کاش کسی کو سمجھ آجائے

دکاندار نے دکان میں کام کرنے والے ایک نوجوان جسے آئے ہوئے ابھی دو ماہ بھی نہ ہوئے تھے سے کہا کہ میں نے تجھے کہا تھا کہ دکان کی تیسری منزل میں سامان بکھرا پڑا ہے اس کو سیٹ کرو آج تیسرا دن ہے سامان ویسا کا ویسا بکھرا پڑا ہے میری بات کی کوئی اہمیت نہیں کیا ،یا جو تمہارا جی چاہے گا وہی کروگے ،اس نوجوان نے جواب دیا کہ آ پ نے مجھے کہا ہی نہیں اگر کہا ہے کہ تو میں نے نہیں سنا ہوگا اس پر دکاندار کہنے لگا کہ اچھا اب ہمیں سبق پڑھاتے ہو (بے وقوف بناتے ہو ) وہ نوجوان ابھی کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ دوکان میں اس سے پہلے کام کرنے والے ایک نوجوان نے اسے اشارے سے خاموش کرادیا،پھر اس نے دکاندارسے کہا کہ صاحب جی آپ تسلی رکھیں ،میں اس کو ساتھ لے کر سامان بکھرا پڑا ہے وقت ملتے ہی سیٹ کراؤں گا اس کے بعد جب گاہکوں کے آنے کا معمول کا وقت نہیں رہا تھا تو وہ نوجوان اس نئے نوجوان کو ساتھ لے کر دکان کی تیسری منزل میں گیا ،اس کے ساتھ سامان بھی سیٹ کرایا اور اس کو سمجھایا بھی کہ جس دکان میں بھی کام کرو ،دکاندار کو اس طرح جواب نہ دیا کرو،جس طرح اس کو دے رہے تھے یہ ہمیں تنخواہ دیتے ہیں تو ہمارا گزر اوقات ہو تا ہے یہ لوگ ذراذراسی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں کسی بھی کام کی ذمہ داری ان پر نہ ڈالو ،یہ تم سے کام بھی کرائیں گے اور دیں گے بھی کچھ نہیں یہ تو سزادینے او ر تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتے کوشش کرو کہ ایسی بات یا ایسا کام نہ کرو کہ ان کو غصہ آجائے ،تم نے یہ نہیں کہنا تھا کہ آپ نے مجھے کہا ہی نہیں ،کہا تھا یا نہیں ،تم نے کہناتھا کہ مجھے یاد نہیں رہا ،وقت نہیں ملا ،اب وقت ملتے ہی سیٹ کر آؤں گا،یہ سچے ہو ں یا جھوٹے ان کو جھوٹے نہ کہو،اورخود سچے بھی ہو تو انکے سامنے سچا بننے کی کوشش نہ کرو،یہ جو کام بھی کہیں اسے کرنے کی کوشش کرو ۔کسی کام کی سمجھ نہ آرہی ہو تو دکان میں کام کرنے والے کسی بھی نوجوان سے پوچھ لیا کرو،دکاندار کے سامنے کچھ نہ کچھ کرتے رہا کرو ،اگر گھر والوں کیلئے کچھ کمانا ہے تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا ورنہ جس دکان میں بھی کام کرنے جاؤگے دو چار ماہ کے بعد بے عزت کر کے بھگادیں گے اور تنخواہ بھی نہیں دیں گے میری باتوں کا برا بھی نہ منانا،میں یہ سب باتیں تمہارے فائدے کے لئے ہی کہہ رہا ہوں یہ صورت حال اس دکان میں کام کرنے والے صرف اسی نوجوان کے ساتھ پیش نہیں آئی ،ہر دکان میں کام کرنے کے لئے آنے والے نئے نوجوان کو یوں ہی اس دکان میں پہلے سے کام کرنے والے نوجوان سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یہ سب صرف بازاروں میں کسی خاص قسم کی دکانوں پر ہی نہیں ہوتا کہ جنرل سٹور ،کپڑے کی دکانوں ،کریانہ کی دکانوں اور ہوٹل پر ہوتا ہے تو سپر سٹور ،برتنوں ،ڈرائی فروٹ ،اور آٹوز کی دکانوں پر نہیں ہوتا یا سپر سٹور ،برتنوں ،ڈرائی فروٹ اور آٹوز کی دکانوں پر ہوتا ہے تو جنرل سٹور ،کپڑے ،کریانہ کی دکانوں اور ہوٹلوں پر نہیں ہوتا ،ہر مارکیٹ میں ہر بازار ،ہر منڈی میں ہوتا ہے ،یہ صرف بازاروں ،مارکیٹوں ،اور منڈیوں میں دکانوں میں ہی نہیں بلکہ اینٹوں کے بھٹوں ،تمام فیکٹریوں ،ملوں ،کارخانوں ،ورکشاپوں ،ٹرانسپورٹ ،اور کھیتوں میں بھی ہوتا ہے ۔یہی کچھ یہاں تک محدود نہیں بلکہ تمام سرکاری غیر سرکاری دفاتر،پرائیویٹ دفاتر ،تمام محکموں ،اداروں ،کمپنیوں ،میں بھی ہوتا ہے حالات و اقعات اور تجربات تو یہی بتاتے ہیں کہ ایسا ہر اس جگہ ہوتا ہے جہاں افسر اور ماتحت کا نظام قائم ہے جہاں سردار اور غلام کا نظام چل رہا ہے ۔جہاں سرمایہ دار اور بے سہارا موجود ہیں ۔ہر اس جگہ کام کرنے کے لئے آنے والے نئے لڑکے ،نوجوان یا شخص کو اس طرح کی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی نوجوان کی طرح ہی باتیں سننا اور سمجھنا پڑتی ہیں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اداروں اور کمپنیوں کے مالکان یا افسران کے بعض اقدامات اور احکامات کی وجہ سے ادارے یا کمپنیاں خسارے میں جارہی ہوتی ہیں یا ان کی ساکھ میں حرف آنے لگتا ہے اور یہ بات ان اداروں اور کمپنیوں میں کام کرنے والا ماتحت عملہ جانتا اور سمجھتا ہے مگر وہ ان سے کچھ کہہ نہیں پاتا ،اگر وہ کچھ بتانے اور عرض کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم تم سے بہتر جانتے ہیں کہہ کر خاموش کر ادیا جاتا ہے بازاروں ،مارکیٹوں ،گلیوں ،دکانوں ،ورکشاپوں ،فیکٹریوں،اور جہاں بھی کام ہوتا ہے -

وہاں کام کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس کے ماتحت اور جس کمپنی یا ادار ہمیں کام کررہے ہیں اس کی ہر بات پر من وعن عمل کیا جائے ،ان کے ہر حکم اور ہر پالیسی پر ان کو عمل کرنا ہوتا ہے وہ ان کے کسی بھی حکم یا پالیسی کو مسترد نہیں کر سکتے ،وہ تو یہ بھی نہیں پوچھتے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں صرف اور صرف اس لئے کہ ایسی بات کرنے سے کہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں کیونکہ اسی کمپنی،ادراہ ،یا اسی دکاندار سے وہ تنخواہ اور دیگر مراعات بھی لیتے ہیں جس سے ان کی گزر اوقات ہوتی ہے مالکان یا افسران کسی بھی وجہ سے ناراض نہ ہوجائیں تو انہیں اس ملازمت یا مزدوری سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں پھر روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی ،اس لئے اچھائی اسی میں ہے کہ جو مالکان اور افسران کہتے جائیں ویسا کرتے جاؤ-

یہ داستان ہم نے اس لیے لکھی ہے کہ جوبات ہم آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ آپ سمجھ جائیں۔ ذراسوچیں تو سہی جب اپنے اپنے کام سے فارغ ہو کر سستانے لگیں تو معمولی سا بھی غور کریں اور اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہے تو یہ غور وفکر آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا ورنہ جس طرح بنجر اور کلرزدہ زمینوں پر کوئی فصل یا سبزہ نہیں ہوتا اسی طرح کچھ دل اور سینے بھی بنجر اور کلر زدہ ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی نصیحت کا اثر نہیں ہوتا ،یہ کتنی عجیب اور افسوسناک بات ہے کہ ہم دنیا میں جس کمپنی ،ادارہ یا کسی بھی کاروباری یا صنعتی مرکز میں کام کرتے ہیں ان سے تنخواہ وصول کرتے ہیں تو ان کے ہر حکم اور ہرپالیسی پر عمل کرتے ہیں یہ مالکان یا افسران جب بھی کوئی نیا یا پرانا حکم اور پالیسی جاری کرتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنے ادارے کمپنی ،اپنے کاروباری یا صنعتی مرکز کا اور ذاتی فائدہ دیکھتے ہیں وہ کام کرنے والے ملازمین اور مزدورں کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے جس کمپنی ،ادارہ یا دکاندار سے ہم صرف تنخواہ لیتے ہیں ا ن کے احکامات پر توا تنا عمل کرتے ہیں اور جس کی ہم روزانہ نعمتیں کھاتے بھی ہیں اور ان سے فائدے بھی اٹھاتے ہیں اس خالق کائنات اور جس رسول کریم ﷺ کے صدقے ہمیں یہ زندگی اور یہ جہاں ومافیھاملا ہے ان کے احکامات و تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ،یہ کمپنیاں ،ادارے اور دکاندار جب بھی کوئی حکم دیتے ہیں تو پہلے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں جب کہ اﷲ پاک اور رسول کریم ﷺ نے جو بھی احکامات اور تعلیمات دی ہیں ان میں نہ تو اﷲ کریم کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی نبی پاک ﷺ کا ۔ان میں جو فائدہ بھی ہے اسی کا ہے جو اس پر عمل کرے گا۔اﷲ پاک نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں ہم ان نعمتوں کو استعمال بھی کرتے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اﷲ پاک ہم سے ان نعمتوں کی قیمت وصول نہیں کرتا،ہمیں ان نعمتوں کا کرایہ بھی نہیں دینا پڑتا ،ان نعمتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ ایک نعمت بھی ہم سے چھین لی جائے تو زندگی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے پانی اﷲ پاک کی ایک نعمت ہے ہم اس نعمت کا اﷲ پاک کو نہ کرایہ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی قیمت دیتے ہیں یہ نہ ملے تو زندگی خطر ے میں پڑجاتی ہے پانی کی قدر وقیمت ان علاقوں سے پوچھیں جہاں پانی کڑوا ہے اور پینے کے قابل نہیں سانس بھی اﷲ کی نعمت ہے اس کی آمدوروفت بند ہوجائے تو ایک دن بھی گھر میں نہیں رہنے دیا جاتا ،جلد سے جلد دفن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ہوا ،آگ ،سورج،زمین ،چاند،سبزیاں ،اناج ،اور بہت سی نعمتیں ہیں جو زندگی برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہیں ہم اتنی نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر بھی اﷲ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی نہیں مانتے،ہم سے بڑا بے شرم اور مفاد پرست اور کون ہوگا ،جس طرح یہ اﷲ پاک کی نعمتیں ہیں اسی طرح نماز ،روزہ ،زکوٰۃ،حج ،عمرہ ،صدقہ خیرات بھی اﷲ تعالی کی نعمتیں ہیں ،تحقیقات کے بعد یہ انکشاف سامنے آرہے ہیں کہ ان نعمتوں کے بھی جسمانی ،روحانی ،اور طبی فوائد ہیں ،اور ان نعمتوں کا افاصل فائدہ آخرت میں ہی ملے گا ،یہ کتنے افسوس اور عجیت بات ہے کہ جس کمپنی ،ادارہ ،یا کاروباری مرکز سے ہم تنخواہ لیتے ہیں اس کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں ان کا کوئی حکم نہیں ٹالتے ،اور جس اﷲ اور رسول مقبول ﷺ نے ہمیں بے شمار اور بیش بہا نعمتیں عطا کر رکھی ہیں اس کے کسی بھی حکم اور تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ہم مالکان اور افسران سے ڈرتے ہیں اﷲ تعالی سے نہیں ،نہ نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی صدقہ خیرات کرتے ہیں یوں تو ہم دانشور ،سائنسدان ،عقلمند،اور دولت مند ہیں اگر ہم میں یہ سوچ اور فکر نہیں جو ہم نے اس تحریر میں بتائی ہے تو کچھ بھی نہیں ،جب ہم اﷲ تعالی کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کرتے ہیں تو ہمارا فرض بنتاہے کہ اس کے احکامات و تعلیمات پر بھی عمل کریں ۔نماز،روزہ کی پابندی کریں ،زکوٰۃ اور ٹیکس ایمانداری سے اداکریں ،دوسروں کے حقوق اداکریں ،کسی پر ظلم نہ کریں بے سہاروں کا سہارا بنیں ہم نے لکھ دیا آپ نے پڑھ لیا ،نہیں پڑھا تو حرف بحرف پڑھیں ،کاش یہ باتیں یہ سوچ یہ فکر کسی کو سمجھ آجائے ،کاش یہ سوچ اور فکر کسی کی عملی زندگی میں تبدیلی لے آئے کاش یہ تحریر کسی کو راہ راست پر لے آئے ۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 303136 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.