عید کی حقیقت

اَ صل عیداور اُس کی خوشی بندے کواُسی وقت حاصل ہوتی ہے جب اُس کا رب اُس سے راضی ہو

اللہ تعالیٰ کی جانب سے رحمت، مغفرت اور نجات کی شکل میں ملنے والی بخششوں اورعنایتوں پر شکر ادا کرنا عیدہے،اور یہ تمام انعامات واکرامات ہم بندوں کواُسی صورت میںحاصل ہوتے ہیں جب ہم اللہ اوراُس کے رسول کی رضاکے لیے رمضان کے روزے رکھتے ہیں اوراُس کےتمام لوازمات وشرائط کی پوری پوری پابندی بھی کرتے ہیں،گویاعیددراَ صل اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ چنانچہ اگرہم نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا،تویہ سمجھ لیں کہ یہی ہماری عیدہے،ورنہ پھر یہ عید ہمارے لیے کسی وعیدسے کم نہیں۔

امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جنھیں حیات ہی میں جنت کی بشارت دی جا چکی ہے اور جن کی نیکیاں آسمان کے تاروں کے برابر ہیں،جب عید آتی تو آپ زاروقطار روتے، پوچھاجاتاکہ آپ اس قدر کیوں رو رہے ہیں؟آج عید ہے،آج توخوشی منانے کا دن ہے۔یہ سن کر امیرالمومنین فرماتےکہ یہ خوشی کا بھی دن ہے اوراللہ سےخوف رکھنےکا بھی۔کیوں کہ عید اُسی شخص کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوئے اور جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا،لیکن جس کے نہ روزے مقبول ہوئے اور نہ ہی اس سےاللہ تعالیٰ راضی ہوا ،تواُس کےلیے یہ عید،عیدنہیں بلکہ وعید ہے۔اور میں یہ نہیں جانتاہوں کہ میں مقبولوں میں سے ہوں یا نامقبولوں میں سے۔چنانچہ میں اسی لیے رورہاہوں کہ اللہ تعالیٰ نہ جانےآخرت میں مجھ سے کیا سلوک فرمائے؟

معلوم ہوا کہ اَ صل عیداور اُس کی خوشی بندے کواُسی وقت حاصل ہوتی ہے جب اُس کا رب اُس سے راضی ہو۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو فرشتے اللہ کے حکم سے چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور آواز دیتے ہیں کہ اےاُمت محمدیہ!اپنے مالک کے حضورحاضرہو ،جو انعام دینے والا اور گناہوں کی مغفرت فرمانے والا ہے۔پھرجب اُمت محمدیہ عیدگاہ کی طرف نکلتی ہے ،تواللہ فرشتوں سے فرماتاہےکہ اگرمزدوراپناکام پوراکرلے تو اُس کا بدلہ کیا ہے؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ مولیٰ!اس کا پوراپورا بدلہ دیاجائے۔(شعب الایمان)

چنانچہ اب اگرہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ہماری مزدوری کی پوری پوری اُجرت ملےتو آپس میں ایک دوسرے کے لیے موجودبغض وکینہ اورجلن وحسدکوبھی دورکرلیں اور معافی تلافی بھی کرلیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آپسی بغض وعناداورذاتی دشمنی کی وجہ سے عیدکے دن اللہ رب العزت کے انعامات واکرامات سے محروم ہوجائیں۔
بہت سے لوگ عیدمیں فقط اپنااور اپنے اہل وعیال کی خوشی کا خیال رکھتے ہیں،لیکن اپنے پڑوسیوں، مفلسوں اور محتاجوں کی خوشی کاخیال نہیں کرتے،مزیدیہ کہ صرف اپنے برابر اور اپنے ہم منصب لوگوں کے ساتھ مل کرعیدکی خوشی بانٹتے ہیں، ایسا کرنا نہ صرف اخلاقی اورسماجی اعتبارسے جرم ہے ، بلکہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب بھی ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ مومن نہیں جس کاپڑوسی بھوکا اور وہ خودشکم سیر ہو ۔)طبرانی)

اگر اِس پر قیاس کریں تو بلاشبہ یہ کہاجاسکتاہے کہ جو اِنسان خودتو عید کی خوشی منائے لیکن اس کا پڑوسی اس میں شریک نہ ہو تو وہ مومن نہیں،اورجب وہ مومن ہی نہیں رہاتو اُس شخص کواللہ ورسول کی رضاکیسے حاصل ہوگی؟

اللہ تعالیٰ نے ہمیں جوصدقۂ فطر اداکرنے کاحکم دیا ہے، تو اِس کامقصدبھی یہی ہے کہ مفلسوں اورمحتاجوں کو عید کی خوشی میں شریک ہونے کا موقع مل جائے اور اُنھیں اپنی مفلسی کا احساس نہ ہو۔لیکن ہم میں بعض مغروراور گھمنڈی ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام دنوںمیں تو تنگدستوں، یتیموں اورمحتاجوں کو جھڑکتےاور پھٹکارتے ہی ہیں ،عید کے دن بھی اُنھیں ڈانٹنے ڈپٹنے سے باز نہیں آتے۔ہمارے یہ اعمال نہ صرف سماجی اوراخلاقی طورپرمعیوب ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اورمحسن انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی سخت ناپسند ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
فَأَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ۝۹وَأمَّاالسَّائِلَ فَلَاتَنْہَرْ۝۱۰(سورۂ ضحی)

یعنی یتیم کوذلیل ورسوا نہ کرو ، اُس کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ،بلکہ ممکن ہوتو ایک باپ کی طرح اُس پر شفقت کرو۔نیز مانگنے والوں پر ظلم نہ کرو اور نہ ہی اُن کو سخت وسست کہو،بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق اُنھیں کچھ دے دو ، تاکہ وہ بھی عید کی خوشی میں شریک ہوسکیں۔

اس لیے ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ عید میں تنگدستوں،یتیموں، غریبوں اورمحتاجوں کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی سے پیش آئیں اور کسی بھی طرح کی غیرانسانی حرکت اور بداخلاقی کامظاہرہ نہ کریں۔
عیدکوعام تہواریامحض خوشی کا ذریعہ سمجھنابھی مومنانہ شان کے خلاف ہے،کیوںکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوںمیں سے ایک ہے ، چنانچہ اس کا احترام اور اس کی عزت وتوقیرکرنا ہم مسلمانوں کے لیے لازم ہے،تاکہ ہمارا قلب اصل عیدکی لذت پاسکے ۔

رہا یہ سوال کہ عید کی تعظیم وتوقیر کس طرح سے کی جائے ،تو اِس کا جواب یہ ہے کہ عید کے دن کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے کسی کوتکلیف پہنچے اوراللہ ناراض ہو،ہرلہوولعب اور خرافات سے یکسر اجتناب کیاجائے، مفلس پر اپنی مالداری کا رعب نہ ڈالا جائے ،عید کے جو اعمال ہیں اُنھیں درستگی کے ساتھ اداکیاجائے ،صرف اپنے احباب واقارب یا مالداروں کو اہمیت نہ دی جائے ، مفلسوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو ایک مالدار اورجاہ وحشمت والوں کے ساتھ عموماًکیا جاتا ہے،بلکہ مفلسوں اور محتاجوں کے ساتھ اور زیادہ احسان وبھلائی کا معاملہ کیا جائے،تاکہ اُنھیں اپنی محتاجی اورمفلسی کا احساس نہ ہو۔

اگر ہم ایسا کرتے ہیں ،تو ٹھیک ورنہ ہم چاہے جتنابھی عمدہ لباس زیب تن کرلیں ،چاہے جتنی بھی دعوت کا اہتمام کرلیں ہماری عید، مومن کی عید کہلانے کے لائق نہیں ۔(ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ الہ آباد)
 
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52284 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More