مجھے ویزا نہیں ملا

وہ میرا دوست ہے۔ میرے دکھ درد کا ساتھی۔ غم ہو یا خوشی وہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی رہائش ماڈل ٹاؤن کے ایم بلاک میں علامہ طاہرالقادری کے گھر کے بہت قریب ہے۔ ہمیں ایک تقریب میں جانا تھا۔ اس کا فون بند تھا۔ اس تک رسائی کے لئے میں نے ڈاکٹر اسرار اکیڈمی والی سڑک، لنک روڈ، اکبر چوک سے جناح ہسپتال تک ہر جگہ اور ہر طرف چکر لگایا۔ ہر گلی کے آگے کنٹینر اور خار دار تاریں۔ کہیں تھوڑا سا راستہ بھی نہیں تھا۔ فقط جناح ہسپتال کے سامنے کنٹینر کو ہٹا کر ایک چھوٹا سا راستہ بنایا گیا تھا اور گاڑیوں کی لمبی قطار داخلے کے لئے اپنی اپنی باری کی منتظر تھی۔ آدھ گھنٹے بعد میری باری آئی مگر مجھے وہاں کا رہائشی نہ ہونے کے سبب اس علاقے میں داخلے کی اجازت نہ ملی ۔ مجبوراً مجھے اس تقریب میں اکیلے جانا پڑا۔یہ 12 اگست کی بات ہے ۔میں اپنے دوست سے معذرت خواہ ہوں میری اس سے ملاقات نہ ہو سکی اور ہم اکٹھے اس تقریب میں نہ جا سکے کیونکہ مجھے اس کے علاقے میں داخلے کا ویزا نہیں ملا۔

میں ایک استاد ہوں جس کا کوئی اور کسی قسم کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں۔ مجھے جناب طاہر القادری اور عمران خان سے کیا لینا۔ دس اگست کو میرے گھر پر ایک تقریب تھی۔ چھوٹی سی تقریب جس میں فقط میرے بہن بھائی اور ان کے بچے شریک تھے۔ ان لوگوں کو شام پانچ بجے تک پہنچنا تھا۔ میرا گھر رائے ونڈ روڈ کے ڈیفنس(بھوبتیاں) چوک سے آدھا کلومیٹر آگے اندر ایک سکیم میں ہے۔ ڈیفنس چوک سے فقط تین چار منٹ کا راستہ۔ مگر اس دن وہ چوک کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ تمام مہمانوں کو گھر لانے کے لئے ایک گھنٹہ تک کچے راستوں اور گندی نالیوں میں سے گزر کر لمبے راستوں سے مہمانوں کو گھر لانا پڑا۔ پانچ بجے شروع ہونے والی تقریب سات بجے کے بعد شروع ہوئی۔یہ دو گھنٹے سارے گھر کے افراد نے انتہائی پریشانی میں گزارے-

لاہور ہائی کورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ میری نظروں سے گزرا جس میں کسی شخص نے راستوں سے کنٹینر ہٹانے کے لئے کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کنٹینر لگانے سے انسانی حقوق کسی طرح بھی پامال نہیں ہوتے بلکہ یہ لوگوں کی حفاظت کے لئے لگائے گئے ہیں۔ عجیب بات ہے مگر شاید کورٹ کے جج بہتر جانتے ہوں گے کہ جب عملاً شہر کے ایک حصے کو دوسرے سے اس طرح الگ کر دیا جائے کہ ویزا لے کر جانا بھی ممکن نہ رہے تو انسانی حقوق کیسے پامال نہیں ہوتے؟ یہ فیصلہ میرے لئے نہیں پوری قوم کے لئے حیران کن تھا۔ چیف جسٹس صاحب کو غور کرنا چاہئے۔ ایسے فیصلے عدالتوں کی ساکھ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ عدالتیں فیصلے شرطوں کے ساتھ نہیں دیتیں ۔ انصاف کرتی ہیں۔ فقط انصاف۔ میں نے اس سلسلے میں چیف جسٹس کو ایک تفصیلی خط لکھنے کا بھی سوچ رہا ہوں گو عموماً ایسے خطوں پر فیصلے نہیں ہوتے مگر میں اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔ میرے حقوق کی یقینا پامالی ہوئی ہے اور احتجاج میرا حق ہے۔

اگلے د ن ایک جج صاحب نے کچھ ایسے فرمایاکہ مارچوں سے پاکستان کے وجود کو خطرہ ہے۔ بالکل بھی خطرہ نہیں اگر جج حضرات دیانتداری سے لوگوں کو انصاف دے رہے ہیں ۔ کسی نے مجھے لکھا کہ پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
۱۔ نوح علیہ السلام کی عمر۔
۲۔ ایوب علیہ السلام کا صبر ۔
۳۔ قارون جتنی دولت ۔

پہلی دو باتیں ٹھیک ہیں مگر قارون جتنی دولت رکھنے والے کے لئے انصاف کا حصول بہت معمولی چیز ہے۔ یہ ملک جہاں انصاف بکتا ہے وہاں معقول پیسے معقول وقت پر معقول شخص پر خرچ کرنے سے انصاف کا حصول بہت آسان ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اس فن سے واقف ہیں کیونکہ ہر صاحبِ افتخار سے کوئی نہ کوئی ارسلان وابستہ ہوتا ہے جو نیکی کا افتخار کم نہیں ہونے دیتا۔ بھرم بھی قائم رہتا ہے اور رنگ بھی چوکھا آ جاتا ہے۔

اسلام میں انصاف مساوات کے اصول پر مبنی ہے مگر پاکستان کا نظام انصاف ہندوؤں کے طبقاتی نظامِ انصاف سے ملتا جلتا ہے۔ ہندو مذہب گورواداری اور مہر و مروت کی بات کرتا ہے مگر معاشرے کو فرائض اور کام کے اعتبار سے بہت سے طبقات میں تقسیم کرتا ہے۔ انسان کا کردار اس کے حقوق اور اس سے سلوک معاشرتی اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ وہ چیز جو ایک برہمن کے لئے جائز ہے۔ شودر کے لئے ممنوع قرار دی جاتی ہے۔ کچھ موٹے موٹے اصول ہیں جو سب پر لاگو ہیں مگر ان سے ہٹ کر ہر طبقے اور ہر شخص کے لئے اس کے رتبے اور ذات کے مطابق الگ الگ ضابطے اور معیار ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں بھارت نے طبقاتی انصاف کو بہت کم کیا ہے۔ریل، بسوں اور دیگر گاڑیوں میں برہمن لوگ نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ناپاکی کے شعور کے بغیر شانہ بشانہ سفر کرتے ہیں۔ قانوناً اور عملاً مندروں کے دروازے سب کے لئے کھول دئے گئے ہیں۔ذات پات کی تقسیم بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ بہت سی فضول رسومات قانوناً ختم کر دی گئی ہیں مگر پاکستان جہاں انصاف کی بنیاد مساوات پر ہے طبقاتی نظامِ انصاف کی طرف گامزن ہے۔اسلام میں ہر اصول سب پر لاگوہوتا ہے مگر یہاں ہر طبقے اور ہر شخص کے لئے اس کے رتبے اور ذات کے مطابق الگ الگ ضابطے اور معیار ہیں ۔ یہاں امیر کے لئے الگ، غریب کے لئے الگ، سرکار کے لئے الگ، عوام کے لئے ا لگ او ر خواص کے لئے الگ انصاف ہے۔ ایک ہی طرح کے دو مختلف کیسوں میں مختلف فیصلے عام ملتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو گلہ ہے کہ جس طرح بیوروکریسی ، ڈاکٹر، پروفیسراور فوج میں بھرتی کا ایک خاص معیارہوتا ہے، ہائی کورٹ کے ججوں کے لئے کوئی ایسا معیار کیوں نہیں؟ افسوس تو یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں بھرتی کا معیار صرف اور صرف جانثار ی رہا ہے اور اب بھی جانثار ہی جج بن رہے ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو عدلیہ کے وقار، ساکھ اور سربلندی کے لئے غور اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بغیر کسی دباؤ، سفارش اور سیاسی اثر رسوخ کے اہل لوگ جج کے طور پر ہائی کورٹوں میں آئیں تاکہ لوگوں کی داد رسی ہو اور لوگوں کے عدالتی مسائل کم ہو سکیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445269 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More