کون کہتا ہے یہ مشکل ہے

دین اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اس کی تعلیمات بڑی واضح اور نمایاں ہیں ظہور اسلام سے قیامت تک کوئی وقت ،کوئی جگہ ایسی نہیں جس میں ان تعلیمات پر عمل نہ کیا جا سکتا ہو ان احکامات کی بجا آوری میں انسان کو جو مشکلات پیش آسکتی ہیں ان کا تدارک بھی اس دین میں کر دیا گیا ہے کوئی بھی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ان تعلیمات پر عمل نہیں کر سکتا وہ ان تعلیمات و احکامات پر عمل نہ کرنے کے جو بھی جواز یا وجوہات بتا تا ہے وہ سب جھوٹ اور اس کے جان چھڑواؤ فارمولے کے تحت ہی ہوتی ہیں اس میں یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ قرآ ن وحدیث اورفقہ میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ دین اسلام میں جو احکامات و تعلیمات دی گئی ہیں ان پر سب مسلمان ہی عمل کریں جن احکامات پر سب مسلمان عمل نہیں کر سکتے وہ سب کے لئے نہیں ہیں صرف ان مسلمانوں کے لئے ہیں جو ان احکامات پر عمل کر سکتے ہیں اسلام کی عمارت پانچ ارکان پر مشتمل ہے سب سے پہلا رکن کلمہ طیبہ ہے زبان سے کلمہ طیبہ ادا کر کے اور دل و جان سے اﷲ کریم کی وحدانیت اور وسول کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے اور اقرار کرنے سے ہی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اگر زبان سے ہی کلمہ طیبہ پڑھنا کافی ہوتا تو اﷲ تعالی سرکار مدینہ ﷺ کو مسجد ضرار میں جانے سے منع نہ کرتا ،اور سرور کونین ﷺ کو منافقین کو چن چن کر صفوں سے نہ نکالتے اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے نماز ہر بالغ مسلمان چاہے وہ مرد ہو یا عورت دن رات میں پانچ بار فرض ہے دین اسلام کے تمام احکامات میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی گئی ہے نماز چونکہ ہر مسلمان ادا کر سکتا ہے اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے نماز ادا کرنے کے لئے مسلمانوں کو اخراجات برداشت نہیں کرنا پڑتے جماعت کے ساتھ نماز ادا کر نے سے ثواب زیادہ ملتا ہے نماز تنہا ادا کریں گے تو ایک نماز کا ثواب ملے گا نماز اگر باجماعت ادا کریں گے تو ستائیس نمازوں کا ثواب ملے گا نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے مساجد تعمیر کی جاتی ہیں مسجد میں نماز ادا کرنا گھر میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے اب مسجد کی تعمیر میں اخراجات آتے ہیں اب یہ ضروری ہے نہیں کہ ایک ہی شخص اس کے اخراجات برداشت کرے بلکہ حسب استطاعت جتنا کوئی اس میں تعاون کر سکتا ہے کرے واقفا ن حال بتاتے ہیں کہ کسی جگہہ مسجد زیر تعمیر ہو تو بعض اﷲ کے نیک بندے ایسے بھی آجاتے ہیں جو لاکھوں روپے دے جاتے ہیں اور اپنا تعارف بھی نہیں کراتے پھر مسجد کی تعمیر کے اخراجات روزانہ یا ماہانہ بھی ادا نہیں کرنا ہوتے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بہتر ی اور توسیع تو لائی جاتی ہے تاہم اس کا کوئی شیڈول نہیں ہوتا مسجد کی تعمیر کے بعد امام مسجد اور خطیب دیگر عملہ کی تنخواہ بجلی و گیس کے بل سمیت دیگر اخراجات بھی ضروری نہیں کہ ایک ہی مسلمان ادا کرے اس ایریا کے مسلما ن مل جل کر ادا کریں تو آسانی بھی رہے گی اورسب کو خدمت کا موقع بھی ملتا رہے گا جو 100روپے ماہانہ دے سکتا ہے وہ سوروپے ہر ماہ دیا کرے اور جو ہزار رو پے دے سکتا ہے وہ ہزار روپے دیا کرے ان میں سے کسی کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی نماز مسجد میں ادا کرنا اگرچہ افضل ہے تاہم کسی بھی پاک و صاف جگہ پر بھی ادا کی جاسکتی ہے نما زکے لئے وضو ضروری ہے وضو پانی سے کیا جاسکتا ہے اب ضروری نہیں کہ پانی ہر جگہ دستیاب ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ انسان پانی ہر وقت استعمال کرسکتا ہو بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے کہ پانی استعمال کرنا نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے اس کا حل بھی دین اسلام میں بتا دیا گیا ہے کہ اگر مسلمان ایسی جگہ ہو جہاں نزدیک پانی دستیاب نہ ہو وہ طبعی مجبور ی کے تحت اسے استعمال نہ کر سکتا ہو تو وہ پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز ادا کر لے نماز میں قیام فرض ہے اب اگر کوئی کسی مجبوری کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر ادا کرے بیٹھ کر بھی ادا نہیں کر سکتا تو لیٹ کر اشاروں سے ادا کرے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی سفری مشکلات کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ سفر میں چار رکعت نمازدورکعت ادا کرنے کا حکم ہے جبکہ جنگ کے دوران نماز ادا کرنے کا حکم اور ہے اب یہ کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا کہ کیونکہ مسجد نزدیک نہیں تھی اس لئے میں نماز ادا نہیں کر سکتا چونکہ نماز کسی بھی پاک و صاف جگہ پر ادا کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی پانی کو جواز بنا سکتا ہے نماز کے بعد تیسرارکن زکوٰۃ ہے زکوۃ ہر مسلمان پر نہیں ہر صاحب نصاب مسلمان پر فر ض ہے صاحب نصاب وہ ہے جس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا نقدی موجود ہو اور اس پر سال گزر جائے ا ب چونکہ ہر مسلمان صاحب نصاب نہیں ہے اس لئے زکوۃ ہر مسلمان پر فرض نہیں اب زکوۃ کی شرح بھی معمولی ہے زیادہ نہیں کہ دینے میں عار محسوس ہو ۔اڑھائی فی صد معمولی سا تناسب ہے اب جس کے وسائل اتنے کم ہیں کہ اس کی گزر بسر مشکل ہوتی ہے تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے اب جو صاحب نصاب ہے اور وہ زکوۃ ادا نہیں کرتا وہ سب سے بڑا مجرم ہے اب زکوۃ کے دو واضح فائدے ہیں کہ اس سے مال بھی پاک ہوجاتا ہے اور مستحقین کی امداد بھی ہوجاتی ہے اب زکوۃ کس کو دی جائے او ر کس کو نہ دی جائے یہ بھی صاف بتادیا گیا ہے مستحقین زکوۃ میں قریبی رشتہ داروں کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے تاکہ خاندانی مروت میں اضافہ ہو اسلام کا چوتھا رکن روزہ ہے روزہ چونکہ ہر مسلمان رکھ سکتا ہے یہ اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے جس طرح نماز ادا کرنے کے لئے خاص اخراجات نہیں کرنا پڑتے اسی طرح روزہ رکھنے کے لئے بھی خاص اخراجات برداشت نہیں کرنا پڑتے یہ مسلمان اپنی آسانی کے لئے کرتے ہیں روزہ اس کا بھی ہو جاتا ہے جو یہ اضافی اخراجات نہ کرے روزہ ہمیں پرہیز گار بناتا ہے اب جو سفر میں ہو وہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو نہ رکھے اتنے ہی روزے رمضان المبارک کے بعد رکھ لے یہ نہیں کہ ایک تو وہ سفر کی مشکلات جھیل رہاہو اور روزہ بھی ضرور رکھے اسی طرح جو کسی ایسے مرض میں مبتلاہو جس میں روزہ نہ رکھا جاسکتا ہو توا س کے لئے بھی چھوٹ ہے کہ تندرست ہونے کے بعد رکھ لے اب اگر کوئی بڑھاپے میں ہے یا ایسے مرض میں مبتلا ہے جس سے افاقہ نہیں ہوتا اور اس مرض میں روزہ بھی نہیں رکھا جاسکتا تو وہ ایک روزہ دار کو روزانہ سحری و افطاری کرائے ،ہے نہ یہ حیرت انگیز بات کے سخت مشقت کرنے والے تو روزہ رکھیں اور جو کرسیو ں پر بیٹھے رہیں وہ روزہ نہ رکھیں اب جو دکان یا دفتر میں کار یا موٹر سائیکل پر جائے سربراہی کی کرسی پر بیٹھا رہے دکان ہو یا دفتر کام اس کے ذاتی ملازمین یاکمپنی ادارہ محکمہ کے ملازمین کرے اسے گھر سے آنے اور گھر جانے کے علاوہ وہ معمولی سی بھی مشقت نہ کرنا پڑے اور وہ روزہ نہ رکھے وہ خودہی اپنا احتساب کرے اسلام کا پانچواں رکن حج ہے اب چونکہ حج صرف ایک جگہ ادا کیاجاسکتا ہے او ر اس جگہ ہر مسلمان نہیں پہنچ سکتا اس لئے حج ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے صرف ان مسلمانوں پر فرض ہے جو مکہ مکرمہ میں پہنچ سکتے ہیں اب دنیا بھر سے مسلمان ہر سال مکہ مکرمہ میں نہیں پہنچ سکتے اس لئے حج صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک با ر فر ض ہے اب دین اسلام صرف ارکان اسلام تک ہی محدود نہیں ہم روزمرہ کے معاملات کوبھی دین اسلام کی تعلیمات میں آسانی سے ڈھال سکتے ہیں اس کے لئے ہمیں اضافی وقت یا واضح محنت صرف نہیں کرنا پڑتی پانی ہر انسان کی ضرورت ہے اور ہر انسان نے پینا ہے اگر مسلمان پانی پیتے تو ویسے ہی ہیں وہ پانی سنت کے مطابق بیٹھ کر تین سانس میں پی لیں تو اس میں کو ن سا اضافی وقت یا اضافی محنت کرنا پڑتی ہے کھانا بھی ہر انسان کھاتا ہے اگر وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کھالے لباس بھی ہر انسان پہنتا ہے لباس اس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اگر مسلمان سنت رسول کے مطابق لباس پہنے اور اتارے سوناجسمانی اور ذہنی صحت کے لئے ضروری ہے ہر شخص سوتا ہے اب مسلمان سنت رسول کے مطابق سوجایا کرے راستہ میں پید ل چلتے وقت سنت رسول کے مطابق چلنا معمول بنالے ،صبح اٹھ کر ہر کوئی کم سے کم منہ ہاتھ ضرور دھوتا ہے اب وہ نماز فجر وضو کر کے اد ا کر لیا کرے ہر انسان بال کٹواتا اور ناخن اتارتا ہے اب اگر مسلمان سنت کے مطابق با ل ترشوائے اور ناخن اتارے تو اس میں اضافی وقت صرف ہوتا ہے اور نہ ہی اضافی محنت کرنا پڑتی ہے اس کے علاوہ دیگر معمولات و معاملات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق سرانجا م دے دیں تو یہ آسان ہے مشکل نہیں اب اگر کوئی ان اسلامی تعلیمات کو فرسودہ کہے یا قیانوسی کا نام دے تو اس کو اپنی عقل کا علاج کرانا چاہیے اب اگر ایسا معاملہ درپیش آجائے جس کا حل قرآن و حدیث اور فقہ میں نہ ہو تو ا س کا حل اجماع امت یا قیاس سے نکالا جاسکتا ہے مسلمان ہی ہیں جو دیگر مذاہب کی نقالی کرتے ہیں اسلام میں نہ تو کوئی ترمیم ہوئی اور نہ ہی ہوگی چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان اپنے مذہب پر اتنا باقاعدگی سے عمل کرتے کہ دیگر مذاہب کے پیر وکا ر نقالی کرنے پر مجبور ہوجاتے اب اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو کیا کیا کہا جارہا ہے یہ سب کے علم میں ہے ایساکہنے والوں کو اپنی سوچ و فکر پر غور کرنا چاہیے ۔وہ کیسے غور کریں گے کہ ان کی سوچ اور فکر اﷲ نے سلب کرلی ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.