الیکڑونک روپیہ(Electronic Money) کا یہودی نظام

کروڑوں مسلمانوں سمیت اربوں انسانوں کیخلاف پوری دنیا میں مالیاتی آمریت کی اجارہ داری کیلئے یوروپی یہودی اسرائیل (Euro-Jewish state of Israel) نے مسلمانوں اور دیگر غریب ممالک کو اپنی غلامی اور محتاجی کے چنگل میں پھنسانے اور بین الاقوامی مذموم عزائم کو تقویت دینے کیلئے ایک مربوط اور منظم سازش کے تحت منصوبہ بندی کی ہوئی ہے جس پر متواتر عمل درآمد جاری ہے۔عمومی طور پر شدید غربت کے شکار ممالک کے ذرائع ابلاغ ایسی رپورٹوں کو غائب کردیتے ہیں جہاں کا سرکاری مذہب اسلام ہو۔ اس کی ایک بڑی مثال "انٹرنیشنل کانفرنس برائے گولڈ دینار مالیات" (conference on International Gold Dinar Money)ہے جوکوالالمپور کے پُڑا ٹریڈ سینٹر میں مورخہ24 اور25جولائی 2007ء کو منعقد ہوئی تھی جس میں ملائیشا کے سابق وزیر اعظم تُن ڈاکٹر مہاتیر محمد نے مالیات کے حوالے سے انتہائی پُر مغز تقریر کی تھی۔جس میں مرکزی خیال یہ تھا کہ" سونے کے دینار کے سکے واپس لائے جائیں اور اس کاغذی مالیاتی نظام کو تبدیل کردیا جائے جو امریکی ڈالر کے پُر فریب تانے بانے سے بندھا ہوا ہے تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اس معاشی اور مالیاتی جال سے نکال سکیں"۔یہ نظام خصوصی طور پر ان لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جو یہودی و نصاری گٹھ جوڑ کے آگے رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، عنقریب یہ نظام اپنے ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے اس مقام تک جا پہنچے گا جہاں موجودہ رائج کاغذی نوٹ کا نظام ہے۔

کاغذی نوٹ کی جگہ بتدریج "الیکڑونک روپیہ"(Electronic Money) کا نظام ساری دنیا میں رائج کیا جارہا ہے جیسے بغیر ہجت کے قبول بھی کرلیا جائے گا ، جبکہ ہم اب بھی دیکھ رہے ہیں کہ بنکوں میں رکھے اربوں روپوں سے سود بنک حاصل کرتے ہیں اور جن کے اکاونٹ ہوتے ہیں ، وہ" ڈیبٹ کارڈ" یا سودی نظام میں گرفتار ہونے والے" کریڈٹ کارڈ "کیذریعے ترسیل زر کو ممکن بنا رہے ہیں۔جبکہ ای بنکگنگ کیذریعے بھی تجارتی لین دین معمول کا ذریعہ بن چکے ہیں اور بتدریج ایسے عام لوگوں پر بھی لاگو کرایا جارہا ہے جس کی ایک چھوٹی مثال "ایزی پیسہ"کے ذریعے مواصلات زر کا پہنچانا بھی ہے۔دراصل یہود و نصاری کے گٹھ جوڑ سے جو نظام تشکیل پایا ہے اس کا بنیادی مقصد دنیا کے مالیاتی نظام سے اس روپیہ کو جس میں اس کی اپنی ذاتی قدر و قیمت موجود تھی اس کو ایسے روپیہ سے تبدیل کردینا تھا جس کی کوئی ذاتی قیمت نہ ہو۔John Perkins )کی کتاب Confessions of an Economic Hit Man کے مطالعہ مفید ہوسکتا ہے)۔ علاوہ ازیں ہمیں سمجھنے کیلئے ، کہ جیسے ہی کسی ملک کی کرنسی کی قیمت گھٹا دی جاتی ہے ، وہاں پر زمین و جائداد کی قیمت ، مزدوری اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں ان لیٹروں کیلئے سستی ہوجاتی ہیں جنہوں نے یہ نظام ترتیب دیا ہے۔ پاکستان میں ڈالر کے موجودہ اتار چڑھاؤ میں جن مالیاتی لیٹروں کو کھربوں روپیہ کا فائدہ پہنچا ہے وہ اسی کاغذی کرنسی نظام کا ایک حصہ ہے۔جب پیسوں کی قیمت گھٹ جاتی ہے تو آئی ایم ایف ان ممالک پر پرائیویٹائزیشن کیلئے دباؤ ڈالتی ہے اور پھر مالیاتی لیٹرے ان ممالک کا پیٹرول ، گیس ، بجلی بنانے کے کارخانے ، ٹیلی فون کمپنیاں اور دیگر صنعتی اور معدنی وسائل اونے پونے دام خرید لیتے ہیں ۔کالے دھن کو سفید کرنے کرنے کے اسکیمیں لائی جاتی ہیں اور غیر قانونی دھندوں و ہتکھنڈوں سے اکھٹا کئے جانے والا روپیہ قانونی بن جاتا ہے۔

اپریل1933ء کے ایک واقعے سے یہود ونصاری کے گٹھ جوڑ کی بین الاقوامی سازش سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اس مالیاتی نظام کے تحت دولت کی قانونی چوری کس طرح کی جاتی ہے۔امریکی حکومت نے ایک قانون لاگو کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کیلئے سونے کے سکے ، ان کی خام شکل اور سونے کے سرٹیفیکٹ رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ، سونے کے سکوں کو لین دین کیلئے استعمال سے روک دیا گیا اور ان کی قانونی حیثیت کو ختم کردیا گیا ، یوں یہ سکے روپے کی طرح خرید وفروخت میں استعمال نہیں ہوسکتے تھے، امریکی حکومت نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ ایک خاص وقت تک یہ سکے کسی کے پاس نطر آئے تو اس کو دس ہزار ڈالر کا جرمانہ یا چھ مہینے کی قید کی سزا ہوگی ، ان سکوں اور سرٹیفیکیٹوں کے عوض امریکہ کے فیڈرل ریزرو بنک نے جو ایک غیر سرکاری ادارہ ہے ، کاغذی نوٹ (امریکی ڈالر)جاری کردئیے اور ہر ایک اونس کے عوض ۲۰ ڈالر کا نوٹ دیا جانے لگا ، گویا ایک اونس سونے کا نعم البدل کاغذی نوٹ میں تبدیل کردیا گیا ، نتیجہ کے طور پر عوم دوڑ پڑی ، قید اور جرمانہ سے بچنے کیلئے اپنے سونے کے سکوں کے عوض ڈالے کے نوٹ تبدیل کروانے لگی ، مگر جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے تھے انھوں نے سونے کو تبدیل کرنے کے بجائے مزید سونا خریدنا شروع کیا ور انہیں سوئس بنکوں میں بھیجتے چلے گئے اور پھر اسی سال برطانیہ نے بھی امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک میں یہی کاروائی کی اور سونے کو تجارتی مقاصد کے استعمال سے روک دیا انہوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی کاغذی کرنسی پاؤنڈ اسڑلنگ کو سونے کی ضمانت سے الگ کردیا ، جب امریکہ میں تمام کا تما م سونا کاغذی کرنسی میں تبدیل ہوگیا تو جنوری1934ء میں امریکی حکومت نے اپنی مرضی سے اپنے کاغذی ڈالر کی قیمت میں ۴۱ فیصد کی کمی کردی اور اس کے ساتھ ہی اپنے اس قانون کو جس کے ذریعے سونا رکھنا ممنوع کردیا گیا تھا ، ختم کردیا ، اب امریکی عوام پھر دوڑی کہ اپنے کاغذی نوٹوں کو واپس سونے میں تبدیل کرلے مگر اب ڈالر کی قیمت گرنے کی وجہ سے فی اونس سونے کی قیمت ۳۵ ڈالر ہوگئی تھی،اس عمل کے دوران عوام کی ۴۱ فیصد لوٹ لی گئی۔ستمبر1931ء میں برطانوی پاؤنڈ کی قیمت 30فیصد گرائی گئی جو 1934ء تک 40فیصد پر پہنچ گئی ، اس کے بعد فرانس نے اپنی فرانک کی قیمت کو 30فیصد گرادیا ، اٹالین لیرا کو 41فیصد اور سوئس فرانک کو 30فیصد تک کم کردیا گیا ، اور تما یورپی ممالک نے یہ عملہر جگہ دوہرایا ، یہاں تک کہ یونان نے اپنی کرنسی کو یک دم59فیصد تک کی کمی کردی ۔ اس پالیسی نے بے روزگاری کو جنم دیا ، پوری دنیا میں تجارت شدید خسارے میں مبتلا ہوگئی ، جس کو اس صدی کی دہائی کا"پستی اور اداسی کا دور" (The Great depression ) کہا گیا ۔

یہود و نصاری نے ان متفقہ چالوں سے کاغذی نوٹوں کی بنیاد پر ایک عالمی مالیاتی نظام"بریٹن ووڈزمعائدہـ" (Bretton wood Agreements )کرلیا جس میں سونے اور ڈالر کے درمیان ایک رابطہ پیدا کرلیا ، جو بظاہر ٹھیک تھا کہ اب کاغذی نوٹ بغیر کسی زر ضمانت کے چھاپے جاسکتے تھے مگر اس کا کاروباری دنیا میں حقیقی طور پر کسی قیمت کا ہونے سے کوئی تعلق نہیں رہا ، لیکن اس معائدے نے1944ء میں آئی ایم ایف کے انعقاد کا راستہ ہموار کردیا ،جس کامقصد خصوصی طور پر اس بے ضمانت کاغذی کرنسی کے نظام کو عالمی مالیاتی نظام پر لاگو کئے رکھنا تھا لیکن1971ء میں یہ سازش بے نقاب ہوئی اور امریکہ اس عالمی معائدہ کی اس شق سے منحرف ہوگیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی ضمانت حاصل ہوگی ۔اس وقت بھی اسلامی دنیا کے معاشی ماہرین خواب غفلت میں ہیں کہ اسلام کے تجارتی نظام ، جس میں اجناس کے بدل میں اجناس اور سونے چاندی کے سکوں کی بنا ء پر کسی یہود و نصاری کی اجارہ داری نہیں تھی ،یکسر تبدیل کرکے اب اس نظام کو الیکڑونک روپیہ کے نظام میں تبدیل کرکے دنیا بھر کے سرمایہ کو یہودی اپنے تصرف میں رکھ کر مسلمانوں اور غریب ممالک پر سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناک حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔سودی نظام کے شکار ، پاکستان جیسے غریب ممالک ، ان کے غلام بن کر ان کی منصوبہ سازیوں میں شریک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔الیکڑونک روپیہ عام ہونے سے غریب انسان کی گردن میں سرمایہ داری کی غلامی کا طوق زندگی بھر کیلئے ڈال دیا جائے گا۔ گو کہ فور ی طور پر کاغذی کرنسی نظام کو یکسر ختم نہیں کیا جاسکتا ، لیکن پاکستان جیسے غریب اور ترقی پذیر ممالک ، ترقی یافتہ مسلم ممالک کے ساتھ ملکر ڈالر یا لیکڑونک کرنسی کے بجائے اسلامی متبادل طریقہ کار کو اپنانا شروع کردیں تو یہود کی غلامی سے با آسانی نکلاجاسکتا ہے ۔سونا ، چاندی ، گندم ، جو ، کھجور ، نمک ، چاول ، چینی وغیرہ کو مال کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس مال کے اندراسکی اپنی ذاتی قیمت پوشیدہ ہوتی ہے اس کے باہر نہیں۔مال کی حقیقت کو سنت رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں دیکھیں تو مال وہ ہے جو۔۔۔۔۔ ۔1۔ قیمتی دھات یا کوئی اور قابل استعمال چیز ہو جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔۔۔۔2۔مال کی اپنی ذاتی قیمت ہو،۔3۔ایک ایسی چیز ہو جسے اﷲ نے تخلیق کیا ہو اور اس کی قیمت خود اﷲ تعالی نے مقرر کردی ہو جو ان تما م خزانوں کا مالک ہے۔ پاکستان سمیت دیگر اسلامی اور غریب ممالک آئی ایم ایف ، امریکہ ، یہود و نصاری کے معاشی جال پھنس چکے ہیں لہذا اس سے باہر نکلنے کا واحد راستہ قرآن کریم کا دیا گیا، نظام ربوبیت اور حضرت محمد ﷺ کی معاشی سنت اور احکامات ہیں ، جو یہود و نصاری کے ربا کے نظام کو ختم کرکے غریب کو اس کا حق بہ احسن پہنچا سکتے ہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 665144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.