وقت کی آواز

پرانے زمانے میں بادشاہ رات کے وقت بھیس بدل کرسیر کرنے اور اپنی رعایا کا حال معلوم کرنے نکلا کرتے تھے، اس طرح انہیں اپنی حکومت کی اچھی بری باتوں کا پتہ بھی چل جاتا تھا ،اور اگر کوئی خامی نظر آتی تو اس کو ٹھیک کر نے کی کوشش کرتے نہیں تو سیر سپاٹا کر کے واپس آ جاتے، ایک دن بادشاہ اوراس کے وزیر کا پیدل چلتے چلتے ایک جھونپڑی کے پاس سے گذر ہوا جس کے سامنے ایک بھکارن پھٹے پرانے کپڑے پہن کر صدا لگا رہی تھی،’’کوئی اﷲ کے نام پر ایک روٹی دے دوبابا اﷲ بھلا کرے گا۔

بادشاہ نے اپنے وزیرسے کہا، کیوں بھئی ہمارے راج پاٹ میں یہ بھکارن کیوں بھوکی ہے، اس کی ذمہ داری تو ہم نے تم کو سونپ رکھی ہے کہ ہماری بادشاہت میں کوئی بھوکا نہ رہے پھر ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں ؟ وزیر نے سر جھکا کر عرض کی ،بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو اس بھکارن کو بھیک مانگنے کی عادت پڑ چکی ہے جو جانے والی نہیں ،اس کو آپ اگرمحلوں کی رانی بھی بنا دیں گے تب بھی اس کو جو مزا بھیک مانگ کر کھانے میں آتا وہ اسے آپ کے شاہی دسترخوان میں بھی نہیں ملے گا، آپ اس کو اس کے حال پر چھوڑیں اور آگے چلیں۔

بادشاہ کو غصہ آ گیا وہ وزیر پر برس پڑا، کہنے لگا تم بکواس کر رہے ہو اس کو اگر محل میں جگہ مل جائے تو یہ اس جھونپڑی میں کیوں رہے گی اور بھیک کے لئیے آواز کیوں لگائے گی ؟ وزیر نے پھر بڑے ادب سے کہا حضور آپ آزما کر دیکھ لیں اگر میری بات غلط نکلے تو جو چاہے سزا دیں، بادشاہ نے پھر غصیلے لہجے میں کہا، ٹھیک ہے ہم اس کو محل کی رانی بنائیں گے اور اگر تمہاری با ت غلط نکلی تو تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا ہاں اگر واقعی اس کی عادت نہ بدلی تو تم کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

بادشاہ کے حکم سے اس بھکارن کو شاہی محل لے جا کر مہارانیوں کی طرح لباس پہنایا گیا اچھے اچھے کھانے بنا کر اس کے سامنے لائے گئے مگر یہ کیا کچھ دن بعد جب بادشاہ وزیر کے ساتھ اس کو دیکھنے آیا تو وہ اتنی کمزور اور لاغر نظر آئی کہ کچھ دن اور یہاں رہے گی تو مر ہی جائے گی، بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا ، کیا تم بیمار ہو ؟ اُسے چپ دیکھ کر فوراً شاہی طبیب کو بلایا گیا جس نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بادشاہ سے کہا، بادشاہ سلامت اس کو بھوک کی بیماری ہے کھانا پینا ٹھیک سے نہیں ہو رہا، بادشاہ نے باورچی کو بلا کر ڈانٹا کہ کھانا ٹھیک سے کیوں نہیں دیا گیا، باورچی بیچارہ ڈر کے مارے کانپتے کانپتے عرض کرنے لگا حضور اعلٰی میں نے اس کو عمدہ سے عمدہ کھانا لا کر دیا مگر یہ ایک نوالہ لے کر چھوڑ دیتی ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا، تو وزیر با تدبیر نے کہا، حضور جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں،بادشاہ کے سوال سے پہلے ہی وزیر نے تجویز پیش کی کہ ایک کمرہ جس میں سات طاق بنائے جائیں اس میں اس کو تنہائی میں کھانا دیا جائے تب اس کی یہ حالت بدل سکتی ہے، بادشاہ کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا،کچھ دنوں بعد جب بادشاہ پھر دیکھنے آیا تو اسے خوب موٹی تازی اور تندرست دیکھ کر وزیر سے اس کا راز دریافت کیا، وزیر نے مسکراتے ہوئے کہا حضور تھوڑی دیر میں آپ خود ملاحظہ فرما لیں،یہ کہہ کر باورچی کو کھانا لانے کہا، اورخود بادشاہ کے ساتھ ایک پردے کے پیچھے چھپ گیا۔

ادھر جب باورچی کھانا دے کر چلا گیا تو اس بھکارن نے سات طاقوں میں تھوڑا تھوڑا کھانا رکھ کرپہلے ایک طاق کے سامنے جا کر ہاتھ پھیلا کر صدا لگائی، دے کوئی اﷲ کے نام پر روٹی دے بابا، وہاں سے کچھ کھانا اٹھایا اسی طرح سات جگہ سے کھانا لے کر زمین پر بیٹھ کر مزے مزے سے کھانے لگی، تب بادشاہ کو وزیر کی بات سمجھ میں آئی کہ عادت جو انسان کو پڑ جائے وہ مشکل ہی سے جاتی ہے۔جیسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھکاری کے پاس کروڑوں روپے آ جائیں تب بھی اس کی بھیک مانگنے کی عادت نہیں جاتی۔

ہمارے خادم اعلی نے پولیس کی تنخواہوں میں دوگنا تگنا اضافہ تو کر دیا مگر جو رشوت خوری میں مزہ آتا ہے وہ خالی تنخواہ میں کہاں چاہے سو گن بھی ہو جائے۔ جیسے حرام کاری کرنے والے کو اپنی بیوی سے رغبت نہیں ہوتی چاہے کتنی بھی خوبصورت کیوں نہ ہو، شرابی کو شراب نہ ملے تو وہ بے چین ہو جاتا ہے،پولیس والے کی دہاڑی نہ لگے تواس کا دن ہی بے کار ہو جاتا ہے۔

اس بیماری اور وہ تمام بیماریاں جو اس وقت پاکستان میں عام ہیں ان کا علاج صرف اور صرف نظام شریعت میں ہے ۔جب تک صحیع معنوں میں اسلامی قوانین رائج نہیں ہوں گے یہ بیماریاں پھلتی پھولتی رہیں گی اور ایک دن یہاں انسان کی جگہ حیوان نظر ائیں گے۔

رب کردگار سے دعا ہے ہمارے حکمرانوں پاک سرزمین اﷲکے قانون نفذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

H.A Latif
About the Author: H.A Latif Read More Articles by H.A Latif: 5 Articles with 3473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.