ممتا

میاں بیوی کا آپس میں بے حد پیار تھا۔ رب العزت نے صرف ایک ہی بیٹا دیا تھا۔ مگر جب سے بیٹے کی شادی ہوئی تھی۔ وہ اپنی بیگم کے ساتھ زیادہ مصروف ہو گیا تھا۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھتے اور اپنے حال میں مست ر ہتے تھے۔ بیٹا اگر پوچھ لیتا تو ٹھیک نہ بھی پوچھتا تو انہیں کوئی گلہ نہیں ہوتاتھا۔ کچھ دنوں سے میاں کی طبیعت خراب تھی مگر اُسے اپنی بیماری سے زیادہ اپنی بیگم کی فکر تھی کہ اس کے مرنے کی صورت میں وہ اکیلی کیسے وقت گزارے گی۔ یہ دو منزلہ مکان جس میں وہ رہتے تھے اُن کی تمام عمر کی کمائی تھی۔ مکان کا اوپری حصہ کرائے پر تھا۔ وہ کرایہ اُن دونوں کی گزر بسر کے لئے کافی تھا۔ نیچے ایک حصے میں وہ دونوں میاں بیوی تھے اور دوسرے حصے میں بیٹا ہوتا تھا۔

میاں کی بیماری زیادہ ہوئی تو اس نے کاغذات منگوائے اور کوشش کی کہ مکان بیوی کے نام کر دے تاکہ اُس کے بعد اسے کوئی مالی پریشانی نہ ہو۔ مگر بیوی بضد تھی کہ اُن کا ایک ہی بیٹا ہے اور یہ مکان بہر حال اُسی کا ہے تو بجائے اس کے بیٹے کے نام پر منتقل کر دیا جائے۔ خاوند نے لاکھ سمجھایا کہ مکان اگر تمہارے نام ہو گا تو کرایہ تم وصول کرو گی۔ کسی پر بوجھ نہیں ہوگی۔ مگر ممتا نہ مانی اور خاوند نے مجبوراً مکان بیٹے کے نام منتقل کر دیا۔ چند دنوں بعد میاں فوت ہوگیا اور وہ اکیلی رہ گئی۔ شروع میں بیٹا اور بہو روزانہ اس کے اس آ کر بیٹھ جاتے مگر پھر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ بیٹا کرایہ وصول کرتا مگرماں کو اس نے کبھی بھی کسی ضرورت کے بارے میں نہیں پوچھا۔ ماں نے بھی کبھی سوال نہیں کیا۔ بس میاں کے بعد کچھ گم سم سی بیٹھی رہتی تھی۔

سال ڈیڑھ گزرہ تو بیٹے نے ماں کو کہا کہ گزارہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی بڑھی جارہی ہے اور آمدن کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ ماں بچوں کے کمرے میں منتقل ہو جائے اور آمدن کے لئے ماں کا پورشن بھی کرائے پر دے دیا جائے۔ ماں نے کچھ جواب نہیں دیا۔ چپ چاپ اپنی چند چیزیں اٹھائیں اور بچوں کے کمرے میں چلی گئی۔ گو اس کمرے سے جڑی بہت سی یادوں کو دفن کرتے اُسے بہت تکلیف ہوئی مگر اپنے اکلوتے بیٹے کی خوشی کی خاطر اس نے ہر تکلیف قبول کر لی۔

بچوں کے کمرے میں ماں کو رہتے ابھی چھ ما ہ بھی نہیں گزرے تھے کہ بہو کو بہت سی شکایات لاحق ہوگئیں۔ ماں ساری رات کھانستی تھی اور اس کی کھانسی کے سبب بچوں کی نیند خراب ہوتی تھی۔ بچوں کو پڑھنے کے دوران ماں کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ جس سے ان کی پڑھائی کا حرج ہوتا تھا۔ بیٹا جب دفتر سے گھر آتا تو بہو بچوں کے کمرے کے سامنے کھڑے ہو کر ماں کی شکایت کرتی۔ اور ہر روز ایک نئی شکایت کے باوجود ماں کبھی نہیں بولی۔ کبھی گلہ نہیں کیا۔ کبھی شکایت نہیں کی بیٹا ماں کے بارے شکایت سنتا سر ہلاتا اور پھر دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے۔

وہ چھٹی کا دن تھا۔ بیٹے نے کہا ماں تیار ہو جاؤ ایک جگہ جانا ہے۔ ماں حیران تھی کہ بیٹے کو مجھے کہیں لے کر جانے کا خیال کیسے آیا۔ چپ چاپ تیار ہوئی۔ گاڑی میں بیٹھی۔ تھوڑی دیر میں گاڑی ایک اولڈ ہوم کے باہر کھڑی تھی۔ ماں نے عمارت پر لکھا بورڈ پڑھا۔ بات سمجھ میں آگئی مگر کچھ نہیں کہا۔ بیٹے نے کہا ماں تم بیمار ہو۔ یہاں تمہارا علاج بہت اچھی طرح ہوگا اس لئے لایا ہوں۔ تمام کاروائی بیٹا پہلے ہی مکمل کر چکا تھا۔ بس ماں کو اُن کے حوالے کر کے واپس چلا گیا اور پھر کبھی ماں کی خبر نہیں لی۔

ماں بیٹے کی ملاقات کو پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ اب ماں کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اس نے اولڈ ہوم کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ اس کے بیٹے کو بلائے۔ اگلے دن بیٹا ماں کے پاس تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد بیٹے نے بلانے کی وجہ پوچھی۔ تو ماں نے کہا کہ بیٹا جس کمرے میں میں نے پانچ سال گزارے ہیں اس کی حالت اچھی نہیں اسے فوراً ٹھیک کرادو اور گرمی بھی بہت ہے ایک پنکھا بھی لگوا دو بیٹے نے سن کر کہا ماں اتنی معمولی بات تو مجھے فون پر بھی بتا دی ہوتی میں فوراً کمرہ بھی ٹھیک کرا دیتا او پنکھا بھی لگوا دیتا۔ ماں نے جواب دیا بیٹا میں مر رہی ہوں مجھے اب پنکھے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ سوچتی ہوں تمہارا بیٹا جوان ہو رہا ہے۔ کل کو تمہاری بہو بھی آئے گی اور انہیں وافر کمروں کی ضرورت بھی ہو گی۔ چنانچہ ہوسکتا ہے کہ تمہارا بیٹا تمہیں یہاں چھوڑ جائے۔ یہاں کی گرمی میں نے تو برداشت کر لی ہے۔ تمہارے لئے مشکل ہوگی۔ یہ پنکھا میں اپنے لئے نہیں تمہارے لئے منگوا رہی ہوں۔

ہم بہت سے معاملات میں مغرب کے طرز عمل پر تنقید کرتے اور اسے غلط قرار دیتے ہیں مگر اُن کی اچھی باتوں پر غور نہیں کرتے۔ بزرگ شہری اپنی زندگی کے آخری دور کو ہنستے کھیلتے او خوش و خرم گزاریں اس کے لئے مغربی معاشرے کی جدوجہد اور خدمات بلاشبہ انتہائی قابل تعریف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں میرا بزرگ میرا بزرگ ہے میں اس کی خدمت کروں۔ دیکھ بھال کروں مگر کسی دوسرے کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ مغربی معاشے میں بزرگ پوری قوم کا بزرگ ہے۔ قوم کا ہر شخص اس کا احترام کرتا اور اس کا خیال رکھتا ہے۔ اس کے اپنے بچے کیسے بھی ہوں پورا معاشرہ بچوں کی طرح ان کے اردگرد منڈلاتا نظر آتا ہے۔ حکومتی سطح پر بزرگوں کے لیے مراعات اور دیکھ بھال کی تمام سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حکومت تو کیا شخصی بے حسی بھی کمال ہے۔ عید کی وجہ سے بنک کی برانچوں میں بے حد ش تھا۔ ایک بزرگ نے مینجر آپریشن سے پوچھا۔ بھائی بڑی دیر ہو چکی باری نہیں آہی کیا آپ کے یہاں کوئی بزرگ شہریوں کا بھی کاؤنٹر ہے۔ مینجر صاحب نے روکھے انداز میں جواب دا۔ بزرگ شہریوں اور عورتوں کو بہلاتے رہیں تو کوئی کام نہیں کرسکتے۔ جہاں اتنا انتظار کیا ہے کچھ اور کرلو۔ مینجر صاحب کا یہ جواب ہمارے پورے معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی کا عکاس ہے۔

حکومتی سطح پر بہت سے قانون پاس ہوتے ہیں جن قوانین میں بزرگ شہریوں کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک خوشخبری ہوتی ہے مگر وہ قوانین کہاں جاتے ہیں۔ اُن پر عملدآمد کیوں نہیں ہوتا۔ دھوم دھام سے ہونے والی تشہیر ختم کیوں ہو جاتی ہے۔ قانون پھر کہیں کتابوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بہت سے وکلا بزگ شہریوں کے کیس مفت کرتے اور انہیں قانونی امداد فر اہم کرتے تھے۔ اب مالی قدروں نے ہر خداترسی کا درروازہ بند کر دیا ہے۔ کوئی شخص بھی نیکی میں ملبوس نظر نہیں آتا۔ بزرگ شہریوں کی مشکلات بڑھتی جاہی ہیں۔بہت سے دوست اپنے جاننے والے بزرگوں سے ناروا سلو ک کے بہت سے قصے سنا تے ہیں۔ سن کر افسوس ہو تا ہے مگرعام آد می افسوس سے زیادہ ۔کچھ نہیں کر سکتا۔ کاش حکومت اپنی الجھنوں سے فرصت پائے اور بزرگ شہریوں کے بارے میں بھی کچھ مثبت اقدامات کرے۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443493 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More