وہ ایک جملہ!!!

 میر ی ز ند گی کے دو ہی شو ق تھے ڈا ئر ی خر ید نا ڈا ئر ی لکھنا شا ئد اس لیئے کہ ا پنی ڈا ئر ی پر میرا را ج تھا میں جو چا ہتی تھی لکھتی تھی اس جنو ن کی حد یہ تھی کہ جو پا کٹ منی مجھے یو نیو ر سٹی میں لنچ کے لیئے ملتی تھی میں ا س کی ڈا ئر ی خر ید لیتی اور پھر یو ں لفظو ں کا کھیل شر و ع ہو جا تا یہ وہ خو شی تھی جسکو میحسو س کر کے میں ا پنی ز ند گی کی تما م تر ذ لتو ں خوا ر یو ں ا ور تلخیو ں کوبھو ل جا تی تھی ۔دن کی تما م مصرو فیا ت کے بعد جب را ت کی تا ریکی مجھے ا پنے ا ندر سمیٹ لیتی تو میں ا کثر ا پنی ڈا ئری سے با تیں کر تی ر ہتی میر ی ڈا ئر ی میر ی ا یک مخلص دو ست تھی میں ا پنے تما م ملنے وا لو ں کا حا ل ا پنی ڈا ئر ی کو سناتی اور وہ خا مو شی سے میر ی با تیں سنتی رہتی میر ے دو ست و ا حبا ب اور ر شتے دار سب کو مجھ سے شکوہ تھا کہ میں بہت مغر و ر ہو ں مجھے اس با ت پر بہت حیرت تھی کہ لو گ مجھ کو مغرو ر کہتے ہیں حلا نکہ میر ی نظر میں سکو ل سے لے کر یو نیور سٹی تک تما م طا لبات مجھ سے ز یا دہ لا ئق تھیں ہر ا سٹو ڈ نٹ میں کو ئی نہ کو ئی خصو صیت تھی جس میں کچھ بھی نہی تھا وہ میں تھی میں نہی جا نتی تھی کہ میں پڑ ھا ئی میں کیسی ہو ں ا ور نہ ہی میں نے یہ جا ننے کی کو شش کی تھی بس میرا حصو ل علم کا وا حد مقصد حقیقی خو شی حا صل کر نا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ میں ا متحا نا ت میں پو ز یشن کے بجا ئے صر ف پا س ہو نے کو تر جیح د یتی تھی مجھے کتا بو ں سے عشق تھا جو میری پہنچ سے بہت دور تھی مگر میں نے ا سکا ا یک حل تلا ش کر لیا تھا میں نے ا نسا نو ں کو پڑ ھنا شر وع کر د یا اور وہ بھی زند ہ ا نسا ن کیو ں کہ جو عظیم شخصیا ت گزر چکی تھی ان کا ذکر بھی کتا بو ں ہی میں مل سکتا تھا بس میں نے اس فلسفے کو ا پنا لیا تھا کتا بیں نہ ہو ں میسر تو چہر ے پڑ ھا کرو پھر میر ے ملنے وا لو ں نے مجھ پر ا یک اور ا نکشا ف کیا کہ میں کم گو ہو ں چپ ر ہتی ہو ں مطلب کی با ت کر تی ہو ں مطلب نکا لتی ہو ں اور را ستہ بد ل لیتی ہو ں کیا وا قعی ہی ا یسا تھاشا ئد ا یسا ہی تھا مجھے با تیں کر نے سے زیا دہ با تیں سننے کا شو ق تھا مجے لو گو ں کی گفتگو کے سا تھ سا تھ ا ن کے ا لفاظ و آ وا ز ا ور لہجو ں میں خا س د لچسپی تھی مگر بنا و ٹی اور بے معنی گفتگو نہ میں کر تی تھی اور نہ ہی سنتی تھی میری طبیعت میں لا پر وا ہی اور غیر ذمہ دا را نہ عا دات بچپن ہی سے شا مل تھیں جسکی و جہ سے میر ے گھر وا لو ں کو مجھ سے ا کثر شکا یا ت ر ہتی تھیں کو ن کیا کہتا ہے کیا سو چتا ہے مجھے ا س با ت کی کو ئی پر واہ ہی نہ تھی تما م تکلیفو ں کے با و جو د میر ی ز ند گی ا یک تر نم کی طر ح تھی ڈ پر یشن یا دبا و پر یشا نی بے چینی بے خو ا بی ا ور ا یسے ہی کئی اور الفا ظ تھے جو میں ا کثر سنتی ر ہتی تھی میں نے کبھی محسو س ہی نہی کیے تھے جیسے تیسے ا یک بھر پو ر ز ند گی روا ں دوا ں تھی
آہ! پھر ا چا نک ا یک را ت جیسے ہی مییں نے پنی ڈا ئر ی کا و رق پلٹا میرے کا نو ں میں ا یک جملہ زور زور سے گو نج رہا تھا کیا کرو گی تم پڑ ھ کر ؟ میں نے ا پنے ا رد گرد نظر یں دو ڑ ا ئیں مگر کو ئی نظر نہ آ یا کمر ے میں خا مو شی گو نج ر ہی تھی میں نے ا پنی آ نکھیں بند کر لیں او ر تکیئے پر ٹیک لگا کر کچھ سو چنا شرو ع کیا یہ میرا روز کا معمول تھا جب تک میں کچھ لکھ نہ لیتی تھی مجھے نیند ہی نہ آ تی تھی تو میں سو چ ر ہی تھی آ ج میں کچھ ا پنے با رے میں لکھ لیتی ہو ں میں ا پنے آ پ سے بس ا تنی ہی شنا سا تھی جو میں بیا ن کر چکی ہو ں
پھر سو چنا شرو ع کیا
ا رے!
یہ کیا؟
میرا میرا ذہن کا م نہی کر رہا تھا مجھ سے کو ئی کہ رہا تھا تم کیا کرو گی لکھ کر ؟ تم کیا کرو گی پڑھ کر ؟ تم کیا کرو گی پڑ ھ لکھ کر ؟وہ کو ئی ما نو س سا لہجہ تھا شا ئد یہ کو ئی ا ہل علم میں سے تھاپھر لہجے بد لتے گئے تا ثرا ت بد لتے گئے میر ی ڈ ا ئر ی میں لکھے تما م لفظ ا یک جملے میں بدل چکے تھے تم کیا کرو گی پڑھ لکھ کر ؟میں پا گلو ں کی طر ح چلا ئی کو ن ہو تم لو گ؟ میر ی آ وا ز نے کمرے کی خا مو شی میں ا یک ا تعا ش سا پیدا کر دیا تھاآ وا ز یں مسلسل آ ر ہیں تھیں وہ تما م چہرے میرے ا رد گرد گھو منے لگے تھے سب ہنس رہے تھے میرا مزا ق ا ڑا رہے تھے پھر ا یک پر درد آ واز نے سر گو شی کی ا ے کم عقل محض ا یک عو رت یہ علم مر دو ں کی میرا ث ہے ایک ا فلا طو ن نا می شخص مجھے میر ی مثا ل ا یک کتیا سے دینے لگا پھر ا ر سطو نا می ا یک مفکر مجھے نا قص ا لعقل قرا ر دینے لگا اس کے بعد سینکڑو ں لوگ تھے تما م کے تما م مرد اور وہ بضد تھے کیا کرو گی تم پڑھ لکھ کر؟

میں نے محسو س کیا میری آ نکھیں بھیگ ر ہی ہیں یہ کیا ہو رہا ہے مجھے؟ میں کیو ں رو رہی ہوں؟ کیا میں رو رہی ہو ں؟ میں کیوں رو رہی ہوں؟ مجھ پر ا یک ر قت طا ری ہو چکی تھی میں رو تے رو تے نڈ ھال سی ہو چکی تھی گھر میں تمام لو گ مجھ سے بے خبر معمول کے مطا بق سو ر ہے تھے آج مجھے ا ٓ پنا وہ کمرہ کسی ا جا ڑ گھروندے کی ما نند لگ رہا تھا ہر جا نب ا یک بے تر تیبی سی پھیلی ہو ئی تھی یہ میرا کمرہ نہی ہے شا ئد میں کہا ں آ گئی ہو ں؟ یہ لمحو ں میں کیسی تبد یلی آ گئی ہے؟ مجھے لگ رہا تھا ہر چیز بدل چکی ہے شا ئد ا یک ز ما نہ ان چند لمحو ں میں بیت چکا ہے ا گلے ہی لمہے مجھے ا یک ا نجا نے خو ف نے گھیر لیا تھا میرا پو را و جو د مجھ پر ایک بھا ری بو جھ بن چکا تھا میں چا ہتے ہو ئے بھی ا پنے جسم کو حرکت نہی دے سکتی تھی میر ے ہو نٹ ا ور گلا خشک ہو چکے تھے میر ے ا ند ر سے مسلسل ہچکیوں کی آ وا ز یں آ ر ہی تھی میرے آ نسو بہتے جا رہے تھے میر ی ہمت جوا ب دے چکی تھی مجھے پا نی چا ہیئے میں نے خو د کو حر کت د ینے کی ایک نا کا م کو شش کی مگر بے سود اب میر ی سا نسیں ا کھڑ نے لگی تھیں شا ئد یہ میر ی آ خر ی را ت ہے میں نے کلمے کا ورد کر نا شر و ع کر د یا شا ئد یہ آ ج میر ی آ خر ی را ت ہے کلمے کی تا ثیر تھی نجا نے میرا تو حید پر ا یما ن مجھے ا پنے ا ندر ا یک معمو لی سی تو ا نا ئی محسو س ہو ئی میں نے فو رً ا ا پنے جسم کو حر کت د ینے کے لیئے پو ر ی قو ت سے جھٹکا د یا ا ب میں بستر سے گھسٹتی ہو ئی فر یزر تک پہنچ چکی تھی مجھے پا نی کی شدت کا احسا س پہلے کبھی ا تنا نہی ہوا تھا میں نے فر یز ر کھو ل کر اس میں سے پا نی کی کئی یخ ٹھنڈ ی بو تلیں نکا ل کر بیڈ کی سا ئیڈ ٹیبل پر رکھ لیں کچھ ہی لمہوں میں ا یک کے بعد ایک پا نی سے بھر ی تما م بو تلیں میں ا پنے ا ند ر ا نڈ یل چکی تھی صبح و فجر کی ا ذان سنتے ہی مجھے نیند کی کیفیت محسو س ہو ئی جیسے ہی نیند کا غلبہ مجھ پر غا لب آ نے لگا مجھے ا پنے ا ند ر ا یک زور کا جھٹکا محسو س ہو ا اس جھٹکے کی شد ت سے میرا د ما غ مفلو ج ہو چکا تھا میر ی آ نکھیں ا ور سر درد کر نے لگا یا ا للّٰہ میں کیا کر و ں؟ میں نے و ضو کیا ا ور نما ز ا د ا کر نے کھڑ ی ہو گئی یا ا للّہ مجھے سکو ن دے دے ا یک بے چینی بے سکو نی اور ا نجا نی تکلیف کی شد ت کا ا حسا س مجھے ا پنے ا ند ر جکڑ ر ہا تھا کو ئی میر ے ذ ہن ا ور میر ے جسم کی تما م قو تیں سلب کر ر ہا تھا مجھے لگ ر ہا تھا میرا پو را و جو د کسی ا نجا نی طا قت نے ا پنے قبضے میں لے لیا ہے مجھے ا پنا کمر ہ گو ا نتا نا مو بے جیسا بھیا نک قید خا نہ محسوص ہو ر ہا تھاا ور با قی تما م ا فر ا د اس قید خا نے کے دا رو غہ لگنے لگے صبح سو رج کی کر نیں پھیلتے ہی گھر کے تما م ا فرا د ا پنے اپنے کا مو ں میں مصرو ف ہو گئے میں نے محسو س کیا مجھے ا پنی ا مّی کی آ وا ز یں سنا ئی دے رہی ہیں ا ٹھو بیٹا نا شتا کر لو تمہیں یو نو ر سٹی بھی جا نا ہے میں کو ئی جوا ب نہیں دے پا رہی تھی میر ی آ وا ز سا کن ہو چکی تھی میر ی ا میّ گھبرا کر میر ے قر یب آ گئیں میں سب کچھ د یکھ سکتی تھی محسو س کر سکتی تھی مگر کسی رد عمل کا اظہا ر کر نے کے لیئے میر ی ہمت جو ا ب دے چکی تھی امّی نے ز بر د ستی میرا ہا تھ پکڑ کر مجھے ا ٹھا یا آ نکھیں سر خ ہو ر ہی تھیں آ نکھو ں کے گرد سیا ہ ہلکے مز ید گہر ے ہو چکے تھے کیا ہوا تمہیں کیا تمہار ی طبیعت ٹھیک ہے کیا تم سا ری را ت نہی سو ئی نہیں میں نہیں جا نتی مجھے کیا ہو رہا ہے مجھے بہت تکلیف ہو ر ہی ہے ہوا کیا ہے؟ کچھ بتا و تو میں نہی جا نتی مجھے بہت تکلیف ہو ر ہی ہے میرا دل پھٹ جا ئے گا یا ا للّہ میں کہا ں جا وں؟ میں رو تی جا ر ہی تھی میر ے گھر وا لے اور میر ے وا لد ین پر یشا ن ہو گئے کسی کو سمجھ نہی آ رہا تھا ڈا کڈر سے کیا کہیں ؟ کیا بیما ری ہے ؟ پھر کسی نے میرے وا لد کو مشو ر ہ د یا کہ ا نہیں ما ہر نفسیا ت (psychologist ( کی ضرو رت ہے بلا تا مل میر ے وا لد مجھے ا یک نفسیا تی ہسپتال لے گئے عجیب قسم کے ڈا کٹر تھے سب کہ ر ہے تھے تھیک ہو جا ئیں گی آ پ کو ئی بھی نہیں پو چھ رہا تھا مجھے کیا بیما ری ہے؟اور نہ ہی کو ئی بتا رہا تھا کہ آ خر مجھے بیما ر ی کیا ہے؟
آ خر میں ا یک ڈا کٹر نے سوا لا ت کی بو چھا ڑ کر دی
س: کیا آپ کو تنہا ئی میں آ وا ز یں سنا ئی د یتی ہیں؟
ج: جی!
س: خو ف بھی محسو س ہو تا ہے؟
ج: جی ہو تا ہے!
س:کیا ا یسا لگ رہا ہے کہ کو ئی ا نجا نی قو ت آپ کو کنٹر و ل کر ر ہی ہے؟
ج: جی بلکل ا یسا ہی لگ ہ ہا ہے!
س:کیا آپ محسو س کرتی ہیں کہ لو گ آ پ کے خلا ف با تیں کر رہے ہیں؟
ج: جی ا یسا ہی محسو س ہو تا ہے!
س: سا ر ے لو گ آ پ کو ا پنے د شمن لگ ر ہے ہیں؟
ج: لگ نہیں ر ہے سب د شمن ہیں میر ے!
ڈ ا کٹر: ا چھا ٹھیک ہے

مجھے ا پنے ا ند ر تو ا نا ئی ختم ہو تی ہو ئی محسو س ہو ر ہی ہے میر ے ا حسا سا ت سا کن ہو چکے ہیں خیا لا ت بھٹکنے لگے ہیں بھو ک کا ا حسا س نہی ہو تا بھو ک بھی نہی لگتی نیند نہی آ تی ۔

ڈ ا کٹر: میں جا نتا ہو ا و ر ا یک کا غز پر کچھ لکھتے ہو ئے میر ی جا نب بڑ ھا د یا یہ آ پ کی میڈ یسنز ہیں آ پ ا نھیں مستقل طو ر پر کھا ئیں گیں کو ئی نا غہ نہیں ہو نا چا ہیے پا بند ی سے د و ا ئیں کھا تی ر ہیں میں د و سا ل پا بند ی سے د و ا ئیں کھا تی ر ہی کچھ ا فا قہ تو ہو ا لیکن میر ے و ا لد ین مطمئین نہیں تھے ا نھو ں نے مجھے علا ج کے لیئے آ سٹر یلیا بھیج د یا و ہا ں میر ی حا لت ا ور ز یا د ہ بگڑ گئی سا ر ی سا ر ی ر ا ت ر و تے ر ہنا سر گو شیا ں سنا ئی د ینا نیند نہ آ نا میر ے لیئے ا یک عز ا ب بن چکا تھا میں اکثر ا للّٰہ سے د عا ما نگتی یا اللّٰہ مجھ سے یہ عز ا ب ٹا ل د ے

بہت سو چ بچا ر کے بعد مجھے و ہا ں ا یک نفسیا تی ڈ ا کٹر ڈ ا کٹر GLINDAS کے پا س لے جا یا گیا و ہ ا یک نہا ئیت آ چھی خا تو ن تھیں ا نھو ں نے بتا یا کی مجھے د ما غی بیما ر ی شیز و فینیا (schizophrenia) ہے ا س بیما ر ی میں د ما غ کے ا ند ر مو جو د کیمیکلز (chemicals) کا تو ا ز ن بگڑ جا تا ہے یہ بیما ر ی ز یا د ہ تر جینز میں ٹر ا نسفر ہو تی ہے کچھ لو گ پہلے پا نچ سا ل کے عر صے میں صحت یا ب ہو جا تے ہیں ا ور کچھ لو گو ں کو سا ر ی ز ند گی د و ا ئیو ں کے سہا ر ے ز ند گی گز ا ر نی پڑ تی ہے

ا لحمد للّٰہ ا ب میں کا فی حد تک ا یک نا ر مل ز ند گی گز ا ر ر ہی ہو ں ہیلو سی نیشن (Hallucination) ا و ر ڈ یلیو ز ن (Delusion) بند ہو گئے ہیں مگر کبھی کبھی ر لیپس (Relapses) جیسا لگتا ہے ا س ر ات کی سی کیفیت محسو س ہو نے لگتی ہے میں د و ا ئیا ں کھا کر بہت obese ہو گئی ہو ں ا ور ا ب بھی د وا و ں پر ہو ں ڈ ا کٹر ز نے کہا ہیکہ مجھے ز ند گی بھر د و ا ئیا ں کھا نی پڑ یں گیں تا کہ میر ی ذ ہنی حا لت Stable ر ہے

میں ا ن لو گو ں کو جن کو شیز و فینیا ہے کہنا چا ہو ں گی کہ ا گر د و ا ئیو ں کے سا تھ سا تھ ا للّٰہ پر بھی پو را یقین ر کھیں گے ا و ر ا پنی و ل پا و ر ( will power) کو ا ستعما ل کر تے ہو ئے ا س بیما ر ی کا بے جگر ی سے مقا بلہ کر یں گے تو د نیا کی کو ئی طا قت ا نھیں ا یک کا میا ب ز ند گی گز ا ر نے سے نہیں ر و ک سکتی ۔

ا س و ا قعے کو شا ئد تیس۳۰ سال کا عر صہ گز ر چکا ہے لیکن و ہ ا یک جملہ آ ج بھی مجھے تکلیف د یتا ہے جسکے بعد میں ا پنی تعلیم کو جا ر ی نہ ر کھ سکی تھی
و ہ کس کا لہجہ تھا؟
وہ کس کی آ و ا ز تھی؟
و ہ کس کے ا لفا ظ تھے؟
جس نے مجھے ا س قد کیا تھا کہ میں یہ صد مہ بر د ا شت نہ کر سکی تھی ۲۵ سا ل گز ر جا نے کے بعد آ ج پھر جب میں نے قلم ا ٹھا یا تو میر ے ہا تھ کا نپ ر ہے تھے میں نے ا پنے آ نسو پو نچتے ہو ئے محبو ب خد ا سے پو چھا ا ے محبو ب خد ا تو ہی بتا میرا مقا م ہے کیا ؟
غا ئب سے ا یک آ وا ز نے پکا را
معلم ہو ں میں او ر میرا علم ہے تو
علم حا صل کر نا ہر مسلما ن مر د اور عو ر ت پر فر ض ہے
چند صد یو ں پہلے تم ا یک عو ر ت تھی محض ا یک عو ر ت میں نے تو د نیا کو یہ پیغا م د یا تھا تم میں سے بہتر ین وہ ہے جو تقو ی پر ہے میں نے تمہیں ا نسا نو ں کی صف میں شا مل کیا تھا تم محض ا یک عو ر ت ہی نہیں ا نسا ن بھی ہو
پھر یہ کو ن لو گ ہیں جو کہتے ہیں تم عو رت ہو محض ا یک عو رت
یہ مجھے ا نسا ن سے عو رت کس نے بنا دیا؟

میں نے کتنی د یر کر دی تھی ا س ہستی کو پڑ ھنے میں کا ش کہ میں د یر نہ کر تی میں نے ا پنے ا ند ر ا یک خو شی محسو س کی مسکر ا تے ہو ئے قلم ا ٹھا یا ا یک ا نجا نی قو ت و تو ا نا ئی کو ا پنے ا ند ر محسو س کر تے ہو ئے یہ تحر یر ا ن بے خبر لو گو ں کے نا م ر قم کر د ی جو مجھے جا نتے ہی نا تھے
اس آ وا ز کے نا م
جو بلند ہو تی ہے تو تبا ہ کر د یتی ہے
خا مو ش ہو تی ہے تو سز ا د یتی ہے
لب کشا ئی کر تی ہے تو ا ثر آ فر یں کرجا تی ہے

و ہ ا پنی پو ر ی د ا ستا ن سنا کر خا مو ش ہو گئی میں نے ا یک ہمد ر د ا نہ نظر ا س پر ڈ ا لی لیکن و ہ میر ی ہمد ر د ی کے قا بل نہیں تھی بلکہ مجھے ا س پر ر شک آ ر ہا تھا میں نے ا یک لمحے کے لیئے سو چا کو ن کہتا ہے کہ ٹو ٹ جا نے کے بعد لو گ مستحکم نہیں ہو تے ا و ر و ہ ا یک مکمل نا ر مل لڑ کی تھی-

بد قسمتی سے پا کستان جیسے معا شر ے میں جہا ں ا س بیما ر ی کو پا گل پن کی کیفیت قرا ر د ے کر ا نسا ن کو ا یک ا چھو ت بنا د یا جا تا ہے ا پنے ا رد گر د ر ہنے و ا لے لو گو ں کے بے ر حم ر و یو ں کو بھی جھیلنا پڑ تا ہے حا لا نکہ ا گر ا ن لو گو ں کی کیفیا ت کو سمجھتے ہو ئے حو صلہ ا فضا ئی کی جا ئے ا و ر مختلف شعبہ جا ت میں ا نھیں کا م کر نے کا مو قع د یا جا ئے تو یہ بھی معا شر ے کے مفید ا و ر کا میا ب تر ین شہر ی بن سکتے ہیں آ ج پا کستا ن میں سیکڑ و ں ا یسے مر یض ہیں جن کی حو صلہ ا فز ا ئی تو د و ر کی با ت ہے علا ج کے لیئے سہو لیا ت تک مو جو د نہیں ہیں۔

ا ر با ب ا ختیا ر سے ا یک ہی گز ا ر ش ہے کہ ا پنے قیمتی و قت ا و ر جا ن سے عز یز ا س د و لت کا کچھ حصہ ا ن لو گو ں کی ز ند گیا ں سنوا ر نے میں صر ف کر د یں تو یقیناً خد ا ا ن کی ز ند گیو ں کو خو شیو ں ا و ر نا مہ ا عما ل کو نیکیو ں سے بھر د ے گا-

فا طمہ
Naila Ali
About the Author: Naila Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.