جسم نہیں سوچ آزاد کرو

اگر آپ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ بہادر نہیں طاقت ور جانور کونسا ہے تو بہت سی سوچ و بچار کے بعد اکثریت کا جواب ایک ہی ہوگا کہ ہاتھی ،ہاتھی کی طاقت سے کسی کو انکار نہیں آپ نے اکثر چڑیا گھر، سرکس،یا کسی اور جگہ پر ہاتھی ضرور دیکھے ہونگے،اپنے قلے پر کمزور سی رسی کے ساتھ باندھا ہوا یہ ہاتھی اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اسکی طاقت کتنی ہوتی ہے اور یہ رسی جو،اس کے گلے میں پڑی ہے اس کے اگے کوئی حیثیت نہیں رکھتی،مگر ہاتھی ساری زندگی اس رسی کا غلام بنا کھڑا رہتا ہے ،اس کی نظر میں وہ رسی اتنی مضبوط ہے کہ وہ اسے توڑ نہیں سکتا ،ایسا کیوں ہوتا؟ کبھی آپ نے سوچا ؟اسکی وجہ یہ نہیں کہ قلا، یا رسی ہاتھی کی طاقت سے زیادہ مضبوط ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچپن سے ہی ہاتھی کو اس کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جب اسے یہ سنس نہیں ہوتا اور اس وقت اگر وہ زور لگائے بھی تو وہ کمزور ہوتا ہے وہ اسے توڑ نہیں سکتا اور اس کی نفسیات میں اس کی سوچ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی بلا ہے۔ جس کو میں نہیں توڑ سکتا اور وہ اس کے سامنے خود کو بے بس سمجھتا ہے ۔بالکل یہی حال غلام قوموں کا، غلام معاشروں کا ،اور غلام سوچ رکھنے والے انسانوں کا ہوتا ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر اس نے انسانی آقاء کے سامنے آواز اٹھائی تو اس کا روزی پانی بند ہو جائے گا ،اگر اس نے سچ بولا تو اسے مارا جائے گا ، جس طرح ہاتھی اصل میں رسی سے نہیں بلکہ اپنی سوچ اور نفسیات سے باندھا ہوتا ہے اسی طرح غلام قوموں کے حکمرانوں اور ان کی عوام کی سوچ میں خوف ڈال کر ان کو غلام بنا دیا جاتا ہے ،قومیں کبھی جسمانی غلام نہیں ہوتی بلکہ وہ سوچ اور خیال کی غلام ہوتیں ہیں ،ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنی تاریخ سوچ کی غلام، حکمرانوں سے بھری ملے گی ،ہماری تربیت بھی ایسی کی جاتی ہے کہ ہم اﷲ پر یقین برائے نام رکھتے ہیں اصل میں ہمارا یقین روزی روٹی دینے کا زندگی اور موت کا عزت اور ذلت کا اﷲ سے زیادہ انسانی طاقت پر ہے ،امریکہ، اور دوسرے یورپی ممالک پر ہے ،اور اس کا عملی ثبوت ہم آئے روز اپنے اور امت مسلمہ پر ہونے والے بے جا ظلم کو برداشت کر کے اور اس کو تسلیم کر کے دیتے ہیں ۔وڈیرہ چاہئے کسی علاقے کا ،خطے کا ، یا ملک کا ہو ہمارا ایمان اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ ہم اس کو اپنا سب کچھ مانتے ہیں ،ہم طاقت رکھتے ہوئے بھی کسی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،ظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے ۔یہاں تک کہ عوام سے لیکر حکمران تک اپنے ساتھ کسی بھی طرح کی ،معاشی، سیاسی، اقتصادی، انفراردی ،اجتما عی،ہونے والی نا انصافی کو نا انصافی نہیں کہے گے بلکہ اس کو اپنا حق کہہ کر اس غلامانہ سوچ کو اگے والی نسل کو منتقل کر دیں گے کہ یہ سب ٹھیک ہے۔زمانہ جہالت سے لیکر موجودہ دور میں بھی انڈیا میں ایک مذہب ایسا ہے جس کے مرد،روزانہ شام کو اپنی بیویوں کو بلا وجہ تھپڑ مارتے ہیں ان پر ظلم کرتے ہیں،ان کی بیویوں کو یہ سیکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ مار آپ کا حق ہے اور اس کو سہنا آپ کی سہادت اور اس فرقے کی عورتیں ہنس کر یہ سب کچھ برداشت کرتی ہیں بلکہ جس دن ان کو خوامخواہ تھپڑ نہ لگے تو وہ یہ سمجھتی ہیں کہ آج ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا، کیونکہ ان کی سوچ میں بس یہی ڈالا جاتا ہے ،اور یہ سلسلہ نسل در نسل اعزاز کے ساتھ جاری ہے ۔یہی حال ہمارا ،اس قوم کا اور ہمارے حکمرانوں کا ہے کہ اپنے ساتھ یا اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ظلم کواپنا حق سمجھتے ہوئے ظالموں کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔غلام سوچ ، اور غلامی کا یہ سلسلہ ہمارے ہاں حکمرا نوں اور سیاست دانوں تک ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ،ایک طاقت ور انسان دوسرے انسان کو انسان نہ سمجھتے ہوئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے ،اس سے اپنی مرضی کا کام لیتا اور پھر اجرت بھی اپنی مرضی کی دیتا ہے،اگر کوئی ملازم اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف بولے تو اپنی چوہدراہٹ کو اپنا حق اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کو اس کا حق کہہ کر انسانیت کی تعریف بیان کر دی جاتی ہے ۔ایک مزدور سے لیکر عام کام کرنے والے تک ،ایک گھر میں کام کرنے والے سے لیکر کسی ادارے میں کام کرنے تک،اپنی اپنی جگہ ہر کوئی اپنی دلیل کی کتاب کھول کر فراعون بنا بیٹھا ہے۔غلامی کی یہ زنجیر لڑی با لڑی ایک آدمی سے بڑتی ہوئی ملک اور حکمرانوں تک جا پہنچتی ہے،جیسا سلوک ایک شخص اپنے سے جونیئر کے ساتھ کرتا ہے ۔ اسکے ساتھ اس سے بھی برا ہوتا ہے حکمران عوام کے سامنے خدا بنے ہوتے ہیں اور پھر حکمرانوں کے اوپر ایک اور غیر مسلم خدا بنا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ غلامی کا ،ظلم کا ،جبر کا جاری رہتا ہے ۔کچھ غلام تو ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس سوائے بے بسی کے کوئی چارہ نہیں مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو تمام طرح کی طاقت رکھنے کے باوجود بھی خود کو ہی نہیں بلکہ ساری قوم کو دوسرے کا محتاج بنائے رکھتے ہیں۔ ہمارے لیڈروں کو سیاست دانوں کو، بااختیار لوگوں کو اس سوچ سے نکلنا ہوگا ۔زبانی بیانات دینے سے کشمیر آزاد نہیں ہوگا، فلسطین پر ظلم کم نہیں ہوگا، بھارت اپنی بربریت کم نہیں کرے گا۔ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ آزادی اور خود مختاری سے جینے کا نہ صرف خود ڈھنگ سیکھیں بلکہ اپنی عوام کو بھی اور اپنی آنے والی قیادت کو بھی بتائیں کہ ہمارا طرز زندگی اور طرز حکمرانی غلامی نہیں بلکہ اﷲ اور اور کے رسول کی اطاعت ہے،دنیا میں کسی طاقت کی چاپلوسی نہیں کرو۔جسم نہیں سوچ آزاد کرو۔دشمن کو یہ بتاو کہ ہم آپ سے تعلق رکھ سکتے ہیں غلامی نہیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.