جامعہ شاہ عبدالعزیز لائبریری جدہ میں ایک دن

 سعودی عرب کے بجٹ میں تعلیم پر بیس فیصد رقم رکھی گئی ہے اس سے بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب تعلیم کا کس قدر اہمیت دے رہا ہے۔سعودی عرب کے تقریباً صوبوں میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے جن میں کالج اور جامعات شامل ہیں قائم ہیں ۔ان میں ریاض، مدینہ، مشرقی صوبہ، صوبہ آسر، القاسم، جیذان، ھیل، مخزان ، تبوک اور نارتھرن باڈر شامل ہے۔ سب سے زیادہ جامعات صوبہ ریاض میں ہیں۔ جدہ میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کا قیام ملک شاہ الفیصل کے دور حکومت میں ۱۹۶۷ء میں عمل میں آیا۔ اسلامی شعار کے مطابق جامعہ ملک عبدالعزیز جدہ کے دو کیمپسز ہیں ایک طالبات (خواتین) کے لیے دوسرا مردوں کے لیے۔ دونوں کیمپسیز ساتھ ساتھ ہیں لیکن دونوں کے تمام تر انتظامی اور تعلیمی امور علیحدہ علیحدہ انجام پاتے ہیں۔ جامعہ عبد العزیز جدہ کے اہم اور خوبصورت علاقے ’’رحاب‘‘ میں ایک وسیع و عریض قطعہ زمین پر واقع ہے۔ اس کے مغربی سمت مکہ روڈ ہے جو جدہ ائر پورٹ، مدینہ منورہ سے مکہ کی جانب جارہی ہے۔ ۲۶ دسمبر ۲۰۱۳ء کی صبح مَیں اپنے بیٹے کے ہمراہ جامعہ کی حدود میں داخل ہوا۔ مجھے جامعہ کے مرکزی کتب خانے جانا تھا۔ اس سے قبل جامعہ کے مختلف شعبہ جات جو ایک دوسرے سے دور دور ہیں دیکھتا رہا۔ جامعہ میں مرکزی کتب خانے کی تلاش میں ہم جامعہ میں اس طرح دوڑ رہے تھے کہ جیسے ہم جدہ سے مکہ جارہے ہوں۔ جامعہ میں ٹریفک کی صورت حال کچھ ایسی تھے کہ جیسے لوگ جوق در جوق اپنے کام کا اپنی اپنی گاڑیوں میں رواں دواں ہوں۔ کافی تلاش اور گھوم پھرنے بعد ہمیں جامعہ کے مرکزی کتب خانے کی عمارت مل گئی۔

جامعہ میں تقریباً علوم و فنون کی تعلیم کا احتمام ہے۔ یہ جامعہ سعودی عرب میں قائم بے شمار جامعات کی ماں بھی ہے۔ وہ اس طرح کے ابتداء میں اس جامعہ کے کیمپسیز مختلف شہروں میں کھولے گئے بعد میں انہیں مکمل جامعہ کا درجہ دے دیا گیا۔ جامعہ کے موجودہ صدر پروفیسر اوسامہ ایس طیب ہیں۔ خواتین کے شعبے میں جانا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا یہاں صرف مردو کے حصے کا حال ہی بیان کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں شعبہ جات میں ایک جیسی سہولتیں فراہم ہیں۔ عمارات بھی ایک جیسی بنائی گئیں ہیں۔

جامعہ کا مرکزی کتب خانہ
جامعہ کے مرکزی کتب خانے کی عمارت بہت بڑی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کتب خانے کی ایک اور عمارت بن چکی ہے یہ کتب خانہ جلد اس عمارت میں منتقل ہوجائے گا۔ سعودی عرب میں سب بڑا مسلہ زبان کا ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جامعہ میں طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں یہاں عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی فراوانی سے بولی جارہی ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کتب خانے کی عمارت کی تلاش میں ہمیں کئی جگہ رک کر معلوم کرنا پڑا زیادہ تر لوگ عربی ہی بول رہے تھے کچھ نے انگریزی میں بھی بات کی۔ تلاش کے بعد آخر کتب خانہ کی عمارت کے سامے پہنچ گئے۔ جامعہ میں جس قدر گھومے ہیں میرا تو خیال تھا کہ آج ناکام ہی لوٹنا پڑے گا۔ لیکن میرا بیٹا عدیل بڑی تگ و دو کے بعد آخر کامیاب ہوگیا اور ہم کتب خانے کی عمارت میں داخل ہوئے۔ یہاں یہ خیال ذہن میں تھا کہ کوئی نہ کوئی پاکستانی یا ہندوستانی ضرور مل جائے گا اس سے آسانی ہوجائے گی۔ ایک نچلی سطح کا کارندہ نظر آیا ظاہری کیفیت بتا رہی تھی کہ یہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھتا ہے۔ رابطہ کرنے پر ہمارا خیال درست ثابت ہوا جب اس سے دریافت کیا تو اس نے بتا یا کہ یہاں لائبریری میں دو پاکستانی کام کرتے ہیں ایک چھٹی پر گیا ہوا ہے دوسرا وہ سامنے آخر میں جاکر دائیں جانب والے حصے میں بیٹھتے ہیں۔ میں عدیل کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ گیٹ میں داخل ہوئے چاروں جانب سعودی سفید پوشاک میں اپنی اپنی میزوں پر کام کررہے تھے۔ انتہایہ دائیں جانب کتابوں کے ڈھیر کے پیچھے ایک ایسی شکل نظر آئی جو پاکستانی ہونے کا پتا دے رہی تھی۔ چہرے مہرے سے پاکستانی لگ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر دل کو اطمیان ہوا۔ ہم بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھے ان کی جانب بڑتے چلے گئے۔ انہوں نے بھی ہمیں دیکھا اور ہماری جانب دیکھ رہے تھے سمجھ گئے تھے کہ یہ دونوں اشخاص پاکستانیت شناخت لیے ہوئے ہیں میری ہی تلاش میں ہیں۔ ہم ان کے سامے اور وہ ہمارے سامنے گھڑے تھے۔ سلام اور مصافحہ کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا۔ گورا رنگ، لمبا قد،مناسب جسم، کشادہ پیشانی اوپر کی جانب ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، چوڑا سینہ، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک ،چشمہ لگا ہوا، اونچی ناک جس کے نیچے سپاٹ میدان یعنی داڑھی موچھ صاف ، سر پرکچھ کچھ چاندی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، طبیعت میں شائستگی اور میٹھاس ، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔یہ تھے جناب محمد رفیق جو جامعہ کے کتب خانے گزشتہ بیس سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اس وقت یہ کتب خانے کے شعبہ کیٹلاگ سازی میں کام کررہے ہیں۔ بیٹے کو آفس جانا تھا چنانچہ وہ ان سے مجھے متعارف کراکے رخصت ہوا ۔ جاتے جاتے رفیق صاحب کا موبائل نمبر بھی لیا لگ رہ تھا کہ وہ اپنے باپ کے لیے متفکر ہے ۔راستے میں بھی پوچھتا رہا کہ آپ واپس کیسے جائیں گے۔ ٹیکسی والے کو اپنا ایڈریس اچھی طرھ بتائیے گا۔ گھر کا ایڈریس لکھ کر اپنی اوپر والی جیب میں رکھ لیں وغیرہ وغیرہ۔ میں اس کی ان باتوں پر دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا۔ مجھے یہ ایک کیئر نگ چائلڈ لگا۔ والدین کو اور کیا چاہیے ہوتا ہے اپنی اولاد کے اچھے رویے ، خیال کرنے والے طرز عمل کی چاہت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر وہ ان تمام مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں جن سے ان کی اولاد گزر رہی ہوتی ہے۔ بچے خیال کرنے والے ہوں تو والدین کی بڑھاپے کی زندگی میں اطمینان اور سکون غالب آجاتا ہے۔ اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو ضعیف اور ناتواں زندگی اور بھی ضعف اختیار کرلیتی ہے۔ جینا تو ہر دو صورتوں میں ہوتا ہی ہے۔ بات کہی اور نکل گئی ۔ عدیل نے خدا حافظ کہا اور وہ اپنے آفس کے لیے روانہ ہوا۔

رفیق صاحب کو جب مَیں نے اپنا نام بتایا اور ویزیٹنگ کارڈ دیا تو گویا ہوئے کہ آپ کا نام سنا ہے۔ اب ہم اور وہ آمنے سامنے تھے۔ ابتدئی گفتگو میں معلوم ہوا کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے جامعہ پنجاب سے ۱۹۸۲ء میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا۔ ایک ایم برطانیہ سے بھی کیا۔ میرے دو دوستوں ڈاکٹر خالد محمود اور ڈاکٹرخالد ندیم کے گاؤں شرق پور سے ہے جو شیخوپورہ کی ایک تحصیل ہے۔لاہور میں قائد اعظم لائبریری میں کام کیاپھر یہاں جامعہ عبد العزیز جدہ کے کتب خانے میں آگئے اور تاحال یہیں ہیں۔ انہوں نے بتا یا کہ اس کتب خانے میں ڈاکٹر ممتاز انور بھی کئی سال رہے۔ڈاکٹر انیس خورشید کے بھائی بدر الدین خورشید بھی اس کتب خانے سے منسلک رہے۔ میں نے رفیق صاحب کو بتا یا کہ میں ویزٹ ویزا پر جدہ تیسری بار آیا ہوں ، اپنا سفر نامہ مکمل کرناچاہتا ہوں اس سلسلے میں جامعہ عبد العزیز جدہ کے کتب خانے کے بارے میں معلومات چاہتا ہوں۔ وہ اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے میرے ساتھ ہولیے۔ جہاں ہم بیٹھے تھے شعبہ کیٹلاگ سازی تھا۔ خاصہ بڑا حال چارو جانب سعودی اپنی اپنی میزوں پر سر جھکائے کام میں مصروف تھے۔ ایک دو جگہ گفتگو بھی ہورہی تھی۔ ہر میز کتابوں سے لدی ہوئی تھی۔ ابتدا کتب خانے کے ڈین لائبریری افئیر سے ملاقات سے ہوئی ۔ ڈاکٹر نبیل عبداﷲ کمثانی کتب خانے کے سربراہ ہیں ۔ انہوں نے اسی جامعہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ رفیق صاحب نے تعارف کرایا۔ نشست سے اٹھ کر ملے ، خوش ہوئے، یہ جان کر زیادہ خوش ہوئے کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ رفیق صاحب سے اشارہ کیا کہ انہیں کتب خانے میں جاب دے دی جائے۔ رفیق صاحب نے ڈاکٹر کمثانی کو بتا یا کہ میں ریٹائر ہو چکا ہوں ، میری عمر بھی دریافت کی، اب سعودی قانون کے مطابق مشکل ہے۔ میں خود بھی ملازمت کا خواہش مند نہیں تھا ان کی اس پیش کش کا شکریہ ادا کیا اور ان سے رخصت چاہی۔ جناب سمیرر ملی عبدالغنی فلیبان سے ملاقات ہوئی جوڈائریکٹر ہیں ٹریننگ و ڈیولپمٹ کے۔

اب ہم کتب خانے کے دیگر شعبہ جات میں گئے۔ شعبہ فنی خدمات حصول کتب ، کیٹلاگ سازی اور درجہ بندی پر مشتمل ہے۔ درجہ بندی کے لیے میلول ڈیوی کی اسکیم پر عمل ہوتا ہے۔ کیٹلاگ سازی جدید طریقہ پر کی جارہی ہے۔ کمپیوٹر پر تمام ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ آن لائن کیتلاگ OPACموجود ہے۔شعبہ حوالہ جاتی خدمات جدید ماخذ ات سے آراستہ ہے۔ گفٹ اور تبادلہ کا شعبہ بھی ہے۔ کتب خانے کا خصوصی ذخائزکا شعبہ بہت اہم اور وسیع ہے۔ یہاں کے سربراہ نے ہمیں بہت ہی تفصیلات سے شعبہ کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس شعبے میں رسائل و جرائد کا شعبہ بھی ہے۔ سعودی عرب کی اہم معروف علمی شخصیات نے جو کتب عطیہ کیں انہیں بھی اس شعبہ میں بہت عمدہ طرقے سے رکھا گیا ہے۔ ان میں عبد اﷲ افیصل کا ذخیرہ، شیخ محمد نصیف کا ذخیرہ کتب، حسن احمد بھکلی کا ذخیرہ کتب اور محمد السنوسی کا ذخیرہ کتب شامل ہے۔ یہاں مخطوطات کا شعبہ بھی ہے جہاں قدیم مخطوطات کو شیشے کے شو کیسوں میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ سمعی و بصری مواد بھی اس شعبہ کا حصہ ہے۔ کتب خانے میں ایک شعبہ فوٹو کاپی خدمات کا بھی ہے۔ اس کت علاوہ انٹر نیٹ لیب موجود ہے جہاں طلباء کو نیٹ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ کتب خانے کی کتب دو حصوں میں منقسم ہیں انگریزی کتب اورعربی کتب۔ شلف پر ڈیوی اسکیم کے درجہ بندی نمبر نمایاں طور پر درج ہیں۔ کتب خانے کا تفصیلی مطالعہ کرکے دل خوش ہوا ۔ اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ کتب خانے کو جدید طرز پر قائم کرنے میں جہاں سعودی حکومت کا اہم کردار ہے وہاں پاکستانیوں کی بھی کچھ محنت ، توجہ اور لگن شامل حال ہے۔

کنگ فہد پبلک لائبریری
اماں حوا کے شہر جدہ میں تعلیمی اداروں کی کمی نہیں ۔ مدرس، اسکول، کالج اور جامعات شہر کی خصو صیت شمار ہوتے ہیں۔ البتہ عوامی کتب خانوں کی کمی پائی جاتی ہے۔ کنگ فہد پبلک لائبریری کا افتتاح شاہ عبد اﷲبن عبدالعزیز نے ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء کو کیا تھا۔ یہ لائبریری اپنی نئی عمارت میں از سر نو شروع ہونے والے ہے۔ لائبریری جامعہ عبد العزیز کی حدود میں ہے۔ جامعہ سے واپسی پر رفیق صاحب نے میری درخواست پر کنگ فہد لائبریری بھی دکھائی جو جامعہ کی چاردیواری میں لیکن مرکزی شاہرہ پر واقع ہے۔ عمارت بہت وسیع اور دیدہ ذیب تیار ہوچکی ہے ۔ رفیق صاحب کا کہنا تھا کہ اس لائبریری کا افتتاح بہت جلد ہونے والا ہے۔

سعودی عرب میں ظہر کی اذان سوا بارہ ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی تمام تر کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ میں نے رفیق صاحب سے اجاذت چاہی انہوں نے دریافت کیا کہ کیسے جائیں گے جواب تھا ٹیکسی سے ، میں نے بہت چاہا کے وہ مجھے میری رہائش تک مجھے چھورنے کی زحمت نہ کریں لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے میری رہائش تک چھوڑنے کا آئے۔ راستے میں بھی ہم کچھ کتب خانے کے بارے میں اور کچھ ذاتی موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔ رفیق صاحب نے کنیڈا کی قومیت حاصل کر لی ہے ۔ ان کے بچے کنیڈا ہی بھی زیر تعلیم ہیں۔ یقیاً وہ بھی یہاں کی خدمات کے بعد اپنی بیوی بچوں کے ساتھ کنیڈا ہی میں مقیم ہو جائیں گے۔ میں نے ان کا شکریہ اد کیا اس طرح جامعہ شاہ عبد العزیز اور اس کے مرکزی کتب خانے کا مطالعہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

رفیق صاحب کے حسن اخلاق سے میں بہت متاثر ہوا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی ساتھ ہی اردو میں اونچی آواز سے گفتگو بھی سنائی دی۔ میرا بیٹا عدیل گھر پر ہی تھا دروازہ کھولا تو وہاں رفیق صاحب کے ہمراہ ڈاکٹر خالد محمود، محمد اجمل اور ڈاکٹر ندیم صدیق موجود تھے۔ گرم جوشی سے ملاقات ہوئی۔ جب عدیل نے کہا کہ ابو آپ کے دوست ڈاکٹر خالد محمود آئے ہیں تو میں حیران ہوا کہ انہیں میرا پتہ کس طرح چلا لیکن رفیق صاحب کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ رقیق صاحب ہی کی مہر بانی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر خالد محمود ،اجمل صاحب اور ڈاکٹر ندیم صدیق دہران کی جامعہ میں بہ سلسلہ ملازمت آگئے ہیں۔ ڈاکٹر خالد نے بتا یا کہ ہم دہران سے عمرہ کرنے مکہ المکرمہ آئے تھے جدہ میں شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی لائبریری گئے تو رفیق صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کا ذکر کیا واپسی پر ہم نے ان سے آپ کا پتہ معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو اس بلڈنگ کے سامنے لے جاسکتا ہوں جس میں وہ میری کار سے اتر کر گئے تھے مجھے اپارٹمنٹ کا معلوم نہیں۔ ڈاکٹر خالد کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سے کہا کہ آپ وہاں تک لے چلیں آگے ہم خود گھر تلاش کرلیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ کافی دیر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اس دوران فراست شفیع اﷲکا تزکرہ بھی آیا جو ان کے ساتھ ہی جامعہ دہران میں ہے کسی وجہ سے ان کے ہمراہ نہ آسکا۔ سب سے ملاقات کرکے بہت اچھا لگا، خوشی ہوئی اور احساس ہوا کہ اگر انسان چاہے تو نہ ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔دوستی اور خلوص کی ایسی مثالیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284603 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More