تاریخ چمن گلستان و قلعہ عبدللہ

 چمن جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقعہ اور کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریبا ٧٨ میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ خوجک پہاڑ کے شمالی دامن میں ایک نشیبی زمین پر پھلا ہوا چھوٹا دلچسپ شہر ہے۔ اور گو پانی بہت نیچے ہیں اور سبزے اور اشجار کی کمی ہیں پھر بھی غیر ملکی سامان خصوصا الیکٹرانکس آلات ، ماڈل برتنوں اور کپڑوں کی مشہور منڈی ہے۔ یہاں سے افغان سرحد صرف ٢ میل کے فاصلے پر ہے ۔ اور افغانستان کا پہلا سرحدی قصبہ سپین بولدک چمن سے چھ میل کے فاصلے پر ہے ۔ چمن سے ٧ میل جنوب مشرقی خوجک پہاڑ کے دامن میں پرانا چمن واقع جہاں پہاڑ چشمے کا پانی قلیل مقدار میں بہتا ہے ۔ انگریزوں نے خوجک کو سن ١٨٣٩ میں عبور کرنے کے بعد سب سے پہلے یہاں چھانی قائم کی ۔ اور ڈیرہ جما لیا تھا ۔ اس علاقے میں روغانی اور آبتو نام کے دو کاریزیں واقع ہیں ۔ جو بلترتیب چمن سے ١١ اور ١٨ میل دور ہیں ۔ شمال مشرق کی طرف توبہ اچکزئی کا سرد اور پہاڑی علاقہ واقع ہے ۔ جس کی سطح سمندر سے بلندی ٨١٠٠ فٹ ہے ۔ جس میں فراخی چنار اور تبینہ کے میدانی علاقہ واقع ہیں ۔ خوجک کا پہاڑ جس کا دوسرا نام خواجہ عمران یا توبہ کا پہاڑ بھی ہے ۔ چمن کے جنوب مشرق میں ٢٥ میل کی لمبائی تک ایک دیوار کی طرح پھیلا ہوا ہے ۔ چمن کے لیئے پینے کا پانی توبہ ہی کے پہاڑی سلسلے بوغرہ سے ہی آتا ہے ۔ خواجہ عمران اس سلسلہ کوہ کی سب سے بلند چھوٹی ہے ۔ جو پشین سے مغرب کی طرف واقع ہے ۔ اور جو سردیوں میں چند دنوں کے لیئے برف سے ڈھک جاتی ہے ۔ یہ چوٹی آبتو کاریز سے قریب تر ہے ۔ یہاں ایک تاجک بزرگ مدفون ہے ۔ جن کی بہن نانگی کا مزار ریگیستان میں واقع ہیں ۔ خواجہ عمران کے مزار تک مختلف راستوں سے پہنچا جا سکتا ہے ۔ مشرق کی طرف گلستان سے براستہ خوڑگی یا خولگی ٥ میل مغرب کی طرف براستہ سایہ چمن ٨ میل اور شیروباغ ساڑھے ٣ میل مزار کے قریب اچکزئی قبیلہ عثمان زئی سکونت پزیر ہیں ۔ جو مزار کی پرداخت کرتے ہیں ۔ اس مزار کو چمن کے محمد رفیق خان اچکزئی رسالدارمیجر لیویز اور ان کے دادا خان بہادر غلام حیدر خان اچکزئی نے تعمیر کرایا تھا خواجہ عمران زیارت کی چوٹی سمندر سے ٨٨٦٤ فٹ بلند ہے ۔ چمن کے شمال مغرب کی طرف اس رخ ریگستان کا علاقہ ہے ۔ جو ایک طرف تو قندھار تک چلا گیا ہے ۔ ٢٣یا ٢٥ میل دور تک اور دوسری طرف بجانب پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا سرحد ایران چلا گیا ہے ۔ اس ریگزار اعظیم کے کنارے چمن ، قندھار ، ہرات ، نوشکی اور زاہدان وغیرہ کے شہر واقع ہیں ۔ چمن اور نوشکی کی آب و ہوا میں حیرت انگیز مماثلت ہیں ۔ وہ دونوں ریگستان کے کنارے واقع ہونے کے باعث ہے ۔ خوجک پہاڑ سے سڑک گزرتی ہیں جو ١٨٣٩ میں پہلی افغان جنگ کے واقع پر انگریزوں نے بنائی تھی اور ریلوے لائن بھی اس درے سے گزرتی ہیں جو ١٨٨٨ تا ١٨٩١ میں انگریزوں نے بنائی تھی ۔ براعظم ایشیا کی مشہور سرنگ جس کی لمبائی ٣ میل ہے اسی پہاڑ میں واقع ہے ۔ خوجک یا کوژک کے درے کے علاوہ اس پہاڑ میں اور بھی درے ہیں ، خوجک سرنگ کے جنوب سرے پر شیلاباغ اور شمالی سرے پر سپینہ گردانہ کا سٹیشن ہے ۔ شیلا باغ میں پشین سکاوٹس پوسٹ بھی قائم ہے ۔ چمن شہر کے شہری اپنے ضروریات کا پانی کاریزوں سے پُرا کرتی ہیں ۔ جو بوغرہ کاریز اور خوجک سرنگ سے پائپوں کے ذریعے چمن شہر تک پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ اور اسی طرح گلستان اور قلعہ عبداللہ میں بھی لوگ کاریزوں اور چشموں کا پانی استعمال کرتے ہے ۔ تحصیل گلستان کا نام گلستان خان اچکزئی (حمیدزئی ) جو امیر افغانستان تیمورشاہ ولد احمد شاہ ابدالی کے دور میں گورنر پشاور تھے کے نام پر ہے ۔ جس نے گلستان کاریز کھدوائی اسے بعد میں سیگئی کے ترینوں نے خریدا اور ان سے یارمحمد خان اور عبداللہ خان اچکزئی نے خرید لیا جو اب قلعہ عبداللہ خان وہی عبداللہ خان اچکزئی کے نام سے منسوب ہے ۔ یہ کاریز پشین تحصیل کی سب سے بڑی کاریز تھی ۔ اس کاریز سے گلستان کے حمیدزئی ( جلیزئی ) ، عبدالرحمن زئی کے کاکڑوں اور سیدوں کو پانی بلترتیب تقسیم کیا جاتا تھا ۔ دوسری بڑی کاریز عنایت اللہ کاریز کا ہے ۔ جیسے امیر افغانستان تیمور شاہ ولد احمد شاہ ابدالی کے وزیر شیردل خان اچکزئی ( حمیدزئی ) نے کھدوایا تھا ۔ اسے عنایت اللہ خان اچکزئی کے والد بوستان خان اچکزئی نے خریدا ۔یہ کاریز برخوردار خاندان جن کا امیر محمد حسن تھا محمد حسن خان اچکزئی کے والد فتح خان اچکزئی قندھار کا گرنر تھا ۔ اس کاریز کا مالک تھا ۔ اس کاریز سے لاجور کے سیدوں کو بھی پانی دیا جاتا تھا ۔ اور اس کاریز کا مالیہ معاف تھا ۔ گلستان ریلوے اسٹیشن شہر سے دو میل دور کلی لاجور میں میں بنایا گیا تھا ۔ اسٹیشن کے لئے پانی عنایت اللہ کاریز سے پائپوں میں آتا ہے ۔ اور اسی طرح دلسورہ کاریز قلعہ عبداللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کاریز زرتشتی مذہب کے لوگوں کھدوائی تھی ۔ جیسے بعد میں کاکڑوں نے خریدا اور اس کے بعد عبداللہ خان اچکزئی ولد شادی خان اچکزئی نے خریدا اس کاریز کا مالیہ معاف تھا ۔ اور یہ کاریز تاج محمد خان اچکزئی اور ان کے اولادوں کی ملکیت ہے ۔ قلعہ عبداللہ کوئٹہ سے ٥٩ میل اور چمن سے ٣٠ میل کے فاصلے پر ہے ۔ خواجہ عمران بابا کی پہاڑی کے جنوب مغرب میں سرلٹ کے پہاڑ ہیں ۔ جو وادی پشین کو افغانستان کے علاقے شوراوک سے جدا کرتے ہیں ۔ خواجہ عمران کے پہاڑوں میں پستے کے درختوں کو جنگل تھا جیسے بعد میں ریلوے لائن کے بنانے کے دوران بے تحاشہ کاٹا گیا رواش بھی ان چند پہاڑوں میں پایا جاتا ہے ۔ مقامی روایات کے مطابق تاشروبات کی وادی کاکڑوں کے قبضے میں تھی وہاں سے انہیں مری بلوچوں نے بے دخل کیا اس کے نتیجے میں مقبرہ بھی باقی ہے جو شہیدان نامی جگہ اب بھی واقع ہے ۔ یہ علاقہ اچکزئیوں نے مری بلوچوں سے آزاد کروایا احمد شاہ ابدالی نے الکوزیوں کو دیا جیسے بعد میں اچکزئیوں نے خریدا ۔ چمن گلستان اور قلعہ عبداللہ کی اکثر آبادی اچکزئی قبائل پر مشتمل ہے ۔ افغانستان کے حکمران خاندان سے خونی رشتہ ضلعی سرحد کے آر پار قیام اور مقام کے حیثیت اور آبھی حال ہی میں قبضہ میں آنے کی بدولت اچکزئی ضلع کے اہم ترین قبیلہ میں سے ایک ہے ۔ حیات خان کی تاریخ افغانستان کی رو سے ان کے مورث اعلیٰ بور ترین المقلب بہ ابدال سے دو بڑے حصے زیرک اور پنجپائی ماخوذ ہیں ۔ زیرک میں پوپلزئی ، بارکزئی اور الکوزئی شامل ہیں ۔ اور پنجپائی میں نورزئی ، علی زئی ، اسحاق زئی ، خاکوانی اور ماکو پر مشتمل ہیں ۔ اچکزئی اصلا بارکزئی کی شاخ ہیں ۔ لیکن احمد شاہ ابدالی جو خود بھی ابدال تھا نے بارکزئیوں کی روز آفزوں تعداد سے ڈرکر انہیں سواد اعظم سے الگ کر لیا اور اس وقت سے وہ ایک جدا گانہ تنظیم کے مالک ہیں ۔ افغانستان کے محمد زئی امرا ان کے ہم جد ہیں ۔ اور عمر خانزئی کے ذریعے ایک اور شاخ سے مشترکہ بارکزئی مورث کی اولاد ہیں ۔ قد اور کاٹھ میں اچکزئی بلوچستان کے نفیس ترین افغانوں میں سے ہیں ۔ اور انتہائی مستعد اور جفا کش ہیں ۔ اکثر اچکزئی خود کاشت زمینوں کے مالک ہیں ۔ علیزئی اور کچھ حمیدزئی افغانستان سے تجارت کرتے ہیں ۔ شمکزئی قلعہ عبداللہ میں لکڑی بیچ کر اضافی آمدنی پیدا کرلیتے ہیں ۔ کچھ عشیزئی اور کاکوزئی پشین کے ترینوں اور سادات کے دیہات میں بزگر بھی ہیں ۔ جب ١٨٣٩ میں افواج سندھ گزریں تو اچکزئیوں نے درہ خوجک میں مشکلات پیدا کیں ۔ لیکن تھوڑی ہی عرصے بعد ان میں سے کئی اس بے قاعدہ فوج میں بھرتی کرلئے گئے ۔ جو قلعہ عبداللہ میں تیار کی گئی تھی ۔ اس وقت ان کے معتبرین میں سے دو حاجی سربلند خان اچکزئی ولد یار محمد خان اچکزئی اور عبداللہ خان اچکزئی ولد شادی خان اچکزئی تھے ۔ حاجی سربلند خان اچکزئی اور اس کا بھتیجا صالح محمد خان اچکزئی ولد شاہ نواز خان اچکزئی بحال کردہ سدوزئی خاندان کے طرف دار تھے ۔ اور آخر جنگ تک انگریزوں سے مخلص رہے ۔ عبداللہ خان اچکزئی بارکزیوں کا حامی تھا ۔ اور کابل میں انگریزوں کا ایک زبردست دشمن تھا ۔ وہ اور اس کے دو بیٹھے ١٨٤١ کے جنگ میں کام آئے ۔ اس کے کچھ ورثا جو قلعہ عبداللہ کے عرضبیگیوں کے عمزاد ہیں ۔ اب قندھار اور کابل میں امیر کی افواج میں ملازم ہیں ۔ اچکزئیوں نے دوسری افغان جنگ ١٨٨٠ کے ابتدائی مراحل میں پھر سر اُٹھایا ۔ چنانچہ ستمبر ١٨٨٠ میں چمن سے ایک لشکر جرار جنرل بیکر کی قیادت میں توبہ اچکزئی کی سطح مرتفع کو روانہ ہوا ۔ جس کے باشندوں نے پشین میں چھاپے مارنے کے علاوہ درہ خوجک بند کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اور ٹیلی گرام کی تار کھاٹ بھی دی تھی ۔ اور اُٹھا کر لے گئے تھے اور انہوں نے اطاعت قبول کر لی تھی ۔ اور درہ خوجک کے پار چمن اور گلستان کے درمیانی چوکیوں کی حفاظت پر مامور کر دئیے گئے اس ملازمت میں ١٨٨١ میں توسیع کر دی گئی ۔ اور ان کے سردار حاجی سربلند خان اچکزئی کو تا حیات پینشن دی گئی ۔ ١٨٨٢میں اچکزئی لوٹ مار کی شکایت پر توبہ کے ملوک کے ساتھ مذاکرات کئے گئے اور ایک لشکر اس علاقے کی گشت پر بھیجا گیا اور لیویز سروس کو ازسرنو تقسیم کیا گیا ۔ ١٨٩٥ میں اچکزئیوں سے مالیہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ جس کا ذکر مالیہ زمین کے باب میں ہوگا ۔ ١٨٩٥ میں افغانستان کا وہ حصہ جو اب کوئٹہ پشین میں شامل ہیں ۔ افغان باونڈری کمیشن نے قطعی طور پر افغانستان سے الگ کر دیا ۔ حسب معمول افغانستان میں اچکزئیوں کا کوئی مسلمہ سردار نہ تھا ۔ بلکہ افغان ادوار میں دستور یہ تھا کہ وہ کسی خاص خاندان سے کسی کو حکومت کی طرف سے قبیلے کا سربراہ مقرر کردیتے تھے ۔ تاکہ وہ حتی المقدار اور ان رسوائے زمانہ لوٹ مار کے رجحانات کو راہ اعتدال پر رکھے ۔ حمیدزئی قوم کے ذیلی شاخ جلیزئی اور جلیزئی کے دو شاخیں بڑی شاخ برخوردار کہول اور چھوٹی شاخ عرض بیگئی کہول تھی ۔ ان دونوں نے آخری سدوزئیوں کو دور حکومت میں کافی اقتدار حاصل کرلیا تھا ۔ ١٩٠٥ میں برخوردار کہول کی نمائندگی عنایت اللہ کاریز کے اچکزئی کرتے ہیں ۔ اور عرض بیگ کہول کے نمائندگی قلعہ عبداللہ اور گلستان کے اچکزئی کرتے ہیں ۔ عنایت اللہ کاریز مین برخوردار کہول کے موقر نمائندے محمد حسن ہیں لیکن اب یہ کافی حد تک بے اثر ہو چکے ہیں ۔ عرض بیگئی کہول کے نمائندے خان بہادر غلام حیدر خان اچکزئی ( عرض بیگئی ) ولد عثمان خان اچکزئی سربراہ توبہ لیویز عبدالحمید خان اچکزئی سربراہ گلستان لیویز تاج محمد خان اور عبدالصمد خان اچکزئی ڈپٹی انسپکٹر پولیس تھے ۔ ان کے پاس بھی متعدد زمینات تھی ۔ عبداللہ خان اچکزئی جس کا پہلے ذکر کیا گیا کا ایک بیٹا محمد اسلم خان اچکزئی برطانوی قنضہ سے چند سال پہلے اچکزئیوں کا سرکاری طورر پر سردار تسلیم کر لیا گیا تھا ۔ لیکن ١٨٨٨ کے پُرآشوب دور کے بعد یہ احساس ہوا کہ محمد اسلم اچکزئی اور اس کے بیٹے اچکزئیوں کو قابومیں نہ رکھ سکتے تھے ۔ لہذا عبدالحمید خان عرض بیگئی ولد امیر بلند خان اچکزئی اور چھچا سربلند خان اچکزئی ولد یار محمد خان اچکزئی کو سردار بنا دیا گیا ۔ قندھار چھوڑنے کے بعد سردار سربلند خان اچکزئی بمعہ اہل و عیال پشین منتقل ہواتو اس نے تمام سرداری سنبھال لی عبداللہ خان اچکزئی اور سردار سربلند خان اچکزئی کے درمیان خاندانی اختلافات تھے ۔حاجی سربلند خان اچکزئی قبیلے کا دروبست کا مالک رہا لیکن ١٨٣٣ میں مستعفی ہو گیا لہذا عبدالحمید خان اچکزئی کو اس منصب پر بحال کر دیا گیا ۔ یہ انتظام ١٨٨٩ تک جاری رہا اور پتہ چلا کہ عبدالحمید خان اچکزئی کے آدمیوں نے مجرموں کا پیچھا کرنے اور پکڑنے اور لوٹ مار کا مال واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک خان کی وساطت کی بجائے قبیلہ کے مختلف اجزا کے ملوک کے ذریعے براہ راست گرفت بہترین رہے گی چنانچہ لیویز سروس کی ازسرنو تقسیم کی گئی عبدالحمید خان اچکزئی کی طاقت کم کرکے میجر رسالدار توبہ لیویز محمد علی خان اچکزئی کے چچا خان بہادر غلام حیدر خان اچکزئی ولد عثمان خان اچکزئی اور عبدالحمید خان اچکزئی کی نفری بڑھا دی گئی اور اس پر زیادہ ذمہ داری عائد کر دی گئی اُس وقت سے اب تک توبہ کے اچکزئیوں پر براہ راست گرفت وسیع کر دی گئی ہے اور خان بہادر غلام حیدر خان اچکزئی ہی زیادہ تر ان کو زیر دام لاتا ہے گویہ طریقہ انہیں ملوک کے ذریعے قابو کرنے کے ابتدائی ارادے کے خلاف ہے چمن ، گلستان اور قلعہ عبداللہ کے مقامی حکام براہ راست گرفت میں رکھتے ہیں ۔ اچکزئیوں کے دیگر معتبرین جو برخوردار یا عرض بیگئی کہول کے حلقہ سے باہر ہیں ملک آغا پیرعلیزئی ، ملک پائند خان ، ملک ایوب بادینزئی ، خوشحال کاکوزئی ، ملک پاردین خان عشیزئی ،پکار خان ملیزئی ، سمندرخان علیزئی ،ولی محمد ، محمد عمر ، تاج محمد خان حمیدزئی اور اکبر بادینزئی قابل ذکر ہیں ان علاقوں سے بہت سے خاندان پاکستان کے موجودہ سیاست سے وابسطہ ہیں جن میں سے محمود خان اچکزئی ولد خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی سربراہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی ، عبدالمجید خان اچکزئی ، قہارخان ودان کاکوزئی ( ایم این اے ) اصغر خان عشیزئی اے این پی ، زمرک خان پیرعلیزئی ایم پی اے ، سینیٹر داود پیرعلیزئی ، باچا خان ، مولانا حنیف جے یو آئی ، عبدالشکور خان غبیزئی ، بسم اللہ خان کاکڑ پاکستان پیپلز پارٹی سرفہرست ہے ۔
ikhlaq ahmad khan achakzai
About the Author: ikhlaq ahmad khan achakzai Read More Articles by ikhlaq ahmad khan achakzai: 10 Articles with 17353 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.