بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

دو بدو بیٹھ گئی ساس مرے بھائی کی
اس نے چپ چاپ سنی ڈانٹ، یہ دانائی کی
ایک بِلّے نے حفاظت کی ہے بالائی کی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے اُبکائی کی
توبھی چپ چاپ گزر جا کہ پڑی ہے اک لاش
تجھ کو ہو فکر بھی کیوں ؟ ہے کسی عیسائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔
فاتحہ چور نے نانا کی کرائی ہے خوب
رات کو ایک دکاں کھول کےحلوائی کی۔۔۔۔۔۔۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی دوستو! ہم ایسی قوم ہیں کہ پیاسوں کی پیاس بجھانےکے لیے واٹر کولررکھتے ہیں، جس کے ساتھ اک گلاس زنجیر بستہ ، گھٹیا اور سستا،میلا سا اور خستہ ، کتنا ہے اطمینان ، کہ ہم ہیں مسلمان ، سب سے اعلیٰ انسان، اللہ یقیناً ثواب بخشے گا، باقی سب کو عذاب بخشے گا،کردار کی پروا نہیں، اخلاق کا سودا نہیں، ہم مہینے میں ایک بار مسجد بھی چلے جاتے ہیں ، سر خدا کے حضور جھکا دیتے ہیں مگر دل خدشات میں اٹکا ہوا،برابر والے کی جیکٹ میں بم نہ ہوں، شاید نماز ختم ہونے تک ہم نہ ہوں، خدا خدا کرکے نماز ختم ہوتی ہے تو یہ ڈر کہ کہیں جوتوں پر کسی چور نے ہاتھ صاف نہ کر لیا ہو۔ چور کا ہو جائے ستیاناس، جوتےمل جائیں تو اس بات کا احساس ، نماز میں ہو گیا وقت کا لاس (Loss) ، ناراض ہو گا باس، اس کے لیے لے جاؤں کوئی تحفہ خاص،۔۔۔ کوئی مہنگا سا سوٹ، ایسی تیسی مہنگائی کی، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ دین آدھا رہ گیا، ایمان آدھا رہ گیا پھر تعجب کیا جو پاکستان آدھا رہ گیا وہ سمجھتا تھا کہ یہ بھی اشرف المخلوق ہے آدمی کو دیکھ کر شیطان آدھا رہ گیا صاحبِ صدر! ہم داغ دار ہیں، ہمارے دامن پر داغ ہوس کا، کہیں پانچ سالہ بچی کی عصمت کا داغ، کہیں سات سالہ لڑکے کے ساتھ بدکاری کا داغ، ہماری پہچان پر داغ دہشت گردی کا،ہمارے ماتھے پرداغ ریاکاری کا، ہاتھوں پر لہو کا داغ ،مگر ہمیں فکر کیا کہ ہمیں ہمارا ٹی وی بتا رہا ہے۔۔۔ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔۔۔ سرف ایکسل ہے نا۔۔۔۔ہم نے پہلے خود داغ لگائے، پھر ان کی دھلائی کی، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
رات حجرے میں علاقے کی پولس گھس آئی
’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘
میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلا
بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی

دوستو! سچی بات میں ہم نے ہمیشہ رسوائی ہی دیکھی ہے، اب دیکھیےایک بار انٹرویو میں چند سوالات پوچھے گئے، ہم نے سب کے جوابات ٹھیک ٹھیک اور سچ سچ بتائے مگر ہمیں فیل کر دیا گیا، ایک پکے سفارشی کو نوکری دے دی گئی۔یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟ سوال تھا، ٹیپو سلطان کس جنگ میں شہید ہوئے۔ ہم نے جواب دیا اپنی آخری جنگ میں۔ سوال تھا اعلانِ آزادی پر کہاں دستخط ہوئے، ہم نے جواب دیا، صفحے کے آخر میں ۔ سوال تھا ہمارے ملک کا قومی کھیل؟ ہم نے کہا؟ غیبت، سوال تھا، دریائے سندھ کہاں سے کہاں تک بہتا ہے ، ہم نے کہا بلندی سے پستی کی طرف ۔ سوال تھا تین آم چار آدمیوں میں کیسے تقسیم کیے جا سکتے ہیں، ہم نے جواباً عرض کیا ، ملک شیک بنا کر، سوال تھا تھوڑی سی تنخواہ میں گزارا کیسے کرو گے جواب دیا رشوت لے کر، پوچھا گیا پاکستان کے اہم مسائل تو بتاؤ، ہم نے کہا کالے رنگ سے چھٹکارا، محبوب کو کیسے قدموں تلے لایا جا سکتا ہے اور بے اولادی سے نجات۔ بولے ثابت کرو اتفاق میں برکت ہے۔ ہم نے کہا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا کہ اتفاق سے ایک آدمی ملک کا وزیرِ اعظم بن جاتا ہے، یہ برکت نہیں تو اور کیا ہے۔اب تو غصے میں آ گئے، بولے تمھاری عمر میں قائداعظم وکالت پڑھ گئے تھے، میں بھی بولا! سر آپ کی عمر میں بھٹو پھانسی چڑھ گئے تھے۔ پھر انھوں نے خوب ہنگامہ آرائی کی، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

وہ کہانی تو آپ کو بھی از بر ہوگی،بوڑھا کسان اور پانچ بچے، آپس میں لڑائی جھگڑا اور لکڑیوں کا گٹھا، اتفاق میں برکت ہے، وہی کہانی دہرائی جاتی ہے، اس بار بوڑھے کسان کی جگہ بوڑھے سیاست دان نے لے لی، بیٹوں کو سبق سکھانے کے لیے لڑکیوں کا۔۔۔۔آپ کی باچھیں کیوں کھل گئیں ،آپ نے غلط سنا۔۔۔۔ سبق سکھانا تھا اس لیے اس باربھی لکڑیوں ہی کا گٹھا منگوایا گیا ، وہی کہانی دہرائی گئی ، جب سب کی اپنی اپنی لکڑی ٹوٹ گئی تو اس نے اپنے بچوں سے پوچھا ، ‘‘اس سے کیا سبق حاصل ہوا؟؟؟’’ سب یک زباں ہو کر بولے ،‘‘ اتفاق میں برکت ہے۔’’ باپ بولا‘‘ سیاست دان اس سے یہ سیکھتے ہیں۔۔۔ ڈیوائیڈ اینڈ رول۔’’پچھلے سڑسٹھ سال سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔۔۔ انگریز رخصت ہوا، انگریزیت نہ گئی، وہی اصول سینے سے لگائے بیٹھے ہیں،تن پر انگریزی سوٹ سجائے بیٹھے ہیں، انگریزی زدہ موڈبنائے بیٹھے ہیں، اپنی اقدار بھلائے بیٹھے ہیں، غیرت و حمیّت سلا ئے بیٹھے ہیں، عظمتِ اسلاف گنوائے بیٹھے ہیں، ہر نقشِ مسلمانی مٹائے بیٹھے ہیں۔ ہے سخت نالائق جس نے اردو میں گویائی کی، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ زندگی اپنی نمائش گاہِ پاکستان ہے
چار دن بجلی کا لیمپ اور پھر اندھیری رات ہے
آئے ہیں دنیا میں ہم کچھ کام کرنے کے لیے
کچھ خدا سے اور کچھ بیوی سے ڈرنے کے لیے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

صاحبو پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ، یو ٹیوب ممنوع، مگر عشقِ ممنوع کھلا۔جہاں موبائل فون کے سینکڑوں سستے پیکجز، مگرآٹا مہنگا ، جہاں ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی نقلی کی قید نہیں، جہاں نقل کی آزادی، عقل پر پابندی، جہاں سی این جی سٹیشنز ہر قدم پر مگر گیس حکومت کے رحم و کرم پر، جہاں ڈالر سستا ہو رہا ہے،مگر پٹرول مہنگا ہوتا جا رہا ہے، جہاں ہر سال سیلاب چلے آتے ہیں مگر عوام پانی کو ترستے ہیں، جہاں کے عوام بھکاری ، جہاں کی حکومت بھی بھکاری، جہاں رعایا روٹی کو ترستی ہے جہاں حکومت امداد کو ترستی ہے۔ صاحبِ صدر سچ میں رسوائی کیوں نہ ہو، کسی کالے بندے کو دیکھ کر اسےتوا کہہ دیں بندہ ناراض،اسے کوا کہہ دیں آپ خلاص، کسی نے ایسا لباس پہنا ہو جو اس پر جچ نہ رہا ہو ، آپ فوراً کہتے ہیں ، ‘‘آج تو آپ بہت خوب صورت لگ رہے ہیں۔’’ کسی کے منھ سے بدبوؤں کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوں کیا آپ اسے ماؤتھ واش استعمال کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ ایسا کر دیا تو آپ کے ماؤتھ پر وہ نشان پڑے گا جو واش کرنے پر بھی نہ جائے گا۔ ہم لاکھ آیتیں سن لیں، حدیثیں پڑھ لیں ۔سچ کی برکت پر کہانیاں کانوں میں ٹھونس لیں بولیں گے ہم جھوٹ ہی، ہمیں بچپن سے ماں باپ نے جھوٹ سکھایا،سو جاؤ جن آ جائے گا۔ رو رہے ہو وہ دیکھو بھوت۔ ۔۔ یا یہ کہ رات کو کھڑکی کے راستے ایک پری آئی اور تمھیں انعام میں بھائی دے گئی۔ہم خوش ہو گئے۔ ہمیں انعام کس بات کا ملا، اماں کیوں سمارٹ ہو گئی، ہم نے کبھی سو چا ہی نہیں۔بات تو سچ کی ہو رہی ہے نا، اپنے سگے بھائی کو کوئی سگا قصائی نہیں کہتا ، حالاں کہ اس کی ہر حرکت ہوتی ہے قصائی کی، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

ہمارے پاک وطن پر کن ناپاکوں کا قبضہ ہے۔چوری ہو جائے، تھانے چلے جاؤ، ان شاء اللہ بے عزت ہو کر واپس آؤ گے۔ آپ شرافت کے قائل ہیں، مطلب یہ کہ آپ ‘‘لَلُّو’’ ہیں۔ آپ ڈینگیں نہیں مارتے، آپ تو بھولے بادشاہ ہیں۔ آپ نے سادگی اور خوفِ خدا میں سچ بول کر کاروبار کیا۔ آپ ‘‘ سائیں لوگ’’ ہیں ۔ کوئی کام کرانے سرکاری دفتر چلے جائیں،باٹا اور سروس کے وارے نیارے ہو جائیں گے ، اتنے پھیرے لگوائیں گے کہ جوتے کیا پاؤں بھی گھس جائیں گے۔ مگر کام ؟؟؟ آپ حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں، یہ آپ کا فریہآ ہے، آپ سے بھتہ لیا جاتا ہے یہ قوم کاعریضہ ہے۔ آپ گاڑی ٹریفک قوانین کے مطابق چلائیں ، طعنے ملیں گے ‘‘نویں سِکھی آ’’ ٹریفک وارڈن آکے مشکوک انداز میں آپ سے لائسنس اور کاغذات طلب کرے گا ۔ رستے میں کھیلتے بچوں کو گالیوں سے پرہیز کا سبق سکھائیں گے وہ کہیں گے‘‘ جا بابا ! اپنا کام کر۔۔۔۔’’کسی کو سلام میں پہل کریں گے ، اگلا آدمی رک کے کہے گا‘‘ بھائی! میں آپ کو جانتا نہیں۔’’ سچا بندہ اس معاشرے میں مس فِٹ ہو چکا ہے۔اس دور میں سچ بولا ، تونےاپنے ساتھ کون سی بھلائی کی، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
محمد ظہیر قندیل
About the Author: محمد ظہیر قندیل Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.