بلدیاتی انتخابات میں تاخیر....عوامی مسائل میں اضافہ

تقریباً سوا سال میں متعدد بار سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود بھی ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پایا اور قریب قریب یہ انعقاد ہوتا دکھائی بھی نہیں دےتا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مزید مہلت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیے جانے کا امکان ہے۔ رواں ماہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے عدالت کو موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا جائے گا، جبکہ بلدیاتی انتخابات کے لیے صوبے اور وفاق حلقہ بندیوں کے لیے تاحال قانون سازی نہیں کرسکے، جس کے باعث 15 نومبر تک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاق، پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 15 نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی تھی اور قانون سازی کا عمل اگست کے آغاز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ صوبوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی نہ ہونے اور دیگر معاملات کے التواءکی وجہ سے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کافیصلہ کر لیا ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں باقاعدہ درخواست دائرکی جائے گی۔ یاد رہے کہ سابق صدر مشرف کے دورحکومت میں نافذ کیا جانے والا بلدیاتی نظام 2009 میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہو گیا تھا اور پھر اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری قرار دی گئی تھی،لیکن گزشتہ حکومت کے پانچ سال کے دوران ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے اور اس وقت کی صوبائی حکومتیں امن وامان کی خراب صورت حال کا کہہ کر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کنی کتراتی رہیں اور اب موجودہ حکومت کو آئے بھی ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور اس دوران سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت پر بلدیاتی انتخابات کروانے کے حوالے سے دباﺅ بھی ڈالا جاتا رہا ہے، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

گزشتہ سال 17 جولائی کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے متعلق وفاق اور صوبائی حکومتوں سے حتمی تاریخ مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینے میں ناکام رہیں توسپریم کورٹ ان انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دے گی۔کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات سے متعلق سیکرٹری دفاع سپریم کورٹ میں یہ یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ 15 ستمبر 2013 تک ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات کروا دیے جائیں گے۔“ سپریم کورٹ کے ان احکامات کے بعد پنجاب اور سندھ گورنمنٹ نے عدالت سے بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے نوے دن کی مہلت مانگی تھی، جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی وقت بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔ 18جولائی 2013کو سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے نوے دن کی مہلت دینے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ اور چاروں صوبائی حکومتوں سے کہاتھا کہ وہ ستمبر تک ان انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں۔ بلدیاتی انتخابات کو ایک روز کے لیے بھی ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پنجاب اور سندھ میں ان جماعتوں کی حکومت ہے، جوگزشتہ پانچ سالوں سے اقتدار میں ہیں اور ان حکومتوں کی طرف سے تین ماہ کی مہلت مانگنا اچھا نہیں لگتا۔ واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق صوبہ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں کا کہنا تھا کہ وہ 7 دسمبر کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار ہیں، جبکہ صوبہ سندھ کی حکومت نے سپریم کورٹ کو 27 نومبر کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی یقین دہانی کروائی تھی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے سپریم کورٹ کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی متعین تاریخ نہیں دی تھی، جبکہ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات گزشتہ سال ستمبر میں ہی کروانے پر مصر تھی۔ اس کے بعد گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں قومی اسمبلی نے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول پر نظر ثانی سے متعلق ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ حالات میں شفاف انتخابات ممکن نہیں ہیں، اس لیے ایسا فریم ورک دیا جائے جس میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ اس قرارداد کے بعد الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کروانے کے حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی تھی، لیکن الیکشن کمیشن کی درخواست اعتراضات لگا کر واپس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر کا کہنا تھا کہ عدالت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر فیصلہ دے چکی ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن متفرق درخواست نہیں دے سکتا۔ تمام صوبائی حکومتوں کے بے حد اصرار پر سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں میں تبدیلی کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں کی مشاورت کے بعد انتخابات کے انعقاد کی تاریخ مقرر کرے۔ لہٰذا 6 نومبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر تے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں27 نومبر اور پنجاب میں7 دسمبر کو پولنگ ہو گی، بلوچستان میں پہلے ہی 7 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جا چکا ہے، لیکن ایک بار پھر حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے اصرار پر 19 نومبر کو عدالت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دی گئی تاریخوں کو تبدیل کیا تھا اور قائم مقام الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات صوبہ سندھ میں 18 جنوری، پنجاب میں 30 جنوری اور خیبر پختونخوا، کنٹونمنٹ بورڈ اور اسلام آباد میں فروری میں ہوں گے، لیکن تمام صوبائی حکومتیں باربار تبدیل کی گئی تاریخوں پر بھی بلدیاتی انتخابات نہ کرواسکیں اور ایک بار پھر درخواست دے کر پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور وفاق میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سال رواں 15 نومبر تک کو کروانے کی مہلت لی تھی، لیکن اب ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر تینوں صوبے اور وفاق تاحال حلقہ بندیوں کے لیے قانون سازی نہیں کر سکے، جس کے باعث 15 نومبر تک پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور وفاق میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ 1985ءمیں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند میں میونسپل کارپوریشن کے نظام کا آغاز کیا، جس کے کل 27 ممبران تھے، جن میں 26 ممبران میونسپل کمیشنر اور 27 واں میئر کہلائے۔ اس نظام کی م ±دت 10 سال مقرر کی گئی تھی، قیام پاکستان کے بعد ایوب خان نے 1962ءمیں اسی نظام کو بی ڈی (BasicDemocratic) ممبر کے نام سے متعارف کروایا، بعدازاں بھٹو دَور میں دوبارہ کونسلرز سسٹم رائج ہوا، 1979ءاور 1980ءمیں یہ نظام نافذ کیا گیا، اس کے بعد 1998ءمیں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔ بلدیاتی نظام کا جو سب سے کامیاب دَور گزرا، وہ مشرف کا تھا، جس نے2001ءاور 2005ءمیں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نہ صرف استوار کیا، بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لامحدود اِختیارات سونپے گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات عوام کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ بلدیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام براہ راست منسلک ہوتے ہیں، عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور انہیں نہ صرف وہ عرصہ دراز سے جانتے ہیں، بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں، جبکہ قومی و صوبائی نمائندے محض انتخابات کے دنوں میں ہی عوام میں نظر آتے ہیں، وہ نہ تو علاقے کے مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ہی عوام سے شناسائی رکھتے ہیں۔ جبکہ بلدیاتی نظام میں عوام اپنے نمائندے اہل علاقہ سے منتخب کرتے ہیں ملکی سطح پر چھوٹے چھوٹے وارڈ / یونٹ میں الیکشن کروائے جاتے ہیں اور وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں، جنہیں عوام براہ راست چنتے ہیں۔ بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ اب بھی ملک کے بیشتر شہروں میں عوامی مسائل جوں کے توں ہیں، ان کو حل کرنے والا ہی کوئی نہیں ہے، سیورج اور صفائی سسٹم سے لے کر سڑکوں پر لگی لائٹوں تک جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے متقاضی ہیں، مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومتیں ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ ملک گیر سطح پر بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کے سبب صحت عامہ اور نکاسی آب و گنداب سمیت عوامی خدمات کے بنیادی شعبوں میں متعدد مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ اگر جمہوریت نچلی سطح تک نظام کے ثمرات پہنچاتی ہے تو پھر عوام کے لیے مقامی سطح پر اپنے نمائندوں کو منتخب کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صوبائی سطح پر اس حوالے سے بنیادی مسئلہ ایسی قابلِ عمل قانون سازی کا فقدان ہے، جو صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور اس کے بعد نظام کو قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ہو۔ بلدیاتی نظام کی ان ہی خصوصیات کی بناءپر آمروں نے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اس نظام کو رائج کیے رکھا۔ آمروں کے دور میں اس نظام کی وجہ سے عوام کے مسائل جلد اور بہتر طریقے سے حل ہوتے ہیں، اس لیے عوام میں میں یہ تاثر عام ہے کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے، کیونکہ آمریت میں عوام کے مسائل زیادہ بہتر طریقے سے حل ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد انتہائی ضروری ہے، تاکہ عوامی مسائل جلدی حل ہوں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.