سلطان صلاح الدین ایوبی نہیں آرہے

کوئی مجھے علامہ اقبال کے اس شعر کا مطلب سمجھائے گا؟
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

یقینا ہر کسی کو اس شعر کا مطلب پتہ ہوگا اور یہی طاقت اور اس دنیا کا اصول ہے۔ کل تک جب مسلمان طاقتور تھے تو انھوں نے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔ کیا قیصروکسرٰی کیا سپین کیا فارس اور کیا خراسان۔ آج بھی یہی اصول لاگو ہے۔ کیوں کے یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے۔ آج ہم فلسطین، شام، عراق اور مصر کی حالت پر گریہ زاری تو کر رہے ہیں لیکن اب بھی کوئی ان اسباب پر غور کرنے کے تیار نہیں جن کی بدولت ہم یہاں تک پہنچے۔

آج ہم گھروں میں بیٹھے کسی صلاح الدین ایوبی یا محمد بن قاسم کے آنے کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ آج ہماری دعاؤں کا محور ہے کہ یااللہ " غیب " سے مسلمانوں کی مدد فرما۔ ایسے بنجر معاشروں میں صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم پیدا نہیں ہوتے اور نہ ہی ایسے لوگوں پر غیبی امداد اترتی ہے۔ اس قوم پر غیبی امداد اترے کی جو اپنے سب سے مقدس مہینے میں کھانے پینے کی اشیاء تک اتنی مہنگی کر دیتے ہیں کہ مزدور پیشہ لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ یااللہ یہ " رحمت " کا مہینہ جلدی ختم ہو جائے۔ جس معاشرے میں آپ کو جان بچانے والی ادویات اصلی نہیں مل سکتی وہاں پر غیبی امداد کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ دوسرے طرف ذرا اپنے " دشمنوں " پر نظر دوڑائیں جب ان کی عید آتی ہے تو ان کے ہر ملک و شہر میں لوٹ سیل ہوتی ہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی شاہانہ انداز میں کرسمس مناتا ہے۔ آج ہم کہتے ہیں کہ ان کی چیزوں کا بائیکاٹ کردیں۔ تو چلو کرتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں ہماری ملاقات کسی غار میں ہوگی۔

یاد رکھیں اللہ رب العالمین ہے رب المسلمین نہیں۔ اور اللہ فرماتا ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علم مومن کی میراث ہے۔ آج ہم نے وہ میراث کھو دی ہے جس کی بدولت صدیوں پہلے ہم دشت و صحرا میں گھوڑے دوڑایا کرتے تھے۔ اس وقت اہل مغرب کی حالت بالکل وہی تھی جو آج ہماری ہے۔ اور آج وہ ترقی کی جس معراج کو چھو رہے ہیں اس کے پیچھے صدیوں کی محنت ہے نہ کہ غیبی امداد اور صلاح الدین ایوبی کا انتظار۔ آج جب وہ نئی نئی دنیائیں تلاش کررہے ہیں تو ہم کبھی روٹی، کبھی آلو اور کبھی کسی جانور کے جسم پر اللہ کا نام تلاش کررہے ہوتے ہیں۔

ہمارے پاس اب دو ہی راستے ہیں یا تو اچھے غلاموں کی طرح اپنے آقاؤں کا ہر حکم مانیں اور انکا ہر ظلم سہیں یا پھر اپنی کھوئی ہوئی میراث کو تلاش کریں۔ جس دن ہم اس تلاش کے راستے پر چل پڑے تو ہمارے لیے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ پھر صلاح الدین ایوبی بھی پیدا ہونگے اور غیبی امداد بھی آئے گی لیکن اس کے لیے کوشش شرط ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
Muhammad Tahseen
About the Author: Muhammad Tahseen Read More Articles by Muhammad Tahseen: 11 Articles with 11237 views Muhammad Tahseen (MBA, HRM).. View More