انسانی حقوق

 اعلی عدالتوں کے ججز کی حیرت اور انصاف کے تقاضے
انور بیگ ( اسلام آباد)

پاکستان میں انسانی حقوق کی زبوں حالی اور ضلعی سطح پر عدلیہ اور انتظامیہ کے ھاتھوں عام لوگوں کی ذلتوں اور رسواٰئیوں کی داستانیں اب کوئی راز کی بات نہیں۔اس پر اعلی عدالتون کے ججز کی جانب سے گاہے گاھے داغے جانے والے بیانات از خود ایک نا قابل تردید ثبوت ہونے کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔حیرت اور شرم کی بات ھے کہ اعلی عدالتوں کے ججز یہ جانتے ہیں کہ ہماری جیلوں میں اور تھانوں میں عورتوں کو سکس انڈسٹری کے طور پرا ستعمال کیا جاتا ہے اور ججز برملا اس کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن اس پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کرتے۔ یقینا ان کا یہ کردار مجرمانہ،آئین اور قانون سے انحراف کے زمرے میں اتا ہے۔ اور عوام کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کی نفی اور جرم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔اسکی ایک مثال درج ذیل مظمون کو پہڑ کر بۃ اسانی لگائی جا سکتی ھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ شریف نے اپنے ایک بیان میں پولیس کی عوام دشمن کاروائیوں پر حیرت کا ظہار کیا ہے۔انہوں نے کہاہے کہ پنجاب کے سخت ترین وزیر اعلی ہونے کے باوجود پولیس عوام کے خلاف اپنی ظالمانہ کاروائیوں میں آزاد ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں پولیس کی حکومت چلتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بھائی پھیرو کے ایک بے گناہ معمر شخص کے خلاف چوری کے جھوٹے مقدمے اور اس پر پولیس کے ظالمانہ تشدد اور اسکی ہڈیاں توڑ دینے کے مقدمے کی سماعت کے دوران کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ شریف نے اس شخص کے خلاف ہونے والے ظلم کا اذخود نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں اس کے بے گناہ ثابت ہونے پر اس کے خلاف چوری کاجھوٹا مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا ہے اور ڈی پی او قصور کو متعلقہ پولیس والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ شریف اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات پر اپنی حیرت کا اظہار کر چکے ہیں۔

انہوں نے ایک بار اس وقت بھی اس طرح کی ایک بے رحمانہ اور ظالمانہ کاروائی پر شدید رنج اور غصے کا اظہار کیا تھا جب لاہور کے ایک بے گناہ عنصر نامی شخص کو سی آی اے کے انسپکٹر الیاس بھٹی نے اغوا کیاتھا، اسے اپنی غیر قانونی تحویل میں عرصہ پانچ ماہ تک رکھا تھا،اس پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے تھے،اور اس بے رحمانہ تشدد کے نتیجہ میں عنصر اپنی( زندگی) یعنی جسم کا حساس حصہ کھو بیٹھا تھا۔

خیال رہے کہ عنصر کے والد ممتاز نے جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ شریف کی عدالت (ہائی کورٹ )میں باظابطہ درخواست دی تھی اور اس کے نتیجہ میں مسٹر جسٹس خواجہ شریف کے حکم پر بیلف نے عنصر کو سی آی اے کے انسپکٹر الیاس بھٹی کی غیر قانونی قیدسے برآمد کیا تھا۔

بعد ازآں خواجہ صاحب کے حکم پر عنصر پر ہونے والے تشدد کے بارے میں میڈیکل رپورٹ طلب کی گئی تھی جس میں اس امر کی تصدیق ہو گئی تھی کہ عنصر پر بے رحمانہ اور ظالمانہ تشدد ہوا تھا اور اسی کے نتیجہ میں اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا تھا، یعنی وہ اپنے جسم کا حساس حصہ کھو بیٹھا تھا۔اس طرح کے مظالم میں بے سہارا اور غریب لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کو تحریر میں لانا ممکن نہیں۔تاہم اعلی عدالتیں ان تمام حقائق سے با خبر ہوتی ہیں۔

تاہم ان تمام تر قانونی شواہد کے باوجود اور ایسے مظالم کے خلاف سوو موٹو اختیار رکھنے کے باوجود مسٹر جسٹس خواجہ شریف نے انتہائی حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت کے ڈی آئی جی طارق سلیم ڈوگر کو فوری طور پر عدالت میں طلب کیا اور ایک نا قابل یقین انقلابی اور انسانی حقوق پر مبنی تقریر کی اور ڈی آئی جی کو حکم دیا کہ وہ ۲۰ مارچ ۲۰۰۰ تک الیاس بھٹی کے خلاف قانونی کاروائی کر کے عدالت عالیہ کو آگاہ کرے۔

ڈی آی جی طارق سلیم ڈوگر بہت سمجھدار آدمی تھے۔ انہوں نے انتہائی ادب کے ساتھ مسٹر جسٹس خواجہ شریف کی تقریر کوسنا اور کاروائی کا وعدہ کر کے سلوٹ مارکے چلے گئے۔

اس کے بعد سی آی اے کے انسپکٹر الیاس بھٹی نے حسب معمول اپنی کاروای کا آغا کیا اور چند شرفا کے ہمراہ اس نے عنصر کے والدین اور رشتہ داروں کو اپنی غلطی کی معافی مانگ کر صلح پر آمادہ کر لیا ۔ یہ اسکی بہت بڑی چال تھی جس میں وہ خاطر خواہ کامیاب رہا۔بعد ازآں اس نے وہ صلح نامہ بوقت ضرورت ڈی آی جی کے سامنے پیش کر دیا اور ایک چھوٹی سی وارننگ کے بعد اپنی ملازمت پر بحال ہو گیا۔

ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی اور اس طرح کے شرمناک واقعات روز مرہ کا معمول بن کر رہ گئے ہیں اور مسٹر جسٹس خواجہ شریف کے علاوہ بھی بے شمارمعزز ججز اس طرح کے واقعات پر کوئی قانونی کاروائی کرنے ،متائثرہ افراد کو انصاف فراہم کرنے ،ظالموں اور فاسقوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بجائے صرف حیرت کا اظہار کر کے اپنے آپ کو مطمعن کر لیتے ہیں۔جبکہ اس کے مقابل پولیس کی جانب سے پیش کئے جانے والے مقدمات (جن کے بارے میں ہماری اپنی اعلی عدالتوں کے بیانات کے مطابق پچاس فیصد سے زائید FIRS جھوٹی ہوتی ہیں) پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جاتا اور انہی FIRS کی بنیاد پر فیصلے صادر کر دیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں بے شمار لوگوں کو سزائے موت یا پھر عمر قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکی ایک مثال لندن کا طاہر مرزا ہے جسے تین بار سزائے موت کا حکم ہوا تاہم لندن والے اس کو بچا کر لے گئے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے شہریوں کو لندن والے بچانے آیا کریں گے یا کہ یہ کام ہماری عدالتوں کا ہے جو آئین و قانون کے مطابق ہمارے شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کی پابند ہیں بصورت دیگر ان عدالتوں کا اور کیاکام ہے۔

مسٹر جسٹس خواجہ شریف اگر عنصر کے معاملہ میں حیرت کی بجائے انصاف سے کام لیتے اور ان معقول ترین شواہد کی روشنی میں الیاس بھٹی جیسے ظالم اور فاسک شخص کو قرار واقعی سزا دے کر مثال قائم کر دیتے تو الیاس بھٹی مذید کسی اور بے گناہ عورت کو اغوا نہ کر سکتا اور اسے بے آبرو نہ کر سکتا۔

کیا جسٹس خواجہ شریف صاحب کے پاس اس عورت کی ذلتوں اور رسوائیوں کے مداوا کے لیے کوئی چارہ ہے تو وہ بیس کروڑ لوگوں کو بتائیں ۔الیاس بھٹی تو اس بے گناہ عورت کو بے آبروکرنے کے بعد بھی سزا سے بچ گیا اور ڈھائی سال بعد رہا ہو گیا۔میں خواجہ صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ وہ بد نصیب عورت میری بہن تھی،بتائیے میری آپ کے بارے میں کیا رائے ہونی چاہے۔تاہم اگر آپ نے اس وقت حیران ہونے کی بجائے اس فاسک شخص کو قرار واقعی سزا دی ہوتی اور اسے نشان عبرت بنایا ہوتا تو ہزاروں بے گناہ لوگوں کے ساتھ آج قصور کا یہ معمر شخص بھی ان ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ جاتا اور اس ملک کے بیس کروڑ لوگ مسٹر جسٹس خواجہ شریف کی حیرت پر نادم ہونے کی بجائے ملک کی اعلی عدالتوں کے فیصلوں پر عش عش کرتے اور فخر کے ساتھ اس ملک میں زندہ رہنے کی تمنا کرتے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عدالتیں پولیس اور اس طرح کے دوسرے اداروں کی من نانی اور غیر قانونی کاروائیوں کے خلاف سخت ترین اور فوری اقدامات کریں نا کہ ان سے متعلق معاملات کو ان کے اعلی افسروں کے حوالے کر دیں اور بعد ازاں ان سے رپورٹیں مانگتے رہیں، یہ ایک دھوکہ اور فریب ہے اور اعلی عدالتوں کے وقار سے متصادم ہے،یہ رپورٹیں بعد ازاں یا تو دفن ہو جائیں یادھونس اور میل ملاپ کی بنیاد پر صلح کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

ہماری اعلی عدالتیں ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ عدالتی نطام کی موجودگی میں صرف اعلی اور پیسے والے لوگ ہی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں اور کمزور اور مسکین لوگوں کے پاس تو تھانے جانے،ایف آئی آر درج کرانے اور وکیل کو فیس دینے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ مزید براں جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان پر ظلم کرنے والے شخص کے بارے میں ہماری عدالتوں نے از خود کوئی کاروائی کرنے کی بجائے ان کے افسروں سے ان کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے تو انصاف کے بارے میں ان کی ساری امیدیں دفن ہو جاتی ہیں۔

خیال رہے کی کسی بھی معاشرے میں افراد کا ریاست کے ساتھ رشتہ نا طہ کوئی پتھر پر لکیر نہیں ہوتی بلکہ صرف انصاف کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی مشروط رہتا ہے۔اور جوں جوں یہ رشتہ کمزور ہوتا جاتا ہے افراد کی وفاداریوں اورسماجی رشتوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور بل لاخر لوگ اپنے ہی گھر سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال کسی بھی معاشرے کی تباہی کی آخری دلیل ہوتی ہے۔ اور ہم اس صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

المختصر یہ کہ اس ملک کو اب صرف اور صرف فوری اور بے رحمانہ انصاف ہی بچا سکتا ہے۔ اور یہ انقلابی کردار اب ہماری عدالتوں کو ادا کرنا ہو گا۔جہاں تک پنجاب میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعلی ہونے کا تعلق ہے تو انکی سماجی حیثت ایک ایڈمنسٹریٹر کی ہے نا کہ ایک عدلیہ کی اور وہ سخت ترین وزیر اعلی ہونے کے باوجود کسی کو سو روپے جرمانہ نہیں کر سکتے۔ لوگوں کو معاشرے میں انصاف پر مبنی ایک نظام کی توقعات ایک اچھے حاکم سے کم اور عدلیہ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اور اس کا اظہار وہ خود اپنی کئی تقاریر میں کر چکے ہیں۔لہذا اب ہماری اعلی عدالتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عورتوں،بچوں اور کمزور لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرانے میں اپنی حکمت عملی پر غور فرمائیں اور بل لخصوص ضلعی عدالتوں کا قبلہ درست کرنے پر فوری توجہ دیں جہاں آئے روز انسانی حقوق کی بے مثال پامالی ہوتی ہے اور کرپشن کے امبار لگے ہیں اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

Mohammed Baig
About the Author: Mohammed Baig Read More Articles by Mohammed Baig: 22 Articles with 14126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.