ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بربادی میں ایل ڈی اے کا بڑا ہاتھ ہے

اخباری تجزیئے کے مطابق لاہور کے گرد و نواح میں سرکاری اور پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد بنتی ہے ۔لیکن صرف دو درجن سوسائٹیاں ہی سہولیات کے اعتبار سے کامیاب قرار دی جاسکتی ہیں ۔ کچھ پراپرٹی ڈویلپر اپنی زمین پر پانی کی ایک ٹینکی بنا کر ایک دو سڑکیں تعمیر کرکے ایل ڈی اے حکام کو خاموشی کی منہ مانگی قیمت دے کر اخبارات اور الیکٹرونکس میڈیا پر اشتہارات کی ایسی بھرمار کرتے ہیں کہ لوگوں کی کثیر تعداد پراجیکٹ کو قانونی تصور کرکے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرلیتے ہیں جب یہ سب کچھ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو ایل ڈی اے کی جانب سے ایک اشتہار اخبار میں شائع کروا دیا جاتا ہے کہ عوام ہوشیار رہیں یہ ہاؤسنگ سوسائٹی ایل ڈی اے کی منظور شدہ نہیں تھی ۔گویاچور ٗ چوری کرکے اپنے گھر پہنچ جاتا ہے تب ایل ڈی اے حکام غفلت کی نیند سے بیدار ہوتے ہیں اس طرح ایل ڈی اے حکام کی دانستہ چشم پوشی کی وجہ سے غریب لوگوں کے پچیس تیس سالوں سے کھربوں روپے اپنی جیب میں ڈال کر رفوچکر ہوچکے ہیں ۔ آج بھی لاہور کے اطراف میں ایسی سینکڑوں ہاوسنگ سوسائٹیاں نہ صرف کھنڈرات کی شکل میں عبرت کی مثال بنی نظر آتی ہیں بلکہ ہزاروں پلاٹ خریدنے والے بھی قبرستانوں کو آباد کرچکے ہیں ۔اگرچہ ایل ڈی اے ( جس کا نام اصل نام لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے ) کے افسران دیانت دار ٗ فرض شناس ہوتے تو آج لاکھوں افراد کی زندگی بھر کی پونجی ضائع ہونے بچ جاتی ۔ایک جانب ایل ڈی اے کی چشم پوشی اور رشوت خوری کی وجہ سے نت نئی ہاؤسنگ سکیموں کی برسات ہورہی ہے تو دوسری جانب ایسی ہاوسنگ سوسائٹی جو حقیقت میں ایل ڈی اے کے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے ہاں پلاٹ خریدنے والوں کو زندگی کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی جستجو کرتی ہیں ان کے ساتھ ایل ڈی اے شعبہ ٹاؤن پلاننر کے عملے کا برتاؤ انتہائی توہین آمیز ہوتا ہے ۔میرے مشاہد ے میں کتنی ہی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں جو ایل ڈی اے کی لاکھوں روپے مالیت کی تمام جائز اور ناجائز فیسوں اور ڈیوٹیوں کو ادا کرنے اور ضابطے کی کاروائیاں مکمل کرنے کے باوجود سال ہا سال سے منظوری کی منتظر چلی آرہی ہیں ۔پلاٹ خریدنے والے لوگ جب ایسی سوسائٹیوں کے ارباب اختیار پرپلاٹوں کا قبضہ لے کر مکان بنانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں تو ایسے ارباب اختیار سوائے ایل ڈی اے حکام پر لعنت بھیجنے اور لوگوں سے بدعائیں وصول کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے ۔اچھی اور پرائیویٹ ہاوسنگ کی بات تو الگ ہے خود ایل ڈی اے کی اپنی ہاوسنگ سکیموں میں فراڈ ٗ دھوکہ دہی اور چربہ سازی کے ہر جگہ امکانات موجود ہیں ایک ایک پلاٹ تین تین لوگوں کے ہاتھ بک جاتا ہے اصل مالک کون ہے پتہ پھر بھی نہیں چلتا مقدمے بازی میں عمر بیت جاتی ہے ۔ لوگ ایل ڈی اے کی سکیم تصور کرکے محفوظ سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن بعدمیں پتہ چلتا ہے کہ سالہاسال گزرنے کے باوجود نہ پلاٹ کا الاٹمنٹ لیٹر ملتا ہے اور نہ ہی قبضہ۔ ایسے بدقسمت افراد کا شمار بھی لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہوگا ۔ ایل ڈی اے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ پچھلی ہاوسنگ سکیموں کو ادھورا چھوڑ کر نئی ہاؤسنگ متعارف کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتی ہے کیونکہ پیسے ٗ رشوت خوری اور عوام کی زندگی بھر کی پونجی کو ہضم کرنے کا جنون ایل ڈی اے افسران کو سکون نہیں لینے دیتا ۔چونکہ ایل ڈی اے کے متعلقہ حکام کو وزیر اعلی سمیت کو ئی پوچھنے والا نہیں ہے اورنہ ہی ہر متاثرہ شخص وکیل کو لاکھوں روپے فیس دے کر ایل ڈی اے کے خلاف عدالت میں مقدمات کرسکتا ہے اگر کوئی جرات کرتا بھی ہے تو عدالت میں مقدمہ کرنے کا مقصد خود کو چار پانچ سال کے لیے ذلیل و خوار کرنے کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان کے عدالتی نظام میں انصاف مرنے کے شاید مل جائے لیکن زندہ لوگوں کو بہت کم نصیب ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ایل ڈی اے اور دیگر پرائیویٹ ہاؤسنگ سکیموں کے متاثرین جن کی زندگی بھر کی کمائی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار شائع کرواکر ہڑپ کرلی جاتی ہے وہ اپنا معاملہ خداکے سپرد کرکے خاموش ہوچکے ہیں اور لوٹنے والے لوگ یہ کہہ کر زندگی کی رنگ ریلیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ جب مریں گے تب دیکھا جائے گا اس وقت تک تو زندگی کو انجوائے کرو۔ ایل ڈی اے ادارہ بنانے کا آخر مقصد ہے کیا ۔ اس کا مقصد شہر پر آبادی کا دباؤ کم کرنے کے لیے ایسی جینوئن ہاؤسنگ سکیموں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو تمام قانونی ضابطے پورے کرتے ہوئے اپنے خریداروں کے لیے زندگی کی بہترین سہولتیں بھی فراہم کررہی ہو۔کسی بھی ہاوسنگ سوسائٹی کا اشتہار اس وقت تک شائع نہیں ہونا چاہیئے جب تک وہ ایل ڈی اے میں رجسٹرڈ نہ ہوچکی ہو اورایل ڈی اے اس کے تمام معاملات کو شفاف قرار دے چکی ہو ۔ اگرکوئی بغیرمنظوری کے اخبار میں اشتہاردیتا ہے تو ایل ڈی اے کے متعلقہ حکام کو اسی وقت عوام کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے متعلقہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے تاکہ عوام کو لوٹ کھسوٹ سے بچایا جاسکے ۔لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ فراڈ کرنے والے لوگ تو پیسے کماکے نکل جاتے ہیں اور جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں تمام قانونی تقاضے پورے کرتی ہیں ان کے ارباب اختیار کئی کئی سال تک ایل ڈی اے کے دفتر کے چکر کاٹ کاٹ تھک جاتے ہیں یہی عالم ان کے ساتھ محکمہ سوئی گیس اور واپڈا اتھارٹی والے کرتے ہیں ڈیمانڈ نوٹس جمع کروانے جانے کے باوجود سالہال تک گیس اور بجلی کاکنکشن نہ دینا ایک معمول بن چکا ہے ۔پراپرٹی کا شعبہ پاکستان کے ریونیو میں ایک چوتھائی حصہ ڈالتاہے ایک پلاٹ/مکان کو خریدنے اور فروخت کرنے پر ایک لاکھ یا دو لاکھ روپے تک ٹرانسفر فیس کے طور پر قومی خزانے میں جمع کروائے جاتے ہیں ۔اس کے باوجود اگر لاہور جیسے شہر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایل ڈی اے کی ستم ظریفیوں اور نااہلیوں کی بنا پر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں تواس کا ذمہ دار کون ہے ۔پہلے سنا کرتے تھے کہ کچہری کی دیواریں رشوت مانگتی ہیں لیکن اب اس کے ساتھ ایل ڈی اے کی دیواریں بھی اس سے زیادہ رشوت مانگنے لگی ہیں ایل ڈی اے حکام کو نہ خدا کی پکڑ کا خوف ہے اورنہ ہی حکومت وقت کی باز پرس کا ۔ کوئی سڑک تعمیر ہورہی ہو ٗ کوئی پل زیر تعمیر ہو ٗ کوئی ہاوسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہونے والی ہو انہیں تو صرف اور صرف اپنے کمیشن سے غرض ہوتی ہے ۔کمیشن لے کر وہ اس طرح لمبی تان کر سو جاتے ہیں جیسے مرنے والے قیامت تک قبروں میں لیٹے رہتے ہیں ۔ان کی بلا سے کوئی فراڈیا کسی غریب کی زندگی بھر کی کمائی ہڑپ کرلے یا کوئی جینوئن ہاؤسنگ سوسائٹی صرف ایل ڈی اے کے NOC نہ ملنے کی وجہ سے برباد ہوجائے ۔وہ اپنی زندگی کو بے مزا نہیں کرتے ۔آج بھی بے شمار ہاؤسنگ کالونیاں تمام کاغذی کاروائی پوری کرنے کے باوجود صرف ایل ڈی اے کی جانب سے NOC نہ ملنے کی بنا پر کھنڈر کا ڈھیر بنتی جارہی ہیں لیکن کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.