قضائے عمری ادا کرنے کے سستے نسخے

سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمعۃ الودع کے دن نمازِ جمعہ کے بعد دو رکعت نفل نماز قضائے عمری کی نیت سےادا کریں تو ساری عمر کی فرض نمازوں کی قضا ادا ہوجائےگی ،اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے پورے سال کی نمازیں ادا ہوجاتی ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب : یہ خیال بالکل غلط اور باطلِ محض ہے:

شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ مسلمان کو نماز قضا ہی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ‘‘ جو شخص ایک فرض جان بوجھ کر قضا کردے، اللہ تعالیٰ کا ذمہ اس سے بری ہے’’۔بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ‘‘سرکار ﷺ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے فرمایا۔ آج رات دو شخص یعنی جبرائیل اور میکائیل علیھما السلام میرے پاس آئے اور مجھے ارض ِمقدسہ میں لے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص لیٹا ہے اور اس کے سرہانے ایک شخص پتھر اُٹھا ئے کھڑا ہے اور پے در پے پتھر سے اس کا سر کچل رہا ہے ، ہر بار کچلنے کے بعد سر ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ میں نے فرشتوں سے کہا ، سبحٰن اللہ عزوجل یہ کون ہے ؟ انہوں نے عرض کی ، آگے تشریف لے چلئے(مزید مناظر دکھانے کے بعد )فرشتوں نے عرض کی ، کہ پہلا شخص جو آپ ﷺ نے دیکھا یہ وہ تھا جس نے قرآن یاد کر کے چھوڑ دیا تھا اور فرض نمازوں کے وقت سو جانے کا عادی تھا اس کے ساتھ یہ برتاؤ قیامت تک ہو گا’’۔ (ملخص از : صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 1043)

جو شخص غفلت و کوتاہی کی وجہ سے نماز کا تارک رہا، پھر اس نے توبہ کرلی اور عہد کیا کہ وہ کوئی نماز قضا نہیں کرے گا، تب بھی گزشتہ نمازیں اس کے ذمہ باقی رہیں گی، اور ان کا قضا کرنا اس پر لازم ہوگا، اور اگر زندگی میں اپنی نمازیں پوری نہیں کرسکا تو مرتے وقت اسےچاہیے کہ وصیت کردےاور ورثا اتنی قضانمازوں کا فدیہ ادا کردیں، یہی حکم زکوٰة، روزہ اور حج وغیرہ دیگر فرائض کا ہے۔

یاد رکھیں ! اگر کوئی شخص ایک فرض ترک کردے تو ساری عمر کی نفلی عبادت بھی اس ایک فرض کی تلافی نہیں کرسکتی، اور یہاں یہ بڑی عجیب بات بتائی جاتی ہے،SMS کئے جاتے ہیں،پمفلٹ تقسیم کئےجاتےہیں کہجمعۃ الودع کے دن نماز جمعہ کے بعد دو رکعت نفل نماز قضائے عمری کی نیت سےادا کریں تو ساری عمر کی فرض نمازوں کی قضا ادا ہوجائے گی۔یہ بات بالکل غلط ہے اور اسے عام کر کے ثواب کی بجائے گناہ نہ کمایا جائے خدارا بچئے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی بچائیے۔

عرض : جاگنے کی راتوں میں نوافل کے بجائے قضا نمازیں پڑھنا اوْلٰی ہے۔
Abu Hamid Khalil Madni
About the Author: Abu Hamid Khalil Madni Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.