خانقاہی نظام اور تزکیہ نفوس

اس پر فتن دور میں جہاں دیگر بہت ساری خرابیاں ہیں وہاں علم تصوف کے فہم میں ایک اہم اور بڑی خرابی ہوئی ہے۔وہ یہ کہ کسی نے قول و فعل کی بے قیدی کا نام تصوف رکھ لیا ہے اور کسی نے چند ظاہری رسوم اورکثرتِ ا وراد و وظائف کو تصوف سمجھ لیا ہے۔لھٰذاتصوف کے سمجھنے میں لا تعداد غلطیاں کیں جن سے ایک طرف تو ان کے عقائد درست نہ رہے بلکہ بعض تو شرک تک میں مبتلا ہو گئے اور دوسری طرف بعض حضرات نے یہاں تک تجاوز کیا کہ اص تصوف کا انکار کر بیٹھے اورحضراتِ اولیا ئے کرام کے فیوض و برکات سے محروم ہی رہے۔اور بزرگانِ دین کی شان میں گستاخی و بے اد ب ی کے خوگر ہو گئے اور چودہ صدیوں کے مسلمہ مسائلِ تصوف کو کتاب و سنت سے خارج اور شریعت کے خلاف سمجھ کر کوسوں دور بھاگنے لگ اور بعض علمِ تصوف کوشریعت کے علاوہ ایک علیٰحدہ علم سمجھتے ہیں اور مسائلِ تصوف کو غیرثابت با لسنہ جانتے ہیں۔ان حالات میں اس امرکی ضرورت ہے کہ خانقا ہی نظام کا کردار اور اس کی افادیت قرآن و حدیث اورفقہا ،اولیا ئے کرامؒ کی تحقیقات اور اعمال کی روشنی میں اسلامی تصوف و سلوک سے متعلق ہر قسم کی غلط فہمیاں دور کی جائیں اور جو یہ نظریہ جو اہلِ ظواہر کی طرف سے پھیلایاجارہا ہے اس کا قرآن و سنت کی روشنی میں تجزیہ کیاجائے، طریقت، حقیقت، معرفت، بیعت، اخلاق، مجاہدات، اذکار، اشغال،مراقبات،احوال تو جیہات، تعلیمات، تزکیہ نفس، تہذیبِ اخلاق،اور اصلاح اعمال،کا طریقہ جو صوفیاء کی اصطلاح میں تصوف کہلاتا ہے در اصل تو شریعت ہی ہے اور طریقت شریعت کے تابع ہے نہ کہ الگ راستہ۔اب ہم اس سقم کو دورکر نے کی کوشش کریں گے کہ شریعت و طریقت جدا نہیں بلکہ شریعت ہی اصل راستہ ہے اور طریقت اس راستے پر دیکھ کر چلنا ہے ۔ ﴿شریعت﴾ اﷲ رب العالمین نے حضور اکرم ﷺ کوخطاب کر تے ہوء ے ارشاد فر مایا ، ثم جعلنٰک علٰی شریعۃ من الامرفاتبعھا ولاتتبع اھوآء الذین لا یعلمون ہ انھم لن یغنوا عنک من اﷲ شیئا ً ط وان الظٰلم ی بعضھم اولیاء بعضِِِِِ ج واﷲ ولی المتقین ہ ھذا بصآئرللناس وھدی و رحمۃلقوم یوقنون ہ ﴿ سورۃ الجاثیۃ ۴۵/آیات نمبر۱۸،۱۹،۲۰﴾ ترجمہ، اب اس کے بعد اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو ایک صاف شاہراہ ِ شریعت پر قا ئم کیا ہے لھٰذا آپ اسی پر چلیں اوران لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں جو علم نہیں رکھتے۔ اﷲ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے ۔ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور متقیوں کاساتھی اﷲ تعالیٰ ہے ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیئے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیئے جو یقین لائیں۔ان آیات میں یقین کرنے والوں کے لیے تین صفات کے حاصل ہونے کا تذکرہ ہے ،بصیرت جو باطنی روشنی ہے،ہدایت جو راستے کی نشاندھی کرتی ہے،رحمت جو مقصود ہے۔ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین ہ ۳/ ۸۵،جو شخص شریعت ِ اسلامی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اس کے طریقِ کار کو اﷲ ہر گز قبول نہیں کرے گا اور وہ خسارہ پانے والوں سے ہو گا ۔رسول کریم ﷺ کی تربیت کے نتیجے میں ایک ایک فرد تقویٰ و تزکیہ کا ادارہ تھا جو دین کے مجاہداور راتوں کے زاہد تھے۔رسول اﷲ ﷺکی رحلت کے بعد اس مزکی و مربی جماعت بالخصوص خلفائے راشدینؓ نے اس کا اہتمام رکھا تاکہ لوگ اﷲ کی بندگی اسی طرح برقرار رکھیں جس کی تعلیم رسول کریم ﷺ نے دی ۔صحابہؓ کی جماعت بالخصوص اولون السابقون زہد و تقویٰ کا معیار تھے۔ خلافتِ راشدہ کے بعدجب اسلامی خلافت جو بندگیٔ رب کی مکمل و اکمل شکل تھی اس میں تغیرات نمودار ہونا شروع ہوئے تواہل تقویٰ واہلِ علم حضرات نے تعلیم و تربیت کے نظام کومنظم کیا اگر چہ خلافت راشدہ کے دور میں کسی خانقاہ کی ضرورت نہ تھی قصر خلافت ہی رشدو ہدایت کا مرکز تھا لیکن بعد کے حالات بھانپ کرعلمی اور تربیتی نظام کوقرآن و سنت کی روشنی میں اہلِ حل و عقد نے ترتیب دیاگیا جہاں دنیوی معا ملات اور مسائل میں راہنمائی کا انتظام تھا وہاں تزکیۂ نفوس کے لیئے روحانی تربیت کا اہتمام بھی تھا۔اگرچہ ہمارا موضوع خانقاہی نظام اور تزکیۂ نفوس ہے تاہم خلفائے راشدینؓ کے بعدبکھرے ہوئے احادیث کے ذخائر کو اہل الآثار اور تفق فی الدین کے لیئے فقہاء اور روحانی تربیت کے لئے صوفیائے کرام کا بڑا کر دار ہے۔اپنے اپنے کام کے باوجود یہ سب طبقات قرآن و سنت کے تابع اور متقی و پرہیز گارتھے ۔طبقۂ اولیٰ میں خانقاہیں ہی مدارس تھے جس میں علوم و فنون کے ساتھ روحانی تربیت ہوا کرتی تھی ا س کی مثال اصحاب صفہ ؓ کی خانقاہ تھی۔جس میں تعلیم قرآن و سنت کے علاوہ روحانی تربیت بھی ہوتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ محدِثین ان میں سے اکثر نے قابلِ اعتمادروایات لیں اور محققین کے علاوہ صوفیائے کرام نے بھی ان سے روحانی تربیت کا ذریعہ ماناہے۔جس طرح سے دوسرے علوم و فنون اور دیگر شعبہ ہائے علم کے علماء و ماہرین ان علوم وفنون کے مسائل اور نِکات کو بیان اور واضح کرنے کے لئے ہر فن کے لیئے خاص زبان اور اصطلاحات اختیارکی ہیں جب تک آدمی کواس علم و فن کی زبان و اصطلاحات پر عبور نہ ہووہ پوری طرح نہ اس کو سمجھ سکتا ہے اور نہ استفادہ کر سکتا ہے۔اسی طرح صوفیائے کرام نے طریقت و حقیقت کے مسائل و نِکات کے لیئے مخصوص اصطلاحات مقرر کی ہیں جن کو سمجھے بغیر آد می صوفیاء ؒ کی باتوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ استفادہ کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر اہل لغت ، ماضی، حال، مستقبل، واحد، جمع، حاضر، غائب، متکلم، صحیح، معتل، اجوف ،لفیف، اور ناقص وغیرہ کی اصطلاحات کی مدد سے اپنی بات سمجھاتے ہیں۔ اہلِ نحونے رفع ، نصب جر، جزم، منصرف، اور غیر منصرف، وغیرہ کی اصطلاحات اختیار کی ہیں۔ اسی طرح حساب دانوں نے بھی فرد، اور زوج،جمع اور تفریق،ضرب اور قسمت، اور تنصیف، جذر اور کعب، کی خود ساختہ اصطلاحات اختیار کی ہیں۔ جیومیٹری والوں نے نقطہ اور فاصلہ، خط اور وتر، دوائر اور بحور وغیرہ ۔فقہاء نے علت، اور معلول، رفع اور الزام ،قیاس،اجتہاد اور اجما ع وغیرہ۔اور محدثین نے مرفوع،مرسل،احاد، متواتر،صحیح اور حسن،اور ضعیف،جرح و تعدیل،ادر متکلمین نے عرض و جواہر، جز اور کل ،خبر اور ہیوالیٰ، وغیرہ کی اصطلاحات ایجاد کیں جس سے وہ اپنی بات سمجھا سکیں۔لیکن دوسرے اہل فنون کے بر عکس صوفیائے کرام نے طریقت کے مسائل ونِکات کے بیان کے لئے جو زبان اور اصطلاحات وضع و اختیار کی ہیں اس میں ان کے سامنے صرف یہی ایک مقصد نہ تھا کہ ان مسائل و نِکات کواچھی طرح سے سمجھایا جا سکے بلکہ ان کے سامنے یہ مقصد بھی تھا کہ ان باتوں کو جن لوگوں سے مخفی ضروری ہو ان سے ان کو اور اپنے مطلوب دائرے میں محدود رکھا جاسکے اس کی ضرورت اس لئے پیش آتی تھی کہ اہلِ تصوف و طریقت کا تو اصل مشن ہی یہ تھا کہ لوگوں کے اندر حقیقی دینداری اور خدا پرستی کی اصل روح کو بیدار اور جاری و ساری کیا جائے جو انبیاء علیھم السلام کی دعوت کا اصل مقصود تھا۔لیکن یہ بات جابر وظالم باد شاہوں اور ظالم حکمرانوں کوگوارہ نہ تھی ۔اس لئے صوفیاء اپنی بات ایسی زبان اور اصطلاحات میں بیان کرتے تھے کہ ان کے اپنے طائفہ کے لوگ تو اس کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ لیکن اگر یہ بات ان کے حلقہ سے باہر تو دوسرے اس سلسلہ کے بھید کونہ پا سکیں۔گو یا اہلِ تصوف کے مختلف گروہوں کی اصطلاحات اس علم و فن کی محض علمی و فنی اصطلاحات ہی نہیں بلکہ یہ ان گروہوں کی مخصوص زبان (code)بھی ہے۔جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو پہچانتے اور اپنے مشن کو ایک دوسرے تک پہنچا تے ہیں۔یہ تو طے ہے کہ منبعِ رشد و ہدایت تو شریعت ہی ہے اور اس کی تعلیم کے لئے مدارس و خانقاہیں قائم کی گئیں۔مدارس میں قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ دیگر علوم و فنون کی تعلیم کے ساتھ یقیناً تقویٰ و پرہیز گاری کا بھی درس دیا جاتاہے تاہم طلباء ومعلمین زیادہ وقت تعلیم و تعلم پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے مطلوبہ تزکیہ عوام الناس تک منتقل نہیں کر پاتے ۔قانونی مسائل کا حل استفتاء وقضاء فقہی مسائل وعبادات کا ظاہری پہلو اور ترغیبات عقیدۂ توحید ورسالت ایمانیات اور نجات کا تعارف اور نتائج سے آگاہی بدرجۂ کمال سکھایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رہتی دنیا تک شریعتِ مطاہرہ اسی اصلی حالت میں قائم ہے اور رہے گی انشاء اﷲ۔عبادات کی جتنی اقسام ہیں ان پر عمل کرنا فقہی اصطلاحات میں تو ادائگی مکمل ہے اس میں قانوناًکوئی خامی نہیں۔لیکن اہلِ (طریقت)یعنی صوفیائے کرام ان شرعی اعمال کیادائگی اسکی اصل روح کے مطابق بنانے کی تربیت کرتے ہیں۔مثلاً نماز کو لے لیں اسکی شرائط یہ ہیں کہ لباس،جگہ ،پاک ہو طہارت مکمل ہو ،صحیح وقت پر ادا کی جائے،طے شدہ طریقِ کار کے مطابق ہواور طے شدہ اصول کے مطابق ہو یہ فقہی نماز مکمل قرار پائے گی اورشریعت کی روشنی میں نمازی ایک مسلمان شخص ہی متعارف ہو گا الا ماشاء اﷲ۔لیکن تصوف کی روشنی میں صوفیاء اس کی اہمیت اس طرح بیان کرتے اورتربیت کرتے ہیں کہ نمازی کی اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کی تیاری میں کن کیفیات سے گزرتا ہے کیا وواخلا ص کے ساتھ اﷲ سے ڈرتا ہوا مصلے پر کھڑا ہورہا اسکے دل کی کیفیت کیا ہے کیا اس کی نماز برائیوں سے روک پائے گی کیا اﷲ کے حقیقی بندہ ہونے اور جنت کا مستحق ہونے اور جہنم کے عذاب سے چھٹکارا ملنے کا احساس پیدا ہوا ہے۔یہ وہ احساس ہے جو صوفیاء کے مختلف طبقے اپنے شاگرد حضرات اور ارادت مند مریدین میں تربیتی نظام کے ذریعے پیدا کرتے ہیں۔یہاں ایک وضاحت ضروری ہے ۔قرآن نے جس چیز کا نام تزکیہ اورحکمات ہے اورحدیث اس کو احسان کا نام دیا گیا ہے یہی چیز اصطلاحِ صوفیاء میں تصوف کے نام سے مشہور ہوئی ۔ہمارا موضوع فقہ نہیں بلکہ خانقاہی نظام ہے اس لئے اس کی افادیت کے چند پہلو بیان کریں گے تاکہ اہلِ ظواہر کی طرف سے اس پورے نظام کو بدعت قرار دینے اور اس تعلیم و تربیت کے شعبے کو دھند لا کر عوا الناس کو شبہ میں ڈال رہے ہیں اور(ہم چوما ،دیگرے نیست )کے مصداق بن رہے ہیں ادھرخانقاہی نظام کی موجو دہ شکل و صورت پربھی بات ہوگی تاکہ لوگ اندھی عقیدت کے بجائے اولیائے کرام رحمھم ﷲ کے مجاہدات وریاضت ان کے کرداراورروحانی تربیت کی روشنی میں اپنا کردار بناسکیں۔مدارس اور خانقاہوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ مدارس میں مخصوص لوگ ہی استفادہ کرتے ہیں جبکہ خانقاہ میں عوام و خواص پڑھے لکھے اور ان پڑھ دہاتی وشہری کسان و مزدور مسلم و غیر مسلم ہر طبقۂ فکر کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق فیض پاتے ہیں۔شیخ خانقاہ جتنا کامل ہو گا اتنا ہی اپنے مریدین پر اثر انداز ہوگا اور لوگ عقیدت کی بنیاد پر اپنے پیر سے والہانہ عزت و احترام سے اسکے احکامات پر عمل کرنے میں اﷲ کی خوشنودی اورآخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔اور چونکہ مدارس کے مقابلے میں خانقاہوں میں روحانی تربیت کا اہتمام زیادہ مضبوط و مربوط ہتا ہے اور اسکے علاوہ خود اولیائے کرام کاکردار واخلاق اس قدر قابلِ کشش ہوتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں غیر مسلم ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں تاریخ کے اوراق اس پر گواہ ہیں۔دوسری طرف لوگ اپنے ہم مشرب ساتھیوں کے ساتھ والہانہ محبت ہمدردی رکھتے ہیں جو اسلامی معاشرے کا مقصد ہے۔اہلِ طریقت اولیائے عظام آپس میں ہم راز بھی ہوتے ہیں اورتصوف کے رموز و معارف کے واقف بھی۔کچھ اہل طریقت کے تصوف کے بارے میں اقوال استفادۂ عام کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔حضرت محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنھم فر ماتے ہیں (التصوف خلق فمن زاد علیک فی الخلق زاد علیک فی التصوف) یعنی تصوف نیک خوئی کا نام ہے، جتنا کو ئی شخص نیک خوئی میں بڑھا ہوا ہوگا ،اتناہی تصوف میں بڑھ کر ہوگا۔حضرت مرتعش ؒ فرماتے ہیں (التصوف حسن الخلق) تصوف نیک خلق کو کہتے ہیں۔حضرت جنید بغدادیؒفر ماتے ہیں(التصوف مبنی علیٰ ثمان خصال ،السخاء،والرضاء، والصبر،والارشارۃ،والغربۃ، ولبس الصوف،والسیاحۃ،والفقر،)تصو ف کی آٹھ خصلتیں ہیں۔سخاوت،رضا،صبر ،اشارت، غربت،اجنبی ہوجانا،لباسِ صوف،سیاحت،اور فقر،اہم نکتہ سخاوت نمونہ ہے حضرت ابراھیم ؑ،رضا کانمونہ حضرت اسماعیل ؑ، صبر کانمونہ حضرت ایوب ؑ اشارت کانمونہ حضرتزکریاؑ ،غربت کا نمونہ حضرت یحیٰ ؑ۔صوف پوشی کا نمونہ ہیں حضرت موسیٰ ؑ، سیاحت میں حضرت عیسیٰ ؑ نمونہ ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے (،علیکم یلبس الصوف تجدون حلاوۃ الایمان فی قلوبکم) یعنی اون کا لباس اختیار کرو اس سے تم اپنے دلوں میں مٹھاس پاؤ گے۔تصوف سے متعلق چنداقوال پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ورنہ اولیائے کرام کی تعلیمات و کردار پرسینکڑوں کتب مو جود ہیں اہلِ علم حضرت استفادہ کر سکتے ہیں خلفائے راشدین رضوان اﷲ علیھم اجمعین کے بعد خلافت اسلامیہ کی حفاظت انہیں کی وجہ سے ہے کچھ نہ کچھ امن و سکون اور اطاعت کا مو جود ہونا ان خانقاہوں میں ہے یقیناًمحبت و اخوت ہمدر دی و غمگساری روحانی تربیت کا اہتمام پایا جاتا ہے۔البتہ موجودہ دور میں جس طرح مسجدو مدرسہ کے نظام میں تعلیم و تعلم میں خامیاں اورفرقہ واریت نے اپنے پنجے گاڑ لیئے ہیں اسی طرح خانقاہوں میں بھی روحانی تربیت میں فرق محسوس ہورہا ہے۔علماء و صوفیاء کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے شعبہ جات کی اصلاح پر توجہ دیں تاکہ عوام الناس کو اﷲ رب العالمین کی بندگی اور اس کی رضا کا حصول ممکن ہو سکے ایسا نہ ہوکہ بقول علامہ اقبال ؒ ، اٹھا میں مسجد و مدرسہ و خانقاہ سے غمناک، نہ زندگی نہ معرفت نہ نگاہ ، گلا تو گھونٹ دیا ہے اہلِ مدرسہ نے تیرا، کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اﷲخانقاہی نظام میں تزکیۂ نفوس کا اہتمام اسی طرح ہونا چاہیئے جس طرح صحابہ ٔ کرام اور اولیائے امت نے ترتیب دیا جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی پہچان اس گئے گزرے دور میں بھی موجود ہے۔ شریعت ِ مطاہرہ کی روشنی میں ثابت اور اپنے اصل پر قائم شدہ خانقاہوں سے وابستہ رہ کراپنی روحانی تربیت اس بنیاد پر کرتے رہنا چاہئے کہ وما امروا الا لیعبدوااﷲ مخلصین لہ الدین حنفاء یعنی اخلاص ﷲ اورتوجہ الی ﷲ اور حدیث میں تزکیۂ کی صورت یہ بتائی گئی ہے،(الاحسان ان تعبداﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک) خوبی تو یہ ہے کہ تم اﷲ کی عبادت اس طرح کرو گو یا تم اس کو دیکھ رہے ہو،اگر ایسا نہ کر پا ؤ تو یہ احساس کرو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے اولیائے کرام ان ہی صلاحیتوں کے حامل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی صحبت سے غیر مسلم بھی متاثر ہوکر دائرۂ اسلام میں داخل ہو کرحلقۂ ارادت میں شامل ہوئے۔اور کفر کی زندگی چھوڑ کررب کی بندگی اختیار کی۔اﷲ تعالیٰ تو فیقِ عمل عطاء فرمائے۔آمین۔

Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 33406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.