اگلے وقتوں کےہیں یہ لوگ

’’خالہ تو پھر یقیناً خالو میں کمی ہو گی‘‘ میرا اتنے کہنے پر وہ بھڑک اٹھیں ۔’’ ارے نہیں بھئی تمہارے خالو بالکل ٹھیک تھے رحمت اللہ کی اماں کو حمل ہوا تھا پر ضائع ہو گیا‘‘خالہ یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں تھیں کہ خالو میں کوئی کمی تھی یا کوئی خامی تھی۔

میری شادی کے بعد جب میں نئے گھر میں آئی تو معلوم ہوا کہ گھر ماشاء اللہ مہمانوں سے بھرا پڑا ہے۔ گھر کے افراد ہی تقریباً 16 تھے اور 15 سے 20 مہان آ کر ٹھہرے ہوئے تھے۔ لاہور سے ، واہ سے ، پشاور سے اور کراچی سے مہمان شادی میں شریک ہونے آئے تھے ، خالہ ، خالو ان کی پوتی سکینہ نٹو ڈیرو سندھ سے آئے تھے۔ دسمبر کی سردیاں تھیں اور راولپنڈی میں سردیاں اپنے عروج پر تھیں۔ سکینہ اماں اماں کہتے ہوئے خالہ کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں یوں لگتا تھا دادی پوتی میں بہت پیار محبت ہے۔ خالہ سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ ہندوستان میں لکھنؤ کے قریب کے دیہات سے ان کا تعلق تھا اور پوربی ملی ہوئی اردو بولتی تھیں۔

شروع میں تو ان کا لب و لہجہ مجھے بہت عجیب سا لگا اور کچھ باتیں میں سمجھ نہ پائی لیکن بعد میں ان کا انداز گفتگو مجھے بہت پیارا لگتا۔ ویسے بھی بہت محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ میرے ساتھ تو ان کا کچھ قلبی سا تعلق ہو گیا۔

خالو پاکستان بننے سے پہلے ہی ملازمت کے سلسلے میں سندھ آئے اور یہیں کے ہو رہے پولیس میں تھانیدار تھے اور ظاہر ہے ایک طرح سے اپنے علاقے کے حاکم تھے۔ شادی کے بعد خالہ کو بھی وہیں لے آئے تھے ان کی بول چال سے سندھی پن جھلکتا تھا۔ وہ سندھ سے اور سندھیوں کے اخلاق اور طور طریقوں سے کافی خوش و متاثر تھے اور بہترین سندھی بولتے تھے۔سندھیوں کی غیرت اور مہمان نوازی کے قصے خاص کر بہت سناتے تھے۔

کچھ عرصے میں مجھے معلوم ہو گیا کہ خالہ اور خالو کی اپنی اولاد نہیں ہے اور سکینہ کے والد ان کے لے پالک بیٹے ہیں۔

’’ابراہیم اور اسماعیل بہت چھوٹے تھے کہ ان کی والدہ گزر گئیں۔ بپوا نے دوسری شادی کر لی۔ ان دونوں کو ہم لے آئے، دونوں کو پالا پوسا ، شادی بیاہ کیا۔ اسماعیل تھوڑا کھٹور ہے پر اپنا ابراہیم بہت محبتی ہے۔ جان چھڑکتا ہے ہمرے اور تمرے خالو کے اوپر ، دولھنیا بھی بہت جان دیتی ہے ہمرے اوپر اور سکینہ تو ہمری بٹیا ہے۔ یوں لگتا تھا خالہ نے اپنی ساری ممتاز ان پر نچھاور کر دی تھی۔"

خالہ کافی دنوں کے لیے رہنے آئی تھیں۔ خالو جان ریٹائر تھے اور سکینہ کا سکول کسی وجہ سے بند تھا۔ میرے اندر بقول کسے کوئی بڈھی روح ہے بزرگوں کی صحبت اور باتوں میں مجھے ہمیشہ سے لطف آتا ہے۔ اور خاص کر ایسے بزرگ جو کہ ہم پراپنی چاہتیں نچھاور کر رہے ہوں اٹھتے بیٹھتے دعائیں دے رہے ہوں۔
ان دنوں پنڈی میں کڑاکے دار سردیاں تھیں۔ ابھی گیس کے ہیٹروں کا رواج نہیں تھا۔ آتش دان میں کوئلے دہکا کر کمرہ گرم کیا جاتا تھا۔ خالہ کو یہ فکر ہوتی کہ کہیں دولہن کو سردای نہ لگ جائے ، صبح صبح آ کر ملازم سے انگیٹھی دہکوا دیتیں۔

ابراہیم اور اسماعیل کوئی غیر نہیں ان کے جیٹھ کے بیٹے تھے۔ ایک دن مجھے بڑی رازداری سے کہنے لگیں ’’‘سنو تمہاری ایک چھوٹی خالہ بھی ہے"

"اچھا آپ کی ایک اور بہن ہے ؟‘‘ مجھے ذرا حیرت ہوئی ۔

کہنے لگیں "ناہیں، جب رحمت اللہ کی اماں بیوہ ہونے کے بعد ہمارے پاس پاکستان آئیں تو تمہارے خالو سے نکاح کر دیا۔"

"ہیں خالہ یہ کیوں؟ "

" ارے بال بچے کے لیے کہ ان سے اولاد ہو جائے گی۔‘‘

’’خالہ تو پھر ؟"

"چھ سال تو ہوئے گو ا۔ دیکھو اللہ اب بھی دے دے۔ "

میں تو خالہ کا منہ ہی دیکھتی رہی۔ دو بچے انہوں نے گود لے کر پال پوس لیے او رپھر خالو کی حقیقی اولاد کے حصول کے لیے ان کی دوسری شادی بھی کر دی۔ ایک عورت کے لیے یہ کتنی بڑی قربانی ہے ؟

میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ زمانہ بہت شرم اور لحاظ کا تھا اس لیے میں نے اس موضوع پر کچھ خاص تبصرہ نہ کیا۔

کئی سال کے بعد جب میرے دیور کی شادی تھی تو خالہ خالو اور چھوٹی خالہ بھی شریک ہونے آئے۔

چھوٹی خالہ یعنی خالہ کی سوکن جنہیں وہ رحمت اللہ کی اماں کہ کر پکارتی تھیں۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ پچھلے شوہر سے ان کی پانچ اولادیں تھیں اور خالو سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو مجھ سے رہا نہ گیا ’’خالہ پھر تو خالو میں کوئی کمی ہوگی ؟‘‘ خالہ بھلا خالو کے مردانگی پر کب حرف آنے دیتیں اس بات کو ماننے پر ہرگز تیار نہیں تھیں کہ خالو میں کوئی کمی ہو سکتی ہے ؟۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان کا دو مہیناچڑھ گیا تھا جو ضائع ہوا‘‘ وہ کہنے لگیں ’’ہاں کچھ دن اوپر ہو گئے تھے‘‘ خالہ کا بیشتر وقت نماز ، عبادت اور تلاوت میں گزرتا تھا۔

عصر کی نماز کے بعد مغرب تک وہ خاموش رہتیں کوئی ضروری بات چیت ہو تو اشارے کنایئے سے کرتیں۔ زیادہ وقت ان کا اسی حساب کتاب میں گزرتا کہ اس بات کا اتنا اجر ہے اور اتنا ثواب ہے۔ کہتیں ’’جب رحمت اللہ کی اماں سے تمہارے خالو کا نکاح کیا تو چپکے چپکے بہت رووت رہے‘‘ ’’خالہ کیا خالو خود کرنا چاہتے تھے ؟‘‘ ’’ارے ناہی ہم بہت ضد کرکے پیچھے پڑے رہے تو کہنے لگے نیک بخت تمہاری خوشی کے لیے کرتا ہوں۔‘‘

چھوٹی خالہ بڑی خدمت گزار سی خاتون تھیں۔ خالہ کو بو بو کہتی تھیں۔ خالہ خالو کے کپڑے دھونا، استری کرنا بستر جھاڑنا سارے کام کرتی تھیں بلکہ جتنے دن رہیں میرا بھی ہاتھ بٹھاتی رہیں۔ خالہ کی بہت عزت کرتی تھیں۔ ’’تمہارے خالو کا جب نکاح کر دیا تو ہم نے معافی ماننگ لی کہ تھانیدار صاحب ہمرے کو معاف کردو‘‘ ’’اب آپ دونوں میاں بیوی ہو‘‘ ’’تو خالہ آپ نے اپنا کمرہ الگ کر دیا ، کہنے لگیں ’’ناہی تمہرے خالو کہاں مانے ، بیچ میں ان کا پلنگ ہوتا ، ایک طرف ہمرا ، ایک طرف رحمت اللہ کی اماں کا‘‘ اس کی زیادہ تفصیلات نہ انہوں نے بتائیں نہ میں نے کبھی پوچھیں ، یہ وہ زمانہ تھا جب ڈبل بیڈ کا رواج نہیں تھا۔یہ وقت کافی لحاظ کا تھا۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا ، سکینہ کی شادی ایک قابل ، شریف سندھی لڑکے سے ہو گئی لیکن سندھ کے حالات بگڑ گئے ، نئے پرانے سندھی کا جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کے لیے سندھ نے اپنا دامن واکر دیا تھا اور زیادہ تر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ شروع شروع میں تو انصار مدینہ والہ جذبہ اور ایثار نظر آیا۔ کراچی تو بقول کسے مہاجروں کا شہر بن گیا لیکن اندرون سندھ بھی مہاجر خوب رچ بس گئے۔ دیہاتی لوگوں نے کھیتیاں اور باغات خرید لیے اور سندھیوں میں گھل مل گئے۔ خالویوں بھی تقسیم سے کافی پہلے آئے تھے۔ اس لیے وہ سندھی زیادہ اور مہاجر کم تھے۔ امرودوں کے موسم میں ہمارے لیے لاڑکانہ کے مخصوص امرودوں کی نوکریاں بھیج دیتے۔ یہ لمبے امرود یہیں کا خاصہ ہے۔ سارا گھر خوشبو سے مہک جاتا پھر سندھ کی ربڑی اور کھویا لا جواب تھا۔ بھٹو کی پہلی بیگم شیریں امیر بیگم سے بھی تعلق تھا۔

حالات بگاڑنے میں سیاستدانوں کا بہت ہاتھ تھا اپنی دکانیں چمکانے کے لیے نئے اور پرانے سندھی کا جھگڑا کھڑا کیا۔ نئے سندھیوں یعنی مہاجروں کا رخ کراچی اور حیدر آباد کی طرف ہو گیا۔ یہ بھی اگرچہ صوبہ سندھ کے شہر تھے لیکن مہاجر یا اردو دان طبقہ یہاں پر اکثریت میں تھا۔

خالو ان دنوں شدید علیل تھے۔ انہوں نے ساری جائیداد ابراہیم کے نام کر دی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ابراہیم نے اونے پونے جائیداد بیچی کراچی میں الفلاح میں ایک گھر خریدا اپنے بیوی بچوں اور دونوں خالاؤں کو لے کر کراچی چلے آئے۔ خالہ کا میرے پاس اب کافی وقت گزرتا تھا۔ میں نے اپنی ساس کو تو دیکھا نہ تھا لیکن خالہ کے ساتھ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ چھوٹی خالہ نسبتاً جوان تھیں اور بھاگ بھاگ کر باہر کا سودا سلف لاتیں یا گھر کے چھوٹے موٹے کام نپٹاتیں۔خالہ کو ان سے کوئی شکایت تو درکنار بلکہ کافی انس تھا۔ ہر موقع پر انصاف سے ان کا خیال رکھتیں۔ اپنے لیے کچھ خریدتیں تو رحمت اللہ کی اماں کے لیے بھی وہی خریداری ہوتی۔

’’ارے اب تمہارے خالو تو رہت نہیں‘‘ ہمراکو ہی خیال رکھنا ہے‘‘ بعض اوقات مجھے عجیب سا احساس ہوتا ’’یا اللہ ان کو ان سے کوئی جلن ، حسد نہیں ہے۔‘‘

ارے ہمرے خاطر اپنے بچوں کو چھوڑت رہی ، کہتی ہے بوبو تم کو چھوڑ کے نہیں جاویں گے‘‘ ان کے بچے ہندوستان میں تھے۔ بچے کیا شادی شدہ مرد ، عورت تھے ، بال بچے دار تھے لیکن تو ان کے اپنی سگی اولاد۔

چھوٹی خالہ خاموش سی خاتون تھیں ایک مرتبہ میں نے کریدا تو کہنے لگیں ’’بہت یاد آتے ہیں لیکن بوبو کو چھوڑ کر نہیں جائینگے‘‘ کیا محبت تھی ایسی محبت تو سگی بہنوں میں بھی نہیں ہوئی ؟
خالہ کو لوکی کا رائتہ بے حد پسند تھا۔ ’’لوکی ٹھنڈی رہیت ہے‘‘ ان کی سب سے بڑی فرمائش ہوتی ’’ذرا لوکی کا رَتوا تو بنا دو‘‘

لوکی کے متعلق ایک دن کہنے لگیں‘‘ ارے لوکی ہندو رہیت تھی پھر مسلمان ہو گئی"

میرا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔’’ خالہ! کیا سبزیاں بھی ہندو مسلمان ہوتی ہیں؟‘‘

ان کا خیال رکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی۔ بہت دعائیں دیتی تھیں۔

میری دوست زرینہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایک دن آئی۔ دونوں لڑکیوں نے ذرا اونچی فراکیں پہنی ہوئی تھیں۔ خالہ کو کافی ناگوار گزرا ’’اے زرینہ اتنی بڑی بڑی لڑکیاں ٹنگوا ننگی کرکے پھرت ہیں، یہ کیا بات ہوئی بھلا ؟"

زرینہ نے جواب دیا "خالہ! ابھی تو چھوٹی ہیں ، پھر تو شلواریں پہنیں گی ہی" ان کے دل میں جو ہوتا یا جسے غلط سمجھتیں فوراً بول دیتیں ۔ ایک ولیمے میں ، میں نے شیفون کی باریک ساری ذرا چھوٹے بلاؤز کے ساتھ پہنی تھی ، خالہ کی ساری توجہ میری پیٹھ کی طرف تھی، بار بار چھو کر کہتیں ’’اس کو تو چھپاؤ‘‘
مسز ریاض سلیو لیس بلاؤز پہن کر آتی تھیں ، ’’ارے اس کو پہن کر نماز کیسے پڑھتی ہو؟"

" جی بڑی چادر لے لیتی ہوں"

"دوسرے مردوں کو دکھاتی ہو، نماز میں چادر لے لیتی ہو" خالہ کو ان کو ان کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ، وہ اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرنے لگیں۔

ان کی صاف گوئی اکثر لوگوں کو نہ بھاتی لیکن یہ ان کا خاصا تھا کہ جو بات بری لگے منہ پر کہہ دو ، بے حیائی ان کو بالکل نہیں بھاتی تھی۔

ان کی دونوں کلائیوں میں سونے کی چھ، چھ چوڑیاں تھیں۔ ’’تمرے خالو نے بڑی محبت سے پہنائے تھے ، ہمرے کفن دفن کے کام آئیں گی۔‘‘

سکینہ اب بھی اماں کی لاڈلی تھی ، اس کا شوہر بھی ان کا بہت خیال رکھتا تھا ، ہمارے ہاں وہی چھوڑنے اور لینے آئے تھے۔

حج پر جانے کی بہت متمنی تھیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش بخوبی پوری کر دی ، ان کے حج کے انتظامات میں ، میں نے کافی ساتھ دیا تھا اور اس کے بدلے ان کی کافی دعائیں لی تھیں۔ وہ تو اچھا تھا کہ بشیر بھائی ان دنوں جدہ میں تھے اور انہوں نے ان کا بے حد خیال رکھاز دوسرا بھانجا رفیق لندن سے آیا اور ان کا محِرم بن گیا۔ یوں ان کے حج کے انتظامات خوش اسلوبی سے انجام پائے۔ حج سے آنے کے بعد ان کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا۔ ’’رحمت اللہ کی اماں بھی ہمرے ساتھ ہوتیں تو اور اچھا ہوتا"

"خالہ! آپ کا محرم ان کا محرم نہ ہوتا اور حج کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا۔"

بقر عید کے دن تھے مہمانوں کو نپٹا کر ہم خالہ کو عید مبارک کہنے اگلے روز جا سکے۔ ’’اماں دو روز سے ہسپتال میں داخل ہیں‘‘ سکینہ نے بتایا ’’شوگر بہت زیادہ ہو گیا تھا‘‘ ہسپتا ل قریب ہی تھا ہم بھاگم بھاگ پہنچے ، مجھے دیکھ کر ان کی خوش دیدنی تھی ، ہاتھ پکڑ کر مجھے منہ قریب لانے کو کہا ، پیار کیا انتہائی نحیف آواز میں کہنے لگیں "اب ہم تمرے خالو کے پاس جات ہیں"

"نہیں خالہ ایسا مت کہیے" ان کی حالت دیکھ کر میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، ایک مہینہ پہلے تو وہ بھلی چنگی میرے گھر سے آئی تھیں۔

ہسپتال بھی کیا تھا ایک کلینک تھا جس میں دو کمرے تھے اور ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھا۔چھوٹی خالہ ان کے تلوے مل رہی تھیں۔

کراچی میں اس طرح کے ہسپتال گلی گلی کھلے ہوئے ہیں۔کوئی معیار نہیں ہے کوئی پابندی نہیں ہے کہ ہسپتال کا اسٹینڈر ڈکیا ہونا چاہیے ، غرضیکہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔

ان کو ڈرپ لگی ہوئی تھی ، مجھے تو طبیعت بہت ہی خراب دکھائی دیتی رہی ، میں نے سرمد سے کہا کہ کسی بڑے ہسپتال میں لے جاتے ہیں۔

وہ کہنے لگے ، ’’عید کی وجہ سے سب کچھ بند پڑا ہوا ہے، صبح آ کر دیکھتے ہیں ، اب رات بھی کافی ہو گئی ہے۔"

تقریباً 12 بجے رات کو ہم واپس آئے ، ساری رات بہت بے چینی میں گزرے ، فجر کی نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی ، سکینہ کی آواز سن کر میرا دل دھک سے رہ گیا روتے ہوئے بولی ، ’’آنٹی اماں نہیں ہیں‘‘ سوئم کے روز چھوٹی خالہ غمزدہ سی میرے پاس آئیں ساری کے پلو سے انہوں نے کلائیاں چھپائی تھیں ، ’’بیٹا بوبو تم کو بہت چاہتی تھیں ، بہت دعائیں دیتی تھیں ‘‘

میرے آنسو ٹپ ٹپ گرتے جا رہے تھے ، ’’خالہ آپ کے ہاتھوں کو کیا ہوا‘‘؟

انہوں نے پَلوہٹایا تو خالہ کی سونے کی چوڑیاں جھلملا رہی تھیں ، نظریں بچائے کہنے لگیں ’’بوبو نے اپنے ہاتھ سے پہنا دی تھیں‘‘

’’ہاں خالہ میں جانتی ہوں ، آپ نے ان کی خدمت بھی بہت کی تھی‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے کہا۔
’’بیٹا اب تو ہمرا یہاں کو نو نہیں ، ہم بچوں کے پاس انڈیا چلے جائیں گے‘‘ پہلی مرتبہ میں نے ان سے ان کے بچوں کا سنا۔

چہلم کی فاتحہ میں چھوٹی خالہ گلے مل کر کہنے لگیں ’’بیٹا ہم پرسوں انڈیا جا رہے ہیں ، اب یہاں کس کے کارن رہیں گے ۔ کہا سنا معاف کردو۔۔۔ ‘‘
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235477 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More