شاہ حسن عطا کی تصنیف’’نقشِ کفِ پا‘‘ایک نظر میں

(شاہ حسن عطا’نقشِ کفِ پا : متعدد شخصیتوں سے متعلق مصنف کے تاثرات، انفعالات اور انعکاسات کا مرقع‘؍کراچی :
شاہ عمر عطا، ۲۰۰۷ء۔۱۶۰ص، ۵۰۰ روپے)

شاہ حسن عطا نام ہے ایک ایسی صاحب علم شخصیت کا جو اپنے زمانہ طالب علمی میں بے مثال خطیبانہ صلاحیتوں کے مالک تھے ، علیگڑ ھ مسلم یونیورسٹی کے نامور ظالب علم لیڈر، شعلہ بیان مقرر، بہترین تعلیمی ریکاٹ کے حامل، مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے ایک بے باک اور پرجوش کارکن، اردو اور انگریزی کے با اعتبار فصاحت و بلاغت بہترین مقرر اور مسلم یو نیورسٹی یونین کے اولین سیکریٹری اور ونائب صدر۔ آپ ایک علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں ، خاندان کے بے شمار لوگ عالم ،فاضل ، شاعر اور دانشور تھے۔ شاہ حسن عطا نے اپنے خاندانی اور مذہبی اقدار و روایات کو قائم و دائم رکھا، آپ اردو کے علاوہ عربی ، فارسی، ترکی اور انگریزی زبانوں پر بھر پور قدرت رکھتے تھے۔ان زبانوں کے آپ بہترین مقرر اور لکھاری بھی تھے۔ راقم کو شاہ حسن عطا کو دیکھنے اور سننے کا اعزاز حاصل ہے۔آپ نے مختلف موضوعات پر لکھا جس میں تفسیر عَمَّّّ یتسألون، علامہ البو لفرج ابن جوزی ؒ، نظام الملک طوسی اور ڈاکٹر طہٰ حسین مصری کی معرکتہ الآرا عربی اور فارسی تصانیف کے اردو تراجم، افصح العرب و العجم ، حکایات گلستان و بوستان، شعری مجموعہ حریر سنگ، مبادیات مدنیت، سو سے زائد انگریزی اور اردو میں مضامین اور اب زیر تبصرہ کتاب ــ’’نقشِ کفِ پا ‘‘ شامل ہے جو ان کے انتقال (۱۹۸۱ء)کے ۲۶ سال بعد ان کے صاحبزادوں شاہ عمر عطا، شاہ حسین عطا اور شاہ احمد عطا نے ترتیب دی ہے ۔ اس کا پیش لفظ بھی شاہ عمر عطا نے لندن سے تحریر کیا ہے۔کتاب کے صفحہ عنوان یا طباعتی صفحہ پر سال اشاعت درج نہیں البتہ پیش لفظ کے اختتام پر ’’لندن ۲۱ محرم الحرام ۱۴۲۸ھ‘‘ درج ہے جس سے یہ خیال کیا کہ یہ کتاب اسی سال یعنی ۲۰۰۷ء ہی میں شائع ہوئی ہے۔

سوانح نگاری یا خاکہ نویسی ادب کی ایک صنف ہے جس میں اشخاص اور ذاتیات سے محبت کی جاتی ہے، انسانی زندگی کے اتار چڑھاو، خوبیوں خامیوں ، گناہ ثوات کو سچائی اور ایمانداری کے ساتھ قلم بند کیا جاتا ہے۔خاکہ نویسی اس اعتبار سے سوانح نگاری سے مختلف ہے کہ اس میں ہم کسی شخص کی زندگی اور اس کے شخصیت کے واقعات کو تاریخوں اور سنین سے واقفیت حاصل نہیں کرسکتے، گو اسے یو کہنا بہتر ہوگا کہ جو فرق ناول اور افسانے میں ہوتا ہے وہی سوانح نگاری اور خاکہ نویسی میں ہے۔اب سوانح لکھنے والے خاکہ نویسی کو ترجیح دے رہے ہیں ، وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں واقع کی تاریخوں یا سنین نیز تمام باتوں کو قلم بند کر نا ضراری نہیں ہوتااور چند واقعات کی بنیاد پر خاکہ تشکیل پا جاتا ہے۔میں اس بات کے حق میں ہوں کہ اگر خاکہ نویسی کے دوران اگر کسی واقع کی تاریخ یا کم از کم سن معلوم ہو تو وہ ضرار لکھ دینا چاہیے ۔شاہ حسن عطا نے ایک خاکہ اپنے والد کی بہن ’’حمیرہ بی بی ‘‘ کا تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا ’’یوں تو ب تک میرے قلم سے بہت سی تحریریں نکل چکی ہیں مگر میں نے لکھنے میں اب تک وہ احتیات نہ برتی تھی جو اب مجھے مطلوب ہے۔ یہ کتا ب جسے مین ترتیب دے رہاہوں اور جو ’’نقشِ کفِ پا ‘‘ کے نام سے موسوم ہوگی اس میں بہت سے اچھے شریف اور با کردار اشخاص کے بارے میں لکھنے کا ارادہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم میری یہ تالیف کینی عمر پاسکے گی۔ البتہ اس کتاب کے ایک وصف کے بارے میں میرے ذہن میں کوئی شک نہیں اور اس کا وہ وصف یہ ہوگا کہ اس میں غلط بیانی کسی مرحلہ پر نہیں ہوگی اور حقائق کو مسخ کہیں بھی نہیں کیا جائے گا‘‘۔ ایک اہم اور پیاری بات جو عطا صاحب نے اس مر حلہ پر کہی کہ ’’ بڑا دب اس اس وقت تک بڑا ادب نہیں بن سکتا جب تک وہ جھوٹ سے پاک نہ ہو ۔لیکن اگر اس میں جھوٹ کی آمیزش ہو تو حسین ترین اسلوب نگارش اور فقید المثال ہنر مندی اور زانشائی چابکدستی بھی ادب کو زوال اور اِدبار سے نہیں بچا سکتے‘‘۔

زیر تبصرہ کتاب میں شاہ حسن عطا کے تحریر کردہ ۱۸شخصی خاکے اور دومضامین ’حج بیت اﷲ ‘ اور ’ذکر علیگڑھ‘ شامل ہیں۔ شخصی خاکو میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا، حضرت فاطمہ زہرہ رضی اﷲ عنہا، حمیرہ بی بی (عطا صاحب کے دادا کی بہن)، مولوی می سید خورشید حسین (شاہ حسن کے بڑے بابا)، قائد اعظم (ارشاداتِ قائد اعظم کی تشریح)، مولانا محمد علی جوہر، مو لانا سید طلحہ(شاہ حسن کے والد کے احباء گرامی)، پروفیسر عمر الدین (استاد)، سید عبد اقادر گیلانی، فخر ماتی، جمشید رضأ الرحیم( دوست)، محمد ارشاد ، ہارون احمد، جسٹس سید محمود، نواب مھمد اسمعٰیل خان، جسٹس قدیر الدیناحمد، پروفیسر رشید الدین صدیقی شامل ہیں۔شاہ حسن عطا ایک مستند محقق ، مصنف ، مولف اور مترجم بھی تھیں انہیں زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ آپ نے شخصیت نگا ری کے فن کو اپنی ان نگارشات کے ذریعہ اوج کما عطا کیا ہے ۔ جن شخصیات پر آپ نے قلم فر سائی کی ہے انہیں اپنی کتاب ’’نقشِ کفِ پا‘‘ کے توسط سے نگاہوں میں محبوب سے محبوب تر اور دل کش سے دل کش بنا دیا ہے۔آپ تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کسی بھی شخصیت پر قلم فرسائی کے قائل ہیں اس حقیقت کا ادراک ہمیں عملی طور پر آپ کی اس کتاب سے ہوتا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں اﷲ کو پیارے ہوئے ، آج ۲۶ سال گزرجانے کے بعد بھی وہ اپنی تحریر کی صورت میں ہمارے درمیان میں موجود ہیں اور انشاء اﷲ ان کی تخلیقات انہیں رہتی دنیا تک زندہ رکھیں گی۔ شاہ حسن عطا کے اس شعر پر جو اس کتاب کے سر وورق کے پیچھے درج ہے اپنے اس اختصاریے کو ختم کرتا ہوں ، شاہ صاحب مہدویؔ تخلص کیا کرتے تھے ؂
ہیں کتنے نامور کہ تہہ خاک جا بسے
جن کا کہیں نشاں نہ کہیں ننگ و نام ہے
(شائع شدہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جلد ۳۸، شمارہ ۲، جون ۲۰۰۷ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1282549 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More