سورۂ فلق کی تفسیر

شانِ نزول:یہ سورت اور سورۃ الناس جو اس کے بعد ہے جو اس وقت نازل ہوئی جب کہ لبیدبن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جادو کیا اور حضور کے جسمِ مبارک اور اعضاءِ ظاہرہ پر اس کا اثر ہوا قلب و عقل و اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا چند روز کے بعد جبریل آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادو کا جو کچھ سامان ہے وہ فلاں کوئیں میں ایک پتّھر کے نیچے داب دیا ہے ، حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے علیِ مرتضٰی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے کنوئیں کا پانی نکالنے کے بعد پتّھر اٹھایا اس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی برآمد ہوئی اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے موئے شریف جو کنگھی سے برآمد ہوئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈورا یا کمان کا چلّہ جس میں گیارہ گرہیں لگی تھیں اور ایک موم کا پُتلہ جس میں گیارہ سوئیاں چبھیں تھیں یہ سب سامان پتّھر کے نیچے سے نکلا اور حضور کی خدمت میں حاضر کیا گیا اللہ تعالٰی نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں پانچ سورۂِ فلق میں ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ایک ایک گرہ کُھلتی جاتی تھی یہاں تک کہ سب گرہیں کُھل گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بالکل تندرست ہوگئے ۔

مسئلہ : تعویذ اور عمل جس میں کوئی کلمۂِ کفر یا شرک کا نہ ہو جائز ہے خاص کر وہ عمل جو آیاتِ قرآنیہ سے کئے جائیں یااحادیث میں وارد ہوئے ہوں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اسماء بنتِ عمیس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جعفر کے بچّوں کو جلد جلد نظر ہوتی ہے کیا مجھے اجازت ہے کہ ان کے لئے عمل کروں حضور نے اجازت دی ۔( ترمذی)

تعوُّذ میں اللہ تعالٰی کا اس وصف کے ساتھ ذکر اس لئے ہے اللہ تعالٰی صبح پیدا کرکے شب کی تاریکی دور فرماتا ہے تو وہ قادر ہے کہ پناہ چاہنے والے کو جن حالات سے خوف ہے ان کو دورفرمائے نیز جس طرح شبِ تار میں آدمی طلوعِ صبح کا انتظار کرتا ہے ایسا ہی خائف امن و راحت کا منتظر رہتا ہے علاوہ بریں صبح اہلِ اضطرار و اضطراب کی دعاؤں کا اور ان کے قبول ہونے کا وقت ہے تو مراد یہ ہوئی کہ جس وقت اربابِ کرب و غم کو کشائش دی جاتی ہیں اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں میں اس وقت کے پیدا کرنے والے کی پناہ چاہتا ہوں ، ایک قول یہ بھی ہے کہ فلق جہنّم میں ایک وادی ہے ۔

جاندار ہو یا بے جان مکلّف ہو یا غیرِ مکلف ۔بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ مخلوق سے مراد خاص ابلیس ہے جس سے بدتر مخلوق میں کوئی نہیں اور جادو کے عمل اس کی اور اس کے اعوان و لشکروں کی مدد سے پورے ہوتے ہیں ۔

حضرت اُمُّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چاند کی طرف نظر کرکے ان سے فرمایا اے عائشہ اللہ کی پناہ لو اس کے شر سے یہ اندھیری ڈالنے والا ہے جب ڈوبے ۔( ترمذی)یعنی آخرِ ماہ میں جب چاند چُھپ جائے تو جادو کے وہ عمل جو بیمار کرنے کے لئے ہیں اسی وقت میں کئے جاتے ہیں ۔

یعنی جادوگر عورتیں جو ڈوروں میں گرہ لگا لگا کر ان میں جادو کے منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہیں جیسے کہ لبید کی لڑکیاں ۔

مسئلہ:گنڈے بنانا اور ان پر گرہ لگانا آیاتِ قرآن یا اسماءِ الٰہیہ دم کرنا جائز ہے جمہور صحابہ و تابعین اسی پر ہیں اور حدیثِ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا میں ہے کہ جب حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو حضور معوّذات پڑھ کر اس پر دم فرماتے ۔

حسد والا وہ ہے جو دوسرے کے زوالِ نعمت کی تمنّا کرے ، یہاں حاسد سے یہود مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حسد کرتے تھے یا خاص لبید بن اعصم یہودی۔حسد بدترین صفت ہے اور یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سرزد ہوا اور زمین میں قابیل سے۔(تفسیر خزائن العرفان)
Nasir Memon
About the Author: Nasir Memon Read More Articles by Nasir Memon: 103 Articles with 183379 views I am working in IT Department of DawateIslami, Faizan-e-Madina, Babul Madinah, Karachi in the capacity of Project Lead... View More