اقلیتوں کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں

 معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور عدم برداشت کے رویوں نے ایک تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے ۔ ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے اور ہر طرف خوف و ہراس پھیلی ہوئی ہے۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے بلکہ دین کے معاملات کو ملاؤں پر چھوڑدیا ہے اور نام نہاد ملاؤں نے بھی مذہب اسلام کی اصل روح کو لوگوں تک نہیں پہنچایا ہے اسلام میں حقوق اﷲ سے زیادہ حقوق العباد پر زور دیا گیاہے ۔ اسلام مساوات، اخوت اور ہمدردی کا مذہب ہے اور اسلام تو اقلیتوں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اسلام تمام مذاہب کے ماننے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 20کے تحت ’’ ہر شہری کو مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہے اور ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔ ’’ــ مگر ز مینی حقائق کچھ اور ہیں حفظ و امان کا بہانہ بنا کر کوئٹہ میں ہندوبرادری کے مذہبی عبادگاہوں کو محکمہ اوقاف کے حوالے کیا گیا جس میں کمرشل علاقوں کی دوکانیں بھی شامل ہیں جس کی آمدنی پتہ نہیں کہاں خرچ کی جاتی ہے اور اس کا کوئی حساب کتا ب بھی کسی متعلقہ شخص یا ادارے کو نہیں دیا جاتاجو کہ سراسر آئین سے انحراف کے مترادف ہے اس کے علاوہ مختلف علاقوں سے ہندوؤں کو اغوا کیا جا رہا ہے تو کہیں سکوں کے مذہبی کتاب کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ کہیں قرآن پاک کی بے حرمتی ہو رہی ہے تو کہیں عیسائیوں کے گھر جلائے جا رہے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ صدیوں سے بھائیوں کی طرح ایک ساتھ رہنے والے اور ایک ساتھ کاروبار کرنے والے ہندو ،عیسائی، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ایک انجان سے خوف اور نفرت کے کیفییت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ مذہبی اقلیتیں جنہوں نے تقسیم ہند کے انتہائی تکلیف دہ ماحول اور حالات کو برداشت کرکے اپنے آباواجداد کی سرزمین پر رہنے کو ترجیح دی آج ہماری بے حسی کی وجہ سے اس ملک سے نکل مکانی پر مجبور ہیں۔ ان مذہبی اقلیتوں نے ہمارے اس معاشرے کو بنانے میں دن رات ہمارے اسلاف کے ساتھ مل کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں گرانقدر خدمات سرانجام دیے آج وہ خود کو بے بس اور غیر محفوظ محسوس کرکے ہم سے دور بھاگنے پر مجبور ہیں کیا یہی اس معاشرے کا مستقبل ہے؟

اگرچہ ہمارا معاشرہ بھاری اکثریت سے مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس معاشرے میں وہ ثقافتیں بھی رچی بسی ہیں جو اس خطے میں اسلام کی آمد سے قبل یہاں موجود تھیں اور اسلام کے آنے کی بعد بھی اسی طرح اس معاشرے کی خوبصورتی کا حصہ بنتے رہے۔ اسلام نے روشن خیال تصورات ، رواداری اور برداشت کو فروغ دیا جس کی بدولت یہ خطہ امن و آتشی کا گہوارہ کہلاتا تھا۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ معاشرے میں ہر مذہب اور فرقے کے انسان رہتے ہیں اور اکثر اوقات انسان کا ایک دوسرے سے واسطہ رہتا ہے انسان معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ سارے انسان ایک ہی باپ حضرت آدم اور ایک ہی ماں حضرت حوا کی اولاد ہیں اسی لیئے اﷲ تعالی اپنے بندوں سے اعلی اخلاق اور باہمی احترام کا طالب ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی تعصب اور نفرت کی بنیاد اس وقت ڈالی گئی جب تحریک پاکستان کو مذہب کے نام سے جوڑا گیا اور عام مسلمان کو یہ تاثر دیا گیا کہ صرف تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی صورت ہی میں ہم اپنے مذہب اور عقیدے کو تحفظ دے سکیں گے ورنہ ہمارا مذہب خطرے میں ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں بسنے والے مسلمانوں میں یہ خیال پروان چڑھا کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہے اس میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قیام پاکستان کے بعد جب یہاں کی سیاسی قیادت لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی تو انہوں نے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو طفل تسلیاں دینا اور مذہب کے نام پر سبز باغ دکھانا شروع کیا تاکہ ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے اور اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے ہر مسئلے کی وجہ بیرونی اور دوسرے مذاہب کی سازش قرار دے کر مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے درمیان نفرت کا بھیج بودیا گیا۔ اور اس تسلسل کو مذہبی سیاسی پارٹیاں اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں اور نوجوانوں کو مذہب کے نام پر دوسرے مذاہب سے نفرت کرنے اور مذہبی رواداری کو ختم کرنے کیلئے مذہبی درسگاہوں میں ان کی تربیت و ذہن سازی کی جارہی ہے ۔ آج بھی مذہبی جماعتیں اور حکمران اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کیلئے مذہبی جذبات کو بھڑکاتے رہتے ہیں جس کا نشانہ مذہبی اقلیتیں ہی بن رہی ہیں اور ان میں بے چینی پھیل رہی ہے اور وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

بلوچستان اس حوالے سے سب سے پر امن علاقہ رہا ہے جہاں ماضی میں اقلیتیں مضبوط قبائلی روایات کے تحت آزادانہ زندگی گزارتی رہی ہیں یہاں تک کہ ان کے لئے اقلیت کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور انہیں معاشرے کا ایک اہم رکن سمجھاجاتا تھا۔ آج بھی اندرون بلوچستان اکثر علاقوں میں اقلیتی برادری کے لوگ اپنے آپ کو بگٹی، مینگل ، سنجرانی، نوتیزی وغیرہ کہتے ہیں اور قبائلی معاشرے میں لوگوں کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں، اس کے علاوہ بعض علاقوں مالی معاملات میں قبائلی سربراہان مسلمانوں سے زیادہ اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں پر بھروسہ کر تے ہیں اور ان علاقوں میں وہ دیگر علاقوں سے آئے ہوئے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری بھی نواب و سردار ان پر ڈالتے ہیں ۔ عیسائی برادری کا تعلیم کی ترقی میں نہائت ہی مثبت اور بہت بڑا کردار ہے اس سلسلے میں کئی اسکول کام کر رہے ہیں اور ان میں مسلما ن اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچے حصو ل تعلیم میں مصروف ہیں ،سکھ برادری ، پارسی برادری اوربھائی کمیونٹی کے لوگ بھی بغیر کسی کو نقصان پہنچائے نہ صرف اپنے دینی عقائد پر قائم تھے بلکہ سیاسی اور سماجی طور پر مسلمانوں کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی ترقی کے لئے جد و جہد میں شامل رہے ہیں مگر گذشتہ چند سالوں سے ان علاقوں کو کسی کی نظر لگ گئی ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ اور کچھ دیگر علاقوں میں اقلیتی برادری کے لوگوں کو اغوا برائے تاوان اور تشدد کے ذریعے حراساں کیا جا رہاہے جس کے نتیجے میں وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں تو پہلے سے ہی مذہبی منافرت اتنی پھیل چکی ہے کہ فضاء ہر طرف زہر آلود ہے اب بلوچستان کے نسبتا سیکولر معاشرے میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو بہت ہی منظم طریقے سے اور وسیع پیمانے پر پروان چڑھایاجا رہا ہے یہاں کالعدم مذہبی تنظیموں کی سرعام بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ،رکن صوبائی اسمبلی ہینڈری مسیح بلوچ کا قتل ‘ ہزارہ برادری کے زائر ین کی بسوں پر خود کش حملے اور مختلف شہروں میں نفرت پھیلانے والے اور انتہا پسندانہ وال چاکنگ ،زہر آلود تحریری مواداور جلسے جلوس اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ سارے کا م شعوری بنیادوں پر کیے جارہے ہیں اور ان کے منفی اثرات یقینا ہمارے بچوں اور نوجوانوں پر پڑ رہے ہیں اور معاشرے کے دیگر مسائل جیسے غربت، بے روزگاری اور ناانصافیوں کے شکار مایوس نوجوان ان انتہا پسند گروہوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں جوان معصوم ذہنوں کو با آسانی برین واش کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں ظلم و تشدد، عدم برداشت ، ناانصافی اور بد امنی پھیلانے میں بہت سے دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں جن میں ہماری اپنے ثقافتی اقدار سے دوری، مذہبی منافرت پھیلانے والے گروہوں کی سرکاری سرپرستی ، موجودہ تعلیمی نصاب اور انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی کی کمی سرفہرست ہیں۔

ہمیں اپنے معاشرے کو بدامنی ، عدم برداشت اور مذہبی اقلیتوں پر ظلم اور ناانصافی سے پاک کرنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو مذہبی برداشت اور ہم آہنگی کا درس دینا ہوگا۔ ہمیں آگے بڑھ کر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کوجو تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں سہارا دینا ہو گا اور ان کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ انہیں یقین ہو کہ ہمارے ساتھ رہ کر ان کی جان و مال، عزت و آبرو اور جائیداد محفوظ ہیں۔ ہمارے موجودہ نصاب تعلیم میں مذہبی تعصبات اور منافرانہ اسباق کی موجودگی میں تعلیم کا اصل مقصد حاصل کرنا تو دور کی بات بلکہ ہم ایسے نسل تیار کررہے ہیں جس میں نفرت کا بیج اتنا گہرا ہو گا کہ نہ تو وہ دنیا کے ساتھ چل سکیں گے نہ خود پر سکون زندگی گزارسکیں گے اور نہ ہی ماحول کو پرامن رہنے دیں گے۔ ہماری دینی درسگاہوں اور اسکولوں کو معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی، بھائی چارے، امن اور برداشت پیدا کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ادارے نفرت اور تعصب پھیلانے میں انتہا پسندوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ہمیں اسکول کی سطح پر اپنے بچوں کو انسانی حقوق کی تعلیم دینی ہوگی تاکہ بچپن سے ہی ان کی ذہن سازی کی جاسکے اور انہیں انتہا پسندی ، بے راروی، عدم برداشت اور مذہمی منافرت سے بچایا جاسکے۔

اس حوالے سے ساؤتھ ایشیا ء پارٹنرشپ پاکستان نے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے جو قدم اٹھایا ہے وہ نہایت ہی اچھا اور قابل تعریف ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے سول سوسائٹی اور سیکولر سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک کے آئین میں موجود ایسے تمام امتیازی قوانین کو ختم کرنے اور تعلیمی نصاب کو ایسے زہر آلود اور مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والے تحریری مواد سے پاک کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ہمیں نہ صرف اپنے بلکہ پوری دنیا کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے انتہاپسندی اور تشددکی سوچ اور اس کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا اور مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کو ہر سطح پر فروغ دینا ہوگا تاکہ اس ملک میں ایک صحیح جمہوری نظام کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے جہاں تمام انسان مکمل آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور بلا رنگ و نسل و مذہب، جنس اور ذات پات کے تعصب سے بالا ترہو کر تمام انسان مل کر رواداری اور بھائی چارے کے ماحول میں رہ سکیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔
Gul Khan Naseer
About the Author: Gul Khan Naseer I am a development professional, social and human rights activist working since last 15 yeas for promotion of education, human rights, peace building .. View More