مجلس تاثیر

مجلس تاثیر

وائی فائی کے جدید دور میں جہاں سارا کا سارا سسٹم ہی انٹرنیٹ کے حوالے ہے پھر بھی حسرت یدا مٹانے کے لیے کوئی سعی کیے جا رہا ہے۔

کہانی مجلس تاثیر تین کرداروں پر مشتمل ہے لیکن مرکزی کردار صائمہ کے پاس ہے۔


مصنف کا تعارف
نام ۔ گل زیب انجم
تاریخ پیدائش۔ ۱مئ ۱۹۶۷
تعلیمی قابلیت۔ ایم اے پولیٹکل سائنس (سال اول)
جائے پیدائش۔ کوٹلی سوہلناں ضلع کوٹلی
حال مقام ۔ سیری ضلع کوٹلی آزاد کشمیر

حالات زندگی

گل زیب انجم ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں کوٹلی سوہلناں میں پیدا ہوئے۔لیکن پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ننھالی گاؤں سیری ضلع کوٹلی آ گے۔یہاں سے ہی انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ نہم جماعت سے سکول کو خیرآباد کہہ کر محنت مزدوری کی غرض سے لاہور چلے گے۔دو تین سال گزارنے کے بعد ایک دوست کے کہنے پر کراچی چلے گے۔وہاں جاکر کچھ عرصہ ایک شادی دفتر سے وابستہ رہے بعد ازیں ایک مشفق انسان کے کہنے پر فوج میں بھرتی ہو گے۔ریکروٹی کا زمانہ بڑا صبر آزما گزارا۔مانسرکیمپ سے پاسنگ اُوٹ ہوئے اور پہلی تقرری اکاڑہ چھاونی میں ہوئی۔

گل زیب انجم کو نصابی کتب سے نہ سہی لیکن غیر نصابی کتب پڑھنے کا بےحد شوق تھا اور یہی شوق وہ دوران ڈیوٹی فرما رہے تھے کہ ڈیوٹی این،سی،او حوالدار شمس دین چکنگ کے لیے آگیا۔چکنگ کے دوران جب نائیٹ گارڈ کے ہاتھ میں آداب عرض دیکھا تو بہت بھرم ہوا لیکن سزا دینے کے بجائے ایک مشورے سے نوازا کہ تم لائبریری سے دسویں کی کتابیں لے لو جن کے پڑھنے سے کچھ فائدہ بھی ہو گا رات بھی گزر جائے گی اور دیکھنے والا یعنی چکنگ والا بھی کچھ نہیں کہے گا۔ دوسرے دن جب کتابوں کے لیے لائبریری گے تو شومئ قسمت پتہ چلا کے دسویں کے کچھ ہی سیٹ تھے جو کے ایشو ہو چکے ہیں۔اب گل زیب انجم نے اسی سلسلے میں دوبارہ حوالدار شمس دین سے رابطہ کیا تو انہوں نے یوں کہا کہ اب ان لوگوں کے ساتھ ڈیوٹی لگوایا کرو جن کے پاس کتابیں ہیں۔ تاکہ ایک ساتھ ڈیوٹی کرنے سے تمہیں بھی پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔حوالدا شمس دین کی اس بات سے کتابوں کا مسلۂ تو حل ہو گیا لیکن دو تین دن تک کتاب والے ساتھیوں کی کج ادائیاں خندہ پیشانی سے برداش کرنی پڑی۔

آرمڈ سروسز بورڈ میں امتحان ہو رہا تھا ابھی دو پرچے باقی تھے کے ان کو اپنڈکس کا درد ہوگیا جس کا علاج اپریشن کی صورت میں ہوا۔ یوں اپریشن کی وجہ سے ان کے دو پرچے رہ گے جن کے لیے سپلی میں شامل ہونا پڑا۔سپلی کے داخلے جاری تھے ان کو بھی داخلہ بھیجنے کا خیال آیا لیکن داخلے کے لیے مبلخ ۱۰۱ روپیہ درکار تھا جو اُن کے پاس نہ تھا ۔آخر سوچ بچار کے بعد کنٹین ٹھکیدار سے ۱۰۱ روپے مانگنے گے اُس نے وجہ پوچھنے کے بعد ۱۲۰ روپے ان کو دیے ۔جب انہوں نے ۱۰۱ کا کہا تو اس نیک دل شخص نے کہا بابا منی ارڈر پر بھی کچھ پیسہ لگے گا کے نہیں؟ داکلا پھارم(داخلہ فارم)بھی پیسے کا ملے گا۔تم لے جاؤ بعد میں دے دینا۔ ان ادھار کے روپوں سے انہوں نے داخلہ بیجھا آخر کار دسویں جماعت کا امتحان صرف پاس مارکس سے ہی پاس کر لیا۔

میٹرک کر لینے کے بعد تعلیم کا ایک چسکا سا لگ گیا اور اسی چسکے کی بنا پر انہوں نے ایف اے کا امتحان سکینڈ ڈویژن میں اور بی۔اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اسی عرصے میں وہ فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے دوران دکانداری ان کو ماسٹر کی سوجی اور انہوں نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے فرسٹ پارٹ کا امتحان پاس کیا لیکن سکینڈ پارٹ ۲۰۰۵کے زلزلے کی وجہ سے نہ کر سکے ۔

گل زیب انجم کو شاعری سے کافی شغف رہا ہے اسی بنا پر انہوں نے اردو اور پنجابی میں ہر رنگ میں شاعری کی ان کی شاعری سے جہاں قہقے پھوٹتے ہیں وہی آنکھوں سے جھرنے بھی بہہ جاتے ہیں حالات حاضرہ کو کہیں شعرونغمہ میں پیش کرتے ہیں تو کہیں حا لات کی ستم ظریفی کو نوحے کی صورت میں لکھ دیتے ہیں۔ان کی شاعری میں بھی ان کی زندگی کی طرح کی سادگی ملتی ہے لیکن سادگی سچائی پر کبھی غالب نہیں آ سکی۔

وہ دوسروں کی خوبیوں کو بیان کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے دوسروں کے غم کو یوں بیاں کرتے ہیں کے سننے والا یہ امتیاز کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے کہ یہ داستان غم ان کی اپنی ہے یا کسی دوسرے کی بیان کر رہے ہیں۔ اُن کی غم زدہ شاعری میں "تجھ جیسا پروفیسر انوار نہیں آتا اور وہ نینوں کا تارا تھا" نمایاں ہیں جب کہ "اب کاکے نہیں ہوتے" تھوڑی مزاحیہ اور منصوبہ بندی والوں سے وابستہ ہے۔" توں لوکاندا پھردا ایں بالاں نوں" ملک کے اندر دہشت گردی سے منسوب ہے ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری اور مضمون نگاری میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔دھرتی ماں یہ عہد ہے میرا،شاہ ایران سے شاہ پاکسان اور وہ بادشاہ تھا یا ولی مثالی مضمون ہیں۔

نی چھائمہ(اے صائمہ)اُٹھ جا مر جانی پیو آواجیں دتی جا رہا ہے تیرے کو(باپ آوازیں دے رہا ہے تمہیں)۔اُس کا سنگ (گلا) وی تو کمال کا ہے ایک چھائمہ کو کیا بلاؤے کہ سارے محلے کو ہی سناؤے،آتی ہوں اماں اُجالا پُوٹھتا ہی نیں آواجیں شروع ہوجاتی ہیں،آبے نوں جیادہ ہی اُچا (اُونچا)بولن کا شوق ہے تو کہہ دے مسیتے(مسجد) چلا جایا کرے آجان(آزان) ہی دےدیا کرے لوگوں کو وی پتہ چل جاے کہ جُونا چنگڑ وی نماج پڑتا ہے۔ چُپ کر مرجانی اُس نے سُن لیا تو تیرے نال نال میری وی شامت آجاؤے گی،واہ ! اُس کی جامانہ سُن لے پروا نہیں ہماری ایک وہ سُن لے تو چھامت ۔

اے چھائمہ کھُوت (گدھے) کو پھٹا ہی ڈال دے ہن جو گھر سے نکلے گا تو چھاماں(شام)کو ہی واپس آؤے گا،ہاں ہاں ابا میں پاندی آں (ڈالتی ہوں)تُو وی ناچھتا(ناشتہ) کر لے ،ہاں میں نے بھی ناچھتا کرنا ہے میں بھی تو کھوت کے ساتھ ہی لوٹوں گا۔

پرانا لائیلن ویچ ، پھٹا تُرٹا جُوتا ویچ فیچلا آباد(فیصل آباد) دا ودیا پھانڈا خرید، جُونا پھانڈے والا آگیا۔


اماں شکولے(سکول) تے ٹُر ہی جاؤں گی مگر اشتانی (استانی) فیچ(فیس) مگے گی ،وہ بھی پورے دش روپے ! پرے مر مر جانی پہلے تیرے مونہہ کو پاکا ہوؤے جو ابھی میرے کو بتائے،ابھی تو تیرا پیو چھام کو ہی آؤے گا ،اماں تیرے پاس وی تو کچھ ہووے ! ہاں میرے پاس تیرے پیو کا سر ،صرف شت(سات)روپے میرے کو دیوے وہ بھی سبجیی کے لیے ،اب جو سبجیی نہ لی تو میرے کو کھاؤن آؤے گا ۔ اماں فیر اج شکولے نہ جاواں ،اے جا جا غیر حاجری اچھی نہیں ہوتی ۔اماں میں ایک اور بات تیرے کو بتاؤے ! ہاں بتا ، اماں میں جد وی(جب بھی) اشتانی سے بات کروں وہ ہنس جاتی ہے ،ایک اُس کے ہنسنے سے ساری کلاش کی چھوریاں میرے کو ہنسنے لگتیں ہیں، تے فیر کیا ہویا ، ہنستی ہی تو ہیں نا ، پر اماں میرے کو ڈاھڈی لاج (سخت شرم)آوے۔اس میں لاج کی کیا بات ہووے،اماں ویسے ہماری جبان اور ان لوگوں کی جبان میں ہووے بڑا پرق، ہاں یہ بات تو ہووے ! اماں اشتانی ہے بڑی اچھی مجھے کبھی بھی مارتی نہیں ، اچھا اج تُو صرف باتیں ہی کرے گی یا شکولے بھی جاؤے گی؟ اماں میں تو چلی جاؤں گی اگر تُو شناء(ثناء)کی ماما سے دش روپے لے دےتو میں فیچ بھی دے آؤں گی ،اے اے شُبھاشویرے(صبح سویرے)قرجا مانگنے جاؤں تو کیا اچھی لاگوں گی ، تُو ہی اشتانی سے ادھار کر لینا ۔ ماں شناء دی ماں گھر وچ کلی(اکیلی) ہوؤے پر شکول وچ ساری کلاش دیاں چھوریاں ہوؤن میرے کو ڈاھڈی لاج آؤے،اچھا اے بات اے تے تُو ہی جا،شناء کی ماما سے میرا کہہ کہ چھام تک دش روپے دے دیوے۔ اماں وہ میرے کو خالی ہتھ ہی نہ موڑ دیوے،مر جانیے ساریاں باتاں پہلے تو سوچ لینی ایں،جا جا چنگی پڑوش ہے خالی ہتھ نیں موڑے گی ،خیر جے موڑ بھی دے تو کون سا شان میں فرق آجاؤے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ملے ہیں کے نہیں ؟ اماں اُس نے دش روپے تو دیے ہیں ساتھ ہی کہہ دیا کہ واپس کرنے کی جرورت نہیں،وہ کیوں ؟ بس وہ شناء کو دے رہی تھی میرے کو وی دے دیے ، اللہ اُس کو ہور دیوے ،تیرے کو کہا تو تھا کہ اچھی پڑوشن ہے ،ہاں اماں وہ تو اچھی ہے اگر ہم بھی اچھے ہو جائیں تو کون منع کرتا ہے ! اے چل ہن شکولے ٹر جا۔

اے جُونے تُو نے تو کہا تھا کہ فیصل آباد کے ودیا برتن ہیں ،یہ دیکھ کل لیے آج کالے سیاہ ہو گے ہیں ، ہاں باجی میں بھی تو کسی سے لے کر آتا ہوں۔مگر تم تو کہتے تھے اصلی سلور ہے ، باجی ہم کون سا گھر میں بناتے ہیں ہمیں بھی تو یونہی بولتے ہیں ،کھی کھوں کھاں (کھانسی) شروع ، امی اب اس کی کھانسی نہیں رکے گی آپ اندر آ جائیں،ہاے بیٹا اتنی لمبی کھانسی، ہاں امی یہ سگریٹ جو بہت پیتا ہے ،اس لیے اس کے پھیپھڑے ختم ہو چکے ہیں ، تو پھر یہ سگریٹ پیتا کیوں ہے ، بس بُری لَت جو پڑھ گئی۔ ہاے ہاے کتنی تکلیف ہے بے چارے کو ، بیٹا اندر کوئی سیرپ دیکھو ایک دو چمچ پلا دو اسے کچھ دیر کے لیے تو افاقہ ہو گا،نہیں امی ہم اسے کوئی سیرپ نہیں دے سکتے ، وہ کیوں؟وہ اس لیے کے کف سیرپ پی لینے کے بعد کچھ دیر آرام کی ضرورت ہوتی ہے یہ غریب پھیری لگاے گا یا آرام کرے گا ،دوسری بات یہ ہے کہ کوئی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں لینی چاہیے ، کھانسی کے سیرپ مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتےجن سے سائیڈ افیکٹ بھی ہو سکتا ہے ۔اچھا تمہاری مرضی میں تو اس بےچارے کے بھلے کے لیے کہہ رہی تھی۔اتنی پیچدگیاں کہاں جانو میں۔ امی یہ تو راہگیر ہے گھر میں بھی دوا اُسی کو دینی چاہیے جس کے لیے ڈاکٹر نے تجویز کی ہو ، آپ دیکھتی ہیں ہر دوائی کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ دوائی ڈاکٹر کی ہدائیت کے مطابق استعمال کریں، اور ان ہدایات پر عمل کرنا ہی ہمارے لیے فائدہ مند ہے ۔ کھی کھوں کھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ں اچھا باجی میں اب چلتا ہوں، ٹھیک ہے جاؤ لیکن اپنا علاج ضرور کراؤ بیماری کے شروع میں ہی علاج ہو جاے تو بہتر ہوتا ہے ورنہ بیماری جڑیں پکڑ لیتی ہے ،بس باجی کھانسی ہی ہے چھائمہ کی ماں سے کہا تو تھا کہ کوئی کاڑھا بنا دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاڑھا ! یہ کون سا دور ہے کاڑھے کا ؟ کسی ڈاکٹر کو چیک کرا اور کوئی اچھی سی دوا لے ، باجی ڈاکٹر کے پاس تو انگریجی دوائیاں ہوتی ہیں اُن میں کہاں وہ اثر جو دیسی جڑی بوٹیوں کے کاڑھے میں ہوتا ہے ، تو پھر کاڑھا تو پی ، ہاں وہ پیوں گا ، کھوں ہوں کھاں آ تُھو ۔۔۔۔۔۔۔، امی آپ اندر آجائیں کئی اُس کو سمجھاتے سمجھاتے آپ بیمار نہ ہو جاہیں ، اللہ خیر کرے بیٹا ، احتیاط بھی تو لازم ہے ، آپ آ جاہیں اور اُس کو بھی پھیری لگانے دیں۔ ہاں ہاں باجی ٹیھک تو کہتا ہے ، میں چلتا ہوں پھر کبھی۔۔۔۔۔ہوں آں کھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤنگا۔

اے چھائمہ ، اے چھائمہ دی ماں ، خورے کہاں مرجاتی ہیں ۔اے نی چھائمہ ۔۔۔آتی ہوں ابا ،ہاں ہاں آ جا کُھوت کو باندھ دے پہلے لائیلن اور پھانڈے اندر رکھوا لے۔ابا اتنا وجن تو مجھ سے اٹھایا نہ جاے ، اماں نوں نال بلا لے ،وہ تو کھانا پکا رہی ہے ، ہائے ہائے کون سا کھانا نس چلیا ہے پنج منٹ دی تو بات ہے ، اے چھائمہ دی ماں سُن پُو(لے)ادھر مر آ ہائے گجب خدا کا پھیری لگانے سے اورں کی اواج بیٹھ جاتی ہے اس کی روج روج کراری ہوتی جارہی ہے ،کیا مجال ہے جو صبر ہی کر لے ۔فجری ویلے سے چھاماں تک تمہارا ہی تو چافتا پڑھاتا ہوں اور پھر بی تُو صبر کا کہتی ہے ، میرا کیھال نہیں تو کھوت پر ہی ترس کھا لے بے جبان مال ہے ، وہ تو بے جبان ہے پر تیرے کو جو جبان لگی ہے اُس کی کسر بھی پُوری کردیتی ہے ، کیا میں تیرے مرے ہوؤے کے نوحے پڑھتا ہوں جو میری جبان کے پیچھے لگی ہوئی ہے ، نوحے پڑھ اپنوں کے میرےمرے ہوؤں کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے ،پھُر (گدھے کی آواز)او ویکھ کھوت وی تیرا ماتم کر رہا ہے اُس سے وجب تو اُتار دے ۔اماں گوگی شڑ کے کولا(روٹی جل کر کوہلا)ہوگی آ،شڑتی ہے تو شڑنے دے میں کیا کیا سیاپے کرتی پھروں، جا جا تُو اوتھی مر پُو میں تے چھائمہ اتار ہی لوؤں گے ، تُو نے تو پٹ(نقصان )ہی دینی ہے گوگی نیں تے ہانڈی ہی شاڑ دیوے گی ۔ہی ای، تیرے کو کیا پیڑ پڑی جو ہی ای کری جاؤے، نیں ابا میں تے ویسے ہنس گی ،آ کھوت توں وجن تے اتار دیویں ،پھُر ، ابا اج کھوت پھُر پھُر بڑی کرے ، ایں یہ نہ کرے تو کیا تیرا پیو کرے ، ہی ای ای ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

صائمہ صبح سے شام تک پھر صبح سے شام تک اپنے امی ابو کی نہ ختم ہونے والی بحث سنتی رہتی یہ بحث تب ہی کچھ دیر کے لیے رکتی جب ابے کو کھانسی شروع ہو جاتی ،وہ اکثر سوچتی ہم تین ہی تو افراد ہیں اور ہماری رات بھر کی باتیں صبح گلی محلے کے بچے ایک دوسرے کو یوُں سناتے ہیں جیسے دیومالا کی کہانی سنائی جاتی ہے ،محلے میں سرشام ہی سناٹا چھا جاتا ہے کسی کی آواز نہیں آتی آے بھی تو صرف بابو خالد کی اتنی ساری آواز آتی ہے جو اپنے بچوں کو صرف اتنا ہی کہتا ہے او چُپ! اچھا شریف شخص ہے جو نہ خود بولتا ہے نہ بچوں کو بولنے دیتا ہے ، کتنی شانتی ہے لوگوں کے گھروں میں ہمارا تو اپنا گھر ہی نہیں پھر بھی شور سب سے زیادہ ہمارا ہی ہوتا ہے ، کبھی ابا اماں کچھ دیر کے لیے چُپ ہو جاتے ہیں تو نہ جانے گدھے کو کیا سوجتی ہے کہ پُھر پُھر شروع کر دیتا ہے ،صائمہ یوُں ہی سوچتے سوچتے نیند کی آغوش میں چلی جاتی اور نیند تبھی ٹوٹتی جب ابے کو کھانسی شورع ہو جاتی،

انسان پیٹ کی خاطر کیا کیا جتن نہیں کرتا سردی گرمی دھوپ چھاؤں کی پروا کیے بغیر پاؤں سر پر رکھ کر بھاگ رہا ہے ،ہوس اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ صبح کی کھا کر دوپہر اور پھر شام کی سوچنا شروع کر دیتا ہے دیکھا جائے تو یہ ہوس تقویٰ کی کمزوری سے ہے ، اگر پروندں کو دیکھا جائے تو اپنا تقویٰ کچھ بھی نہیں لگتا ،پرندے کبھی بھی اپنا رزق ذخیرہ نہیں کرتے اور کبھی بھوکھے نہیں مرتے ،انسان ذخیرہ کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی ذخیرہ نہیں کر پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تقوٰٰی پرندوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ،کاش جس طرح ہم اشرف تھے اس طرح ہمارا تقویٰ بھی افضل ہوتا۔

اماں یہ تقویٰ کیا ہوتا ہے ؟( صائمہ جو کافی دیر سے امام مسجد کا درس سُن رہی تھی جو وہ صبح کی نماز کے بعد سپیکر آن کر کے نمازیوں اور بے نمازیوں کو سُنا رہے تھے اپنی ماں سے تقویٰ کا مطلب جاننے لگی )پیو سے پُوچھ لے ،میرے سے کس لیے پُوچھ لے یہ مولبیوں (مولویوں) کی باتیں ۔ ابا پھر میں کس سے پُوچھوں ، مر جانی تیرے ابے نوں تیرے دادے نے اک کھوت دیا تھا کہ جُونے اس پر پھانڈے رکھ کر پھیری لگا لیا کر ، میرے کو کتاواں نہیں دی تھی ، ابا اماں کو وی پتہ نہیں ، ہاں ۔۔۔۔اس کو کیا کیا پتا ہوؤے وہ تو بلکل میرے کھوت کی نکی بہن ہے ، اب یوُں نہ کہیں ،وہ کیوں ؟پھر آپ کی لڑائی شروع ہو جاے گی ، ناں ناں تُو چنتا نہ کر میری لڑائی نہیں ہو گی ،میرے کو تیرے دادا نے پہلے دن ہی بتا دیا تھا کہ کھوت تو تنگ نہیں کرے گا پر اس کے ویڈے بھرا (بڑے بھائی)کو بولن کا جیادہ ہی چاء ہے اس لئی جرا صبر کرنا ہوؤے گا۔ اے بدتمیج (بدتمیز) میرے کو کھوت کا بھرا کہہ دیا ، کیا کروں شریعت کا کھیال ہے سیدے مونہہ تو کھوت کہہ دینا مناسب نہیں ، پریں مر ویڈیاں شریعتاں والیے۔ آپ لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے خدا لئی ایسا نہ کیا کریں ، سارے محلے والے میری مجاق بناتے رہتے ہیں ۔ اے تیرے کو محلے والے کہان سے مل جاتے ہیں ۔ ابا میں شکولے جاتی ہوں پانی لینے جوہرا(زہرہ)کے گھر دال سبجیی خریدن کو بجار جاتی ہوں ،تبھی تو سارے پُوچھتے ہیں کھوت دا بھرا کون اے، مر جانی لگدا اے تیرا شکول چھڑانا ہی پوؤے گا، وہ کیوں ابا ! ہاں نہ تو شکول جاؤے گی نہ تیرا مجاق بنے گا،سن لیا ہے ابے دا فیچلہ (فیصلہ) اپنی اواج گھٹ نہیں کرے گا تیرا شکول چھڑا لوؤ گا، نیں نیں میں شکول نہیں چھوڑوں گی ، کیوں تیرے ڈاکٹرانی یا ماسٹرانی ہونا ہے ۔ کچھ بھی ہوں گی پر شکول نہیں چھوڑوں گی ،پھر کھیال رکھنا ہمیں لوگوں کے مجاق سے نہیں ڈرانا۔

انسان غریب ہو یا امیر خیالوں کی آڑان ہمشہ اونچی ہی رہتی ہے ۔صائمہ بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہے جو گھاس پھوس کی جونپڑی میں رہ کر بھی اونچے محلوں کے خواب دیکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں نیت اگر صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے انسان پر ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے کیونکہ برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کے وڈیرے نسل در نسل وڈیرے اور مزارے نسل در نسل مزارے چلے آ رہے ہیں پڑھی لکھی فیملی میں علم چلتا ہے اور شیدے گامے کے بچے نتھو خیرا ہی بنتے ہیں ،لیکن یہ رائے بھی حتمی نہیں ہو سکتی کیونکہ ارسطو افلاطون اور بہت سارے غریب گھرانوں کے لوگ بہت کچھ کر گے ہیں ۔

صائمہ کے ماں باپ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے آ رہے ہیں اور یہ خانہ بدوشی نسل در نسل ہی چلتی آرہی ہے ،جن لوگوں کا کوئی پکا ٹھکانہ نہیں ہو تا وہ سکول بھی نہیں جا سکتے کیوں کہ سکول کے لیے بھی کسی ایک جگہ ٹھرنا پڑتا ہے ۔ صائمہ ابھی بچی ہے ابھی اُس پر خانہ بدوشی کا رنگ مکمل طور پر نہیں چڑھا اور جس محلے میں یہ لوگ رہ رہے ہیں وہاں سکولوں کی کمی نہیں ، محلے کے بچے صبح سویرے مسجد جاتے واپس آکر سکول جاتے ،صائمہ کا جو گھر ہے وہ برلب سڑک ہے اس وجہ سے سکول آتے جاتے بچوں کو صائمہ باآسانی دیکھتی ہے ۔ بچوں کے اُجلے اُجلے یونیفارم پالش کیے جوتے ،گلے میں پڑھے بستے صائمہ کی دلچسبی کا سبب بنتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی دو تین دوست بھی ہیں جو اُسے سکول جانے کا کہتی رہتی ہیں یہ دوستی کا اثر ہی ہوتا ہے کے صائمہ ایک دن اپنے والدین سے سکول جانے کا اظہار کر دیتی ہے ، صائمہ کے دوستوں میں ثناء بشریٰ مریم اور زھرا ہیں ، اب بشریٰ کے علاوہ ساری چوتھی کلاس میں ہیں ، ثناء کی ماما صائمہ کا بہت خیال رکھتی ہے ،ثناء کے یونیفارم سکول بیگ کاپیاں کتاباں لیتے ہوے صائمہ کے لیے بھی ساری چیزیں لے لیتی ہے ۔ صائمہ کو اپنے گھر سے جیب خرچ دو تین روپے ملتے ہیں لیکن ثناء اپنی ماما کی طرح اِس پر بڑی مہربان ہے اس کو کھانے کی چیزیں اپنے پاس سے لے دیتی ہے اور اس کو دو دو روپے جمع کرنے کا مشورہ دیتی ہے ۔ 

امی یہ چنگڑ بڑا شُور کرتے ہیں ،اور بات بات پر لڑائی بھی دونوں میاں بیوی کے درمیان ہوجاتی ہے،صفائی تو ان کے پاس سے نہیں گزری۔ بشریٰ بیٹی ایسی باتیں نہیں کرتے وہ پردیسی لوگ ہیں اُن کے رہین سہن کا طریقہ الگ ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ وہ بستی یا شہر سے دُور پڑاؤ ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کا طور طریقہ نہیں اپنا سکتے، اُن کی باتیں ہمیں لڑائی لگتی ہیں جبکہ وہ آپس میں نارمل بات چیت کر رہے ہوتے ہیں، ہماری زبان چونکہ الگ ہے اس لیے ہم اُن کا لب و لہجہ سمجھ نہیں پاتے۔ امی آپ تو اُن سے مکان کا کرایہ بھی نہیں لیتی ، اگر وہ کہیں اور رہتے تب تو وہ کرایہ دیتے۔ بشریٰ تمہارے دماغ میں یہ الٹی سیدھی باتیں کہاں سے آتی رہتی ہیں ، خالی کمرہ پڑا تھا اُن کو دے دیا تو کیا ہوا، پردیسی لوگ ہیں کب اُنہوں نے یہاں کا ہو کر رہنا ہے ، آج نہیں تو کل چلے جاہیں گے ، ہمارا کرائے کے بغیر بھی گزر تو ہو رہا ہے پھر دو تین سو سے کب ہم ساہوکار بن جاہیں گے ۔لیکن امی آپ اُن سے اتنا تو کہہ سکتی ہیں نا کہ گالی نہ دیا کریں، اچھا چلو یہ کہہ دوں گی۔

امی یہ صائمہ ہے بڑی لائق جو سبق ایک بار پڑھ لیتی ہے اُس کو ازبر ہو جاتا ہے ، جبکہ ہم سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ہاں اُس کے گھر میں ٹی وی جو نہیں ہے ہمارے گھر میں وہ جو موجود ہے، امی میں نے سبق کی باتی ہے آپ کا فلسفہ ٹی وی پر جا کر کیوں اٹکا ہے ۔ ہاں یہ فلسفہ ہی تو ہے جو تم لوگوں کو سمجھ نہیں آتا ۔ تم لوگ جتنا وقت ٹی وی پر صرف کرتی ہو اتنا ہی وقت وہ کتابوں پر لگاتی ہے پھر لائق کیوں نہ ہو۔

اماں آج تو ذمعے (جمعہ) کا دن ہے ابا سے کہا کر اس دن پھیری نہ لگایا کرے بلکہ ذمعہ پڑھ لیا کرے سب لوگ اس دن نہا کر صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں اور نماج کے لیے جاتے ہیں اک میرے ابے کو چھوڑ کر ، تُو ہی کہہ دے ، نہیں اماں میں نہیں کہہ سکتی ، وہ کیوں ؟ اگر میں نے کہا تو وہ پھر کہے گا شکول جانا چھوڑ دے ۔ اچھا تو تیرے کو معلوم ہے میرے کو کیا کہے گا ، کیا کہے گا ؟ یہ کہے گا توُ کسی مولبی سے نکاح کر لے اگر نماجی ہی اچھا لگتا ہے تو ۔ نہیں اماں یہ بھی تو ہو سکتا ہے ابا تیری بات مان لے ، اُس کو جوُنا چنگڑ کہتے ہیں نہ مانے تو پیو کی وی نہ مانے میں تو اُس کے سامنے کوئی چیج(چیز) بھی نہیں ہوں۔

اماں ہماری مس(ٹیچر) کہتی تھی کسی کو اچھا کرنے کے لیے پہلے خود کو اچھا کرنا چاہیے، اچھا تو تیرا مطول(مطلب) ہے کے میں اچھی نہیں ہوں ، اماں یہ بات نہیں توُ تو بہت اچھی اہے اور ابا کو بھی اچھا کر سکتی ہے ۔وہ کیسے ؟ وہ یوُں کہ جب تُو خود صاف ستھری رہے گی تب ابا کو صاف ستھرا رہنے کو کہہ سکتی ہے ، اے چھائمہ کی بچی شکول جانے سے تیرے دماگ(دماغ) میں جیادہ (زیادہ) ہی صفائی کا کیڑا پڑ گیا ہے ، ہاں اماں شکول جانے سے انسان انسان بنتا ہے اور کچھ سیکھتا بھی ہے ۔ اچھا تو تیرے پیو سے کہہ دوں گی اس کو شکول سے اٹھا دے جیادہ تیلم (تعلیم) بھی اچھی نہیں ہوتی حالاں (ابھی) تو چھ جماعتاں ہی پاس کی ہیں تو ہم اسے گندے لگنے لگے ہیں ۔ایک جمات (جماعت) اور پڑھ لی تو پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگے گی۔ تو کیا یہ تیری باتاں (باتیں) ابا مان لے گا ؟ کیوں نہیں ۔ ! تو پھر صاف رہنے والی کیوں نہیں مانے گا ۔ بس چُپ ہو ، ہمارے بڑے ٹھیک ہی کہتے تھے کہ چُھوریوں (لڑکیوں) کو گھر کاکام کاج ہی سکھانا چاہیے شکول جانے سے ان کی کھوپڑی میں فتور آ جاتا ہے ۔ اماں اسی لیے کہتے ہیں کے ہر انسان کو عقل اپنی ہی اچھی لگتی ہے میں نے صاف ستھرا رہنے کا کیا دیا کہ آپ نے زمین و اسماں کے قلابے ہی ملا ڈالے اسی لیے کہا گیا ہے کے ہر مرد و زن کے لیے اتنی تعلیم لازم ہے کے وہ حلال اور احرام اور اچھے بُرے کی تمیز کرسکے۔

ماما اب صائمہ کو دیکھتی ہیں کیسی صاف ستھری رہتی ہے نماز بھی پانچ وقت کی پڑھتی ہے ، گھر کے سارے کام خود کرتی ہے اب اس کے گھر کے برتن باہر بکھرے پڑے نظر نہیں آتے ، بستر بھی صبح سویرے تہ کر کے اندر رکھ دیتی ہے ،کل اپنی ماں سے کہہ رہی تھی کوئی بوری یا ٹاٹ کا پردہ بنا کر صحن میں لگا لولیکن اُس کی ماں نہیں مان رہی تھی ۔ ہاں ثناء اب ماشاءاللہ صائمہ سمجھدار ہو گئی ہے ، وہ بھلے اپ کی کلاس فیلو ہے لیکن عمر میں بڑی ہے عمر کے اس حصے میں شعُور آ جاتا ہے ، ویسے بھی ماشاءاللہ عقل مند بچی ہے دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے ،۔

جی ماما یہی بات ہے ، ویسے میں کبھی سوچتی ہوں اگر اس کے اماں ابا گھر نہ ہوں تو پتہ ہی نا چلے یہ گھر چنگڑوں کا ہے ، ثناء وہ تمہاری دوست ہے پھر اس کے والدین کو چنگڑ کیوں کہتی ہو ، تو ماما پھر میں کیا کہوں سارا محلہ ہی توانہیں چنگڑ کہتا ہے ، ہاں بیٹا یہ بات تو ہے لیکن پھر بھی تم کچھ لحاظ کیا کرو، اچھا ماما۔

ابوُ جی آج آپ یہ کپڑے پہن کر جائیں میں نے استری کیےہوے ہیں ، نی مر جانی میں پھیری لگانے جا رہا ہوں یا میلہ دیکھنے جارہا ہوں چل اند رکھ ، نہیں ابو جی یہ اندر رکھنے کے لیے نہیں پہننے کے لیے ہوتے ہیں پھیری تو صاف کپڑوں میں بھی ہو سکتی ہے ، او مر جانی کیِ فجری ویلے متھا لگا لیا ہی ، ہاں ہاں ابو یہ ضرور پہن لیں میں آپ کے لیے ناشتہ لے آتی ہوں ، اے چھائمہ دی ماں کہاں ہے توُ یہ دیکھ چھوری کا دماگ کھراب ہو گیا ہے میں پھانڈے بیچوں گا یا لیرے(کپڑے) بچا بچا رکھوں گا ، ابو آپ اِن کے گندے ہونے کی فکر نہ کریں ، میں آج یہ کپڑے دھو لوں گی کل یہ پہن لینا۔ چل لیرے میں پہن لیتا ہوں پر اک بات بتا کہ یہ ابو اور آپ کیا ہوتا ہے پہلے تو توُ ایسا نہیں کہتی تھی ، جی ابو اس محلے کے سارے بچے ایسے ہی بولتے ہیں اور جب میں آپ کو ایں ابا توُ ابا کہتی ہوں تو سارے ہنستے ہیں ،اس لیے مین بھی اُن کی طرح بولتی ہوں ۔ اے چھائمہ دی ماں دیکھیا ہی شکول دے نال نال محلے دا اثر بھی ہونے لگا ہے میں سوچتا ہوں کوئی نواں رھپڑ (نیا مسلہؑ ) ہی نہ بن جاؤے۔ ابو جی کپڑے بدل لیے ہیں کہ نہیں، ہاں بدل لیے ہیں ۔ اچھا تو آپ بیٹھیں میں ناشتہ لے کر آتی ہوں ، بیٹھاں کدھر میں ادھر ہی چولہے کے پاس آتا ہوں ، نہیں ابو آپ چارپائی پر بیٹھیں میں ناشتہ لاتی ہوں ۔ اے چھائمہ دی ماں یہ کیا کہہ رہی ہے پھیری کے لیے استری کیے ہوے کپڑے کھانا چارپائی پر ۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟ بس ہن توُ ہی من جا منجے تے ہی ناشتہ کر لے میرے گوڈے پاس نہیں بیٹھے گا تو کیا ہاجم نہیں ہوگا ۔ جا اے جا شکل دیکھ پہلے میں تے ویسے ہی کہہ دتا سی ۔ پلیز ابو ناشتہ کریں صبح سویرے بحث اچھی نہیں ہوتی، اچھا اب توُ ناشتہ دے پلیز شلیز کا مطول چھاماں نوں پوچھوں گا ۔ چھائمہ پھانڈے چُک لے میں جا رہا ہوں ، اللہ حافظ ابو شام کو جلدی آنا۔

اماں میں سکول جا رہی ہوں آپ کے کپڑے استری کیے ہوے ہیں نہا دھو کر بدل لینا اور ہاں تیل نہیں لگانا میں آ کر خود لگاؤں گی ، اللہ حافظ اماں ۔ اللہ حافج ، کسے بے ایمان دی نجر نہ لگے کتنی اچھی اچھی باتیں کرنے لگی ہے ۔ ادھر رہنے سے رنگت بھی کتنی صاف ہو گئی ہے ، پکی کشمیرن لگتی ہے ، اے تُھو کدرے میری اپنی نجر ہی نہ پھُٹ جاؤے۔

اماں جی اسلام علیکم ، واعلیکم شلام ، ماشاء اللہ ماں کتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ نے دیکھا صاف کپڑے پہن لینے سے چہرہ بھی نکھر جاتا ہے اسی لیے تو کہتے ہیں صفائی میں خدائی ہے اماں میں کپڑے بدل لوں پھر آپ کے بالوں میں تیل لگاتی ہوں نہیں میں لگا لوں گی توُ کھانا کھا لے ،اماں آپ زیادہ تیل لگا لیتی ہیں جو اچھا نہیں لگتا اور ساتھ کپڑوں کو بھی گندا کر دیتا ہے ۔ آں توُ جو سیانی ہوگئی ہے چار جماتاں کیا پڑھ لی کے وتیرہ ہی بدل لیا ، نہیں اماں یہ بات نہیں ہے،اماں یہاں بیٹھو نہیں پہلے تم کھانا کھا لو میں کھا لوں گی پہلے آپ ادھر آئیں ، او کے اماں اب بال کھولنے نہیں ۔ میں نماز پڑھ لوں پھر کھانا کھاؤں گی ساتھ ساتھ آپ سے باتیں بھی ہوں گی۔ وہ کیا جروری باتیں ہیں جو میرے ساتھ کرے گی ۔ ہاں اماں جی وہ بھی ہیں ، کھانے کے بعد ہوم ورک کرنا ہے ثناء کے گھر جاکر ابو جی کپڑے استری کرنے ہیں اتنے سارے کاموں میں وقت ہی کہاں ملے گا ۔ اچھا بتا کیا بات ہے ؟ پہلی بات یہ ہے کے آج سے آپ نماز شروع کریں اگر نہیں آتی تو میں پڑھاؤں گی ،دوسری بات یہ کہ ابو جی سے اچھے طریقے سے بات کیا کریں جس طرح ثناء کی ماما زہرا کی امی باتیں کرتی ہیں ۔ دیکھ چھائمہ اس کا مطول یہ نہیں کہ توُ بڑی ہو گی ہے تو میری ماں بن جائے تو بچی ہے بچی ہی بن کر رہے تو اچھی ہے ۔اماں پلیز بات کو الٹی سمت نہ لے کر جائیں آپ اپنے پرانے طریقے چھوڑ کر نئے رسم و رواج کو اپنائیں جو رسم و رواج اس محلے کا ہے ، یہ بات بات لڑائی جگھڑا گالی گلوچ کرنا ایک دوسرے کے خاندان کو بے نقطے کی سنانا اچھی بات نہیں دین تو دین رہا آپ دونوں کو دُنیا کا بھی پتہ نہیں ، چل ہن چُپ ہو جا ۔ میں چُپ ہو جاؤنگی لیکن آپ بھی پرانی ریت چھوڑ دیں۔

ماما کل رزلٹ تقریب ہے ہمارے سکول میں ، اچھا تو پھر ! ماما صائمہ کے پاس نئے سکول شوز نہیں ہیں اگر آپ کہیں تو میں یہ شوز اُس کو دے دوں ، ثناء مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن تُو کیا پہنے گی ۔ماما میں دوسرے پہن لونگی صائمہ کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ وہ اسٹیج پر جاے گی ،میں تو گیدرنگ میں ہوں گی ۔ ٹھیک ہے دے دو لیکن یہ کیا کہ تہمیں اپنی پوزیشن کی کوئی امید نہیں ، ماما وہ تو خیر سے میری ہو گی لیکن صائمہ دوسرے پروگراموں میں بھی حصہ لے رہی ہے اس لیے وہ نمایاں رہے گی ۔ ٹھیک ہے بیٹی دے دو ۔

چھائمہ یہ چھٹی کیا ہے کس نے بھیجی ہے ، ابو جی ہمارے سکول میں رزلٹ اُوٹ ہو رہا ہے ،اس لیے پرنسپل صاحب نے آپ کو دعوتی رقعہ بھیجا ہے ، میں وہان کیا کروں گا ! بس جاکر بیھٹنا ہے ابو ، دھی میری کو بڑی لاج لگے گی ۔ وہ کیوں ابو ؟ اُدھر پڑھے لکھے لوگ ہوں گے ناں ، میں کیا اُن میں اچھا لگوں گا ! ابو جی ضروری تو نہیں سارے پڑھے لکھے ہی ہوں گے کوئی تو اُن میں اَن پڑھ بھی ہوگا آپ اُس کے ساتھ بیٹھ جانا ۔

ہاں چھائمہ تمہیں تو بتایا ہی نہیں کہ میرا کُھوت بِک گیا ہے ، وہ کتنے کا ابو ! باوی ہثرار دا، کیا بائیس ہزار کا ! واؤ ،،،،،،،،، سچی ابو ، ہاں ہاں سچی ، دیکھو اب کتنی رقم مل گئی ہے وہ تو ملی ہے دھی پر تیری ماں کو بڑا دکھ ہو ہے ، وہ کیوں ابو ، اس لیے اُس کا بھرا جو تھا ، اُبو پلیز یوُں نہیں کہنا ورنہ بات بڑھ جاے گی ۔ ابوُ ان میں سے دو ہزار الگ کر لیں ، وہ کیوں ؟ ابوُ یہاں سے بوری کا پردہ اُتار کر پکی دیوار بنایں گے تاکہ پردہ اچھا بن جائے ۔ کملی نہ ہوؤے کسی کا مکان ہے ہمیں کیا جرورت ہے کچھ بنوانے کی ، ابوُ اُن لوگوں نے یہ مکان ہمیں دے رکھا ہے لیکن ہم سے کرایہ بھی نہیں لیتے اگر ہم ایک دیوار بنوا ہی لیں گے تو کیا حرج ہو گی پھر پردے کی ضروت بھی تو ہمیں ہے ۔ دیوار کا نام ہی سن کر شہدُے کو کتنے سوُل پڑتے ہیں ، اماں پلیز چُپ دیکھنا ابو دیوار بنوا دیں گے ۔ آ دو ہثرار لگا کر باقی خژانے (خزانے) پر سَپ بن کر بیٹھ جاے گا۔ اماں چھوڑیں اس بات کو ، یہ کہاں چھوڑے گی بے چاری بھرا دے غم وچ شدھان ہوگی ہے ، اچھا اچھا آپ دونوں لاحول واللہ پڑھیں ۔ اچھا دھی کل شکولے ماں نوں لے جا میں تو نہیں جاؤں گا ،ابو جی جو بات آپ کی ہے وہ اماں کی کہاں ،آپ گھبرائیں نہیں وہاں آپ کو پڑھائیں گے نہیں صرف بٹھائیں گے ، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑیں ابو یہ لیکن ویکن۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم آج کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کرتے ہیں اس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پڑھی جاے گی خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ ادب سے تلاوت قرآن پاک سنیں تاکہ ہم سب پر اللہ کی رحمت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اب بچے چند خاکے پیش کریں گے ۔ بچوں کے اس پروگرام کے بعد ادارہ ہذا کے پرنسپل سالانہ کارگردگی پر روشنی ڈالیں گے وائس پرنسپل رزلٹ اناؤنس کریں گے اسٹیج سیکرٹری نعمان قاضی پروگرام کے اختتام تک آپ کو ساتھ ساتھ رہے گا ۔

میں بحثیت پرنسپل اس سال کی کارگردگی اور سال کے نو کی ضروریات پر چند باتیں کرتا ہوں ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کے یہ ادارہ آپ سب کے تعاون سے چل رہا ہے ہمارے سر جو ذمہ داری ہے ہم نے اُس کو کسے نبھایا اس کی کارگردگی رزلٹ اناؤنس کے بعد سامنے آ جاے گی ، ہماری کوشش ہے کے ہم بہتر سےبہتر کچھ کر سکیں دُور حاضر جدید برقی آلات سے مزین ہے ہم بھی چاہتے ہیں کے اگلے سال سے کمپیوٹر کلاسز چلائیں لیکن اس کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہے ۔ کمپیوٹر عصر حاضر کی اہم ضرورت ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سکول سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے اس تعلیم سے بھی آراستہ ہوں ۔ بچوں کو اس برقی آلہٰ سے آشنا کرنے کے لیے آپ سب کے تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔

بچوں کا رزلٹ آپ کلاس وائز سن رہے ہیں ہر کلاس کی پہلی دوسری تیسری پوزیشن بھی بتائی جارہی ہے ۔ اب ہم کلاس ہشتم کا رزلٹ اناؤنس کر رہے ہیں اس کلاس کی پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات کے نام اور پوزیش یوُں ہے کہ تیسری پوزیشن حاصل کی ہے زہرا قمر نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے ثناء تاج نے اور پہلی پوزیشن حاصل کی ہے صائمہ یونس نے ۔ اب ہم صائمہ یونس سے کہیں گے کہ وہ اپنی اس کامیابی پر اپنی دلی کیفیت کا اظہار کریں ۔

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو نہایت رحم کرنے والامہربان ہے ۔ میں رب العزت کی ثنا کے بعد مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے اپنی آمد سے مجھ سمت تمام بچوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ میرے ٹیچر نعمان قاضی نے میری دلی کیفیت کے بارے میں جاننا چاہا اور مجھ سے اظہار کرنے کو کہا ،تو عرض ہے کہ میں اس کامیابی پر بہت خوش ہوں اس لیے کہ اللہ رب العزت نے مجھ جیسی بےگھر کو ایک اجنبی دیس میں اتنی عزت سے نوازا ، میں اپنی اس کامیابی اور خوشی میں اپنی محسنہ بہن ثناء تاج کا ذکر کرنا کبھی نہ بھولوں گی جس نے میری ہر طرح کی مدد کی یہاں تک کے آج یہ لش پش کرتے سفید کپڑے یہ کالے پالش کیے ہوئے بوٹ اسی بہن کی عطیہ کیے ہوئے ہیں ۔ میری اس کامیابی پر مبارک کی حقدار ثناء اور اُس کی ماما ہیں ، اللہ تعالیٰ کا صد ہا شکر ادا کرنے کے بعد ان ماں بیٹی کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے مجھے اس قابل بنایا ۔ ساتھ اپنے اساتذہ کی محنت کو سراہوں گی جنھوں نے اپنی کاوشوں سے چھائمہ کو صائمہ یونس بنا دیا ۔ اس کے ساتھ ہی اجازت چاہوں گی ۔ واسلام

تھنک یوُ صائمہ تمہاری صاف گوئی نے آنکھوں کو کیا چھلکایا کہ دل بھی گرما دیا ۔ سامعین اب میں صائمہ کے والد یونس صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور اپنے خیال کا اظہار کریں ۔اے چھائمہ کیا کہے تیرا ماشٹر صاب ، ابو وہ کہہ رہے ہیں جس طرح میں نے وہان جاکر باتیں کی ہیں اسی طرح اپ بھی باتیں کریں ۔ توبہ توبہ دھی یہ میرے وس کی بات نہیں ہے ،ابو آپ جائیں سب کو سلام کریں اور واپس آ جائیں ۔

میں دوبارہ گزارش کرتا ہوں کہ یونس صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔۔ ابو جلدی جائیں ، کس ساپے میں ڈال دیا توُ نے دھی ، کیا آپ میری کامیابی پر خوش نہیں ہیں ، خوش تو بہت ہوں ۔ پھر آپ جائیں نا ۔ سامعین یہ ہیں ہماری قابل فخر اسٹودنٹ صائمہ کے ابو جنھوں نے دن رات محنت کر کہ بچی کو پڑھایا ان کی محنت کیا رنگ لائی وہ اپ سب کے سامنے ہے ۔ اب یونس صاحب اس کامیابی پر کیا کہتے ہیں وہ سنتے ہیں ۔

اے چھائمہ اتھے (یہاں) بھی بسم اللہ پڑھوں، جی ابو ضرور۔ بسم اللہ ساریاں استاداں کو اور جنھے وی دوجے لوگ یہاں ہیں سباں کو میرا سلام ۔ خدا حافج ۔ نہیں نہیں یونس صاحب دو باتیں اور کر جائیں ، اے چھائمہ توُ نے کہا تھا بس شلام کر کے آ جانا ،۔ ویکھ چھائمہ تیرے پیو دے بلُاں (ہونٹوں)پر کیویں پیپڑی جم گی اے گھر وچ تے چپ بھی نہیں کرتا، اماں پلیز اپ خاموش رہیں ۔ ہاں ہاں ابوُ دو باتیں اور کر دیں نا، میری چھائمہ دے استادو باقی سارے لوکو میں یونس صاب تو نہیں بلکہ جوُنا پھیری والا ہوں ، پوری دہاڑی پھیری کر لیتا ہوں جور جور سے ہاکری کری کر لیتا ہوں لیکن پتہ نئیں اتھے ٹانگاں وچوں کیوں ساہ نکل گیا ہے ۔ ہاں یاد آیا کہ ماشٹر نومی (نعمان)نے کیا سی کے میری محنت سے چھائمہ فشٹ آئی ہے اس کو جھوٹ یا مخول ہی سمجھ لو تے بہتر ہے ، وہ اس لیے کے آج میں کی محنت سے پہلی بار پرونے (مہمان ) کی حثیت سے شوفے (صوفے) تے بیھٹا آں ۔ اس دھی کی وجہ سے مجھے اپنا بھولا بسرا ناں یاد کرایا گیا ، حیاتی وچ دوجی بار اپنا نام یونس سنا ہے پہلی وار جب چھائمہ دی ماں نال میرا آنجن گنڈیا (نکاح کا بندھن باندھا) دوجی واری اج سنیا ، ورنہ کدے اپنے ما پیو سے بھی نہیں سنا ۔ آسی جات (قوم) کے رانگڑ راجپوت سی مگر اس پھیری نے چنگڑ بنا دتا جس کا مطول مجھے بھی ملوم نہیں حیاتی وچ پہلی وارشوفے تے بیٹھا آں تے پتا چلیا کے میں کسی پریت یا عجت( محبت یا عزت )کے قابل ہوں ۔اے سارا آپ دا احسان اور پیار ہے ورنہ اپنی اوقات یہ ہے کہ جس گھر میں پھانڈے دینے کے لیے بیٹھا ہوں وہاں بھی اپنے سرَ دا لیرا کسی وٹ یا ہٹ دے روڑے(پتھر یا انیٹ کے ٹکڑے ) پر رکھ کر بیٹھ گیا پر کسی نے یہ نہیں کہا کے توُ وی انسان ہے منجے تے بیٹھ جا ۔ اسی پردیسی تلیم (تعلیم ) سے اتنے واقف نئیں لیکن اج پتہ چلیا کے تلیم وی کوئی چیج ہوتی ہے ۔ اے چھائمہ ہن کتنی کا امتحان پاس کیا ، ابو اٹھویں کا ۔ اج چھائمہ نے اٹھویں کر لئی تے تلیم دا احساس ہویا ۔ بڑے ماشٹر جی نے کہا تھا کہ شکول آپ دی مدد نال چلتا ہے ، ہم غریب ہیں کیا مدد کر سکتے ہیں پھر بھی میں نے کل کھوُت ،اے چھائمہ کھوت کو کیا کہتے ہیں ؟ گدھا ! آں گدھا بیچ دیا تھا باوی ہژار روپیے تھے دو ہژار رکھ کر باقی سارے شکول کے لیے دیتا ہوں ، نہیں یونس صاحب تھوڑے دیں ۔ ناں جی آپ چپ کر جائیں ، حافج صاب نے کیِ پڑھیا سی کہ اللہ کو قرج دو ۔ ہاں تو یہ اس لیے بھی دیتا ہوں کہ جس طرح جونے چنگڑ دی دھی نے کسی دی مدد نال تلیم حاصل کی ہے

اب چنگڑ کا فرج بھی بنتا ہے کہ وہ بھی اپنا حصہ ڈالے تاکہ میری طرفوں "چھائمہ مولبی نے کی کیا سی " ًصدقہ جاریہ ً ہاں شدقہ جاریہ ہو جاؤے ۔ چھائمہ پانی دا چھنا پاس رکھ ،وہ کس لیے اماں ، تیرے پیو کو کہیں غش ہی نہ پڑ جاؤے ۔ اُن کو نہیں پڑتی اماں آپ اگے سنیں ۔ اللہ حافج آپ سب دا نوکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں ہم سب کا بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد یونس ۔ سامعین آپ نے یونس صاحب کی باتیں اور اعلان سنا ساتھ ہی ہمارا اعلان بھی سنیں کہ اس عطیہ سے بننے والی لیب کا نام ًیونس کمپیوٹر لیب " ہوگا۔

چھائمہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا ! کیا اماں ؟ یہی تیرے پیو نے شدقہ جاریہ وچ بیس ہزار روپے دے دیے ، فیر باتیں وی کتنی اچھی کی ملوم (معلوم ) ہو رہا تھا مجمان خوششی یہی ہے حیران کرن والی بات تو یہ ہے شکول والوں نے ۔۔۔۔۔۔کیا کہتے ہیں اُس کو ًکمپیوٹر لیب ً ہاں لیپ دا ناں وی تیرے پیو دے ناں تے رکھ دتا۔ توُ وی تے غجب کر دتا ایویں لگ رہا تھا شکول دی ہیڈمس توُ ہی ہے ۔ جی اماں اسی کو کہتے ہیں مجلس تاثیر کہ جو شخص اپنے لیے بیس روپے کی دوائی نہیں خرید سکا اُس نے خدا کی راہ میں بیس ہزار دے دیے ۔
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56109 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.