اخلاقی دیوالیہ پن اور اصلاح احوال کی ضرورت

عالم انسانی اور بالخصوص پاکستان جو اس وقت گوناگوں المیوں کی زد میں ہے اورمختلف النوع مقامی وعالمی مسائل کی ہولناکیوں سے کرۂ ارضی بد امنی وبدمزگی کی تصویر پیش کر رہا ہے ‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب عالم ِ بشری میں ان بلند پایہ انسانی اقدار اور عالی اخلاق کی پستی اور کمزوری کے سبب ہے جو اخلاق واقدار ماضی میں ہمارے مایۂ افتخاراسلاف اور عظیم المرتبت بزرگوں کی عظمت وسطوت کا راز تھے۔سلف صالحین کے اخلاق میں سے یہ ہے : لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ،اگرچہ وہ عمل نہ کریں اور برائی سے نہ رُکیں ، افسوس اس عادت ومزاج سے آج کل بہت لوگ خالی اورعاری ہیں ۔امیر المومنین حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ، جو برائی سے روکے اور فاسقوں سے دلی عداوت رکھے ، اور جب محرمات الہی کی پرواہ نہ کی جائے ،ناراض ہو، تو اﷲ تعالی بھی اس کے واسطے ان لوگوں سے ناراض ہوجاتے ہیں ۔حفص بن حمید ؒ سے کسی نے کہا ، سفیان ثوری ؒ کو کس چیز نے اس اعلی درجہ تک پہنچادیا ، حالانکہ ان کے زمانہ میں بہت سے عالم اور عابد ایسے تھے، جوزہداور علم وعبادت میں ان سے کم نہ تھے ؟آپ نے فرمایا ،اﷲ ان پر رحم کرے ،آپ نافرمانوں کو حقیر جاننے اور ان کی بے جار عایت نہ کرنے کے سبب اعلی درجہ پر فائز ہوئے ،آپ کا یہ حال تھا کہ بسا اوقات اگر آپ کسی برائی کو دیکھتے اور اسے روک نہ سکتے ،تو غم وغصہ کے سبب خون کا پیشاب ہونے لگتا۔

اویس قرنی ؒ فرماتے ہیں ،مومن کا حق پر قائم ہونا،اس کے لئے دنیا میں کوئی دوست نہیں چھوڑتا، اگر کوئی شخص لوگوں کو نیکی بات بتلائے یا برائی سے روکے ،تو اس پربڑی تہمتیں لگاتے ہیں اور اس کی عزت خراب کرتے ہیں ۔ابودرداء ؓ فرماتے ہیں ،امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ،ورنہ اﷲ تعالی تم پر ظالم بادشاہ مقرر کردے گا،جونہ تمہارے معزز کی عزت کرے گا اور نہ چھوٹے پر رحم کرے گا، پھر تم میں کتنے ہی نیک لوگ اس پر بد دعا کریں گے ،مگر قبول نہ ہوگی اور تم اﷲ سے امداد طلب کروگے لیکن تمہاری امداد نہ ہوگی او راستغفار کروگے مگر قبول نہ ہوگا۔

حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں ،میں عمر بن خطاب ؓ کے پاس گیا، انہیں غمگین اور متفکر دیکھا ، میں نے دریافت کیا ، آپ کو کس چیز نے مغموم کیا ؟ آپ نے فرمایا،میں ڈرتاہوں کہ کہیں میں کوئی گناہ کر بیٹھو ں اور تم میری تعظیم کرتے ہوئے مجھے فعل بد سے نہ روکو، تو حذیفہ ؓ نے فرمایا ،بخدا اگر ہم تجھے سچائی سے دور دیکھیں گے ،تو ضرور روکیں گے ، پس اگر آپ نہ رُکے تو آپ کو تلوار سے قتل کردیں گے ، یہ سن کر حضرت عمر ؓ خوش ہوئے اور کہنے لگے، اﷲ کا شکر ہے جس نیاس امت میں میرے دوست ایسے بنائے ہیں کہ اگر میں کج روی اختیار کروں گا، تو وہ مجھے سیدھا کردیں گے ۔ابوامامہ ؒ فرماتے ہیں ،اس امت کے بعض لوگ بندر اور خنزیر کی شکل میں قیامت کو اٹھیں گے، کیونکہ وہ نافرمانوں سے ملتے جلتے ہیں اور ان کو نافرمانی اور معصیت سے منع نہیں کرتے تھے،حالانکہ وہ انہیں روکنے کی قدرت رکھتے تھے ۔

علامہ شعرانی کہتے ہیں،جب نافرمانوں سے صرف مخالطت و اختلاط کرنے والوں کا یہ حال ہوگا، حالانکہ وہ خود عمل سے غافل نہیں ہیں ،توجن کے اعضاء گناہ سے باز نہیں آتے،ان کا کیا حال ہوگا، پس ہم اﷲ سے ان کی مہربانی ہی طلب کرتے ہیں ۔عبداﷲ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ،اﷲ کے نزدیک بڑا گناہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو بطور نصیحت کہے کہ تو اﷲ سے ڈر ،اور وہ اس کا جواب دے ،تو اپنے آپ کو سنبھال ۔سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں ، جب تم کسی شخص کو ہمسایوں اور ہمنشینوں کا محبوب ،پیار اور لوگوں کا مقرب دیکھو،تو جان لوکہ وہ مداہن یعنی دین میں سستی کرنے والا ہے ۔فی الحقیقت مداہن وہ ہے جو لوگوں کو ایسی باتوں سے خوش کرے، جن سے ان کے دین میں خلل ہو۔

مالک بن دینار سے مروی ہے، اﷲ تعالی نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں گاؤں پر عذاب کرو ،توفرشتوں نے بڑی عاجزی سے التجاکی ، اے اﷲ ! اس میں فلاں عابد تیرانیک بندہ ہے، اﷲ تعالی نے فرمایا ، اسے عذاب دے کر مجھے اس کی آہ و زاری سناؤ، کیونکہ اس کاچہرہ میری حدود کی پامالی دیکھ کر کبھی بھی متغیر نہیں ہوا۔کسی نے سفیان ثوری ؒ سے کہا، کیا وہ شخص بھی امربالمعروف کرے ، جسے یقین ہو کہ اس کی بات مقبول نہیں ہوگی ؟ آپ نے فرمایا ،ہاں ! تاکہ اﷲ کے نزدیک وہ معذور ہوجائے ۔ مالک بن دینار ؒ تأسفاًفرماتے تھے ،نیکی روتی ہوئی چلی گئی اور برائی ہنستی ہوئی آئی ہے ۔

علامہ شعرانی فرماتے ہیں:اے دوست ! ان خصلتوں کو اپنے اوپر جانچ تاکہ تجھے معلوم ہو کہ تو بھی برائی کو بر اجانتاہے یا نہیں نیز یہ کہ کیا تو ان لوگوں میں سے ہے جن کو اﷲ تعالی محبوب رکھتا ہے یانہیں ، اور کیا تونے رسول مقبول ﷺ کی شریعت کی امداد ونصرت کی ہے یا اسے بلا مدد چھوڑ رکھا ہے ، حالانکہ تجھے گمان ہے کہ تو ایک امتی ہونے کے ناتے رسول اﷲ ﷺ کا نائب ہے، لوگوں کو دین الہی کی طرف پکار تا ہے ،کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے بعد علمائے امت کو امین بنایاہے ، آج کل اکثر لوگوں نے اپنے افعال واقوال اور برائی پر خاموشی کرنے سے دین کو بے مدد چھوڑدیاہے اور گناہ سے باز رہنے اور نیکی پر عمل کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہوتی ،لا حول ولاقوۃ الا بااﷲ۔(أخلاقِ سلف،ترجمۂ ’’تنبیہ المُغتَرِّین،للشعرانی‘‘ از شاہ محمداحمدپرتابگڑھی، مکتبۂ لدھیانوی)َ

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817041 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More