نقالوں سے ہوشیار

ویسے تو اپنے ہاں نہ دو نمبروں کی کمی ہے نہ نقالوں کی نہ جوکروں کی ،ایک سے ایک بڑا مداری اور دھوکے باز اپنے ہاں موجود ہے اور اگر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے اپنی کتاب لے کے دنیا کے دس نمبریوں کی تلاش میں نکلیں تو یقین کریں ان گاڑی پاکستان آ کے نہ صرف رک جائے بلکہ یہاں سے انہیں اپنا مطلوبہ مواد یوں تھوک کے حساب سے ملے کہ ان کی کتاب میں جگہ ہی نہ رہے،بیورو کریسی سے لیکر حکمران تک،ریڑھی بان سے لیکر تاجر تک،کسان سے لیکر آجر تک ہر کوئی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے کے چکر میں ا ور وہ بھی بغیر محنت کیے بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے،مگرایک منٹ ٹہریئے ذرا اس پہ غور تو کریں کہ ایسا کیوں اور اس کی وجہ کیا ہے،کیوں ہر شخص دیہاڑی لگانے کے چکر میں ہے اس لیے کہ جو اس کے رول ماڈل ہیں یعنی حکمران ان کا حال اس سب سے مختلف نہیں،بلکہ کرپشن اور لوٹ مار کا اصل سبق ملتا ہی ان حکمرانوں سے ہے،اس ملک کو کیسے کیسے نابغے حکمران نصیب ہوئے لکھنے کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے مگر میں ماضی بعیدمیں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے ماضی قریب اور موجودہ حکمرانوں کی بات کروں گا اور سب سے زیادہ ان کی جو برسراقتدار ہیں کیوں کہ جانیوالوں کی برائیاں بیان کرنا آسان ہے لیکن کلمہ حق منہ پہ کہنا زیادہ مشکل،ویسے بھی چلے جانیوالے کی اس کے جانے کے بعد خامیاں نکالنا سانپ کے نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہوتا ہے،جو اپنے ہاں بڑی شدومد سے ہوتا ہے،مگر ہمیں نہ ان حکمرانوں سے کوئی غرض مفاد ہے نہ جانے والوں سے تھا اس لیے ہمیشہ جو بات محسوس کی کھل کے بیان کی،جانے والے چور تھے خائن تھے ڈاکو تھے آج والوں کے کندھے کے سہارے اپنے پانچ سال پورے کیے اور چلتے بنے اس وقت یہ ایک طرف ان کو سہار ادیتے تھے تو دوسری طرف انہیں سڑکوں پہ گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے،بڑا بھائی انہیں زرداری ٹولہ تو چھوٹا بھائی علی بابا اور چالیس چور کہتا تھا مگر صرف جلسوں اور عوا م میں اندرون خانہ کہانی کچھ اور تھی جو بعد میں ساری دنیا نے دیکھی کہ ان سے ان کو اقتدار کی منتقلی کے وقت بڑے گھر میں فیملی فوٹو سیشن ہوتے رہے اسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی منافقت ہی کہا جا سکتا ہے،اور یہی منافقت آپ کو اس ن لیگ میں ہر طرف نظر آئے گی،کل کلاں جب بجلی بند ہوتی تھی تو ہنجاب گورنمنٹ سڑکیں بند کرنے اور واپڈا دفاتر توڑنے والوں کی معاونت کرتی تھی،مینار پاکستان میں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کیمپ لگائے جاتے تھے،خودخادم اعلیٰ صاحب احتجاجی دھرنوں اور جلوسوں میں شریک ہوتے تھے،اور اب آج جب لوگ نکلتے ہیں تو ہولیس کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ بے شک چڑھ دوڑوجس طرح مرضی،اب لوڈشیڈنگ کے مطاہرین پر پولیس گردی دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ مطاہرین انڈیا کے ہیں یا پولیس جموں کشمیر کی بھارتی فوج،اس کو بھی نرم سے نرم الفاظ میں ،،،،،،،اور تو اور اس وقت چھ ماہ میں جی ہاں صرف چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے اور وعدے ،انہوں نے غالباًپاکستان کو بھی اتفاق فونڈری سمجھ رکھا تھا،جب اقتدار میں آئے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگیا،اب ایک بھائی ہوائی جہاز سے نہیں اترتا تو دوسر ا ہیلی کاپٹر سے ،ایک ایک رمضان بازار کا دورہ اس غریب قوم کو پانچ پانچ لاکھ میں پڑ رہا ہے،کمال حیرت کی بات ہے کہ نجانے کس عقل کے اندھے نے ان کے مغز میں یہ بات ڈال دی کہ کوئی بازار اس وقت تک صحیح کام کر ہی نہیں سکتا جب تک شوباز خود نہ پہنچیں،کیا یہ گڈ گورننس ہے اگر ہر جگہ ہلا لا لا لا کر کے خود پہنچنا ہے تو وہاں موجود نام نہاد انتظامیہ سے تو اس قوم کی جان خلاصی کرائیں،پھر وہاں پہ کسی ڈی سی او ،ایڈمنسٹریٹر اور اسسٹنٹ کمشنر کی کیا ضرورت ہے ،کم از کم ان سے تو نجات دلائیں،اس کے علاوہ اس جماعت میں اوپر سے نیچے تک ہر کوئی دوسرے کی نقل کی کوشش کرتا ہے بڑے میاں صاحب قائداعظم ثانی بنتے ہیں تو چھوٹے میاں جی چند مائیک گرا کر بھٹو بننے کی کو شش کرتے ہیں،آپ ان کی پوری قیادت کو دیکھ لیں ہر جگہ یہی حال ہے،ایم پی اے شہباز شریف کی نقالی میں مصروف ہیں تو ایم این اے نواز شریف کو ہی دنیا کا سب سے عقلمند اور پہنچا ہوا بزرگ سمجھتے ہیں،لوٹ مار اور چور بازاری کا کلچر پورے جوبن پر ہے،تھانے اور پٹوار خانے میں ابھی تک عام آدمی کی تذلیل کا عمل جاری و ساری ہے،پہلے والوں سے لوگ پانچ سال بعدجا کے اتنا تنگ نہ ہوئے جتنا ان سے پہلے سال ہی نک و نک ہو گئے ہیں،مہنگائی اور گرانی نے عوام کی چیخیں نکال دیں ہے مگر انہیں دوروں اور بیانو ں سے ہی فرصت نہیں ،کسی گلی میں کوئی ترقیاتی کام نام کا نہیں سارا زور میٹر و بس پہ ہے،اپنی ٹرین آج چلتی ہے تو پانچ گھنٹے کا فاصلہ ایک دن میں طے کرتی ہے آج تین بجے آنیوالی گاڑی دوسرے دن تین بجے آتی ہے،جبکہ نعرے چائنہ اور گوادر تک لائینیں بچھانے کے ہیں،لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اپنی تمام حدیں کراس کر چکا ہے ان کے آنے سے قبل سی این جی ہفتے میں تین دن ملتی تھی انہوں نے آکے پورا سی این جی سکیٹر ہی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا،اور دور دور تک بہتری کے نہ آثار ہیں نہ کوئی امید،کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر انہوں نے اس قوم کو بے وقوف بنایاتو کبھی پیلی ٹیکسی اسکیم کے نام پر ،کبھی دانش اسکولوں کے نام پر جبکہ عام اسکولوں میں ٹیچر ہیں نہ فرنیچر،اب کی بار یہ ایک نئی قرضہ اسکیم لیکر آگئے ہیں جس سے نجانے کس کو کہاں قرضہ مل رہا ہے ،پوری فیملی الف سے لیکر ی تک دادے سے لیکر پوتے تک باپ سے لیکر بیٹی تک اور چچا سے لیکر بھتیجوں تک خاندان کا ہر چھوٹا بڑا حکومت کے اہم عہدے پر براجمان ہے یہ جمہوریت ہے لکھ لعنت ایسی جمہوریت پہ،یہ استحصالی نظام ہے جو نجانے کب سے اپنے ہاں جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا،حکمرانوں کی بڑھکیں سنیں تو آسمان سے تارے توڑ لائیں اپنے عوام کے لیے اور عوام سے ڈر اتنا کہ کوئی ان سے ہاتھ بھی نہیں ملا سکتا،وہی پروٹوکول وہی راستوں کی بندش جو کبھی شوکت عزیز اور مشرف نے متعارف کروائی تھی زرداری اینڈ کمپنی سے ہوتی ہوئی اب ان قوم کے نام نہاد خادموں تک آن پہنچی ہے،عام بندہ ان کے سامنے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا اگر عوام سے اتنا ہی خطرہ ہے تو عوام کی جان چھوڑ کے رائے ونڈ کے محلات میں عیش کرو، کب بلایا اس قوم نے کہ آکے ہماری داد رسی کرو،اگر یہی کچھ پاکستان کو بدلنا اور تعمیر کرنا تھا تو اس سے بہتر تو زرداری ٹولہ کر رہا تھا کہ ان سے بہتر لوٹ مار کا کسی کو پتہ ہے نہ ڈھنگ،کرپشن کا طریقہ اور سلیقہ ان سے بہتر کون جانتا ہے،وہ ایک بادشاہ تھا آپ کا تو ایک ایک منتخب نمائندہ اور کارکن آدھا فرعون ہے ،ہر ایک اپنے اپنے ہاں دربار لگا کے بیٹھا ہے ،اگر جہازوں پہ چڑھ کے سیر سپاٹا کرنا ہی حکمرانی ہے تو معاف کیجیئے گا یہ تو کوئی عام سا پاکستانی بھی کر سکتا ہے اس کے لیے کسی بہت بڑے بقراط کی چنداں ضرورت نہیں،اور اخر میں ایک غلطی کا اعتراف کہ بہت سے پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی سمجھا تھا کہ سالوں کی جلاوطنی سے کافی حد تک میاوئں کی طبیعت میں بدلاؤ آیا ہو گا اور یہ اپنے ملک و قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم لیکر واپس آئے ہوں گے مگر مجھے بھی آپ کی طرح مایوسی ہوئی کہ سات آٹھ سالہ جلا وطنی ان دھن کے پکے اور :فولادی : بھائیوں اور ان کے ہمنواؤں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی میں نے بہت سے دوستوں کو ان کے امیدواروں کے لیے ان کی الیکشن کمپین میں معاونت کے لیے نہ صرف کہا بلکہ خود بھی اپنے علاقے میں ان کے نمائندوں کو کامیاب کروایا مگر میں نادم بھی ہوں اور شرمندہ بھی،مگر اس ندامت اور شرمندگی میں اکیلا نہیں ایک بڑی دنیا اپنے ساتھ ہے،،،،،،،،،