چلایا جا سکتا ہے۔ پارلیمانی نظام کو اکٹھا نہ رکھنا حکومت کی ناکامی ہے۔ ذاتی حیثیت سے عمران خان نے مجھے سب سے زیادہ عزت دی، عمران خان کے پاس نوجوانوں کی بڑی طاقت ہے۔ عمران خان اب بھی آئین اور قانون کو مانتے ہیں، جبکہ طاہر القادری تو سسٹم ہی کو گرانے کی بات کرتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی رکن اسمبلی نے خوشی سے استعفیٰ نہیں دیا، لیکن میں خوشی سے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر عوام کے پاس جارہا ہوں، پارلیمنٹ کو نظرانداز کریں گے تو اسے گرانے کی آوازیں آئیں گی۔ عمران خان نے کور کمیٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، اس لیے پارلیمنٹ گرانے والوں کا کس طرح ساتھ دے سکتا ہوں۔ اگر حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو اسے گرانے والے لشکر آئیں گے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے اختتام کے بعد وزیراعظم نواز شریف اپنی نشست سے اٹھ کر جاوید ہاشمی کے پاس گئے اور ان سے بغل گیر ہوگئے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ارکان کے اظہار خیال پر اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما ان کی غیر موجودگی میں استعفے ان کے چیمبر میں جمع کرا گئے۔ وہ استعفوں کے معاملے پر مفاہمت کے منتظر تھے، قانون کی رو سے انہیں یہ دیکھنا ہے کہ کہیں انہوں نے استعفے دباو ¿ میں تو نہیں دیے۔ اس سلسلے میں ایوان جو فیصلہ کرے گا، وہی ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے طاہر القادری اور عمران خان سے آخری دفعہ مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعرات تک اگر معاملہ حل نہ ہوا تو ریڈ زون کو ایوان کی قرارداد کے ذریعے خالی کرایا جائے گا اور ریڈ زون کو خالی کرانے کی قرارداد مشترکہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ متوقع قرارداد پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارلیمانی رہنماوں سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قرارداد جمعرات تک پیش کی جا سکتی ہے، تاہم حتمی فیصلہ مشاورت کے بعد ہو گا۔ قرارداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ریڈ زون خالی کرانے کا کہا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں انتشار پھیلانے والے گروہوں کا چاہیے کہ دو ہفتوں سے جاری انتشار کو فوری طور پر ختم کر کے جلد از جلد ایک بار پھر حکومت سے بامقصد اور قابل فہم مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ حکومت کو مجبوراً سخت قدم اٹھانا پڑے جس سے بحرانوں میں گھرا ملک مزید بحرانوں کا شکار ہوسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.