کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے

تحریر بشری رحمان

وہی معنی خیز مسکراہٹ وہی بات سے بات بنانے کی عادت وہی اعتماد میں ڈوبی طراوت وہی طنز اور مزاح کی لذت وہی سادگی میں ڈوبی بناوٹ کبھی غصے کا اظہار تک نہ کرنا ماتھے پر شکن تک نہ پڑنے دینا، حامیوں مخالفینوں کو ساتھ لے کرچلنا، اپنی معنی خیز مسکراہٹ سے مخالفینوں حاسدوں اور دشمنوں کو بھی موم کرلینے کی خوبیوں سے مالا مال یہ ہیں، زرداری صاحب۔ پریس کانفرنس میں یوں آئے جیسے کوئی فاتح سومنات آتا ہے، مسکرا کر اہل بزم کو دیکھا،،،
تیری آرزو سے کم تر تیری تاب سے زیادہ،
الفاظ کا ہیر پھیر، آنکھ بھی شیر دل بھی دلیر،

ہر بات کا ایک ہی جواب ہر مسئلے کا ایک ہی حل ایک ہی بات کو دہراتے ہیں، رویہ نرم رکھیں تشدد سے گریز کریں، مفاہمت سے معاملات حل کریں، سیاسی بصیرت سے کام لیں۔ میاں بیوی کا جھگڑا ہے، اس جھگڑے میں اکثر بیوی کو ہی جھکنا پڑتا ہے، بیچ میں اگر بچہ ماں کہہ دے تو بیوی پگھل جاتی ہے، دونوں کمپرو مائز پر راضی ہوجاتے ہیں،، یہاں دونوں جانب ماں کا دل نہیں ہے، مطالبات دہرائے جارہے ہیں، سب کو اپنی انا سے پیار ہے، انبوہ تھکنے کا نام نہیں لیتا، موسم بھی گرج برس کر تھک گئے ہیں، پارلیمنٹ والے دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں، ہم ایک ہیں، ہم نیک ہیں، ہم پرائم منسٹر کے ساتھ ہیں۔ نہ ہم ڈوبیں گے اور نہ تم کو ڈوبنے دیں گے، یہ الفاظ کی زبانی شاہ خرچیاں ہے،
نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات

جھگڑا کہاں سے شروع ہوا اور کہاں پہنچا، سب جانتے ہیں سرا پکڑنے کی کوشش کوئی نہیں کررہا، سارے ہنر مند فیل ہوچکے ہیں، سارے مقرر ایک ہی بات کی جگالی کررہے ہیں، سیاسی حل تلاش کیے جائے، سیاسی بصیرت سے معاملات حل کیے جائے، پر تمام سیاسی سوداگر سر پکڑے بیٹھے ہیں، سب کی زبان پر ایک ہی رٹ ہے کہ سیاسی حل تلاش کرو، ارے سیاسی حل بھی کوئی باریک ناکے والی سوئی ہے جیسے دن دہاڑے بھی ڈھونڈھا نہیں جارہا، اسی لیے تو مسئلہ کشمیر آج تک حل نہیں ہوا، اسے کہتے ہیں سیاستدانوں کی نا اہلی مسئلہ کشمیر پر تو بس آنا جانا لگا رہتا ہے، ڈائیلاگ چلتے ہیں پر کامیاب نہیں ہوتے، 25 اگست کو انڈیا نے پھر ڈائیلاگ کے لیے آنا تھا، سنا ہے پھر لیت و لعل میں پڑگئے ہیں، نئی حکومت نے نئے ڈائیلاگ کا چکمہ دیا مگر کارندے وہی پرانے تھے، جو ڈائیلاگ کے ماہر ہوتے ہیں۔ تصفیہ کشمیر کے لیے تشریف لاتے ہیں۔

مسکراتے ہوئے ملتے ہیں۔ تصویریں بنواتے ہیں، حال احوال پوچھتے ہیں، پاکستان کے موسم کو انجوائے کرتے ہیں، اسلام آباد کے پرکشش ماحول کی تعریف کرتے ہیں، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھانے کھاتے ہیں۔ قہقہے لگا کر شاپنگ کرکے گلے مل کر واپس آنے کا کہہ کر لوٹ جاتے ہیں، نہ کوئی کشمیری رہنما ان کے درمیان بیٹھتا ہے، اور نہ کوئی انکو بیٹھانے پر رضا مند ہوتے ہیں، نہ کوئی 68 سالوں سے درد کی بھٹی میں سلگتے کشمیریوں کا دکھ درد بیان کرسکتا ہے، نہ کوئی انکا قصور بیان کرسکتا ہے، عیش و آرام میں رہنے والے حاکموں کو کشمیریوں پر ظلم کا احساس کیسے ہوسکتا ہے، مگر ڈائیلاگ کئی سالوں سے چل رہے ہیں، درمیان میں امریکہ ٹانگ لڑاتا ہے، اب کوئی ان سے پوچھے کہ اس سے پہلے کوئی ڈائیلاگ والی فلم نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے؟

سوشل فلموں میں ڈائیلاگ ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں، سیاست میں ڈائیلاگ ہی تعطل کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں، اور ڈائیلاگ دونوں طرف سے بات مان لینے اور منوانے کے ارادوں پر بنائے جاتے ہیں، دھرنے والوں سے ڈائیلاگ کے سلسلے چل رہے ہیں، مگر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہے ہیں، دونوں دھرنوں نے اپنے مطالبات سڑکوں پر رکھ دیئے ہیں، دوسری جانب ان سڑکوں کو کنٹینرز سے روندنے کا تہیہ کیا ہوا ہے، بات چلے تو کیونکر چلے؟ پھر دیکھتے دیکھتے ایسا بن برسا کہ ہوائی لوگ ہوا کا رخ دیکھنے لگے، حق میں بات کرنے والے نہ حق بات کرنے لگے، سارا ملک الگنی پر لٹک گیا، بھائی لوگوں اتنا تو سوچو اتنے دن حبس کی ماری شدید گرمی میں اپنے آرام دہ گھروں سے دور سڑکوں اور کنٹینروں میں زندگی بسر کرنا بہت بڑی اذیت ہے، کوئی دو سے چار دن کے لیے اپنے عزیزوں کے گھر چلا جائے تو ایسے اپنے گھر کا آرام و راحیتں یاد آنے لگ جاتی ہیں۔ ذرا سوچے بزرگ نوجوان بچے عورتیں اتنے روز سے ایک جذبہ لیے بیھٹے ہیں، روشن پاکستان کے لیے قائداعظم کے کے پاکستان کے لیے سو ہزار نقص نکالے جائیں دھرنے والوں پر ناچ گانے پر یہ عوام نواز شریف کا پاکستان نہیں چاہتی بابائے قوم قا‏ئداعظم کا پاکستان چاہتی ہیں، اتنے روز سڑکوں پر قیام کرنا آسان بات نہیں ہوتی، یہ ایک عزم ہے جذبہ ہے اسی عزم اور جذبے سے سرشار یہ عوام بیھٹی ہیں، عوام کے حق میں فیصلہ ہونا چاہیے، عوام کے مطالبات پورے ہونے چاہیے، یہ ملک عوام کا ہیں، یہ نواز کا پاکستان نہیں ہے، ان عوام کا عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیچھے چلنا قدری امر ہیں۔ نواز شریف نے مشورے کے لیے جناب آصف علی زرداری کو بلایا وہ زیرک ہیں، معاملہ فہم ہیں، سب سے بڑی بات اپنا پانچ سالہ دور کامیابی سے مکمل کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہم کسی فرد واحد کے ساتھ نہیں ہیں۔ پریس کانفرنس میں زرداری صاحب سیدھے سادے سوالات کا جواب گول مول دیتے رہے یہ انکی سیاسی بصیرت کا ثبوت ہے، نمک کسی کا نہیں کھایا اپنا پرہزی کھانا ساتھ لائے اور ذائقہ بھی اپنے جوابوں کا اپنے مزاج کے مطابق رکھا، کچھ ماضی کی تلخیاں بھی یاد آئی انہیں کچھ دوستوں کی دھمکیاں بھی ذہن میں آئیں، وقت کے ہاتھ میں سب سے بڑا میزان ہوتا ہے-

اور وقت سب سے بڑا عادل ہوتا ہے، آدمی کو چاہیے کہ وہ وقت سے ڈرے، وقت انسان کو فقیر بنا دیتا ہے، وقت ہی انسان کو بادشاہ بنا دیتا ہے، ارے نا دانوں سوال پر سوال کرتے ہوں کبھی کوئی جواب سیدھا آیا؟ آصف زرداری کا یہ جواب سب کو اچھا لگا جو انہوں نے پنجابی میں صحافیوں کو کہا کہ کیا میں صدارت کا امیدوار نہیں ہوسکتا؟ بس یہی ایک حل ہے، جو انہوں نے نہایت مزاحیہ انداز میں سادگی سے بتا دیا، اب آگے غور کرنا آپ کا فرض ہے، کیا خوب کہا ہے کہ،
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
باتیں جو زباں تک آ نہ سکیں
آنکھوں نے کہیں آنکھوں نے سنیں
کچھ مچلے کچھ بے چین ہوئے،
کچھ ارماں دل میں رہ بھی گئے،

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 55638 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More