انفاق فی سبیل اﷲ (۱)

اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’وانفقوا فی سبیل اﷲ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ۔‘‘ (بقرہ: ۵۹۱)
’’راہ خدا میں خرچ کرو! اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں جہاں اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے وہیں اس آیت مبارکہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اﷲ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے معنی ہلاکت و بربادی کے ہیں۔

انفاق عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی مال خرچ کرنے کے آتے ہیں۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اس لفظ کو کثرت سے استعمال فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کو مختلف انداز سے مال خرچ کرنے پر ابھارا ہے اور قرآن مجید جب انفاق فی سبیل اﷲ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندے اپنا مال و دولت اسی کی راہ میں خرچ کریں، چونکہ اسی نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور مال ودولت سے سرفراز فرمایا، اس لیے بندے کا حق ہے کہ وہ مال کو اس کی مرضی کے مطابق اس کی راہ میں خرچ کرے۔

انفاق فی سبیل اﷲ ایک ایسا کام ہے جس کے ذریعے انسان میں جذبۂ قربانی، ایثار و بے نفسی اوراستغناء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مال و دولت اور دنیا دائمی نہیں بلکہ عارضی شئے ہے، مرنے کے بعد کچھ کام نہ آئے گا، اگر کچھ کام آئے گا تو صرف وہ جو اس نے اﷲ کی راہ میں خرچ کیا، کیونکہ وہ اﷲ کے پاس ذخیرہ ہو گیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے مومنو! نیکی کو تم اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی محبوب ترین چیز کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کردو۔‘‘

انسان جب اپنی محبوب ترین چیز راہ خدا میں خرچ کرے گا تو لامحالہ اس کے اندر جذبۂ قربانی و ایثار پیدا ہوگا۔ مال ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بہت محبوب ہے اگر اس نے اس کو راہ خدا میں قربان کیا تو موقع آنے پر وہ اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔

اسلام یہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں موجود غربت و افلاس ختم ہو اور معاشرہ بھائی چارگی اور اخوت کی بنیاد پر قائم ہو اور تمام لوگ اس کو وجود میں لانے کے لیے اپنی اپنی حد تک سعی و جہد کریں۔ اس لیے اس نے عبادات کا اجتماعی نظام مقرر کیا، اجتماعی عبادات سے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر متوجہ ہوں گے، وہیں دوسری طرف ان کو انجام دینا تمام ہی لوگوں کے لیے آسان ہوگا۔ انہی اجتماعی عبادات میں روزہ بھی آتا ہے۔ روز ے کی فرضیت کے جہاں دوسرے بہت سارے مقاصد ہیں، وہیں ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ایک مالدار شخص روزہ رکھ کر بھوک کی شدت کو محسوس کرے تاکہ اس کو معلوم ہو کہ معاشرے کے وہ افراد جو مالی تنگی سے دو چار ہیں اور جن کو ایک وقت کا کھانا ٹھیک سے فراہم نہیں ہے وہ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں اور اپنی بھوک کی شدت کو کیسے ٹھنڈا کرتے ہیں۔ روزہ ان کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان کی بے بسی کو محسوس کریں اور جو فضل اﷲ تعالیٰ نے ان پر کیا ہے اس کا ایک مخصوص حصہ وہ مستحقین کو فراہم کریں تاکہ معاشرے میں امیر و غریب کے درمیان خلیج ختم ہو اور تمام لوگ معاشرے میں باعزت زندگی گزاریں۔

اسی بات کو ایک حدیث قدسی میں اس طرح سمجھایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ بندے سے پوچھے گا کہ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی، بھوکاتھا کھانا نہیں کھلایا، پیاسا تھا پانی نہیں پلایا، ننگا تھا کپڑا نہیں پہنایا۔ بندہ کہے گا، اے اﷲ تو تو ان تمام چیزوں سے پاک ہے تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت نہیں کی، فلاں کو کھانا نہیں دیا، اور فلاں کو پانی نہیں پلایا اگر تو یہ کرتا تو گویا تو مجھے کھلاتا، پلاتا اور پہناتا۔ (مسلم)

معلوم ہوا کہ اﷲ کے بندوں کی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے، یہ نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ ہماری عبادات کا حصہ بھی ہے، اگر ایسا نہ کیا تو کل قیامت میں ہماری بازپرس ہوگی۔

معاشرہ انسانوں کے مجموعہ سے تیار ہوتا ہے، اس میں طرح طرح کے افراد ہوتے ہیں، صاحب ثروت بھی اور غریب، فقراء اور مساکین بھی۔ صالح اور نیک معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کے صاحب حیثیت افراد ان لوگوں کی خبر رکھیں جو خستہ حالی سے دو چار ہیں، جب وہ ان کے اوپر انفاق کریں گے، ان کے مالی مسائل کو حل کریں گے، تو غرباء و مساکین کے اندر بھی تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ بھی موقع پاکر ان کی مدد کریں گے۔ اس طرح معاشرے میں انفاق کے ذریعہ تعاون باہمی کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور معاشرہ فلاح و ترقی کی طرف گامز ن ہوگا، برعکس اس معاشرے کے جس کے امراء تو پیٹ بھر کر سوئیں اور غرباء فاقہ کشی میں مبتلا ہوں، اس معاشرہ میں نہ تو تعاون باہمی کا جذبہ ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرہ فلاح و کامرانی اور ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔

انفاق کرنے سے باہمی الفت و محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اہل ثروت جب غرباء و مساکین کا مالی تعاون کریں گے تو غرباء کے دلوں میں ان کی عزت و محبت گھر کر لے گی، ا س سے ایک طرف غریبی کا خاتمہ ہوگا، وہیں دوسری طرف الفت و محبت ایک ایسے تناور درخت کی شکل اختیار کرلے گی جس کو باطل ہواؤں کے جھونکے کبھی گرا نہ سکیں گے اور ان کے دلوں میں کبھی نفرت کے بیج نہ بو سکیں گے۔

راہ خدا میں انفاق کرنا پسندیدہ عمل ہے، لیکن اس عمل کو اتنا ہی محتاط طریقے سے انجام دینا چاہیے، ذرا سی غفلت آپ کے اس پسندیدہ عمل کو بے وقعت بنا سکتی ہے اور آخرت میں الگ اس کے انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔ انفاق کرتے وقت ذرا بھی نام و نمود، شہرت، دکھاوا، یا کسی بھی طرح بلندی کا احساس نہ ہو، صرف رب تعالیٰ کی رضا جوئی ہی مقصود ہو تو آپ کا یہ عمل قابل قبول ہوگا ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا گیا:
’’جو لوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اپنے اس انفاق کے پیچھے احسان اور ایذا کی آفت نہیں لگا دیتے ان کا صلہ ہے ان کے رب کے پاس نہ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، ہمدردی کا ایک کلمہ اور بخش دینا بہتر ہے اس صدقہ سے جس کے پیچھے دل آزاری ہو، اور اﷲ بے نیاز اور علیم ہے۔ اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دل آزاری کرکے باطل نہ کرو اس شخص کے مانند جو اپنا مال دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس شخص کی تمثیل ایسی ہے جسے ایک چٹان ہو، جس پر کچھ مٹی ہو اور اس پر بارش ہو جائے اور اس کو بہا کر چٹان کو چٹیل چھوڑ دے ایسے لوگوں کو ان کی کمائی سے کچھ بھی مل نہ پڑے گا اور اﷲ کا فروں کو کامیاب نہیں کرتا۔‘‘ ( البقرہ)

ان آیات سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو انفاق کرنے کے بعد احسان جتائیں اور نام و نمود کے خواہشمند ہوں۔ ان کے لئے یہ سودا بجائے نفع کے خسارے کا سودا ہوگا۔ یہ مال و دولت جو کہ اﷲ کا دیا ہوا ہے بغیر اس کی رضا کے تم نے اپنے آپ سے اس کو حاصل نہیں کیا ہے اس لئے اس کو اسی کی مرضی کے مطابق خرچ ہونا چاہئے۔

عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ دولت وثروت عطا کرتا ہے، وہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اپنی خوا ہشات کی تکمیل ہی اس کی زندگی کا واحد مقصد ہو تا ہے اور جس ہستی نے اس کو یہ نعمت عطا کی ہے اس کی عبا دت اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کا ذرا بھی اس کو خیال نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا معیار بلند سے بلند کرتا چلا جاتا ہے اور بالآخر اسی حالت میں وہ اپنی آخری جائے قرار کا رخ کرلیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں۔

آج ہمارے معاشرے میں جب ا نفاق فی سبیل اﷲ کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً لوگ یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ مالداروں پر ضروری ہے، غریب افراد اس سے مستثنیٰ ہیں، حالانکہ اس لفظ میں غریب وامیر سب شامل ہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کہ ہم مال نہیں رکھتے تو انفاق کیسے کریں ؟ حالانکہ شریعت کا مطلوب یہ ہے کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق انفاق کرے اور اس کار خیر میں حصہ لے۔ اﷲ تعالیٰ کے یہاں مقدار نہیں بلکہ اخلاص دیکھا جاتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ دیا ہوا معمولی مال بڑی بڑی رقموں پر فضیلت رکھ سکتا ہے۔

آپﷺنے فرمایا، ’’اتقوا النار و لو بشق التمر۔‘‘ جہنم کی آگ سے بچو! خواہ ایک کھجور کے آدھے حصے کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اگرانسان کے پاس مال و دولت نہ ہو تو وہ اگر اخلاص کے ساتھ کھجور کے آدھے حصے کا بھی انفاق کرتا ہے تو اﷲ کی نظر میں اس کی بہت اہمیت ہے۔

دنیا کا عام قائدہ ہے کہ جو چیز خرچ کرو اس میں کمی واقع ہوتی ہے لیکن انفاق کا معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے اس کو خرچ کرنے سے اس میں زیادتی ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کا نعم البدل خرچ کرنے والے کو فراہم کرتا ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جو چیز بھی تم اﷲ کی راہ میں خرچ کروگے اﷲ اس کا عوض دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘ (سبا: ۹۳)
(جاری ہے)
Abdul Hafeez Ameerpuri
About the Author: Abdul Hafeez Ameerpuri Read More Articles by Abdul Hafeez Ameerpuri: 27 Articles with 42609 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.