عمرعبداللہ کوجلدبازی میں لیے گئے فیصلوں پرنظرثانی کرنے کی ضرورت !

اپنے گذشتہ کالم”یہ سیاست ہے اس کے کیاکہنے “ میں راقم نے پارلیمانی انتخابات کے سلسلہ میں لاگوضابطہ اخلاق کے خاتمہ کے بعدوزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی صدارت میں منعقدہوئی پہلی کا بینہ میٹنگ میں لیے گئے فیصلہ جات سے متعلق اپنے تاثرات قلم بندکیے تھے۔ اب جبکہ ایک اورکابینہ میٹنگ ریاستی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ صاحب کی صدارت میں چندروزقبل منعقدہوئی ۔ گذشتہ کابینہ میٹنگ کی طرح اس میٹنگ میں بھی اہم فیصلے لیے گئے ہیں ۔آج کے کالم میں ان ہی فیصلوں سے متعلق اپنے تاثرات پیش کروں گا۔پارلیمانی انتخابات میں ریاست جموں وکشمیرکی حکمران اتحادجماعتوں نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے اُمیدواروں کوملی کراری شکست کے بعدوزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے جب ہارکی وجوہات جاننے کےلئے عوامی رائے ای میل کے ذریعے طلب کی توجواباًوزیراعلیٰ کواس بات کاعلم ہواکہ ریاست بھرکے نوجوان ،ملازمین اورعام آدمی کی توقعات پرسرکارپورانہ اُترسکی جس کی وجہ سے سرکارسے خفاریاست کے نوجوانوں و دیگرلوگوں نے پارلیمانی انتخابات میں نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے اُمیداروں کے خلاف ووٹ کااستعمال کیا۔ وزیراعلیٰ نے جس ای میل پرعوامی رائے طلب کی تھی اُس پرسب سے زیادہ پیغامات نوجوانوں کی طرف سے کیے گئے ۔نوجوانوں نے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کوصاف الفاظ میں کہاکہ آپ نے نوجوانوں کےلئے جونئی ریکروٹمنٹ پالیسی تشکیل دی ہے وہ نوجوانوں کے مستقبل کوتاریک بنانے والی پالیسی ہے اوراس پالیسی کی وجہ سے ریاست بھرکے نوجوانوں میں مایوسی اورسرکارکے تئیں ناراضگی پائی جاتی ہے اورساتھ ہی مطالبہ کیاکہ اس پالیسی کوفوراً سے پیشترکالعدم کیاجائے ۔جس وقت عمرعبداللہ سرکارنے نئی ریکروٹمنٹ پالیسی نوجوانوں پرلاگوکی گئی تھی تواُسی وقت مبصرین نے عمرعبداللہ کودبے الفاظ میں کہاتھاکہ نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کانفاذجلدبازی میں لیاگیاہے اوراسے نوجوانوں کی منشاکے خلاف تھوپی گئی پالیسی قراردیاتھااورساتھ ہی یہی بھی کہاتھاکہ عمرعبداللہ سرکارکوکہیں اس فیصلے پرپچھتانانہ پڑے ۔تجزیہ نگاروں کی بات پارلیمانی انتخابات کانتیجہ ظاہرہونے پرسچ ثابت ہوئی ۔اگرچہ سرکارکی نوجوانوں کے لئے بنائی گئی بھرتی پالیسی کیخلاف جموں یونیورسٹی اوردیگرتعلیمی اداروں کے طلباءنے بڑے پیمانے پراحتجاجی مہم بھی چھیڑی تھی جولگ بھگ چالیس دِن تک جاری رہی مگرآخرکارنوجوانوں کو سرکارکے آگے بے بس ہوناپڑااورنئی ریکروٹمنٹ پالیسی کوختم کرانے کی مہم بیچ راستے میں ہی دم توڑگئی۔ریاست کے بے روزگارنوجوانوںنے ہمت نہ ہاری اور اپنے دِلوں میں ایسے آتش فشاں کوپیداکیاجس سے سرکارہل جائے یعنی نوجوانوں نے دِل ہی دل میں ٹھان لی تھی کہ وہ اپنے ووٹ کااستعمال نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے اُمیدواروں کے خلاف کرکے سرکارکومز ہ چکھائیں گے۔نوجوانوں کے اندرنئی بھرتی پالیسی کی وجہ سے جوآتش فشاں کافی عرصہ تک دہکتارہااورپھرپارلیمانی انتخابات کے نتائج کی صورت میں پھٹا، نوجوانوں کے غم وغصے کاآتش فشاں پھٹنے سے سرکارکی بنیادیں ہلنے لگیں اورمخلوط سرکاراپنی شکست کے اسباب کونوجوانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافی کوتصورکرنے لگی پھر وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے عقلمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے کوڈآف کنڈیکٹ کے خاتمہ کے بعدمنعقدہونے والی پہلی ہی کابینہ میٹنگ میں مخلوط سرکارکی ہی جانب سے تشکیل کردہ نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کودیگررفقاءکی حمایت سے کالعدم کردیا۔عمرعبداللہ کی قیادت میں منعقدہوئی کابینہ میٹنگ میں نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کے کالعدم کی خبرذرائع ابلاغ کی وساطت سے جب بے روزگارنوجوانوں تک پہنچی توریاست بھرکابے روزگارطبقہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔نوجوانوں کی مختلف تنظیموں نے پریس کے نام جاری بیانات میں وزیراعلیٰ کے نئی بھرتی پالیسی کوکالعدم کرنے کے فیصلے کابڑے پیمانے پرخیرمقدم کیااورسرکارکاشکریہ اداکیا۔وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی قیادت میں کابینہ میٹنگ میں لیے گئے بھرتی پالیسی کوکالعدم کرنے کے فیصلے سے نوجوان کافی خوش ہی تھے مگرسرکارکے دیگرایک فیصلے سے نوجوانوں کی خوشیاں مایوسی میں تبدیل ہوگئیں اورسرکارکے تئیں کسی حدتک کم ہوئے غم وغصے میںاضافہ ہوگیا۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھتے ہوئے کوڈ آف کنڈیکٹ کے بعدمنعقدہونے والی دوسری کابینہ میٹنگ میں پھرسے نوجوانوں کے مفادات کے خلاف ایک ایسافیصلہ لیاجس نے ریاست بھرکے بے روزگارنوجوانوں کی سرکارسے بڑھتی قربت کودوری میں تبدیل کردیا۔وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی صدارت میں منعقدہ کابینہ میٹنگ میں ملازمین کوخوش کرنے کی خاطرسرکارنے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی مدت میں دوسال کی توسیع کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی عمر58 سے 60سال کردی ۔ملازم طبقہ عرصہ درازسے سرکارسے مطالبہ کرتاآرہاتھاکہ ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر58سے 60سال کی جائے مگرعرصہ دوسال سے مخلوط سرکارکی اکائیوں نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے درمیان اس مسئلے پراتفاق رائے قائم نہ ہورہاتھااورمعاملہ التوامیں پڑاہواتھا۔کابینہ میٹنگ میں جہاں ایک طرف ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر58 سے 60سال کی گئی وہیں دوسری طرف بے روزگارنوجوانوں کے لئے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی عمرمیں 3سال کااضافہ بھی کیاگیاجس کافائدہ یقینااُن بے روزگارنوجوانوں کوپہنچے گاجو ملازمت حاصل کرنے کی عمرکے خاتمہ کی دہلیزپرکھڑے تھے ۔انہیں اس فیصلے سے کسی حدتک راحت ملی ہے اوران کامستقبل مخدوش ہونے سے بچ گیاہے۔اس کےلئے عمرعبداللہ صاحب مبارکبادکے مستحق ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق سرکارکاملازمین کی ریٹائرمنٹ میں دوسال کااضافہ کرنے سے بے روزگارنوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اوراس کابہت زیادہ نقصان بے روزگارنوجوانوں کوجھیلناپڑے گا اورملازمت حاصل کرنے کی عمرمیں جواضافہ کیاگیاہے اس سے نوجوانوں کوملازمت حاصل کرنے کےلئے 40سال تک انتظارکرناپڑے گا۔مبصرین کامانناہے کہ سرکارنے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑکیاہے کیونکہ نوجوانوں نے پہلے ہی کہاتھاکہ اگرسرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں 2سال کااضافہ کیاجائے گاتوبے روزگارنوجوانوں کوملازمت حاصل کرنے کےلئے مزیددوسال تک قطاروں میں انتظارکرناپڑے گااورسرکارکایہ فیصلہ نوجوانوں کے ساتھ بھدامذاق ثابت ہوگا۔یہی وجہ تھی کہ سرکارملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع کرنے میں دیرلگارہاتھی مگرجب فیصلہ لیاگیاتووہ یکطرفہ لیاگیاجس کافائدہ صرف ملازم طبقہ کوہی پہنچا۔عوامی حلقے عمرعبداللہ کے اس فیصلے کو پھرسے نوجوانوں کے خلاف فیصلہ لیکرتازہ غلطی قراردے رہے ہیں کیونکہ اس یک طرفہ فیصلے سے نوجوانوں کاسرکارکے تئیں کسی حدتک کم ہواغم وغصہ پھرسے عروج پرپہنچ گیاہے۔نوجوانوں تنظیموں نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں اضافہ کوسرکارکاغیرمنصفانہ فیصلہ قراردیاہے۔

کسی بھی ملک ،ریاست یاسماج کےلئے نوجوان ایک بہت بڑاسرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں اوراگران کی ترقی اورسماج میں شانداررول نبھانے کی صلاحیتوں کوکمزورکرنے کی کوشش کرے تووہ نہ صرف نوجوانوں کادشمن بلکہ اُس ریاست ،ملک اورسماج کی ترقی کادشمن تصورکیاجاتاہے۔2001 کی مردم شماری کے مطابق جموں وکشمیرمیں شرح خواندگی 55 فیصدتھی اوراس کے بعدجب 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار ظاہرہوئے توریاست جموں وکشمیرکی شرح خواندگی 87.7فیصدپائی گئی۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق(اُس وقت جب مردم شماری کاعمل مکمل ہوااُس وقت ریاست جموں وکشمیرکی کل آبادی 1 کروڑ25لاکھ تھی جس میں سے 72لاکھ ۔45ہزارلوگ خواندہ تھے اور6لاکھ نوجوان بے روزگاری کی مارجھیل رہے تھے ۔ایک سروے کے مطابق ریاست جموں وکشمیرمیں گریجویٹ نوجوانوں کی کل تعداد29034 ہے جن میں سے 12426کاتعلق صوبہ جموں سے ہے جبکہ کشمیرصوبہ سے تعلق رکھنے والے گریجویٹ نوجوانوں کی تعداد16698 بتائی گئی ہے۔ایک دیگرسروے کے مطابق ریاست میں ریاست جموں وکشمیرمیں بارہویں پاس نوجوانوں کی تعدادآئے روزبڑھتی چلی جارہی ہے اوراس وقت کشمیرصوبہ میں بارہویں پاس طلباءکی تعداد46703 ہے جبکہ صوبہ جموں کے بارہویں پاس طلباءکی تعداد27212 ہے۔ علاوہ ازیں وادی کشمیرمیں انجینئرنگ پوسٹ گریجویٹ ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد4500 ہے جبکہ انجینئرنگ ڈپلومہ ہولڈروں کی تعداد8500 ہے ۔6980 پی جی نوجوان (آرٹس) مضمون اور4094 پوسٹ گریجویٹ سائنس مضمون میں نوکریوں کے انتظارمیں ہیں۔حالانکہ سرکاری محکمہ جے اے ڈی کے مطابق بے روزگاری کے خاتمہ کےلئے سروس سلیکشن بورڈ ودیگربھرتی اداروں کواگلے دوسال میں 1لاکھ اسامیاں پرکرنے کےلئے ریفرکی گئی ہیں جوکہ ریاست کے بے روزگارنوجوانوں کی ملازمت کےلئے راہ ہموارکرنے کااہم کام کرسکتی ہیں ۔اس میں شبہ نہیں کہ سرکاری محکموں میں نوجوانوں کی تعیناتی لازمی ہے مگرحکومت نے اگرآئندہ دوبرسوں میں صرف ایک لاکھ اسامیاںکوپرکرنے کےلئے بھرتی اداروں کوریفرکی ہیں اوراوپرسے بھرتی اداروں کاسست رفتاری والابھرتی عمل ۔۔یہاں سوال یہ اُبھرتاہے کہ کیا آئندہ دوبرسوں میں بھرتی ادارے ایک لاکھ بے روزگاروں کی تعیناتی عمل میں لانے میں کامیاب ہوپائیں گے ؟۔بھرتی ادارے اگرزیادہ مستعدی کابھی مظاہرہ کریں گے توچالیس تاپچاس فیصدہی ریفرکردہ خالی اسامیوں کوپرسکیں گے۔ 2011 کے سروے کے مطابق اگرریاست میں 6لاکھ بے روزگارنوجوان بتائی گئی تھی تواس وقت ان کی تعدادانداز اً 7لاکھ کے قریب ہوگئی ہوگی ۔حکومت نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ عمرمیں دوسال کااضافہ کیاہے اس سے تومزیدبے روزگاری بڑھے گی کیونکہ آئندہ دوسالوں میں جوسرکاری محکموں میں اسامیاں خالی ہونی تھیں وہ بھی خالی نہیں ہوں گی ۔غوروفکرکامقام ہے کہ حکومت کیوں اپنی ریڑھ کی ہڈی کوکمزورکررہی ہے۔عمرعبداللہ سرکارکے نئی بھرتی پالیسی کے کالعدم کرنے اورملازمت حاصل کرنے کی عمرمیں تین سال کااضافہ جہاں نوجوانوں کےلئے خوش آئندہے وہیں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں دوسال کی توسیع تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کےلئے سمِ قاتل ثابت ہوسکتاہے۔اس میں بھی شبہ نہیں عمرعبداللہ سرکارنے اپنے دورحکومت میں بے شمارفیصلے عوامی مفادات میں بھی لیے مگرنوجوانوں کی عمرعبداللہ سرکارسے وابستہ توقعات کاکیاہوا؟۔وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے سیاسی اعتبارسے بھی صحیح وقت پرمناسب فیصلے نہیں لیے جس کاخمیازہ انہوں نے کچھ حدتک پارلیمانی انتخابات میں بھگتااوربے وقت لیے گئے فیصلوں کابھاری نقصان آئندہ اسمبلی انتخابات میں پہنچنے کااحتمال ہے۔ عمرعبداللہ نے جس طرح سے آناً فاناً میں نئی بھرتی پالیسی کونوجوانوں کی رائے جانے بغیرلاگوکردیاتھاجس کاخمیازہ انہوں نے پارلیمانی انتخابات میں بھگتاعین اُسی طرح انہوں نے ملازم طبقہ کوخوش کرنے کی خاطر نوجوانوں کی توقعات کوملحوظ خاطرنہ لاتے ہوئے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں دوسال کی توسیع کافیصلہ لیکرپھر سے نوجوانوں کے مستقبل کیساتھ کھلواڑکیا۔یہ قوی امکان ہے نوجوانوں کے مخالف لیے گئے حالیہ فیصلے کاخمیازہ حکمران اتحاد آئندہ اسمبلی انتخابات میں بھگتے گا۔عمرعبداللہ صاحب سے میری استدعاہے کہ وہ ایس پی اوز،جیل وارڈنوں، پی ایچ ای ودیگرمحکموں کے کیجول لیبرملازمین کومستقل کریں اوربھی بے شمار ایسے اہم سلگتے مسائل ہیں جن کوآپ فوری طورپراپنی حکومت کے دورانیہ میں حل کرکے نہ صرف اپنی پارٹی کی ڈوبتی ہوئی کشتی کوپارلگاسکتے ہیں بلکہ حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کافریضہ بھی انجام دینے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔خاص طورپرعمرعبداللہ سرکارکونوجوانوں کےلئے ایک ایسی پالیسی فوری طورپرمرتب کرنی چاہیئے جس کی بدولت نوجوانوں میں کام کرنے کاجوش وجذبہ فروغ پائے اوروہ ریاست کی تعمیروترقی میں اپناکردارخوشی خوشی انجام دینے میں مصروف ہوجائیں تاکہ ریاست کی معیشت میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ ہرگھربھی خوشحالی کی نعمت سے مالامال ہوسکے۔آخرمیں یہ بھی التجاہے کہ وہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں دوسال کے توسیع کے فیصلے پرازنوغوروخوض کریں اورممکن ہوتواس فیصلے کونوجوانوں کی خواہشات کااحترام کرنے کی خاطرواپس لیں اورساتھ ہی اپنے دورحکومت کے آخری دورمیں کیجول لیبرملازمین کی مستقلی کے عمل کوماہ جولائی یاستمبرکے آخرتک مکمل کرکے گھرگھرمیں خوشی کاتحفہ دے کرالوداع کہیں تاکہ عوام آپ کے کارناموں کودیرتک یادرکھے۔
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53568 views Ehsan na jitlana............. View More