یوم آزادی پر دنیا ہمارا سیاسی تماشہ دیکھے گی

قوموں کی زندگی میں ان کا یومِ آزادی بے حد اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے ، ملک کا ہر طبقہ اور شہری اپنے تمام سیاسی ، گروہی اور طبقاتی اختلافات کو فراموش کر کے یومِ آزادی کی اِ ن تقریبات میں حصہ لیتا ہے درحقیقت یہ دن قوموں میں آزادی کی قدرو قیمت کے احساس کو نئی توانائی اور احساس بخشتا ہے تاہم پاکستانی قوم امسال 14اگست کو اپنے یوم آزادی کے موقع پر دنیا بھر کے سامنے منفرد مثال پیش کرنے جارہی ہے کہ اس روز مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر چڑھائی کرنی ہے جبکہ برسرِ اقتدار جماعت اسے ناکام بنانے کیلئے جو کچھ بن پڑا کر گزرے گی ۔ افسوس صد افسوس یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہونے جارہا ہے جب مسلح افواج ملکی سلامتی و دفاع کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ، ملک کے اردگرد خطے میں اہم سیاسی ، جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔ وفاقی دارلحکومت کی ہر محفل میں یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ 14اگست کو کیا ہونیوالا ہے ؟اس سوال کا درست جواب تو وہی دے سکتے ہیں جو دنیا کو یہ تماشا دکھانے جا رہے ہیں لیکن حکومت کیخلاف اس سیاسی کھیل میں آصف زرداری کی اچانک آمد نے ملک بھر کے عوام بالخصوص حکمران جماعت کو ششدر کر کے رکھ دیا ہے سیاسی چالوں سے دوستوں ، دشمنوں کو حیران کرنیوالے آ صف زرداری نے ایسے وقت میں پینترا بدلا جب حکومت کلی طور پر انکی جماعت کی حمایت پر تکیہ کئے ہوئے ہے ۔ عمران اور طاہر القادری کی تمام تر سرگرمی کے باوجود وزیر اعظم مطمئن تھے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی انکے ساتھ کھڑی ہے جبکہ حزبِ اختلاف کے دیگر قائدین مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی وغیرہ بھی حکومتی کیمپ میں موجود ہیں ان حالات میں مسلم لیگ (ن)کی قیادت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں اور لانگ مارچوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی تاہم آ صف زرداری نے عمران خان کی جانب سے 4حلقوں میں دوبارہ انتخاب کے مطالبہ کی حمایت اور وزیر اعظم کے اندازِ حکمرانی کو ہدفِ تنقید بنا کر سب کو حیران کر دیا ہے جبکہ حکومت پریشان ہے کہ کیا یہ محض فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر ختم کرنے کی کوشش ہے یا واقعی زرداری کسی گریٹ گیم کا حصہ بن رہے ہیں ۔ دارالحکومت کے باخبر سیاسی حلقوں میں یوسف رضا گیلانی کی جانب سے پرویز مشرف کی حمایت میں بیان بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کا سوچا سمجھا وار تھا جو حکمران جماعت پر اس وقت کیا گیا جب اس کے وزراء مشرف کیخلاف مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے دعوے کر رہے تھے ۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اپنے تمام آپشنز کھلے رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہے ،وہ ان تمام معاملات میں عسکری حلقوں کی حمایت کرے گی جن پر نواز حکومت اور عسکری قیادت کے مابین اختلافات اور تحفظات کا سلسلہ چل رہا ہے پیپلزپارٹی کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے سب کچھ کرنے کا حق ہے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر آئینی و غیر جمہوری طرزِ عمل سے جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تو پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کو کیا جواب دے گی۔ مبصرین کے مطابق اس مسئلے پر پیپلزپارٹی کے اندر د و گروپ پائے جاتے ہیں ، ایک گروپ یوسف رضا گیلانی ، رحمان ملک،منظور وٹو اور انکے ساتھیوں کا ہے جو نوازحکومت کو گرانے والی تمام طاقتوں کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہے جبکہ دوسرا گروپ خورشید شاہ ، رضا ربانی ،اعتزاز احسن جیسے نظریاتی لوگوں کا ہے جو کسی غیر جمہوری اقدام کا حصہ بننے کو تیار نہیں بہرحال اس معاملے میں حتمی فیصلہ آصف علی زرداری نے کرنا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالتے ہیں ، تاہم یہ امر طے شدہ ہے کہ مستقبل کی کسی بھی سیاسی تبدیلی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا کردار فیصلہ کن ثابت ہوگا ۔وزیر اعظم اس سلسلے میں آصف علی زرداری سے جلد اہم ملاقات کریں گے ، اس ملاقات کے بعد حکومت یومِ آزادی کے حوالے سے اپنی حکمت ِ عملی کو حتمی شکل دے گی۔ پسِ پردہ عوامل کا ذکر چھڑ ہی گیا تو ایک اہم اور حساس ادارہ کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی ان دنوں اقتدار کی غلام گردشوں میں خاصا زیرِ بحث ہے ۔ وزیر اعظم کو غیر معمولی تدبر ، معاملہ فہمی اور زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہونگے ۔ اس تناظر میں موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ آنیوالے دنوں میں انہیں عسکری کمان میں بعض اہم تبدیلیوں کا مرحلہ درپیش ہوگا ۔ یہ مرحلہ ستمبر کے آخری ہفتے میں اس وقت شروع ہوگا جب کوئٹہ ،گوجرانوالہ ، کراچی اور پشاور کے کورکمانڈرز اور آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ اپنے اپنے عہدوں سے ریٹائرڈ ہونگے ۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں سے 200ارب ڈالر واپس لانے کیلئے مذاکرات شروع کرنے کے اعلان نے ان با اثر سیاستدانوں ، ریٹائر ڈ اعلیٰ افسران اور دیگر مال دار طبقات میں خاصی بے چینی پیدا کر دی ہے جن کے پیسے سوئس بینکوں میں جمع ہیں ۔ وزیر ِ خزانہ کا کہنا ہے کہ بہتر ہوگا کہ یہ تمام افراد غیر ممالک میں جمع اپنا کالا دھن واپس پاکستان لے آئیں ، اس حوالے سے وہ اس سرمائے کی واپسی کیلئے محفوظ پیکج دینے کو بھی تیار ہیں ۔ آئندہ ماہ وزارتِ خزانہ کا وفدسوئٹزر لینڈجا رہا ہے ، قوم اس وفد کی کامیابی کیلئے دعا گو ہے ۔ ٭…٭…٭
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 258323 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More