’نشاط کار کیا کیا‘از( صابر بدر جعفری) اور سماج:میری نظر میں

’نشاط کار کیا کیا‘ ڈاکٹرصابر بدر جعفری کے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔جعفری معروف افسانہ نگار ہیں اور سماج کو بہت قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ان کے پاس لطیف انداز میں سماجی مسائل کو بیان کرنے کا خوب صورت اسلوب بھی ہے۔ان کے ان مضامین کو میں اپنی آسانی کے لیے بذیل عنوانات میں تقسیم کرتا ہوں تاکہ تفہیم آسان ہو سکے۔
۱۔سماجی
۲۔لسانی
۳۔ادبی
۴۔سیاسی
۵۔متفرق

۱۔ سماجی:جعفری کا سماجی شعور ہم سے زیادہ ہے اور ان کے یہ مضامین اس کا ثبوت ہیں۔ان کے اکثر مضامین سماجی ہیں اور سماج کے کسی کوڑھ کو بے نقاب کرتے ہیں۔ان کے ہاں لطیف طنز ہے اور قاری کے ذوق جمال پر گراں نہیں گزرتا۔’محو حیرت ہوں‘ جہاں تعلیمی اداروں میں استاد کی بے بسی کا نوحہ ہے وہیں اس حقیقت کو بھی سامنے لاتا ہے کہ ہمارے پاس ’کچھ‘ مسائل کا حل صرف طاقت ہی ہے۔یہی ہمارے رویے ہیں جو کبھی بنگال ،کبھی بلوچستان ، کبھی کراچی اور کبھی قبائلی علاقہ جات میں ایکشن کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔شہروں میں پولیس گردی اور بارڈر کے قریب کے علاقوں میں فوج گردی ایک رویے ہی کا نام تو ہے۔ہم میں سے کچھ یہی رویہ سکول ،کالج میں طلبہ و طالبات کے ساتھ روا رکھتے ہیں بلکہ اب تو یہ رویہ جامعات میں بھی نظر آتا ہے۔تاہم جامعات میں طالبات کو اس کا فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔

’ورلڈ کپ ۱۹۹۹ء اور ہم‘ اگرچہ ۱۵ سال پرانا مضمون ہے لیکن ان ۱۵سالوں میں کرکٹ کے بارے میں ہمارا رویہ تبدیل تو نہیں ہوا۔ہمارے ہاں کرکٹ جنون بھی ہے اور جوا بھی۔ہم ہار کر بھی جیت جاتے ہیں اور جیت کربھی ہار جاتے ہیں۔ہماری قوم بالغ ہو جائے تو اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے لیکن جانے وہ وقت کب آئے گا؟کھلاڑیوں کو ہم نے کھیل کے میدان تک نہیں رہنے دیا بلکہ ان کو ہیرو بنا دیا جس سے ان کے دماغ خراب ہوگئے۔اس میں میڈیا کا بھی بنیادی کردار ہے۔شعیب ملک کی ثانیہ مرزا سے شادی تو قوم کو ابھی یاد ہی ہوگی۔’قصہ ڈگریوں کی تقسیم کا‘ ایک ماٹنڈ سیٹ ہے کہ ڈگری کسی طرح بھی حاصل کی جائے۔کیونکہ ہمارے سماج میں بڑی ڈگری ، بڑے منصب ،بڑی گاڑی اور بڑے مکان کی اہمیت ہے۔عزت کا معیار ہم نے یہی طے کر دیا ہے۔کسی کو کچھ آتا ہے یا نہیں یہ ڈگری کا مسئلہ نہیں۔یہاں گدھے اور گھوڑے میں کوئی فرق نہیں۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ تحریر کرنا درست ہے کہ ’ماضی کے عالموں اور فاضلوں کے پاس اسناد نہ تھیں، علم تھا ‘۔اب تو اسناد ہیں علم نہیں۔علم کا مقصد اب صرف ڈگری کا حصول اور روزگار رہ گیا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’امتحان کے نتائج طبقاتی تقسیم کو ہوا دیتے ہیں‘۔اس کا مظاہرہ میں نے کالجوں ، سکولوں ، میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ کالجوں میں دیکھا ہے۔ہمارے سماج نے معصوم طلبہ اور طالبات کو بھی اس کا شکار کر دیا ہے۔سماجی معیارات موبائل فون ،لیپ ٹاپ ،کپڑوں، پرفیوم ، اچھے ہوٹلوں اور شاپنگ سنڑز تک آ گئے ہیں۔اساتذہ نے بھی اپنے آپ کو اس کاحصہ بنا لیا ہے اور اسے غیرشعوری طور پر تسلیم کر لیا ہے۔استاد کا رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ کلاس کا سب سے کمزور بچہ اس کی توجہ کا مرکز ہوتا لیکن ایسا نہیں۔ایسے بچوں کو کلاس میں اور کلاس کے بعد اور سماج میں بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔لائق ، شرارتی ، بہت بولنے والے طلبہ و طالبات کلاس میں استاد کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔مخلوط اداروں میں ’مس‘ کے قریب سمارٹ اور خوب صورت طلبہ اور استاد کے قریب ’سمارٹ اور خوبصورت طالبات‘ کو دیکھا۔ہمارے ہاں تو اس طرح کی ایک خودکشی بھی ہوچکی۔ایک نویں جماعت کے طالب علم نے اپنی ’آئیڈیل مس‘ کے سامنے اظہار محبت کر دیا اور ڈانٹ سے دلبرداشتہ ہو کر ایک گولی اسے اور ایک اپنے آپ کو ’ٹھوک‘ دی۔وہ خود تو گیا لیکن ’مس‘ بچ گئی البتہ ’افزائش‘ کے قابل نہ رہی کہ گولی نے ’بچہ دانی‘ کو چھید ڈالا اور اوپریشن میں سرجن نے بچہ دانی ہی نکال دی۔’نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری‘۔آپ نے اس مضمون میں جن سات امور کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے وہ اساتذہ کو بغور پڑھنے چاہیے ۔لیکن ’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘ ہی ثابت ہوگا۔ہمارا نظام تعلیم واضح طور پر عدم برداشت کے رویوں کو فروغ دے رہا ہے اور اس میں ہم سب شامل ہیں۔بے حسی ہمارا جزو ایمان بن چکی۔

’ڈگری کی فریاد‘ کو میں ’قصہ ڈگریوں کی تقسیم کا‘ کی دوسری قسط سمجھتا ہوں۔اس میں جعفری کے تحریر کردہ آٹھ نکات ان کے گہرے مشاہدے کا ثبوت ہیں۔اگرچہ ہمارے ہاں ایسا کم ہوتا ہے لیکن یہ کھیل اس ملک میں بہرحال جاری ہے اور جاری رہے گا کہ قانون کی بالادستی اب ایک خواب ہی ہے۔’طلبہ کو مفید مشورے دینا ‘ ،نقل کروانا ، من پسند سنٹر رکھوانا ، پورے امتحانی مراکز ہی خرید لینا ، امیدوار کی جگہ دوسرے امیدوار کا امتحان دینا ، پرچے وقت سے پہلے ہی امیدواران کے پاس پہنچ جانا اور مٹھی گرم کرکے اپنا کام نکلوا لینا اس گٹر نظام ہی کی دین تو ہیں۔نظام امتحانات میں تبدیلی ہم نہیں چاہتے اور ایماندار افراد کو امتحانی مراکز پر تعینات ہوتا ہم برداشت نہیں کرسکتے تو بھول جایے کہ اس ملک میں تعلیم کی بنیاد پر کوئی انقلاب آئے گا۔آپ کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ’۔۔۔دوسروں کے حق میں امتحان گویا توبہ کا دروازہ ہے جس کے اندر سے گزر کر ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں‘۔اب تو ایسالگتا ہے کہ لکھنے والوں نے اس طرف دیکھنا اور سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کیا یہ لکھنے والوں کی بے حسی نہیں؟

’من چاہے منڈیا ہلائے‘ ایک اور خوب صورت سماجی مضمون ہے اور ایک اور سماجی کوڑھ ’منافقت‘ اور منافقانہ رویوں کوسامنے لاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ دوسرے کی عورت اچھی لگتی ہے لیکن جانے کیوں عورتوں کی اکثریت اپنے مرد کے لیے سنورتی نہیں اور اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ’دوسری چراگاہ ‘ میں چگے۔حالانکہ ’اندر‘ اور ’باہر‘ ہر دوعورتوں کے پاس ایک ہی طرح کا اسلحہ ہوتا ہے۔فرق ہے اس کو استعمال کرنے اور مرد کو لبھانے کا۔میرا مشاہدہ ہے کہ عورت بھی اس مرض کا شکار ہوتی ہے اور اسے بھی ’غیروں‘ کی رفاقت میں مزا آتا ہے۔اکیسویں صدی نے ہر دو کو جنس کے معاملے میں برابر کردیا ہے۔میرا یہ مشاہدہ بھی ہے کہ کچھ افراد کو جنسی جرائم کے موضوعات پر ناول ،فلم اور ڈرامے بہت پسند ہوتے ہیں اس لیے اگر کوئی منٹو کا مرید بننا بھی چاہتا ہے تو احتیاط سے قلم اٹھائے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک دس سالہ بچی کے ساتھ چارمردوں کی درندگی پر ایک محفل میں ایک پڑھے لکھے نے کہا کہ ’ثابت ہوا کہ بچی بالغ تھی ،چار کو برداشت کر گئی‘۔ اس طرح کے مائنڈسیٹ کے سماج میں سماجی معالج کو بہت احتیاط سے سرجری کرنی ہوگی۔

’راج کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں میں‘میں جعفری نے ہلکے پھلکے انداز میں تعلیم ، تعلم اور تعلیمی اداروں کے رویوں کو سامنے لایا ہے۔ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہے کہ کلاس یا سکول میں جو بچہ زیادہ تنگ کرے اسے کلاس یا سکول سے نکال باہر کرو حالانکہ کلاس میں تنگ کرنے والوں کی تعداد دو تین سے زیادہ نہیں ہوتی اور ایسے بچوں کو راہ راست پر لگا دینا ہی ایک اچھے استاد اور سماجی معالج کا کارنامہ ہے ورنہ سلجھے ہوؤں کو سلجھانے کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی ہم پر سب سے بڑی فتح اخلاقی ہی ہے۔مغرب کا نعرہ یہ ہے کہ ’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘ اور ہم صرف نعرے لگاتے ہیں کہ ’افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر‘۔ہمارے ہاں اگر فرد کی اہمیت ہوتی تو ’اتنے معصوم‘ نہ ٹارگٹ کلننگ میں مارے جاتے، نہ بم دھماکوں میں اور نہ پولیس و فوج گردی سے۔یہاں تو ہزاروں افراد کو ایجنسیاں اس انداز میں غائب کر چکیں کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔

لیکن ہمارے ہاں اب ادارے بھی تو اہم نہیں رہے ۔مقدس گائے تو صرف آرمی ہے یا پھر ان کے ’نطفے‘ کو جائز قرار دینے والی عالیہ یا عظمیٰ۔آپ اور ہم تو چور ہیں یا لٹیرے۔’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘ اور ’پٹی کی کرامت‘ بھی ہمارے اداروں کی بے حسی اور بیچارگی کو ظاہر کرتے ہیں۔اس طرح کا رونا رویا جاتا رہے گا۔

۲۔لسانی:اس موضوع پر جعفری نے تین مضامین میں مزاحیہ انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔اس میں ’رومیں ہے رخش جیب‘ سب سے خوب صورت مضمون لگا۔اس طرح کے تجربات سے ہم گزرتے ہیں۔ایک سچا واقعہ ہے کہ کسی شریر شاگرد نے استاد سے ’خس کی ٹٹی‘ کے بارے میں دریافت کیا تو استاد محترم کا جواب تھا کہ ’بیٹا کلاس میں گندی باتیں منہ سے نہیں نکالتے۔یہ لفظ غیر پارلیمانی اوراخلاق سے گرا ہوا ہے‘۔اسی طرح ہمارے ہاں ایک ’ممتاز ماہر تعلیم‘ اقبال کے اس شعر کو ’نگہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پرسوز‘کو سٹیج پر ’نگینہ بلند ، سجن دلنواز ، جان پرسوز‘ پڑھ گئے اور ’موت سے کس کو رستگاری ہے‘ کو ’موت سے کس کو دستکاری ہے‘ پڑھتے رہے۔تو جب استاد ہی نہیں پڑھے گا تو طالب علم کو کیا پڑی ہے۔’زبان یار من ترکی‘ جدید نسل کی زبان ہے اور اسے لاگو کرنے میں موبائل اور انٹرنٹ کا ہاتھ ہے۔کچھ سے میرا سامنا رہا اور میں ایک عرصے تک ان کو سمجھ نہ پایا ۔جیسے tc,gtg,h r u,f9,n8 وغیرہ۔اس سے مراد take care, got to go, how are you, fine,night ۔موبائل کمپنیوں نے بھی اپنے موبائل کے ذریعے صرف رومن کو ہی سامنے لایا ہے یا نئی نسل کو مجبور کیا ہے کہ وہ رومن استعمال کرے۔اکثر موبائل میں اردو پروگرامنگ نہیں۔اردو کا تختہ ہی نہیں۔یہ مسائل وہ ہیں جن کا علاج حکومت کے پاس ہے۔

’باور آیا ہم کو انگلش کا فرنچ ہو جانا‘ہمارے احساس کمتری پر خوب صورت طنز ہے۔ہمارے اعصاب پر انگریز،انگریزی اور گوری چمڑی سوار ہیں۔اقبال نے تو ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس کے اعصاب پر عورت کے سوار ہونے کا رونا رویا ہے لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے ۔ہم ہزاروں میل دور کے گوروں پر نثار ہیں اور ہمسائے کی’ دیویاں‘ ایک آنکھ نہیں بہاتیں۔گوروں کے احکام کے لیے خون دیتے ہیں اور یہ طعنہ بھی سنتے ہیں کہ ’پیسے کے لیے ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں‘۔ہمیں اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک ایک دولفظ انگریزی کے نہ بول لیں۔میں نے چٹی ان پڑھ عورتوں کو بھی انگریزی کے الفاظ بولتے سنا اور کم پڑھی ہوئی خواتین کا تو کیا کہنا۔ مثلاً ’میں نے ڈاٹر(daughter) کو کہا کہ برتن واش (wash) کرلو تو ڈنر (dinner) کرتے ہیں‘۔’میں نے بیٹے کو کہا کہ ٹی(tea) ڈرنک(drink) کرلو تو ہوم ورک (homework)کرلینا‘۔یہ سب میڈیا کا کمال ہے۔جعفری نے میڈیا کی اردو کا درست تجزیہ پیش کیا ہے۔غلط اردو اور غلط انگریزی بولی جا رہی ہے اور کوئی انگریزی کے اردومترادف تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں۔

’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘ میں ڈاکٹرجعفری کا میڈیا کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ ’میڈیا ساکن حرف کو متحرک اور متحرک لفظ کو ساکن استعمال کر رہا ہے اور اس کا احساس تک نہیں‘۔میڈیا پر گلیمر چھایا ہوا ہے اور اسے گرائمر کی کوئی پرواہ نہیں۔الفاظ کی بے مقصد تکرار ہے۔بگاڑ اس قدر ہے کہ کوئی سرا ہی نہیں ملتا کہ شروع کریں۔ہم غلط کو دیکھ اور سن کر بھی غلط کہنے کو تیار نہیں۔یہ بے بسی نہیں بے حسی ہے۔جس ملک میں ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے مذہبی سکالر ہوں وہاں ہمیں سحر اور افطار میں ایسے ہی مناظر ملیں گے جو نجی چینلز پر نظر آرہے ہیں۔یہاں مذہب سمیت ہر چیز کو برائے فروخت بنا دیا گیا ہے۔چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجائے علماء اور سکالرز کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیا صرف اپنا چہرہ دکھانا ہی مقصد رہ چکا۔نیم عریاں اینکرز کے سامنے علماء کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سوال و جواب کرتے دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے کہ ہم ٹھہرے سادے اور زمانہ قیامت کی چال چل چکا۔میڈیا کی اس حالت کو دیکھ کرلگتا ہی نہیں کہ یہ کسی اسلامی نظریاتی ملک کا میڈیا ہے۔

۳۔ادبی مضامین:ادبی مضامین میں ’سامنے آ ہی گیا آخر لکھا تقدیر کا‘ ایک معیاری تبصرہ لگا۔خصوصاً اس طرح کے جملے کہ ’کتاب کے معاملے میں ہمارا یقین ہے کہ کتاب پڑھی نہیں جاتی خود کو پڑھواتی ہے‘۔ویسے بعض اوقات’ مصنف‘بھی کتاب پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔

۴۔سیاسی مضامین:سیاسی مضامین میں سب سے دلچسپ اور مزاحیہ ’باسٹرڈ‘ اور ’لیبر منسٹر لیبر روم میں‘ لگے۔سیاست میں رشتوں کی واقعی کوئی اہمیت نہیں۔یہ شوہر کے ہاتھوں بیوی ،بہن کے ہاتھوں بھائی اور بیٹی کے ہاتھوں ماں کو قید و بند اورقتل تک کے اقدامات تک کی پرواہ نہیں کرتی۔ اس سیاست نے اس ملک کے تمام اداروں کو گندہ کر دیا ہے۔تاہم لیبر منسٹر کوجعفری نے کچھ زیادہ ہی گاودی اور چریا بناکرپیش کیا ہے کہ اسے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ بیوروکریسی اسے الو بنا رہی ہے۔تاہم اس مضمون کے بعض جملے خوب ہیں کہ’سر:یہ کیسز خودکار ہوتے ہیں۔کسی کا انتظار نہیں کرتے‘۔’اف یہ جنگ زرگری‘ دعوت فکر ہے کہ ’میرٹ نام کی کوئی چیز نہ جزا میں پائی جاتی ہے نہ سزا میں‘۔ہمارے ملک میں کرپشن کو کرپشن کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے اور جو رشوت لیتے پکڑا جاتا ہے وہ رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے۔قوانین موجود ہیں نفاذ ہی نہیں۔

۵۔متفرق:متفرق مضامین میں ’مولوی حلالہ‘ ایک خوبصورت طنزیہ مضمون لگا۔ ہم نے عورت کو بھی گائے بھینس سمجھ لیا ہے کہ جب چاہو اپنے مقصد کے لیے خرید و فروخت کرلو۔تاہم ’حلالہ‘ ایک فقہی مسئلہ بھی ہے اور قرآن میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں او ر احادیث میں بھی نہیں۔کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ کچھ افراد اپنے مفاد کے لیے مذہب کو کتنی بے رحمی سے استعمال کررہے ہیں۔کیا یہ عورت کا استحصال نہیں ؟ذرا یہ شرط تو سنیں کہ ’پوری کوشش ہوگی کہ حمل نہ ٹھہرے لیکن پھر بھی اگر استقرار حمل ہوا تو خواہ آپ اسقاط کرائیں یا ساتھ لے جا کر پالیں،یہ تنہا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔میرا ہونے والے بچے سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘۔’موٹاپے کو بائی بائی‘ ہمارے اس رویے پر طنز ہے کہ ہم بدلنا نہیں چاہتے،نہ کچھ تنگ پڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کچھ چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔یہ رویے فرد سے لے کر قوم تک ہیں۔قوم انقلاب چاہتی ہے لیکن دوسروں کی قیمت پر۔یورپ کو بظاہر گالیاں ہیں لیکن اکثریت یورپ میں رہنا چاہتی ہے۔سگریٹ ،چائے اور موبائل کا استعمال ایک دن کے لیے بھی ترک نہیں کیا جاسکتا۔’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘میں کلاس روم کا نقشہ خوب ہے اور منظر نگاری اور مکالمے اس سے بھی خوب تر۔بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کو بکھیر دیتے ہیں۔’پیار بنام پی آر‘ میں جعفری نے بہت سارے پردہ نشینوں کر بے نقاب کیا ہے ،نام لیے بغیر۔یہ مزاح کا کمال ہے کہ اگر آپ نے الفاظ کو خوبصورتی سے برتا ہے تو برے کو برا کہہ بھی دیں ، وہ برا نہیں مناتا۔تاہم ضروری ہے کہ وہ پہلے مزاح اور طنز کو سمجھ پائے۔

۳۳ مضامین اور ۲۵۸ صفحات کی کتاب میں املا،تلفظ، جملوں اور پروف کے مسائل کم ہیں تاہم کچھ کی نشاندھی کرتا چلوں کہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔کتاب میں کچھ الفاظ مجھے اجنبی لگے جیسے ’ووٹرس‘ کیونکہ ہم ’ووٹرز‘ لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔چیف جسٹس کے ساتھ جناب اور صاحب بھی عجیب لگا کہ ایک ہی کافی ہے۔’لہذا‘ اور ’لہٰذا‘ دونوں استعمال کیے گئے ہیں۔ویسے ’لہذا‘ اجنبی لگتا ہے۔کیوں کہ ہم ’لہٰذا‘ کے عادی ہیں ’لہذا‘ کے نہیں۔ص ۲۱ پر ’قفلی‘ شاید ’قلفی‘ ہے۔ص ۱۰۳ پر’فوزیہ وہاب اور عالم جوانی۔۔۔‘۔حیرت ہوئی کہاں ’عالم جوانی‘۔کھنڈر کہہ سکتے ہیں یا یہ کہ کبھی عمارت اچھی ہوئی ہوگی(اﷲ مرحومہ کی مغفرت کرے)۔ص ۱۱۱ پر ’تیار ہو کر آئیں تھیں‘ کی جگہ ’آئی تھیں‘، بھتیجہ کی جگہ ’بھتیجا‘ ، چوہدری کی جگہ ’چودھری‘ درست لگتے ہیں۔اگر چھپکلی کی جگہ’ چھپ کلی‘ اور اٹھکھیلیاں کی جگہ’ اٹھ کھیلیاں‘ تو کیلیئے کی جگہ’ کے لیے‘ کیوں نہیں۔کتاب میں ہر جگہ واویں رومن کے استعمال کیے گئے ہیں حالانکہ اردو میں موجود ہیں۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51724 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More