میں کون ہوں؟

میں نہیں جانتا میں کون ہوں اور کس مقصد کے لئے وجود میں آگیا ہوں البتہ سمجھتا ہوں کہ میری وجود کا کوئی مقصد تو ہے جو مجھے اس دنیا میں لایا گیا ہے۔ میں اپنے آپکو تلاش کرنے کی بہت کوشش کر رہا ہوں لیکن نہیں کر پا رہا ہوں ۔کیونکہ مجھے اپنے آپکو تلاش کرتے کرتے شاید صدیاں بیت جائیں لیکن میں اپنی حقیقت کو نہ سمجھوں ۔ کیونکہ مجھے اپنی پہچان اور کھوج لگانے میں بہت عرصہ درکار ہے لیکن شاید میرے پاس وقت کم ہے کہ شاید میں اس کھوج میں کامیاب ہو سکوں اور سراغ لگا سکوں یا میں کھوج اور سراغ لگاتے لگاتے ٹھہر جاؤں اور میں اپنی اس کھوج میں ناکام نہ ہو جاؤں یہی خیال آتے آتے میں کھوج لگانا چھوڑ دیتا ہوں کیونکہ میرا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے اور میں کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھ پا رہا ہوں ۔ کبھی مجھے وقت بہت رکا سا لگنے لگتا ہے تو کبھی وقت کی دوڑ کو میں پکڑ نہیں پاتا۔ اور یہ وقت بھی بڑی ظالم چیز ہے۔ آخر گھڑی کی سوئی تو ایک حساب سے چل رہی ہے مگر وقت کبھی تیز تو کبھی آہستہ میری زندگی کو لے جانے کا سبب بن رہا ہے۔ جب میں بچہ تھا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ میں بچہ ہی ہوں اور بچہ ہی رہوں گا۔ جب میں بچپن کا دور پار کر گیا تو میرے اندر احساس پیدا ہونے لگا کہ میں تو ابھی جوان ہو گیا ہوں اور میری زندگی جوانی کے ساتھ رچی بسی ہے۔ لیکن شاید میری عمر اپنے اس مقام پر پہنچ جائے جسے بڑھاپا کہتے ہیں لیکن پھر بھی مجھے سمجھ میں نہیں آئے کہ میں کون ہوں اور اسی چیز کو لیکر میں اگلے جہاں میں جاؤں یا اﷲ کیا کروں کیسے پتہ لگا لوں کہ میں کون ہوں اور یہی سوچتے سوچتے میں اس دنیا سے چلا جاؤں اور مجھے پتہ بھی نہ چلے کہ میں کون ہوں۔

یہی میرا آج کا عنوان ہے کہ میں کون ہوں۔ یقینا آج کے دور میں کوئی نہ کوئی یہ سوچ تو رہا ہو گا کہ میں کون ہوں۔ عجیب فلسفے زہن میں آتے ہیں اور بہت کچھ سکھا کر اور دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ پہلی بات تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کون ہیں لیکن بہت کم لوگ ہیں جو یہ جاننے کی کوشش کریں لیکن دوسری صورت میں ہمارے بیشتر لوگ یہی سوچنے سے قاصر ہیں۔ ایک دن میں کہیں سے گزر رہا تھا۔ تو ایک نوجوان نظر آیا۔ جو سڑک کے کنارے بیٹھا سڑک کی آمد و رفت کو گننے میں مصروف عمل تھا پہلے خیال آیا کہ کوئی ایک بڑی زمہ داری انکے زمے لگا کر گیا ہے یا تو یہ روڈ پر آنے جانے والے ہر گاڑی کی حساب کر رہا ہو گا کہ اس سڑک پر روزانہ کی بنیاد پر کتنی گاڑیاں آتی جاتی ہیں جن سے اگر ٹیکس لیا جائے تو یقینا کسی کی معاشی صورتحال بہتر ہو گی یا تو یہ کہ گاڑیاں کس انداز اور کس رفتار سے چلتی ہیں یا کوئی اعداد و شمار جمع کرنے میں مصروف عمل ہوں۔ ـ’’ارے بھائی کیا حال ہے اور آپ یہاں؟ ہاں بھائی ٹائم پاس نہیں ہو رہا تھا سوچا کہ ٹائم پاس کر لوں ارے بھائی ٹائم پاس کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے؟ بس یہ پوچھنا تھا بندہ بہت غصے میں دکھائی دیا اور میں اپنا راستہ لئے چل پڑا۔ اور مجھے پیچھے بڑبڑانے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور میں کان پکڑ کر وہاں سے چل دیا۔ بالکل عجیب و غریب لگا کہ یہ سن کر کہ ٹائم پاس۔ میں سوچتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان کہ اس نے ہمیں انسان پیدا کیا اور سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت دئے۔ ہاتھ پاؤں، آنکھ دیئے تاکہ ہم دیکھیں اور اس جانب چلیں اور سمجھیں۔ لیکن آج بھی ہماری اکثر نوجوان ایسے بھی ہیں جو عمر کے ایک بہترین اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ ایک اہم کارنامہ اور بہترین خدمت کر سکتے ہیں لیکن آج بھی انکی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے اہم ترین اثاثے ضائع ہو رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بہتر طور پر فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے سوسائٹی میں نوجوانوں کو گائیڈ لائن فراہم کرنے والے نہ ادارے موجود ہیں اور نہ ہی کوئی افرادی قوت۔ یہاں پر میں نے اثر دیکھا ہے کہ ہمارے سوسائٹی ہی کے اہم افراد جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ ہیں انہیں اپنی نجی زندگی سے اتنا بھی فرصت نہیں ملتا کہ وہ نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں اور انہیں یہ بتا سکیں کہ وہ کون ہیں۔ میرا ایک دوست مجھے بتا رہا تھا کہ وہ ایک ایسا ادارہ قائم کر رہے ہیں جس میں نوجوانوں کو گائیڈ لائن فراہم کی جائے گی کہ وہ کس شعبے کے لئے موزوں ہیں اور اسکا انتخاب ایک زہنی آزمائشی ٹیسٹ کے تحت لیا جائے تا کہ اس عمل سے اسکا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ مجھے اسکا وژن بہت ہی اچھا لگا۔ کیونکہ اسکول ہی کے زمانے میں مجھے صرف اتنا یاد تھا کہ آگے جا کر ایک طالبعلم یا تو ایک ٹیچر یا ڈاکٹر یا انجینیئر ہی بن سکتا ہے اسکے علاوہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے ناواقف تھا۔ کیونکہ کوئی گائیڈ لائن فراہم کرنے والا کوئی ادارہ تھا اور نہ ہی اسکولوں کی سطح پر آپکو گائیڈ لائن فراہم کی جاتی ہے کہ آگے آپ کس شعبہ ہائے زندگی کے لئے موزوں ہو۔ ہاں البتہ ایک چیز ضرور زہن میں ڈالا جاتا ہے کہ بس گریجویشن کرلو اور گورنمنٹ ملازمت حاصل کرکے باقی کی زندگی عیش و عشرت کی زندگی گزار لو۔ اور اسی کو زہن پر بٹھا کر نوجوان اپنی زندگی کے چند سال گزار کر سرکاری ملازمت حاصل کرکے ایک آرام سی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور پھر مزید کچھ کر دکھانے یا مزید آگے بڑھنے کا لگن اسکا ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمارے دیہاتی علاقوں میں جائیں 90%سرکاری ملازم گھر بیٹھے صرف تنخواہ لیتے ہیں نہ انکے پاس مزید کچھ کرنے کا سوچ ہے اپنے لئے اور اپنی سوسائٹی کے لئے۔ اور بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو فارغ بیٹھے ہیں مگر انکی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل نہیں کیا جا رہا۔ جسکی وجہ سے انکا قیمتی وقت تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہے۔ ان میں زیادہ تر بیروزگاری کے بھینٹ چڑ رہا ہے جس سے نہ صرف سوسائٹی عدم توازن کا شکار ہو رہا ہے بلکہ یہی نوجوان بیشمار غلط راستوں پر چل پڑے ہیں جس میں نشہ، چوری، ڈکیتی اور دیگربری عادات شامل ہیں۔ حالانکہ اگر دیگر ممالک میں نظر دوڑائی جائے تو انکی سب سے بڑی قوت افرادی قوت ہے جن سے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ اگر چائنا کی مثال لیں حالانکہ وہاں کی آبادی بہت بڑی ہے لیکن وہاں صنعتی شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے اور ٹیکنیکل شعبے میں لوگوں کو مہارت حاصل ہے۔ اور بیروزگاری کی شرح بھی بہت کم ہے لیکن یہاں پر اسکے برعکس پایا جا رہا ہے اور اسکا سد باب کوئی نہیں ڈھونڈ رہا جسکی وجہ سے غربت اور بیروزگاری کی شرح انتہائی بڑھ رہی ہے۔ اور یہی چیز ہر نوجوان کے زہن کو برح طرح متاثر کر چکا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کون ہے۔ اور اسکی زہن محدود ہو چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت نوجوانوں کے لئے ذرائع پیدا کرے تا کہ انکی زہنی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا جا سکے۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو وقت اور حالات ایسے بن چکے ہیں کہ نوجوانوں کی سوچ کی سوئی رک چکی سی ہے اور وہ خود سوچنے سے قاصر ہیں کہ وہ کون ہیں۔۔۔
 

Shabir Rakhshani
About the Author: Shabir Rakhshani Read More Articles by Shabir Rakhshani: 20 Articles with 16763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.