کتاب اﷲ کا قانون نسخ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(الناسخ اوالمنسوخ)

ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق اﷲ تعالی نے تین سو سے زائد کتب نازل کی ہیں۔اتنی کتب نازل کرنے کے متعدد مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی مقصداحکامات میں تبدیلی ہی ہواکرتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات و حاجات اور عملی وعمرانی تقاضوں میں تبدیلی کے باعث اﷲ تعالی اپنی بھیجی ہوئی شریعتوں میں بھی تبدیلی کر دیتاتاکہ انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی رہیں ۔اس تبدیلی کو اصطلاح میں نسخ کہتے ہیں۔اسکے دو حصے ہیں پہلا حصہ ناسخ اور دوسرا منسوخ۔پہلے نازل ہونے والا حکم منسوخ کہلاتا ہے اور بعد میں نازل ہونے والا ناسخ۔کتاب اﷲ سے مراد آسمان سے نازل ہونے والی کل کتب ہیں چنانچہ کتاب اﷲ میں عقائدواخلاقیات،واقعات اور قصص اور اخبارات و اطلاعات میں نسخ واقع نہیں ہواچنانچہ توحید رسالت آخرت اورحسن سلوک اور صلہ رحمی وغیرہ ہرشریعت میں جوں کے توں ہی رہے،ناسخ و منسوخ صرف احکامات میں واقع ہوا ہے جیسے ایک شریعت میں کچھ احکامات تھے تو جب آنے والا رسول نئی کتاب لے کر پہنچا تو اﷲ تعالی نے بعض احکامات بالکل ختم کر دیے ،بعض مکمل طور پر تبدیل کر دیے اور بعض میں جزوی تبدیلی کر دی جبکہ بعض احکاما ت گزشتہ شریعت کی طرح نئی کتاب میں بھی باقی رکھے گئے اس لیے کہ اﷲ تعالی جو چاہے کر سکتاہے۔

بعض اوقات دو شریعتوں کے درمیان نسخ واقع ہوتا تھا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کانکاح ہوتا تھا،گزشتہ امتوں پر اجتماعی عذاب آتاتھاجس میں کل امت تباہ ہوجاتی تھی،حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں ہر چلنے والا جانور حلال تھا،حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں ایک نکاح میں دو بہنیں جمع ہو سکتی تھیں اور انسان کو سجدہ کرنا جائز تھا،حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں چور جس کی چوری کرتا تھا پھر بطور سزا اسکی غلامی کرتا تھا،بنی اسرائیل پر تین نمازیں فرض تھیں اور انکی نمازمیں رکوع بھی نہیں ہوتاتھا،انکاروزہ غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک ہوتا تھازکوۃ 25%فرض تھی،اور طلاق کی عام اجازت تھی جبکہ حضرت عیسی کی شریعت میں صرف زانیہ کو ہی طلاق دی جاسکتی تھی اور گزشتہ امتوں میں عبادت کسی ایک مخصوص جگہ پر ہی ہوسکتی تھی،قربانی کاگوشت کھانا ممنوع تھا اور آسمان سے ایک آگ آکر قربانی جلا جاتی تھی اور اگر ایسا نہ ہو تو اسکا مطلب تھا کہ قربانی قبول نہیں ہوئی،دشمن سے پکڑا جانے والا مال غنیمت بھی نذر آتش کر دیاجاتا تھا وغیرہ لیکن اب ان تمام احکامات میں سے بعض تو مکمل طور پر ختم کر دیے گئے ہیں اور بعض میں جزوی ترمیم سے دوبارہ جاری کیاگیاہے۔

بعض اوقات ایک ہی شریعت میں پہلے ایک حکم آتا ہے اور پھردوسرے حکم کے ذریعے پہلے حکم کومنسوخ کر دیا جاتا ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالی سے پوچھا کہ ہم کدھر منہ کر کے عبادت کریں ؟؟تو اﷲ تعالی نے مصر کے قیام کے دوران حضرت موسی علیہ السلام کے گھر کو ہی قبلہ بنادیالیکن بعد میں اسی شریعت موسوی میں بیت المقدس کو قبلہ بنادیاگیا۔اسی طرح بنی اسرائیل میں تین کتابیں اور کم و بیش چار ہزار انبیاء علیھم السلام تشریف لائے اور ظاہر ہے ہر کتاب اور ہر نبی کے ہاتھوں کچھ نہ کچھ نسخ تو ضرور ہی واقع ہوا ہوگا کیونکہ احکامات کی تبدیلی بھی نئی کتب اور نئے نبی کی آمد کا ایک اہم سبب ہوا کرتی تھی تب یہ سبھی نسائخ ایک شریعت میں واقع ہوئے یعنی شریعت موسوی میں تاآنکہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل میں اﷲ تعالی کے آخری نبی تھے اور انہوں نے شریعت موسوی میں آخری نسخ قائم کیا اور متعدد سابقہ احکامات کی جگہ نئے احکامات صادر فرمائے۔لیکن ایسے احکامات کی بھی متعدد مثالیں ہیں جنہیں کسی بھی شریعت میں منسوخ نہیں کیاگیاجیسے فرائض کی ادائگی اور کبائر سے اجتناب ہر شریعت میں موجود رہا اور نکاح جیسی سنت انبیاء علیھم السلام سبھی امتوں میں موجود رہی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب دس سنتیں ،مہمان نوازی،ختنہ،زیرناف اور زیر بغل بال کاٹنا،استنجہ،غسل،ناخن کاٹنا وغیرہ کا پتہ ہرشریعت میں ملتا ہے اور سب نبیوں نے اپنی امتوں کو ان احکامات کی تعلیم دی ہے۔

آخری نبی ﷺ اور آخری کتاب کے ساتھ ہی گزشتہ تمام اطاعتیں منسوخ کر دی گئیں،ایک بار حضرت عمر رضی اﷲ عنہ توریت کی تلاوت کر رہے تھے کہ آپ ﷺ نے یہ کتاب انکے ہاتھوں سے اچک لی اور ارشاد فرمایا کہ اگرحضرت موسی علیہ السلام بھی موجود ہوتے تو انہیں میری ہی اطاعت کرنی ہوتی۔ایک اصولی بات یہ ہے جب تک نئی شریعت میں نسخ واقع نہیں ہوجاتا گزشتہ حکم برقرار رہتا ہے اورنیا نبی اوراسکی امت اسی گزشتہ حکم کے مطابق ہی احکامات بجا لاتے ہیں۔جیسے معراج سے پہلے بنی اسرائیل کی طرح تین نمازیں اداکی جاتی تھیں اورقبلہ بھی بنی اسرائیل والا یعنی بیت المقدس ہی تھا،روزے کے بارے میں نیاحکم آنے سے پہلے تک شریعت موسوی کے مطابق ہی روزے رکھے جاتے رہے وغیرہ۔لیکن جیسے جیسے نئے احکامات آتے گئے پرانے منسوخ ہوتے لے گئے۔

آخری شریعت میں بھی کثرت سے نسخ واقع ہوا،جیسے شروع میں روزہ کی جگہ فدیہ دینے کی اجازت تھی اور امیر لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے اورروزے کی جگہ فدیہ ادا کر دیتے تھے لیکن بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا اور نیاحکم نازل ہوگیا کہ جو بھی رمضان پائے وہ لازماََ روزے رکھے۔جب منافقین نے آپ ﷺ سے انفرادی ملاقاتوں کے دوران بہت پریشان کرنا شروع کر دیا تو اﷲ تعالی نے حکم نازل کیا کہ جو بھی تنہائی میں نبی ﷺ سے ملنا چاہے پہلے کچھ فدیہ ادا کر کے آئے،اس سے جہاں منافقین کی شرارتیں ماند پڑ گئیں وہاں مخلص اور غریب مسلمان بھی نبی علیہ السلام کی انفرادی ملاقات سے محروم ہو گئے تب کچھ عرصے بعد ایک اور آیت کے نزول سے یہ پابندی اٹھا لی گئی وغیرہ۔یہ تمام منسوخ آیات اگرچہ آج بھی قرآن میں موجود ہیں اور انکی تلاوت بھی کی جاتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا منسوخ ہو چکا ہے۔شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے اس طرح کی پانچ منسوخ آیات گنوائی ہیں۔

شریعت محمدی کا یہ جداگانہ اسلوب ہے کہ یہاں تدریجی نسخ بھی واقع ہوا ہے،یعنی ایک حکم آہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا کر کے لاگو کیاگیا ہے،جیسے شراب جائز تھی اسے تین اور بعض مفسرین کے نزدیک چار مرحلوں میں حرام کیا گیا۔اسی طرح نماز کی فرضیت،روزہ کی فرضیت اورحج اور جہاد کی فرضیت بھی ایک دم نہیں کی گئی،مکی زندگی میں بعض نوجوان صحابہ نے جہاد کی اجازت مانگی کیونکہ کفار کے تشدد سے وہ تنگ آچکے تھے لیکن انہیں اجازت نہ دی گئی بعد میں مدنی زندگی کے دوران نازل ہونے والے احکامات میں جہاد کی فرضیت بھی نازل ہوگئی۔پہلے کچھ احکامات نہیں تھے بعد میں تھوڑے ٹھوڑے کر کے لاگو ہوتے گئے اور اسی طرح عورتوں کے لیے حجاب کے احکامات اور سود کی حرمت بھی نبی ﷺ کے آخری زمانے میں واقع ہوئی ۔حدوداﷲ کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے۔شریعت محمدی میں گزشتہ کتب کے بعض احکامات ابھی تک باقی ہیں اور ان میں نسخ واقع نہیں ہوا۔اسکی سب سے عمدہ مثال شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا ہے۔مدینہ میں جب ایک یہودیوں کے اشرافیہ جوڑے نے زنا کیا اوراسے نبی ﷺ کے سامنے لایا گیا،اسکی خلاصی کے لیے سفارشیں بھی آئیں توآپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب انکے بڑے جرم کرتے تو انہیں معاف کر دیاجاتااور جب انکے چھوٹے لوگ جرم کرت تو انہیں سزا دی جاتی۔تب آپﷺ نے توریت منگوای اور اس میں سے آیت رجم کے مطابق اس یہودی جوڑے پر رجم کی سزا نافذ کی۔ایک نبی کا گزشتہ کتاب میں سے ایک حکم کی تلاوت کے بعد پھر اس حکم کوجاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم اس نبی کی امت اور شریعت میں بھی جاری رہے گا اور اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوگا۔

وقتی نسخ،قانون نسخ کی ایک اور قسم ہے۔حالات کے ساتھ ساتھ انسانوں کی سہولت کے لیے شریعت نے احکامات بھی تبدیل کر دیے ہیں جیسے سفریابیماری کے دوران روزے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور حالات موافق ہونے پر یہ فرضیت پھر لوٹ آتی ہے۔اسی طرح پانی نہ مل سکنے پر وضو یا غسل کی جگہ تیمم کر لینا ’’وقتی نسخ‘‘ہے جو کسی خاص وقت کی مجبوری کے باعث واقع ہوا۔اﷲ تعالی نے مسافر کے لیے نماز میں وقتی اختصار کر دیا ہے اور ایک خاص فاصلے اورخاص مدت کا مسافر صرف دو فرض ہی اداکرے گا اوربعض مسالگ تو سفر کے دوران جمع بین الصلاتین کی اجازت بھی دے دیتے ہیں۔قرآن نے اس بات کی بھی وقتی اجازت دی ہے کہ اگر جان لبوں تک آن پہنے تو بقدر ضرورت حرام بھی کھایا جاسکتا ہے۔نسخ کی اس قسم کو’’تعطل‘‘بھی کہتے ہیں،یعنی وقتی طور پر کچھ احکامات معطل ہوگئے۔

اجتہاد کا دورازہ قیامت تک کھلا رہے گااور علمائے حق اجتہاد کر کے تو اسلامی شریعت کے احکامات کو تازہ کرتے رہیں گے اور کہیں کہیں ان میں نسخ بھی واقع ہوتا رہے گا۔جیسے قرآن وسنت نے غلامی کو جائز رکھا ہے لیکن آج کے علماء نے غلامی کے خاتمے پر اجماع کیا ہے اوریوں اجتہاد اور اجماع کے ذریعے نسخ کا سلسلہ جاری ہے۔اسکی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں اور مختصراََ کہا جا سکتا ہے کہ نسخ کے ذریعے ماضی میں اور اجتہاد اور اجماع کے ذریعے حال کی آخری شریعت میں نیاخون اور روشن دان کے ذریعے تازہ ہوا داخل ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی داخل ہوتی رہے گی اور انسانوں کی سہولت،آسانی،آسودگی اور راحت کا سامان اس دین میں ہمیشہ کی طرح جاری رہے گا۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 524158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.