کراچی کا برنس روڈ…… نظرے خوش گزرے

رشید بٹ

اکثر مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ برسوں کی یادوں کو لمحوں میں سمیٹنے کا حکم لگ جاتا ہے۔ بات کراچی کے برنس روڈ کی ہو رہی ہے۔ یہاں صبح کیسی ہوتی ہے؟ دن کیسا گزرتا ہے؟ رات کو کیا سماں ہوتا ہے؟اب مَیں کیا کہوں۔ آج کے برنس روڈ کی کوئی کیا بات کرے؟ ہاں پینتالیس چھیالیس برس پہلے کی صبحِ برنس روڈ کی بات کرو تو کوئی بات بنے! تب کی صبحِ برنس روڈ کو ’’صبحِ بنارس‘‘ کے ہم پَلّہ تونہیں کہا جاسکتا، بہر حال روز ہی ایک یاد گار صبح نمودار ہوا کرتی تھی۔ تب برنس روڈ اتنا گنجان بھی نہ ہوتا تھا۔ ہاں رات گئے تک جاگتا ضرور تھا۔ اور پھر کچھ دیر کے لیے شاید سو بھی جاتا تھا۔ یہاں تڑکا ہوتا تھا۔ اِدھر اُدھر بکھرے بوڑھے پیڑوں سے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ دلکش آوازیں۔ آج کل ایسی چہچہاہٹ نہیں جو دھویں اور آلودگی کے سبب چہچہاہٹ کم، کھانسی اور کھنکھار زیادہ لگتی ہے۔

ارے مَیں کدھر نکل گیا؟ آئیے واپس برنس روڈ پہ چلتے ہیں۔ برنس روڈ…… آج سے کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے تک کراچی یا کلاچی میں ایسی کوئی سڑک نہ تھی۔ بلکہ ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ ہم 1843ء میں آتے ہیں تو میانی کی جنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ انگریز نوآبادیاتی حکمرانوں کی فوج اور سندھ کے ٹالپر میر حکمرانوں کے درمیان۔ اندرونی ریشہ دوانیوں اور انگریز چالبازیوں کا نتیجہ…… ایک اذ ّیت ناک فقرہ ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے۔ جو جریدۂ وقت پر ثبت ہے…… ’’انگریزوں کی فتح ہوئی ہے اور انہوں نے سندھ حاصل کرلیا ہے۔ میروں نے ہمیشہ کے لیے سندھ گنوادیا۔‘‘ اُن دنوں کی تاریخ میں ہمیں ’’رام باغ تالاب‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ اور یہی رام باغ تالاب ہے جس کے ایک کونے سے برنس روڈ پھوٹتا ہے۔ اور ہم الٹی سمت چلیں تو سابق میکلوڈ روڈ ،حال آئی آئی چندریگر روڈ میں ُگم ہو جاتا ہے۔

شاعرانہ تعلّی سے کام لیا جائے تو جنگِ میانی کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’لوگ آتے گئے، کارواں بنتا گیا۔‘‘ کچھ ہی عرصے بعد ہمیں بلدیہ کراچی کی عمارت زمین سے سر اٹھاتی دکھائی دیتی ہے۔ آس پاس عمارتیں بننے لگتی ہیں۔ برنس روڈ اپنے نشان پکڑنے لگتا ہے۔ برسوں بعد اِس کے اُس نکڑ پر جہاں یہ میکلوڈروڈ یا آئی آئی چندریگر روڈ میں ُگم ہوتا دکھائی دیتا ہے، ایک عمارت اُبھرتی ہے، جس کے ساتھ نچلے درجے کے ملازمین کے کوٹھری نما سرونٹس کوارٹرز کی طویل قطار چلی گئی ہے…… یہ پوسٹ ماسٹر جنرل کا بنگلہ ہے یا ہوتا تھا۔ مَیں آج تک طے نہیں کر پایا کہ یہ میکلوڈروڈ کا حصہ ہے یا برنس روڈ کا۔ اِ س کا سامنے کا رخ میکلوڈ روڈ کی جانب کھلتا ہے تو سرونٹس کوارٹرز کی طویل دیوار برنس روڈ کے ساتھ ساتھ چلتی چلی جاتی ہے! ذرا آگے بڑھیں تو ایک چوک سا آتا ہے۔ اس سے لگ بھگ چھ راستے پھوٹتے ہیں۔ مَیں نے پینتالیس چھیالیس برس کے عرصے میں اِس چوک کو کئی روپ بھرتے دیکھا ہے۔ ڈیڑھ سو برس پہلے جب یہ سڑک بننا شروع ہوئی ہو گی تو جانے اِس چوک کا روپ کیا ہو گا۔ سڑک پہ یاد آیا کہ آخر اس سڑک کا نام برنس روڈ کیوں رکھا گیا؟ ایک روایت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے ابتدائی دو تین عشروں میں انگریز نو آبادیاتی حکمراں اپنی فوجیں سندھ کے راستے کا بل تک پہنچانے کی سازشوں میں مصروف تھے تو اِن فوجوں کے ساتھ جیمز برنس نامی ایک ڈاکٹر بھی آیا۔ اس نے ٹالپر میر حکمرانوں کا کچھ علاج معالجہ بھی کیا جس پر وہ خوش بھی ہوئے۔ یوں اُس کا نام اچھے لوگوں میں شمار ہونے لگا۔انگریز اپنے کارندوں کے ناموں کو کسی بھی حوالے سے دوام بخشنے میں ُبخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ چنانچہ جب کراچی شہر کا نقشہ بنا تو اس میں ایسے کئی انگریزوں کے ناموں پر قدیم اور اندرون شہر کی سڑکوں کے نام رکھے گئے۔ صرف برنس روڈ کے دائیں بائیں پھوٹتی کئی سڑکوں اور گلیوں کے نام آج بھی بلدیۂ کراچی کے ریونیو ریکارڈ میں اُن ہی انگریزوں کے نام پر ہیں جنہوں نے سندھ کو سلطنتِ برطانوی ہند کا حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

مَیں بات کر رہا تھا پانچ چھ سڑکوں والے چوک کی۔ اِسی کے ایک سمت بلکہ سرِراہ برنس گارڈنز بھی ہے۔ کسی زمانے میں یہ باغ رہا ہوگا۔اب تو اگر کچھ پرانے بوڑھے درختوں، گھاس کے قطعوں اور چند ایک چھوٹے چھوٹے کوارٹروں یا جھونپڑیوں کو، جن میں سے بچے اُبلتے پھرتے ہیں، باغ یا گارڈنز کہا جا سکتا ہے تو یہ واقعی برنس گارڈنز ہے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ اِس کی لوہے کے جال والی چاردیواری کے گیٹ پر بڑے بڑے حروف میں ’’نیشنل میوزیم آف پاکستان‘‘ کا محرابی بورڈ لگا ہو اہے۔ اندر ایک نو تعمیر شدہ آڈیٹوریم بھی ہے۔ یہ گارڈنز سے میوزیم کب بنا اس پر ایک الگ تحریر کی ضرورت ہے۔

ویسے اس کئی سڑکوں والے چوک کو معمولی نہ جانیے۔ سچ پوچھئے تو اِس کے اطراف میں کراچی کی علمی اور تعلیمی تاریخ بکھری پڑی ہے۔ تعلیمی ادارے اور ہاسٹل جنہیں کبھی ملک گیر شہرت حاصل تھی۔ ملک بھر سے حصولِ علم کے پیاسے نوجوان یہاں کھنچے آتے تھے۔ تحصیلِ علم کے بعد کچھ یہیں رہ جاتے تھے۔ بہت سے اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ کر علم کے نئے نئے دیئے روشن کرتے تھے۔ پھر اِن تعلیمی اداروں، دانش گاہوں کو جانے کس کی نظر کھا گئی۔ یہ سامنے سندھ مسلم لا کالج ہے، اِدھر بائیں ہاتھ دیکھئے۔ یہ ڈی جے سائنس کالج کی پر شکوہ عمارت دور تک چلی گئی ہے۔ اِسی کے عقب میں این ای ڈی یونیورسٹی کا سٹی کیمپس ہے۔ یہ دائیں ہاتھ ڈی جے آرٹس کالج، سندھ مسلم آرٹس اینڈ کامرس کالج کی بے رنگ و روغن دیواریں ہیں۔ پہلے یہاں علم کی شمعیں روشن ہوتی تھیں۔ پھر جانے کون انہیں ہتھیاروں اور گولیوں کا روپ دے گیا۔ یہ مٹھارام ہاسٹل تھا۔ اس کے گیٹ پر بورڈ اسی نام کا لگا ہوا ہے لیکن اندر رینجرز کا گڑھ ہے۔ ڈی جے سائنس کالج کے پیچھے مشہورِ زمانہ سیوا ُکنج ہاسٹل ہے۔ عمارت کھنڈر ہو رہی ہے۔ گراؤنڈ فلور پر تو پھر بھی چند ایک دکانیں اور پریس ہیں لیکن بالائی منزلوں پر چمگاڈروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ اپنے وقت کے وہ تعلیمی ادارے تھے،جو برِصغیر کی تقسیم سے پہلے برسوں کی محنت کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں نے بلا تحصیصِ مذہب و ملت نوجوانوں کو علم کی روشنی سے مالامال کرنے کی خاطر قائم کئے تھے۔ اﷲ اکبر!

اب اِسی ُنکڑ یا چوک کے کونے سے برنس روڈ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جو پیٹ پوجا یا کھانے پینے کی لذید اشیا کے لیے بقول شخصے، بدنام ہے۔ یہاں ہر چند قدم پر گلیاں اور گلیارے پھوٹتے ہیں۔ یہ آؤٹ رام روڈ ہے۔ وہ کیمبل اسٹریٹ ہے۔ اس پر جی نہیں بھرا تو اگلی گلی کو انگریزوں نے اپنے زمانے میں کیمبل روڈ کا نام دے دیا۔ ہمارے بھائی بند بھی کسی سے کم نہ رہے۔ ایک گلی میں دودھ سے مکھن نکالنے کا کام شروع کیا تو اسے مکھن گلی نام دے دیا۔ ساتھ ہی سبزی گوشت کی مارکیٹ بنا دی جہاں آپ کو سوئی دھاگا، زنانہ ملبوسات پر ٹکانے والے بیل بوٹے اور مٹی کا تیل تک، سب مل جاتے ہیں۔ یہ ہوئی ناں بات۔ برنس روڈ کی گلیوں اور خود برنس روڈ پر کسی چیز کی کمی نہیں۔ یہ بھی عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ صبح جس تخت پر اخبار بک رہے ہیں ، شام کو اُسی پر ’’تازہ مچھلی‘‘ کاٹ کے بیچی جا رہی ہے ۔

ہر سال رمضان کے دوسرے ہفتے سے ہر رنگ و نسل کے افطاری کے سامان کی ریڑھیاں اور ٹھیلے اِس قدر تعداد و قطار میں یہاں جمع ہو جاتے ہیں کہ فٹ پاتھوں پر چلنے کا بھی رستہ نہیں ملتا۔ اور اُن خوانچے والوں کی نوع بہ نوع آوازیں۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا انداز …… کسی کو کچھ خریدنا ہے یا نہیں، کوئی صرف آگے بڑھنے کا رستہ ڈھونڈرہا ہے۔ یہ اُن کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اُسے روک کر کھڑے ہو جائیں گے۔ اپنے اپنے پکوان ، پکوڑے، سموسے،ُ ُگلگلے ،مصالہ لگے اُبلے ہوئے کالے سفید چھولے، سونٹھ پانی، گول گپے، کھجلا، پھینی، پھیکی جلیبیاں، سستے داموں بیچنے کی پیش کش کرتے ہیں۔ جوں جوں افطاری کا وقت قریب آتا جاتا ہے، اُن کا نعرۂ مستانہ ہر طرف بلند ہونے لگتا ہے۔ ’’ہو گئی شام، گر گئے دام‘‘۔ ہر شے پر دِلّی والوں کی چھاپ ہوتی ہے۔ ہوٹلوں والے، ڈھابوں والے، سب دِلّی والے۔ کسی نے حلیم کا خصوصی رمضان کاؤنٹر لگا رکھا ہے۔ کوئی تافتان، شیرمال اور خمیری روٹیاں تازہ تازہ نکال رہا ہے، ہر سُو اُن کی مہک ہے۔ دَم پہ رکھا قورمہ جس پر آدھ انچ موتی تری کی تہہ چڑھی ہے اور بریانی، گولا کبابوں کی تیاری، بڑے سے پتیلے میں ُبلبلے چھوڑتی ہوئی بٹ…… ہاں بٹ پہ یاد آیا۔ مَیں نیانیا کراچی آیا۔ یہی کوئی پینتالیس چھیالیس برس پہلے۔ ایک بار صبح سویرے برنس روڈ سے گزر رہا تھا تو دیکھا کہ ایک صاحب ریڑھی، ریڑھی پہ انگیٹھی اور انگیٹھی پہ بڑا سا دیگچہ رکھے، اُس میں اُتنا ہی بڑا چمچہ یا کفگیر چلا رہے ہیں۔ ریڑھی پر بڑا سا بورڈ لگا تھا۔ ’’دہلی بٹ ہاؤس‘‘۔ مَیں رہ نہ سکا اور اُن سے پوچھ لیا کہ میاں یہ آپ بٹ پکا کے بیچ رہے ہیں۔ آپ کو پتا ہے بٹ کون ہوتے ہیں؟

وہ صاحب شاید پہلے بھی کسی ایسے ہی تجربے سے گزر چکے تھے۔ میرا سوال پورا نہ ہوا تھا کہ بول اُٹھے۔ ’’ ارے صاحب! یہ وہ بٹ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ اوجھڑی ہے ۔ اسے دِلّی والے بٹ کہتے ہیں ۔ ‘‘ تو یہ ہیں دِلّی والے۔ کھانے کے شوقین اور کھانا پکانے کے بھی شوقین ۔ کہا جاتا ہے کہ گولا کباب دِلّی والوں کا خاص کھاجاہے ۔ دِلّی میں کباب پرلپیٹنے کے لیے دھاگے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے سُوت کے کارخانے بھی خود ہی لگالیے۔ اﷲ اﷲ خیر سَلاّ۔ کباب بھی اپنے اور دھاگا بھی اپنا۔ کسی کی محتاجی کیوں کریں؟

برنس روڈ فوڈ مارکیٹ یا اشیائے خورونوش کا مرکز کب سے بنا۔ یہ تو کسی کو معلوم نہیں۔ ہاں ایک روایت ضرور چلی آرہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سرکاری دفاتر اِسی علاقے کے قرب و جوار میں بنے کیوں کہ وہاں انگریزوں کے زمانے کی بیرکیں موجود تھیں۔ تھوڑے بہت ردّو بدل کے بعد انہیں کمروں یا بیٹھنے اور میز کرسیاں رکھنے کی جگہ میں تبدیل کرلیا گیا ۔ کم تنخواہوں کا زمانہ تھا۔ اتنی فراغت نہ تھی کہ سرکاری ملازمین گھروں کو جاتے اور دو پہر کا کھانا کھاکے دفتر لوٹ آتے۔ اُن سرکاری ملازمین میں بہت سے لوگ ہندوستان کے اُن علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے جو پڑھے لکھوں کے علاقے تھے۔ اِسی طرح دِلّی کے پکوان والوں نے بھی ہجرت کی تو برنس روڈ کو اپنا مرکز بنایا۔ دھیرے دھیرے ڈھابوں اور ہوٹلوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ سرکاری ملازموں کے لیے آسانی پیدا ہوگئی…… اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے۔ دوپہر میں دفتروں سے نکلے اور چند قدم چل کے برنس روڈ پر من مرضی کے ڈھابے پر پہنچ گئے۔ کھانا کھایا اور پھر دفتر میں جابیٹھے ۔ ایوب خان دارالحکومت اٹھا کے اسلام آباد لے گئے تو برنس روڈ کے ڈھابوں کی رونقیں کچھ ماند پڑیں۔ لیکن دِلّی والے بھی آخردِلّی والے ٹھہرے۔ انہوں نے اپنے اس مرکزِخورونوش کو بند نہ ہونے دیا۔ اور آج تو ، ماشاااﷲ، اس معاملے میں کوئی علاقہ برنس روڈ کے دِلّی والوں کی گرد کو نہیں ُچھو پاتا۔
یہاں ایسے ڈھابے یا َتھلّے بھی ہیں کہ صبح سویرے حلوہ پوریاںٖ بنانا شروع کرتے ہیں۔ سہ پہر تک بیچتے، کھاتے اور کھلاتے ہیں اور شام کو اسی َتھلّے پر بیٹھ کر مزے سے تاش کی بازی لگاتے ہیں ۔

ایک دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ اُن ہی لوگوں نے کھانوں کے ساتھ ساتھ تمبوقناتوں کا کام بھی سنبھال لیا۔ شادی بیاہ کہیں بھی ہو، کھانے اور تمبوقناتیں مہیا کرنے کا اجارہ برنس روڈ والوں ہی کے ہاتھوں میں رہتا ہے۔

عین اس مقام پہ بائیں ہاتھ وہ رام باغ ہے جس کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ یہ ہندوؤں کا ایک مقدس مقام اور تفریح کا سامان تھا۔ اس سارے علاقے میں مکانوں ، بڑی بڑی رہائشی عمارتوں ، دکانوں اور پلاٹوں کے نمبر علاقے کی مناسبت سے آربی(RB) سے شروع ہوتے ہیں جو رام باغ کا اختصار یا ّمخفف ہے۔ پاکستان بننے کے بعد دو تین سخن گسترانہ مسائل کھڑے ہو گئے۔ خود برنس روڈ کا نام مذہبی تقاضوں سے لگاّ نہیں کھاتا تھا۔ اس کا نام محمد بن قاسم روڈ رکھ دیا گیا۔ لیکن یہ نام چل نہ سکا۔ کسی دوسرے علاقے میں رکشا ٹیکسی والے سے کہیں کہ محمد بن قاسم روڈ جانا ہے تو وہ ہوّ نقوں کی طرح آپ کا منہ دیکھنے لگتا ہے۔ دل میں یقینا سوچتا ہے کہ بڑے میاں شہر میں نئے آئے ہیں۔ ہاں برنس روڈ کہیں تو فوراً چلنے کو تیار ہو جائے گا۔ رام باغ کے ساتھ ذرا احتیاط برتی گئی۔ صرف رام کو آرام کر دیا گیا اوریہ چل نکلا۔ اب یہ آرام باغ ہے۔ اب تھوڑا سا حصہ رہ گیاہے برنس روڈ کا۔ آگے اپنے وقت کا مشہور مولوی مسافر خانہ ہے۔ پاکستان بننے سے بہت برس پہلے کسی شریف آدمی نے یہاں ایک مسافر خانہ کھولا۔ اُس شریف آدمی کا نام (سندھی میں) مولا ڈینو یا عام فہم الفاظ میں مولا دین تھا…… یہ مولا ڈینو مسافر خانہ تھا۔ اندرونِ سندھ سے آنے والوں کے لیے سستی رہائش گاہ۔ نام بگڑتے بگڑتے ’’مولوی مسافرخانہ‘‘ ہو گیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کچھ عرصے تک یہ علاقہ اِسی نام سے معروف رہا،مگر دھیرے دھیرے لوگ اس کو بھولتے گئے۔ اور یہ جامع کلاتھ مارکیٹ بن کے رہ گیا۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ اور ڈاکخانے کے پتے میں اسے شاید اب بھی مولوی مسافر خانہ ہی لکھا جاتا ہے ۔ چند برس پہلے تک یہاں ایک بینک کی برانچ کے بورڈ کے نچلے حصے میں چھوٹے حروف میں لکھاہواتو مَیں نے بھی دیکھا۔ ’’ مولوی مسافر خانہ برانچ‘‘۔ 1965ء تک روز نامہ جنگ اِسی علاقے سے شائع ہوتا تھا اور مَیں نے بھی 1964ء میں یہیں سے، جنگ کے اسی دفتر سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا۔اخبار کے پتے کے حوالے سے بھی غالباً مولوی مسافر خانہ ہی لکھا جاتا تھا۔

اب مَیں برنس روڈ کے بالکل آخری ُنکڑ پر پہنچ رہا ہوں۔ یہ ُنکڑ ماضی کے بندر روڈ اور آج کے ایم اے جناح روڈ پر ہے ۔ اِس کے دائیں جانب ریڈیو پاکستان کراچی کی پرانی عمارت ہے……ایک گنبد والی ۔ ایک زمانے میں اِس کی شناخت ایک گانا ہوا کرتی تھی۔ بہت ہی مقبول گانا:
بندر روڈ سے کیماڑی ، میری چلی ہے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر
اور اِس گانے کے ساتھ ہی ہم برنس روڈ کو خدا حافظ کہتے ہیں۔

Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 69496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.