آخر یہ تماشا کیوں؟

ملکی اور عالمی منظرنامہ اس وقت بہت تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار ہے، عالمی چوہدریوں کی سرپرستی میں امریکی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے ناجائز باپ اور دایہ اقوامِ متحدہ کی آشیر باد سے نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے ان کی مسلسل نسل کشی کررہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ستائیس روز میں دو ہزار کے قریب فلسطینی خواتین، مردوں اور بچوں کو شہید، ہزاروں کو زخمی اور لاکھوں کو بے گھر کردیا گیا ہے مگر امریکی بھیڑیا باراک اوبامہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے کہہ کر اس کی کمر پر تھپکی دیتا ہے اور امریکی پارلیمنٹ اس کے لیے کروڑوں ڈالرکے امدادی فنڈ کا اعلان کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی اسرائیلی ڈھنڈورچی کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک قیدی فوجی کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہے مگر ایک دن میں سینکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلانے پر کوئی واویلا نہیں کرتی جبکہ عالمی سطح پر بھی مسلم حکمرانوں کی طرف سے بھی کسی قسم کا شدید ردِ عمل سامنے نہیں آرہا البتہ عوامی سطح پراسرائیلی مظالم کے خلاف بھرپور آواز اُٹھ رہی ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ عبداﷲ کی طرف سے اسرائیل کی کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دینا اور مسلم اُمہ کے لیے اتحاد کا پیغام خوش آئند ہے مگر کیا ایسا ممکن ہو پائے گا۔۔۔ کیونکہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ پاکستان جسے عالم اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے وہاں پر عجیب افراتفری کا ماحول ہے، ایک طرف حکومت اور افواجِ پاکستان اسلام کے نام پر ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے نام نہاد طالبان سے برسرِ پیکار اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے کوشاں ہیں جبکہ دوسری طرف ملکی سیاستدان اور مذہبی راہنما آزادی اور انقلابی مارچوں کے نام پر ایک نئے انتشار کو جنم دینے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کے لیے دھڑا دھڑ تیاریاں کی جارہی ہیں، انقلاب کے ان داعیوں اور تبدیلی کے خواہوں کو نہ ملک میں افواجِ پاکستان کا آپریشن ضربِ عضب نظر آرہا ہے اور نہ ہی اسرائیلیوں کے ظلم اور نہ ہی مظلوم فلسطینیوں کی چیخیں ان کے کانوں تک پہنچ رہی ہیں کہ ان کے لیے کچھ بول یا کرسکیں۔۔۔ انھیں تو مارچوں کی بدولت گرتی ہوئی حکومت، مڈٹرم انتخابات اور سپنوں میں بسی ہوئی عنانِ حکومت اور وزارتِ عظمیٰ نظر آرہی ہے پھر وہ کیونکر کوئی اور بات کریں گے ، انھیں تو اقتدار چاہئے اور اس کے لیے تانے بانے بنے، اسٹیج تیار اور ڈرامے رچائے جا رہے ہیں اور سب فرمانِ نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بھول گئے ہیں کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس کو محسوس کرتا ہے۔۔۔ آج اگر فلسطین جل رہا ہے تو انھیں کیا؟ وزیرستان کے لوگ بے گھر ہوتے ہیں تو اُن کی بھلا سے ۔۔۔ یہ تو اپنی روش پر چلیں گے، انھیں تو اقتدار چاہئے چاہے کسی بھی قیمت پر، پہلے بھی ایک نئے پاکستان کا نعرہ لگا تھا اور نتیجے میں مغربی پاکستان صرف پاکستان رہ گیا۔۔۔ اب اﷲ ہی خیر کرے!

Mushtaq Ahmed Shaikh
About the Author: Mushtaq Ahmed Shaikh Read More Articles by Mushtaq Ahmed Shaikh: 11 Articles with 6441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.