رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بے قابو

 ہمارے سروں پرنہایت عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہے، جس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور نیکیوں کا اجر و ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ کی ہر گھڑی خیر وبرکت سے بھرپور ہوتی ہے۔ جو شخص بھی اس قدر عظیم اور بابرکت ماہ کی خیر سے محروم رہا، وہ واقعی محروم رہا۔ بزرگان دین برکات سمیٹنے کے لیے سارا سال اس ماہ بابرکت کی آمد کا انتظار کیا کرتے رہتے تھے، لیکن بدقسمتی سے اس دور میں سارا سال اس ماہ کا انتظار ہر چیز مہنگی کر کے کمائی سمیٹنے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے ذہن پر ایک ہی تصور مسلط ہوتا ہے کہ ” رمضان المبارک کمائی کا مہینہ ہے“۔ بھلا کوئی ان کو کیسے سمجھائے کہ یہ مہینہ کمانے کا ضرور ہے، لیکن لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر چند ٹکے کمانے کا نہیں، بلکہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گناہ بخشوانے اور نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے، لیکن یہاں تو رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کرکے عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا جاتا ہے۔ حکومت بھی تمام تر بلند و بانگ دعوﺅں کے باوجود اس مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ جس قدر اس مہینے کا احترام کرنا مسلمانوں پر لازم ہے، اسی قدر اس مہینے کی بے احترامی کی جاتی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد پر ہر فرد کو اپنی استطاعت کے مطابق دوسروں کے لیے حتی الامکان آسانیاں پیدا کرنا چاہئیں، لیکن یہاں مہنگائی بڑھا کر عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔

ابھی رمضان المبارک کا آغاز ہوا ہی ہے کہ ملک بھر میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے اور ہر سال کی طرح اس مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں 50 سے 150 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ کھجور کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے،ماہ رمضان میں کھجور سے روزہ افطار کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر روزہ دار بالخصوص افطاری میں کھجور کا استعمال کرتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سنت کے پیش نظر رمضان المبارک میں کھجور کے نرخ کم کردیے جاتے، لیکن کھجور کی قیمت میں سو گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں اب کھجور بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ دالیں، چینی، مرغی، چھوٹا اوربڑا گوشت، چائے کی پتی، دودھ، انڈے، مشروبات، چاول، گھی، بیسن، آٹا، سبزی، فروٹ اور ہر قسم کی ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کردی گئی ہے۔ دوسری جانب اس مہنگائی میں مزید اضافہ کرنے کے لیے ذخیرہ اندوز بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں نے رمضان المبارک کے آگے بڑھنے کے ساتھ مزید مہنگائی کرنے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کرکے خفیہ گوداموں میں اشیائے ضروریہ کئی دن پہلے ہی سے اسٹاک کرنا شروع کردی گئی تھیں، چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور نام نہاد ہفتہ بازاروں میں ضروریات زندگی کی تمام چیزوں کو بھی ذخیرہ کیا جاتارہا، تاکہ اشیاءضروریہ کی قلت پیدا کرکے اسے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے۔ اس صورتحال سے اشیاءخورونوش کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، جو کہ ابھی مزید بڑھنے کا احتمال ہے۔ آڑھتیوں نے سبزیوں، پھلوں سمیت متعدد اشیا کو ذخیرہ کرکے گوداموں میں رکھا ہوا ہے۔ قیمتوں میں از خود اضافہ کے لیے کئی اہم سبزیوں کو منڈی سے غائب کیا جاچکا ہے۔ مہنگائی بڑھانے کے لیے آڑھتیوں کی جانب سے کسانوں کو متعدد سبزیوں کی خریداری کے لیے ایڈوانس میں رقم ادا کردی گئی تھی، تاکہ صرف 30 فیصد مال سبزی منڈی پہنچے، جبکہ باقی 70 فیصد مال کو گوداموں میں ذخیرہ کرلیا جائے۔

عوام نے رمضان المبارک کے ساتھ ہی تمام اشیاءضرورت میں مہنگائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے کے ساتھ حکومت کو بھی قصوروار گردانا ہے۔اس حوالے سے ایک شہری محمد ایوب کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے انتہائی قابل احترام مہینہ ہے، جس کا جتنا بھی ادب و احترام کیا جائے کم ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر سال اس بابرکت مہینے میں ہر چیز مہنگی کردی جاتی ہے، حالانکہ دوسرے کئی مذاہب کے لوگ اپنے مقدس تہواروں کے مواقع پر نہ صرف اشیاءکی قیمتوں میں کمی کردیتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ اشیاءمفت بھی تقسیم کی جاتی ہیں، لیکن ہمارے یہاں لوگ اس مہینے کو صرف مال بنانے کا مہینہ سمجھتے ہیں، حکومت کو رمضان المبارک میں بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت نوٹس لینا چاہیے۔ ایک دوسرے شہری طاہر انصاری نے کا کہ رمضان المبارک میں کسی کو بھی اپنی مرضی سے اشیاءمہنگی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، حکومت کو چاہیے جو بھی خود بخود اشیاءمہنگی کرے، اس کو کڑی سزا دی جائے۔ ناصر جمال کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک تو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا مہینہ ہے، لیکن یہاں چیزیں فروخت کرنے والا کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے مطابق اشیاءمہنگی کرکے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے، مہنگائی پہلے ہی اس قدر زیادہ ہے کہ لوگوں کے لیے دو وقت کا کھانا حاصل کرنا مشکل ہے، اس مہینے میں اس مہنگائی میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے، جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے، حکومت ہر سال رمضان المبارک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے صرف دعوے کرتی ہے، عملاً کچھ بھی نہیں کرپاتی۔ احسان جمیل نے کہا کہ جہاں کوئی قانون نہ ہو پھر وہاں اسی طرح لوگ اپنی مرضی سے اپنے قوانین لاگو کرتے ہیں، اگر حکومت رمضان المبارک میں عوام کی سہولت کے لیے اشیاءضروریہ کی سستی قیمتیں مقرر کر کے ان پر سختی سے عمل کروائے تو کوئی کس طرح ان قیمتوں سے ہٹ کر اپنی مرضی سے اس قیمت سے بڑھ کر بیچ سکتا ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ حکومت صرف عوام کو ریلیف دینے کی باتیں کرتی ہے، لیکن ریلیف دیا نہیں جاتا۔ رمضان المبارک میں عوام کو سستی اشیاءفراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اپنی اس ذمہ داری سے کنارہ کشی کرتی ہے۔

علمائے کرام کے مطابق رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمتوں کا موسم بہار ہے، اس ماہ میں مہنگاہی اور خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ اس بابرکت مہینے کی آمد کا انتظار ہر مسلمان کو ہوتا ہے، کیونکہ یہ مہینہ تمام انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور شیاطین کو قید کیا جاتاہے، لیکن یہاں اس بابرکت مہینے کو بھی لوٹ مار میں گزارا جاتا ہے، چزیں مہنگی کر کے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک میں خود ساختہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت عوام کو بابرکت گھڑیوں میں بھی ریلیف دینے میں ناکام رہتی ہے۔ ایک طرف مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور دوسری جانب منافع خور اور ذخیرہ اندوز نہ صرف سرگرم ہو چکے ہیں، بلکہ آزادی کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے سنجیدہ اقدامات کرنے کی بجائے زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی کمیٹیاں تشکیل دے جو مارکیٹ کی مانیٹرنگ کرکے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.