کیا ہم حقیقی طور پر آزاد ہوچکے ہیں ؟

پاکستان ایک اٹامک نیوکلئیر طاقت ہے اور دنیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو آب وہوا ، موسمی اور جغرافیائی لحاظ سے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔اسکا صوبہ پنجاب زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں ثانی نہیں رکھتا ، سندھ ساحل سمندر اور قدیم تہذیبوں کا مرکز ہونے کے ناطے مثالی حیثیت رکھتا ہے ، صوبہ خیبر پختونخواہ اپنی خوبصورت وادیوں اور قدرتی مناظرکی بدولت سوئیززلینڈ سے کم نہیں ہے اسی طرح صوبہ بلوچستان قیمتی معدنیات اور گیس کے ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے ۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دریاؤں ، وادیوں اور قدرت کی بے شمار نعمتوں سے مالامال اس خوبصورت ملک کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پر رکھی گئی ۔ان تمام انمول نعمتوں کی شکرگزاری کے طور چاہیے تھا کہ پاکستان کے مقتدر حلقے ، سیاسی قائدین اور بااختیار طبقے ملکی ترقی ، خوشحالی اور استحکام کے لیے مل کر جدوجہد کرتے، باہمی اتحاد واتفاق اور یکجہتی سے دشمنان پاکستان کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے روشن مستقبل کو سنوارنے کی منصوبہ بندی کی جاتی تو یہ ملک ترقی و خوشحالی کے اس مقام پر پہنچ جاتا کہ جدید دنیا میں اس کی مثال نہ ملتی ۔ مگر افسوس کہ خدا کی عطاکردہ تمام نعمتوں کی اس سرزمین پر آج انسانیت سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے ۔ بھوک ، افلاس اور غربت سے تنگ شہری اپنے بچوں سمیت دریاؤں میں کود رہے ہیں ۔ مائیں اپنے جگر گوشوں کا گلا گھونٹ رہی ہیں ۔ خودکشیاں ، خودسوزیاں اور فاقہ زدہ بستیوں میں موت کا رقص ، ہم اس خوش قسمت ملک کے بدقسمت شہری ہیں جہاں انصاف نام کی کوئی چیز سرے موجود نہیں ہے ۔ جہاں قانون صرف کتابوں تک محدود ہے ۔ اگر کہیں قانون کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو صرف مجبور و لاچار عوام کے لیے ، مجبور و بے کس عوام کے لیے صورتحال نہایت دگر گوں ہے جبکہ ملک کے مقتدر حلقوں کی جانب سے صرف دعوے ہیں اور دعوؤں کے پس پردہ ذاتی مفادات کی دوڑ ہے ۔ نت نئے طریقوں سے ملک کو قوم کو لوٹنے کے ڈھونگ رچائے جارہے ہیں ۔بالادست طبقہ کی حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی اور مفادپرستی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے دشمن عناصر اپنے مکروہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلانے میں مصروف ہیں ۔

ایسی صورتحال میں جبکہ خطہ میں شیطانی تکون ( انڈیا ، اسرائیل اور امریکہ ) کی دجالی سازشیں اور مکروہ عزائم بے نقاب ہوچکے ہیں ، چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان کی مقتدرقوتیں دشمن کے مکروہ ایجنڈے کے توڑ کے لیے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں مسلم اتحاد و یکجہتی کی فضاء قائم کرنے کے لیے اپنا بنیادی رول ادا کرتیں بجائے اس کے یہی قوتوں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو لڑانے ،نسلی فسادات کو اُبھارنے، علاقائی ، لسانی تعصبات اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں اپنے وسائل صرف کررہی ہیں۔

ان حالات میں جبکہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کی بدولت ملکی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے اورشہری اپنے حقوق کے لیے خودسوزیوں پر مجبور ہیں حتیٰ کہ پورے پورے خاندان اجتماعی خودکشی کا مظاہرہ کررہے ہیں میں بڑے وثوق سے کہہ رہی ہوں کہ ہمیں ان حالات میں واقعی انقلاب کی اشد ضرورت ہے ۔ ایسا انقلاب جو ملک کی قسمت بدل دے ۔ ایسا نظام حکومت قائم ہو جو عوامی فلاح کا حقیقی نمائندہ ہو ۔ جو ظلم و استبداد سے عوام کو چھٹکارا دلائے ۔ لیکن افسوس کہ ایسا حقیقی انقلاب کہیں نظر نہیں آرہا ۔ یہاں سب مفادات کی جنگ ہے ۔ ہیرو بننے کی دوڑ جاری ہے ۔ انقلاب کے نام پر عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلا جارہاہے ۔ عوامی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے ۔ انہیں اپنے اشاروں پر نچایا جارہا ہے ۔ ان کے حقوق کا نعرہ لگا کر انہیں کمزور سے کمزور تر بنایا جارہا ہے۔

ایک حقیقی انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنی نیتوں کو درست کیا جائے ۔ ظلم سے نجات دلانا ہے تو عوام کے اندر رہ کر عوام کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنا ہوگی سسٹم کے خلاف لڑنا ہے تو سسٹم کے متعلق عوامی شعور کو اُجاگر کرنا ہوگا مگر اس کے برعکس انقلاب کے موجودہ دعوے داروں کے انقلابی جذبات اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق ان کے قول وفعل سے متصادم ہیں ۔ لہٰذا اپنی اصلاح کیجیئے ۔ عوام الناس کو گمراہ کرنے کی بجائے اپنا محاسبہ کیجیے ۔ یاد رکھیے کہ یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام معاملہ ہے صرف منہاج القرآّن کے کارکنوں کا نہیں ۔ پوری قوم ہی انقلابی جدوجہد کے لیے تیار ہے اگر قومی نمائندگی کرنی ہے تو مسلک ، مکتب کو پس پشت ڈال کر قومی تصور کو لیکر انقلابی راہ اپنانی ہوگی ۔ اور ایک حقیقی انقلاب تب ہی آسکتا ہے جب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ، ریاستی و حکومتی ادارے اور مقتدر حلقے ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر جدو جہد کریں ۔

پالیسی ساز ادارے اپنی اقتصادی ، معاشی ، تعلیمی پالیسیاں اور سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے انقلابی ایجنڈے کو قرآن و حدیث کی راہنمائی میں ترتیب دیں۔ اسلامک ورلڈ میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص عوام میں برداشت ، صبروتحمل،استقامت اور مستقل مزاجی جیسے بہادرانہ جوہر مفقود ہیں جس کی بنیادی وجہ اپنے مذہب کی اصل روح اوراخلاقی اقدار سے دور ہونا اور غیر ملکی و مغربی نظریات کا فروغ ہے ، حقیقی انقلاب کے لیے اسلامی روح کے مطابق عوام کو تربیت یافتہ بناکر ایک مہذب اور مستقل مزاج نئی نسل کی تیاری اولین ترجیع ہونی چاہیے اور اس کے لیے پاکستان کے تعلیمی ماہرین کو ابھی سے سرجوڑ کربیٹھ جانا ہوگا ۔ ہمارے سکول کالجز میں پڑھائے جانے والے نصاب پر ازسرنو نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ قرآن پاک کی تعلیمی کو نرسری لیول سے لیکر یونیورسٹی تک لازمی قرار دینا ہوگا ۔ پاکستان میں قائم تمام مدرسہ جات کو رجسٹرڈ کرتے ہوئے یکساں نصاب تعلیم پر عمل درآمد کرنا ہوگا ۔ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے پاکستان میں طبقاتی نظام ، ذات پات ، فرقہ واریت ، انتشار اور افراتفری کا مکمل خاتمہ کرکے قوم میں مکمل ہم آہنگی و یکجہتی کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ جب تک پوری قوم میں نظریاتی ہم آہنگی اور ملی یکجہتی کے جذبات پروان نہیں چڑھتے ملک میں حقیقی انقلاب محض نعروں اور لانگ مارچوں سے نہیں آسکتا ۔ اس کے لیے قوم کو پہلے تیار کرنا ہوگا ، طبقاتی نظام اور معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے خاتمہ اور بین الاقوامی سامراج کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پہلے قوم میں اتحاد و اتفاق کے بیج بونے ہونگے ۔ جب ایک مکمل نظریاتی ہم آہنگی پر مبنی فصل پک کر تیار ہوجائے گی تو یہ قوم حقیقی انقلاب کے ثمرات سے مستفید ہوسکے گی ورنہ اس طرح کے بے بنیاد اور کھوکھلے انقلاب ملک و قوم میں مزید انتشار اور فساد کا باعث ثابت ہونگے ۔

Shazia Israil Chohdury
About the Author: Shazia Israil Chohdury Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.