عمرآن خان کی کردارکشی ۔۔

پاکستان میں سیاستدانوں کی ایک دوسرے کی کردار کشی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اور اس بات میں کسی ذی شعور انسان کو اختلاف نہیں کہ مسلم لیگ ن اس فن میں خاص مہارت رکھتی ہے، انکی خواہشات کی تکمیل کے لئیے مہرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آجکل ایک نیا کرائے کا ٹٹو میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ جسکا اسم گرامی ارسلان افتخار ہے اور موصوف کا صرف ایک ہی تعارف ہے وہ یہ کہ جناب فرزند ہیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے۔ افتخار چوہدری وہ شخص ہے کہ جو کل تک میری بھولی قوم اور سیاستدانوں کا مسیحا اور ڈارلنگ ہیرو تھا۔ آج تمام لوگ سوائے ن لیگ کے پچھتا رہے ہیں۔ لیکن میں نہ پریشان ہوں نہ پچھتا رہا ہوں کیونکہ میں اس شخص کی بحالی کی تحریک کے دوران کہتا تھا کہ جناب آذاد عدلیہ کسی کے ایجنڈے میں نہیں صرف روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔ یہ جج صاحب جب کرسی عدل پر بیٹھتے تھے تو حضرت عمر رضی الله عنہ انکو بہت یاد آتے تھے اور انکی مثالیں دوران سماعت دیتے تھے لیکن جب اپنے کرپٹ فرزند کا مقدمہ آتا ہے تو ساری مثالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اور موصوف نے کیس پر اثرانداز ہوکر ایسا فیصلہ کروایا کہ آج تک ماہرین قانون اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا کرپشن کرے تو جیل جائیں مگر چیف جسٹس کا سپوت کرپشن کرے تو باعزت بری ہو۔ سابق چیف جسٹس صاحب نے بڑے سوموٹو نوٹس لئیے مگر فیصلہ کوئی نہ کرسکے ، سارے ایکشن پیپلزپارٹی کے خلاف ہی ہوتے تھے اور ن لیگ کے خلاف انکے عدل کے پر جلتے تھے۔ اور اس میں میڈیا نے بھی بھرپور قردار ادا کیا۔ کیا آج کرپشن نہیں ہورہی ؟ شریفوں کا کوئی بھی بڑا منصوبہ اٹھا لیں اربوں کی کمیشن نظرآئے گی مگر میڈیا بھی شرفاء سے خوفزدہ ہے۔ آجکل شرفاء نے ارسلان افتخار کی خدمات حاصل کیں ہیں عمرآن خان کی کردارکشی کے لئیے مگر یہ بری طرح ناکام ہوں گے اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ خود بھی کوئی تقوی کے پہاڑ نہیں ہیں، شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برسا رہے ہیں۔ شریفوں میں مینجمینٹ کا فقدان ہے اور یہ ہر ایشو کو مس ہینڈل کرتے ہیں۔ طاہرالقادری کے انقلاب کو انھوں نے قتل وغارت سے روکنے کی ناکام کوشیش کی اور لعشیں انکے گلے پڑگئیں۔ اب عمرآن خان کے سونامی مارچ کو ارسلان افتخار کے ذریعے دبانا چاہتے ہیں جوکہ ناممکن ہے، عمرآن خان کی کوئی کرپشن تو انھیں نہ مل سکی اس لئیے یہ سیتا وائیٹ کا بری طرح پٹا ہوا ایشو سامنے لے آئے، سیاسی لیڈر کی زندگی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ایک حصہ اسکی ذاتی زندگی پر مشتمل ہوتا ہے تو دوسرا حصہ پبلک لائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ پبلک لائف کو تو ڈسکس کیا جاسکتا ہے مگر کسی کی ذاتی زندگی میں تانک جھانک مناسب فعل نہیں سمجھا جاتا۔ اور عمرآن خان خود کہہ چکا ہے کہ میں کوئی زاہدانہ زندگی نہیں گذارتا رہا مگر الله نے اسے توفیق دی اور آج وہ ایک پاکیزہ زندگی گذارنے کی کوشیش کررہا ہے۔ اگر امام کعبہ بھی موجودہ حکمرآنوں کے خلاف بولے تو انکے چمچے کرچھے امام کعبہ کے بھی ایسے سکینڈل گھڑ لیں کہ الامان۔ جو بھی انکے خلاف علم بغاوت بلند کرے گا اسکی یہ کردارکشی کریں گے۔ میں نے لکھا تھا میاں صاحب مشیر بدلو یہ آپکو لے ڈوبیں گے، آج تو آپکو غلط مشورے دے رہے ہیں کل آپکے خلاف سلطانی گواہ بنیں گے اسحاق ڈار کی طرح پھر جیل میں کوئی خبر لینے نہیں آتا اور سنا ہے آپکو میری طرح مچھر بھی بڑا ستاتا ہے۔ خدارا ماضی سے کچھ سیکھیں عرفان صدیقی سے نہ سیکھیں یہ جی حضوریے تو سب اچھا ہی کا نعرہ مستانہ لگاتے ہیں ، پیٹ کا مسئلہ جو ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرت کا طے شدہ اصول ہے جتنا کسی کو کردارکشی سے دبائیں گے اتنا ہی وہ ابھرے گا ، سونجیاں ہو جاون گلیاں وچ مرزا یار پھرے یہ اکیسویں صدی میں ہو نہیں سکتا لہذا کردارکشی کی بجائے حقیقی ایشوز پر سیاست کریں شیشے کے شیش محل میں جلوہ گر ہوکر کسی پر پتھر نہ پھینکیں اگر ردعمل میں کسی منچلے نے آپکی طرف بھی ایک پتھر اچھال دیا تو شیش محل چکنا چور ہوجائے گا جسکی کرچیاں چنتے عمر بیت جائے گی۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 173310 views System analyst, writer. .. View More