گوجربکروال طبقہ کوولولہ انگیزقیادت درکار!

نوجوان فرائض نبھائیں توگوجربکروال طبقہ کاخاتمہ ممکن!

”صدیوں سے اس طبقہ (گوجربکروال ) کے حالات کچھ ایسے رہے کہ انہیں سنبھلنے ،اُٹھنے اورچلنے کاخیال ہی نہیں رہا۔ اگرہم ماضی کودیکھیں توتیس برس قبل ہماری تعلیمی صورت حال بڑی تشویش ناک تھی ۔ہماراطبقہ نوشتہ دیوارپڑھنے کےلئے برسوں لگادیتاتھااورجب ذراجاگے تودیکھاکہ دوسرے طبقے بہت آگے نکل چکے ہیں ۔ایسے میں آنجہانی حضرت شیرِکشمیرکی شخصیت روشنی کی کرن سب سے زیادہ گوجربکروالوں کےلئے موثرثابت ہوئی۔انہوں نے ان کی نئی نسل پرخصوصی توجہ فرماکرجہاں دیگرتعلیمی سدھارکی اسکیموں کاخاطرخواہ بندوبست کیاوہاں گوجربکروال ہوسٹلوں کے قیام کاایک تاریخی اورتحریکی قدم کابھی آغازکیا۔آج گوجربکروالوں کی شرح خواندگی کودیکھتے ہوئے یہ کہنابجاہے کہ ہم نے کافی پیش رفت کی ہے اوراس صبرآزماعمل سے مرحلہ وارہماری نئی نسل فیض یاب ہورہی ہے ۔سماج کے دیگرطبقوں سے گوابھی ہم بہت پیچھے ہیں مگرموجودہ رفتارسے مستقبل کے لئے پُراُمیدہیں ۔اب ہم ایسے موڑپرہیں جہاں برق رفتارزمانے کے ساتھ ساتھ اپنی نئی نسل کوتیارکرناہے۔ ان اداروں میں ایسے سرسیدکی ضرورت ہے جواس طبقہ کی تعلیم کے کام کواپناواحدمقصدسمجھ لے۔ اب قوم کے دانشوروں اورہمدردی رکھنے والے افرادکافرض بنتاہے کہ وہ ماہرحکیم کی طرح قوم کے بچوں کی نبض پرہاتھ رکھیں ، ان کی شخصیت کوسنوارنے اورصحیح سمت عطاکرنے میں اپناقائیدانہ رول اداکریں کیونکہ تعلیم سے محرومی اس طبقہ کے سبھی امراض کاواحدسبب ہے ۔میں دیکھ رہاہوں کہ ہمارے طبقہ میں گونوجوانوں کی نت نئی تنظمیں معرض وجودمیں آرہی ہیں اورمٹتی رہتی ہیں لیکن اب تک کوئی گوجربکروال ایجوکیشنل سوسائٹی نام کی تنظیم معرضِ وجودمیں نہیں آرہی جودورپاردیہاتوں کے تباہ حال بچوں کاسروے کرے اوران کی تعلیم کے پروگرام کومنظم شکل دے“۔(کل اورآج ) میگزین ۔سال اشاعت ۔2001-2002

قارئین کرام یہ اقتباس سال 2001-2002 میں شائع ہوئی ایک ایسی میگزین ”کل اورآج“ سے لیاگیاہے جودرج فہرست قبائل کے زمرے میں آنے والے گوجربکروال طبقہ کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ریاست کے ہرضلع میں قائم کئے گئے ہوسٹلوں کے وارڈن حضرات کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں منظرعام پرآئی تھی اوراقتباس میں درج حروف اُس وقت کے وائس چیئرمین برائے گوجربکروال مشاورتی بورڈجناب حاجی بلندخان(مرحوم) کے ہیں جوانہوں نے میگزین میں بچوں اورنئی نسل کےلئے بطورپیغام تحریرکیے تھے۔وائس چیئرمین موصوف نے جامع اندازمیں گوجربکروال طبقہ کے ماضی اورحال کوپیش کرنے کے ساتھ ساتھ شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ اوربیگم مادرِمہرباں کی جانب سے پسماندہ طبقہ کے لوگوں کی پسماندگی کودورکرنے کی خاطرطبقہ کے نوجوان بچے بچیوں کی تعلیم وتربیت کےلئے ہوسٹلوں کے قیام کے مقصدکوبھی بڑے موثراندازمیں بیان کیاہے۔

راقم کے زیرنظرمیگزین ”آج اورکل“ کی دائیں جانب والاسرورق اُردوزبان میں ہے جس کی ڈیزائننگ دید ہ زیب ہے اوراسی طرح بائیں طرف والاسرورق جوانگریزی میں ہے بھی شاندارہے اُردوزبان والے سرورق پریہ حروف درج ہیں۔۔سالنامہ ۔گوجربکروال ہاسٹلز”کل اورآج“۔اُٹھ کے اب بزم جہاں کااورہی اندازہے۔ مشرق ومغرب میں تِرے دورکاآغازہے۔ان حروف کے علاوہ مختلف ہوسٹلوں کے اُن 8 طلباءوطالبات کی تصاویربھی سرورق پرنمایاں طورپرشائع کی گئی ہیں جنھوں نے تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی کامظاہرہ کرکے ہوسٹلوں کے قیام کے مقصدمیں کامیابی کی دلیل پیش کی ہے جن میں ڈاکٹرمحمودحسین ،ڈاکٹرمحمدیوسف ، انجینئرمشتاق احمد، طہٰ چودھری (ایل ایل بی) ، غلام مصطفی بجران (سرینگرہوسٹل) ،محمدفاروق (راجوری ہوسٹل) ،جعفرحسین (ڈوڈہ ہوسٹل) صنم ا ختر(گرلزہوسٹل جموں) کے نام شامل ہیں۔میگزین کی بائیں جانب والاسرورق بھی کافی دلکشی کامنظرپیش کررہاہے ۔اس پریہ حروف درج ہیں
Annual number of hostels magazine.2001-2002(G&B)
KAL-AUR-AAJ

درج بالاان حروف کے علاوہ اس میں گوجربکروال ہوسٹل اودھمپورکی تصویربھی نمایاں طورپرشائع کی گئی ہے۔میگزین کے صفحات 69 (اُردو) اور80 (انگریزی ) اوراس کے علاوہ 8 صفحات رنگین تصاویرسے بھی مزیں ہیں ۔یعنی میگزین کل157 صفحات پرمشتمل ہے ۔میگزین ہذامیں وہ رنگین تصاویرشائع کی گئی ہیں جومختلف ہوسٹلوں میں منعقدہوئے تہذیبی وثقافتی پروگراموں کی جھلک پیش کرتے ہوئے گوجربکروال طبقہ کے لوگوں کے تہذیب وتمدن کی عکاسی کرتی ہیں۔ میگزین کے نگران اُس وقت کے وائس چیئرمین گوجربکروال مشاورتی بورڈجناب حاجی بلندخان صاحب (مرحوم) تھے ۔ ایڈیٹرکی ذمہ داری جناب منظورگلشن (اُس وقت کے) وارڈن گوجربکروال ہوسٹل ادھمپورنے نبھائی ہے جبکہ میگزین کوحتمی شکل دینے میں چودھری محمدحسین سلیم( اُس وقت کے) وارڈن کٹھوعہ ہوسٹل،عبدالرحمن راتھر(اُس وقت کے)وارڈن گوجربکروال ہوسٹل جموں اورشیخ سجادحسین (اُس وقت کے )وارڈن پونچھ ہوسٹل نے تعاون دیاتھااورمیگزین کاانتساب ۔مادرِ مہرباں کے نام کیاگیاہے۔

میگزین ہذاکومنظرعام پرلانے کے مقصدکوایڈیٹرموصوف نے اداریہ میں یوں بیان کیاہے۔

”ریاست کے گوجربکروال ہوسٹلوں کی تحریک کی تاریخ میں پہلی بارمشترکہ کوشش سے یہ سالنامہ منظرعام پرلایاجارہاہے جس کاواحدمقصدہوسٹلوں کے طلباءوطالبات کوایک ذہنی تحریک دے کران کے اندردبی ہوئی تحریری صلاحیتوں کوسامنے لاناہے “۔

راقم الحروف گوجربکروا ل ہوسٹل جموں کاسابقہ طالب علم ہے ۔میگزین ”آج اورکل“ راقم کے سامنے ہے اس لیے گوجربکروال ہوسٹل جموں کے اُس وقت (دور) کی جھلکیاں راقم کے ذہن میں گردش کررہی ہیں جب راقم ہوسٹل میں پڑھاکرتاتھا۔ہوسٹل میں رہ کرزیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کاہی نتیجہ ہے کہ آج راقم مضمون تحریرکرنے کے لائق ہواہے۔ راقم اس بات کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے کہ اگرشیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ نے گوجربکروال طبقہ کی تعمیروترقی کےلئے ہوسٹلوں کے قیام کامنصوبہ تشکیل نہ دیاہوتاتوطبقہ کی حالت کس قدرناگفتہ بہ ہوتی۔ یہ شیخ صاحب اورمادرِ مہربان کی مثبت سوچ ہی کاثمرہے کہ انہوں نے مناسب وقت پرطبقہ کی پسماندگی کی وجہ ”طبقہ کی علم سے دوری“ یعنی ”جہالت “کوگردانتے (پہچانتے )ہوئے ،اس بیماری(جہالت) کے خاتمہ کےلئے طبقہ کے لوگوں کے بچے بچیوں کوزیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کےلئے ہوسٹلوں کے قیام کے منصوبہ کوتشکیل دیا۔ جب سے گوجربکروال ہوسٹلوں کاقیام عمل میں آیاہے تب سے اب تک طبقہ کے ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیاں ان ہوسٹلوں سے فیض یاب ہوکرخوشحالی کی زندگی بسرکرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ہوسٹلوں سے فارغ ہوکرکثیرتعدادمیں نوجوان(لڑکے ۔لڑکیاں) اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں،اورآج اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی مراعات بھی حاصل کررہے ہیں ۔

شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ ،مادرِ مہربان اورجناب حاجی بلندخان صاحب (مرحوم) جواپنی بساط کے مطابق کرسکتے تھے اُنہوں نے کردکھایا، ان ہی عظیم شخصیات کی مفکرانہ اورولولہ انگیزقیادت کی وجہ سے طبقہ نے کن کن اعلیٰ بلندیوں کوچھوایہ ہم سب کے سامنے ہے۔

راقم نے مضمون کے ابتدائی حصے میں لکھاتھاکہ تمام ہوسٹلوں کے وارڈن حضرات کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں سال 2001-2002 میں تمام ہوسٹلوں کامشترکہ سالنامہ میگزین ”آج اورکل “ معرض وجودمیں آیا ۔میگزین ہذامیں جناب حاجی بلندخان (مرحوم) کے درج پیغام بعنوان ”اظہارمسرت“آج بھی طبقہ کے لوگوں کوہوسٹلوں کے قیام کے مقصداوران سے وابستہ توقعات کی نشاندہی کرانے کےلئے تاریخی اہمیت رکھتاہے۔وائس چیئرمین موصوف نے اپنے پیغام میں ایک جگہ لکھاہے کہ

”اِن اداروں میں ایسے سرسیدکی ضرورت ہے جواس طبقہ کی تعلیم کے کام کواپناواحدمقصدسمجھ لے “۔

اقتباس ہذاسے ظاہرہوتاہے کہ جناب حاجی بلندخان صاحب (مرحوم) طبقہ کے بچوں اوربچیوں کی ہوسٹلوں میں کس طرح کی ذہنی پرورش کے متمنی تھے ۔انہوں نے ایسے وارڈن حضرات کی آرزوکی تھی جواعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحیتوں کی اہلیت بھی رکھتے ہوںکیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وارڈن حضرات کے ذمے صرف بچوں کی دیکھ بھال ہی نہیں ہوگی بلکہ ہوسٹلوں میں زیرتعلیم طلباءوطالبات کے ذہنوں میں طبقہ کی حالت زارکوبہتربنانے کےلئے تحریکی رجحان پیداکرنے کی ذمہ داری بھی وارڈن حضرات کوہی اداکرناہوگی یایوں کہیئے کہ مرحوم حاجی بلندخان صاحب نے اپنی آرزوکااظہارکرکے وارڈن حضرات پر گوجربکروال طبقہ کی تقدیرکوبدلنے کےلئے قوم کے نونہالوں کے اذہان کوتیارکرنے کی ذمہ داری عائدکی تھی۔مرحوم حاجی بلندخان صاحب چاہتے تھے کہ ہوسٹلوں کے وارڈن حضرات گوجربکروال طبقہ کےلئے وہی کرداراداکریں جوہندوستانی مسلمانوں کی سربلندی کےلئے مشہورزمانہ مفکراورعلی گڑھ تحریک کے بانی سرسیداحمدخان نے انجام دیاتھا۔ اب غوروفکرکرنے کامقام ہے کہ کیاگوجربکروال ہوسٹلوں کاکوئی ایساوارڈن بھی رہاہے جس نے حاجی بلندخان کی توقع (آرزو) کے مطابق گوجربکروال طبقہ کے بچوں کی ذہنی پرورش میں سرسیداحمدخان جیساکردارنبھایاہو۔یاموجودہ وقت میں نبھارہاہو۔

راقم کوتمام اضلاع کے ہوسٹلوں کے وارڈن حضرات کی تاریخ سے مکمل شناسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے راقم الحروف تمام اضلاع کے ہوسٹلوں کے (ماضی اورحال کے )وارڈن حضرات سے متعلق رائے قائم کرنے سے قاصرہے (یہ کام راقم مختلف ہوسٹلوں سے فارغ شدہ طلباءوطالبات کے سپردکرتاہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع کے سابقہ اورموجودہ وارڈن حضرات کی کارکردگی اورہوسٹلوں کے ماضی اورحال کی صورتحال کاخلاصہ پیش کریں اورموجودہ وقت میں کون کون سے اقدامات اُٹھانے کی اشدضرورت ہے کی بھی نشاندہی کریں)تاہم گوجربکروال ہوسٹل جموں کے سابق طالب علم ہونے کی حیثیت سے راقم یہ کہہ سکتاہے کہ گوجربکروال ہوسٹل جموں کی تاریخ میں ایک وارڈن ایساگذراہے جس نے بطوروارڈن ضلع جموں کے گوجربکروال طبقہ کی خدمت اوربچوں کی ذہنی پرورش مرحوم حاجی بلندخان کی توقع کے مطابق یعنی سرسیداحمدخان کی طرح کی ۔گوجربکروال ہوسٹل جموں سے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے والے تمام سابقہ طلباءسمجھ گئے ہوں گے کہ راقم کس وارڈن کاذکرکرنے جارہاہے ۔وہ کوئی اورنہیں بلکہ کشمیری طبقہ سے تعلق رکھنے والے الحاج عبدالرحمان راتھرصاحب ہیں جنھوں نے کم وبیش ڈیڑھ صدی یعنی 15برسوں پرمحیط عرصہ تک گوجربکروال ہوسٹل جموں کے گلشن کوخونِ جگرسے سینچا۔گوجربکروال ہوسٹل جموں کی تاریخ الحاج عبدالرحمن راتھرصاحب کی جانب سے ضلع جموں کے گوجربکروال طبقہ کی بہبودکےلئے انجام دی گئی خدمات کی گواہ ہے۔ راقم نے 1999ءمیںجب چھٹی جماعت میں ہوسٹل کاداخلہ ٹیسٹ پاس کرکے داخلہ لیاتب راتھرصاحب ہی جموں ہوسٹل کے وارڈن تھے ۔راقم نے چارسال تک راتھرصاحب کی زیرنگرانی تعلیم حاصل کی اور ذہنی شعورکوپروان چڑھایا۔راقم کامانناہے کہ راتھرصاحب کے دور(وقت) میں گوجربکروال ہوسٹل جموں میں جونظم ونسق قائم تھاوہ نہ ہی ان سے پہلے رہاتھااورنہ ہی ان کے بعدکے وارڈن حضرات اس نظم ونسق کوقائم رکھ پائے۔راتھرصاحب طلباءکوہرطرح کی سہولیات میسرکراتے تھے لیکن اگرکوئی بچہ تعلیم میں کوتائی برتتاتووہ اسے قطعی برداشت نہ کرتے تھے اورفوری طورپرلاپرواہ اورآوراہ بچوں کے سدھارکےلئے ان کیساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔راقم جب اُن کی نگرانی میں شعورکی منزلوں کے زینوں کوطے کررہاتھاتب راتھرصاحب گوجرنگرمیں رہائش رکھتے تھے ۔دِن بھروہ ہوسٹل کے دفترمیں ڈیوٹی دینا ۔دِن کوہوسٹل کی بلاکوں میں خودگھوم کرپتہ کرنا کہ کوئی بچہ ایساتونہیں جوسکول نہ گیاہواورمجھے (وارڈن) اوراپنے گھروالوں سمیت اپنے ضمیرکودھوکہ دے رہاہواُن کامعمول تھا۔اگرکوئی بچہ (بغیرکسی مناسب عذرکے )سکو ل کے وقت کمر ے میں ملتاتواس کی خیرممکن نہ ہوتی۔اُس وقت ہوسٹل کے تمام بچے سکول جاتے تھے، صاف صفائی کادھیان رکھتے تھے اورامتحانات میںایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور اچھے سے اچھے نمبرات حاصل کرنے کےلئے کڑی محنت کرتے تھے۔ جب طلباءکاسالانہ نتیجہ نکلتاتوراتھرصاحب سکول انتظامیہ سے بچوں کا رپورٹ کارڈطلب کرکے ہوسٹل طلباءکی تعلیمی کارکردگی کاجائزہ لیتے تھے اورجن بچوں نے بہترکارکردگی کامظاہرہ کیاہوتاانہیں شاباشی دیتے اورانہیں گلے سے لگاکرانہیں خوشگوارمستقبل کی نویدسناتے اورآگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ۔راتھرصاحب نے راقم کی حوصلہ افزائی غالباًسال 2002 میںاُس وقت کی جب وائلڈلائف ہفتہ منانے کے سلسلے میں محکمہ جنگلات کی جانب سے منعقدہ ضلع سطح کے مصوری مقابلے میں دوئم پوزیشن راقم نے حاصل کی ۔اس وقت وارڈن (راتھر)صاحب نے سینے سے لگاکرراقم کوشاباشی دی اورآگے بڑھنے کےلئے حوصلوں کوجلابخشی۔

راتھرصاحب اکثرچاربجے کے قریب ہوسٹل سے نکل کرکچھ وقت کے رہائش گاہ واقع گوجرنگرجاتے اورآرام فرمایاکرتے تھے۔شام سات بجے کے بعددوبارہ ہوسٹل تشریف لاتے اوربچوں کی حاضری لگاتے۔وہ ہوسٹل کے بچوں کی اس خلوص کیساتھ نگرانی اوردیکھ بھال کرتے تھے جیسے ہوسٹل کے بچے ان کی اپنی ہی اولادہوں۔ جوبچے دِل لگاکرپڑھتے تھے ان کی حوصلہ افزائی کرناراتھرصاحب کاشیوہ تھا۔ اورجوبگڑے ہوئے بچے ہوتے تھے انہیں سدھارنے کےلئے حتٰی المقدورکوششیں کرتے اوراگراس کے بعدبھی وہ سدھرتے تووالدین سے رابطہ کرکے انہیں ان کے بچوں کی غیرپسندیدہ حرکتوں سے آگاہ کرتے تھے ۔ہوسٹل کے تمام بچے وارڈن محترم سے بہت ڈرتے تھے ،بعض کمزوردِل کے بچے توان کی آوازسن کرہی کانپنے لگتے تھے اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ جب راتھرصاحب ریذیڈنسی روڈپرہی پہنچے ہوتے توہوسٹل میں اچانک سناٹاچھاجاتاجیسے ہوسٹل کوسانپ سونگ گیاہو۔ہرسوخاموشی چھاجاتی۔ بچے اپنے بستروں کوٹھیک کرتے ، کرسیوں پربیٹھ جاتے ، اُس وقت ہرکمرے میں اتنی ہی کرسیاں دستیاب ہوتی تھیں جتنے بچے ہوتے ۔ہربچہ کرسی پربیٹھ کر،ٹیبل پرکتاب رکھ کرپڑھتاتھا۔مجموعی طورپریہی کہاجاسکتاہے کہ ضلع جموں کے گوجربکروال طبقہ کی بہبودکےلئے جو قندیلیں عبدالرحمن راتھرصاحب نے روشن کیں ویسی قندیلیں شایدہی آئندہ وقت میں کوئی وارڈن یاکوئی دوسراشخص روشن کرپائے گا۔راقم کاالحاج عبدالرحمن راتھرصاحب سے متعلق خیال ہے کہ (بعض لوگ شایدمیری رائے اس رائے سے اتفاق نہ کریں)انہوں نے بطوروارڈن گوجربکروال ہوسٹل میں گوجربکروال طبقہ کے لوگوں کی بہبودکےلئے مرحوم حاجی بلندخان صاحب کی توقعات کے عین مطابق یعنی سرسیداحمدخان جیساکردارنبھایا۔گوجربکروال ہوسٹل جموں کے جوبھی فارغ التحصیل طلباءاعلیٰ عہدوں تک پہنچے ہیں وہ راتھرصاحب کی دِن رات کی کڑی محنت کے نتیجے میں پہنچے ہیں ۔

میگزین”آج اورکل“ میں راتھرصاحب نے اپنے ہوسٹل یعنی جموں ہوسٹل سے متعلق جوتفصیلات پیش کی ہیں، اس میں جانکاری دی گئی ہے کہ ہوسٹل ہذاعیدگاہ روڈجموں پر6کنال 2مرلہ قطعہ اراضی پرقائم ہے اوراس ہوسٹل کاسنگِ بنیادگوجربکروال طبقہ کے روحانی بزرگ شخصیت میاں بشیراحمدنے مورخہ 27-12-1975 کورکھاتھاجبکہ ہوسٹل کاباقاعدہ افتتاح شیرِکشمیرشیخ محمدعبداللہ نے مورخہ01-01-1977 کوکیاتھا۔مزیدتفصیلات کے مطابق ہوسٹل ہذامیں راتھرصاحب سے پہلے جن وارڈن حضرات طبقہ کے بچے بچیوں کی ذہنی پرورش کافریضہ انجام دیااُن میں محترمہ زہرہ بیگم ،حسین بخش ،کے۔ ڈی چوپڑہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ان کے بعدعبدالرحمن راتھرکوگوجربکروال ہوسٹل جموں کے بچوں کی ذہنی پرورش کافریضہ انجام دینے کاموقعہ نصیب ہوا۔راقم کامانناہے کہ راتھرصاحب نے بطوروارڈن گوجربکروال ہوسٹل جموںاپنے عہدے کاہرمحاذپرپاس رکھا۔راتھرصاحب نے طبقہ بالخصوص ضلع جموں کے گوجربکروالوں کی بہبودکےلئے جوخدمات انجام دیں وہ تاریخ میں سنہری حروف میں درج کیے جانے کے قابل ہیںاورضلع جموں سے تعلق رکھنے والے گوجربکروال طبقہ کے لوگ راتھرصاحب کی خدمات کوکبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔

راقم درجہ نویں کاطالب علم تھاجب راتھرصاحب کاتبادلہ ہوا،ان کے بعدجناب عبدالخالق پوسوال نے بطوروارڈن گوجربکروال ہوسٹل جموں عہدہ سنبھالا۔اُنہوں نے بھی اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلاتے ہوئے ہوسٹل کے اُس وقارکوقائم رکھنے کی کوشش کی جوراتھرصاحب نے قائم کیاتھا، مگران کی کوششیں سیاستدانوں کونہ بھائیں جس کی وجہ سے انہیں بھی کچھ ہی عرصہ کے بعدتبدیل کردیاگیا۔سیاستدانوں کی تعصبانہ نظریںگوجربکروال ہوسٹل جموں کوایسی لگیں کہ آج تک گوجربکروال ہوسٹل جموں بدعنوانیوں کااڈہ ہی بناہواہے اورپھلنے پھولنے سے قاصرنظرآرہاہے۔

راقم کوآج بھی یادہے کہ جب راتھرصاحب کی تبادلہ کے بعدان کے اعزازمیں الوداعی تقریب کااہتمام ہوسٹل کے طلباءنے کیاتوطلباءکی آنکھوں سے آنسوﺅں کے جھرنے بہے تھے لیکن راتھرصاحب کوچاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے سرکارکافیصلہ تسلیم کرناپڑا۔راتھرصاحب کی شخصیت کاایک پہلویہ بھی گوجربکروال ہوسٹل میں بطوروارڈن فرائض منصبی انجام دینے کے دوران منظرعام پرآیاکہ وہ کسی دوسرے طبقہ کے بچوں کوغیرنہ سمجھتے تھے کیونکہ کشمیری ہونے کے باوجودانہوں نے کبھی بھی طبقہ کے مسئلے کوکبھی آڑے نہیں آنے دیااورغیرمتعصبانہ ذہنیت کاروشن ثبوت دیاجس کےلئے طبقہ ان کی شخصیت کے اس منفردپہلوکوہمیشہ یادرکھے گا۔راقم کی قلم راتھرصاحب کی خدمات کااحاطہ کرنے سے معذورہے ۔اس لیے راقم راتھرصاحب کاسابق طالب علم ہونے کے ناطے انہیں دِلی طورپرخراج تحسین اوراُن کے جذبہ خدمت ِ خلق کوسلامی پیش کرنے پرہی اکتفاکرتاہے ۔

موجودہ وقت میں بیشترگوجربکروال ہوسٹلوں کی حالت نہایت خستہ ہے جس کےلئے راقم نہ صرف سیاستدانوں ،وارڈن حضرات کوذمہ دارسمجھتاہے بلکہ ہوسٹلوں سے فارغ ہوئے طلباءاوردیگرذی شعورحضرات جن میں (راقم )بھی شامل ہے کوبھی ذمہ دارتصورکرتاہے کیونکہ ہوسٹلوں سے فارغ شدہ طلباءاگرایک پلیٹ فارم پریکجاہوجاتے توہوسٹلوں کی کارکردگی کوبہتربنانے اورطبقہ کے دیگرمسائل کاازالہ کرانے میں کلیدی رول نبھاسکتے تھے ہیں۔ ہوسٹلوں سے تعلیم حاصل کرنے والے سابق طلباءکافرض بنتاہے کہ وہ ہوسٹلوں کوعلم وادب کاگہوارہ بنانے کےلئے اپناکردارنبھائیں۔ ریاست کے تمام ہوسٹلوں میں کلچرل پروگراموں، Debate مقابلوں، مباحثوں، سمپوزیموں کے انعقاد،میگزینوں کی اشاعت اورمعیاری تعلیم کے نظام کو قائم کرناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ان تقاضوں کوپوراکرنا تبھی ممکن ہے جب تمام اضلاع میں اول ضلع سطح ،پھرصوبائی سطح اوراس کے بعدریاستی سطح پر ہوسٹلوں میں Alumini Meet (پروگراموں)کاانعقادہواورہوسٹلوں کے سابق طلباءکی ایک انجمن ریاستی سطح پرتشکیل پائے ۔اورہوسٹلوں کے سابق طلباءاپنی تعمیری سوچ وفکرکوبروئے کارلاکربورڈمشاورتی حکام کوبھی ہوسٹلوں کی حالت کوبہتربنانے کےلئے تہیہ کریں اور تجاویزپیش کریں۔اگرحکومت ہوسٹلوں کی خستہ حالی کوبہتربنانے کےلئے طبقہ کے ذی شعورطلباءپرمشتمل انجمن کوتعاون نہ دے توتنظیم گوجربکروال طبقہ کی بہبودکےلئے حکومت سے ٹکرانے سے بھی گریزنہ کرے اورحکومت کوپسماندہ گوجربکروال طبقہ کی خوشحالی کےلئے اقدامات اُٹھانے کےلئے مجبورکرے ۔ طبقہ کی بہبودمیں ایسا کردار اداکرنے کی ذمہ داری طبقہ کے نوجوانوں کوفرض سے منہ موڑنے کے بجائے نبھانی ہوگی کیونکہ شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ نے طبقہ کی تقدیربدلنے کی ذمہ داری ہوسٹلوں کے طلباءکوسونپی تھی ،اورآج ہوسٹلوں کے قائم ہوئے چاردہائیاں گذرگئی ہیں ،اگراتنے عرصے کے بعدبھی طبقہ کے نوجوان اپنے طبقہ کی تقدیرکوبدلنے کےلئے ہنگامی اقدامات اُٹھانے کی سمت نہ بڑھیں گے توہوسٹلوں کے قیام کولاحاصل ہی کہاجائے گا۔

طبقہ کے نوجوان اگرطبقہ کی بہبودمیں روڑے اٹکانے والی طاقتوں کیخلاف صفِ آراہوجائیں تووہ دِن دورنہیں ،جب گوجربکروال طبقہ پسماندہ طبقوں کی فہرست سے نکل کرخوشحال طبقوں میں شامل ہوجائے گا ۔راقم کوبطور صحافی اس وقت بہت گہری خراش (چوٹ )پہنچتی ہے جب گوجربکروال طبقہ کیساتھ لفظ ”پسماندہ“ لکھناپڑتاہے اوردِل سوچنے پرمجبورہوجاتاہے کہ آخرکب تک مراعات کے حصول کےلئے سیاستدان طبقہ کوپسماندہ بناکرپیش کرتے رہیں گے۔ہوسٹلوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباءاگرطبقہ کی پسماندگی کودورکرنے کے کام کوسرانجام دینے میں کامیاب ہوجائیں تویقیناہوسٹلوں کے قیام کے اُس مقصد(خواب)کی تعبیر ہوگی جس خواب کے تحت گوجرہوسٹلوں کاقیام شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ اورمادرِمہرباں نے عمل میں لایاتھا۔یہ کوئی غیرممکن کام نہیں کیونکہ اگربوڑھاسیاستدان اناہزارے اورنوجوان لیڈرکیجریوال ایک تحریک ایک برس کے عرصے میںملکی سطح پراُجاگرکرکے ہندوستانی سیاست میں انقلاب بپاکرسکتے ہیں توگوجربکروال طبقہ جس کی تاریخ بہادری کے کارناموں سے بھرپورہے اس طبقہ کے لوگ (نوجوان ) طبقہ کی پسماندگی کوکیونکرختم نہیں کرسکتے؟۔طبقہ کے نوجوانوں کواگرتاریخ کازیادہ علم نہ بھی ہوتومگرانہیں طبقہ کی تاریخ کاعلم ہوناچاہیئے ۔راقم کوپوری اُمیداوریقین کامل ہے کہ اگرہوسٹلوں کے سابق طلباءنے راقم (ناچیز) کے مشورے کوقابل عمل تصورکیاتوایک نہ ایک دِن ضرورگوجربکروال طبقہ خوشحال ہوجائے گااورگوجربکروال ہوسٹل علم وادب کے گہواروں کی صورت اختیارکریں گے۔ راقم مضمون ہذا کوایک شخص کاشکریہ اداکیے بغیرمکمل کرے توزیادتی ہوگی ۔مرُاد جناب غلام محمد(جوکہ گوجربکروال ہوسٹل جموں کے ایک ملازم ہیں )سے ہے جنھوں نے مجھے پرانی میگزین ”آج اورکل “ دستیاب کی ، جس کی ورق گردانی سے راقم کوماضی یادآگیااورراقم قلم کوجنبش دیئے بغیرنہ رہ سکا۔اس کے علاوہ ہوسٹل میں راقم الحروف اوردیگربچوں کی بہترڈھنگ سے تربیت اورپرورش کرنے والو ں جن میں احمددین،مدن لال،لال حسین ، فرمان علی،غلام محمد،راجیش ،محمدیونس،عزیزمحمد،مرحوم حبیب اللہ وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں کاشکریہ اداکرنافرض سمجھتاہے ۔اللہ تعالیٰ سے مرحوم حبیب اللہ سابق چوکیدار(یادرہے کہ اسی شخص نے گوجربکروال گرلزہوسٹل جموں کےلئے زمین وقف کی تھی اورآج ہوسٹل اسی شخص کی واگذارکردہ قطعہ اراضی پرقائم ہے)کےلئے مغفرت اورجنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے ۔آمین۔

پیغام:”آج گوجربکروال طبقہ کوولولہ انگیزقیادت درکارہے ۔آج جتنے بھی سیاست دان طبقہ کے نام پرسیاسی بھٹی میں اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں اورجوبھی لوگ طبقہ کی پسماندگی کی دوہائی (واسطہ) دے کرطبقہ کے مستحق لوگوں کے حقوق صلب کررہے ہیں ۔اُن سے اگرکوئی لوہالیکرگوجربکروال طبقہ کوپسماندگی سے نجات دلاسکتاہے تووہ طبقہ کے نوجوان ہیں۔خواہ وہ ہوسٹلوں سے فارغ شدہ ہوں یادیگرہوں۔نوجوانوں کوضرورت ہے کہ وہ اپنے فرائض کوسمجھتے ہوئے ان کونبھانے کےلئے باضابطہ منصوبہ بندی کے ساتھ میدانِ عمل میں کودیں اورطبقہ کوپسماندگی سے نجات دِلانے کےلئے جہادکریں۔ میراپیغام گوجربکروال طبقہ کے نوجوانوں کےلئے بالخصوص ہے اوردیگر پسماندہ طبقوں کے نوجوانوں کےلئے بالعموم ہے “
آخرمیں معروف زمانہ اسکالر، فلسفی ،شاعر،مفکراورمدبرّعلامہ اقبال کے اس شعرکیساتھ مضمون کوسمیٹوں گاکہ
نہیں ہے نااُمیداقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرانم ہوتومٹی بڑی زرخیزہے ساقی

(راقم ایک صحافی ہے اوراس وقت روزنامہ اُڑان میں بطورسب ایڈیٹرفرائض سرانجام دے رہاہے)
برقی رابطہ:[email protected]
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53173 views Ehsan na jitlana............. View More