سایکس بیکو

ان دنوں مغربی ممالک میں پہلی جنگ عظیم( 1914)کے اندوہناک ،المناک اور تاریخ ساز واقعات پر ایک صدی مکمل ہونے کی وجہ سے جشنہائے صدسالہ منعقد ہورہے ہیں ، اسی دوران ترکی میں عظمت رفتہ پر کچھ لوگ غم اورماتم منارہے ہیں ،خلافت عثمانیہ کے سقوط پر یہ لوگ دل گرفتہ اور افسردہ ہیں ، ان کے زوال کی غلطیاں یہ تھیں ،کہ عربوں کو انہوں نے غلام بنانے کی کوششیں کی تھیں ،آج دنیا کے سامنے عالم عربی کے جتنے ترقی یا فتہ شہر یاادارے ہیں ، ان میں اکثر کا نام ونشان بھی ترکوں کے زمانے میں نہ تھا، تعلیم اقتصاد ،صنعت اور تجارت میں بھی عربوں کو بہت پیچھے رکھاگیاتھا ،ترکوں کی ان غلطیوں اور عربوں کی اس زبوں حالی سے مغربی مستعمراقوام نے غلط فائدہ اٹھاکر دو خطرناک سازشیں کیں ۔

ایک یہ کہ عربوں کی سرزمین فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری شروع کرائی ، جس کاکوئی معقول سدّ باب ترکی خلافت نہ کرسکی ۔

دوم یہ کہ عربوں کی طرف ’’ لورنس آف عربیہ ‘‘ کی شکل میں ایک مغربی شیطان بھیجد یاگیا ، جس نے عرب زعماء کو یہ باور کرایا ،کہ ترکی خلافت اب ایک مرد بیمار ہے ، اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے ، ورنہ اگریہ بیمار اسی طرح رہا،یا گرکر مرگیا، تو عرب کہاں جائینگے ،اس لئے ابھی ہی سے مستقبل کی نقشہ کشی ہوجانی چاہئے ،نیز ان کے ساتھ خفیہ معاہدوں میں فرانس وبرطانیہ کی طرف سے یہ وعدہ بھی ہوا،کہ عرب دنیا ایک ہی ’’الدولۃ العربیۃ الکبری ‘‘ یعنی گر یٹر اربک اسٹیٹ ہوگی ، جس کا عالمی سطح پر اپناایک مستقل ،طاقتوراور باوقار وزن ہوگا۔ ادھر اتاترک کو بھی یہ سمجھا یا گیا ،کہ عالم اسلام اور بالخصوص عالم عربی ترکوں پر بوجھ ہے ،اگر ترکی اسٹیٹ اس بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتار دے ،اور’’ سب سے پہلے ترکی‘‘کا نعرہ لگائے،تو یقینا ترکی دنیا کی عظیم ترین ممالک میں سے ایک سپرپاور ملک ہوگا، پھر یہ کہ اب یہ دنیا مذہب کی دنیا نہیں ،یہ قومیتوں کی دنیاہے ، اور تم ترکی والے یورپ کے پڑوس میں کیاہو، یورپین ہی ہو ، کیوں نہ آپ اپنی قوم کو ترقی اورروشن خیالی کی جدید راہوں پر گامزن کریں ، تاکہ آپ اور آپ کی قوم کے نام دنیا کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہوں ۔

چنانچہ عربوں نے اپنے حصے کا او رترکوں نے اپنے حصے کا کام اغیار کے کہنے پر کردیا، خلافت بھی اختتام پذیر ہوئی اور الدولۃ العربیۃ الکبری بھی تاحال ممکن الوجود نہ ہوسکی ، بلکہ خلافت عثمانیہ کے بقایاجات کو سایکس بیکو خفیہ معاہدے(1914_1916_1920_1922) کے ذریعے برطانیہ اور فرنس نے روسی شہنشاہ سے مل کر باہمی تقسیم کیا، چنانچہ نام کے لحاظ سے وہاں مستقل ممالک وجود میں آئے ، مگر حقیقت میں وہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں استعمار کے انتداب میں رہیں ، آج تک وہاں انتخابات بھی ہورہے ہیں،شناخت بھی الگ الگ ہیں،کرنسی بھی جدا جدا،اور اقوام متحدہ جیسی تنظیموں میں ان کی الگ الگ نمائندگی بھی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ریاستیں وہی کرتی ہیں ، جس کے انہیں ان استعماری آقاؤں سے اشارے ملتے ہیں ۔

اسی صورت حال کے پیش نظر ان ریاستوں میں کبھی بھی عوام اور حکمرانوں کا رشتہ مضبوط نہ ہوسکا ، یہاں بادشاہتیں ہیں یا جمہوریت نما نیم خاندانی شہنشاہتیں ہیں ، منطقہ پچھلے ایک سوسال سے اضطراب میں ہے ،اب جب عرب بہار کا دور آیا، اور قضیہ شام وعراق تک پہنچا ، جو ابھی مزید آگے کی طرف رواں دواں ہے، تویہاں کے حکمرانوں نے اپنی اقوام کے ساتھ بدترین دشمنوں کا سلوک کیا، وہ تہہ تیغ ہوتے رہے، مرتے رہے ، گرتے رہے ،خانہ بدوش ہوتے رہے، لیکن سینہ سپر ہی رہے ، بظاہر لگ رہاتھا، کہ یہ ان کی اپنی سوچ،آئیڈیا اور اپنا روڈ میپ ہے ، مگر افسوس ناک حقائق یہ ہیں، کہ یہ سب کچھ دونوں طرف سے استعماری طاقتوں کی سازشیں تھیں اور ہیں ، کیونکہ سایکس بیکو کو اب سوسال ہوچکے ہیں،یہ معاہدہ اب بوسیدہ ہوچکاہے ،یا اپنی مدت پوری کرچکا ہے، اس لئے وہ طاقتیں اب مڈل ایسٹ میں نئے معاہدے اور نئے جغرافیائی نقشے بنانا چاہتی ہیں ،’’عالم عربی ‘‘ نامی چیز تو بالکل پچھلے کئی دہائیوں سے مفقود ہے ، اس کی جگہ ’’الشرق الاوسط‘‘ کا لفظ آگیاہے ، ’’عالم اسلام ‘‘ کو بھی جغرافیاکے اوراق سے مٹاکر اسکی جگہ ’’گریٹر مڈل ایسٹ ‘‘ کی اصطلاح آیاہی چاہتی ہے ،آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس ‘‘ میں تبدیلی کرائی گئی ہے ، اب اس کا موجودہ نام ’’آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن ‘‘ہے ، کانفرنس اور کوآپریشن میں اصطلاحی فرق اہل دانش خوب جانتے ہیں۔

لہذا ان سب تبدیلیوں کا صحیح آغاز شام سے شروع ہواہے ، جہاں سنی ، علوی ، مسیحی او ردرزی جبکہ عراق میں سنی ، کردی اور شیعی یا عربی وعجمی عراق کے ناموں سے نئی ریاستیں بننے کو ہیں ، پہلے انہوں نے ہمیں نسلیت اور قومیت کو بنیاد بناکر لڑایا، اب ہمیں فرقوں اور مذاہب کو بنیاد بناکر لڑایا جارہاہے ، حزب اﷲ ،داعش ،جبھۃ النصرۃ ، پاسداران ایرانی انقلاب ، القدس بریگیڈ ، نوری المالکی اور بشار الاسد یہ سب اسی انقسامی ایجنڈے پر شعوری یالاشعوری طورپر کام کررہے ہیں ، ان کھلاڑیوں کے کوچ روس ، ایران ، خلیج ، امریکہ ، برطانیہ او رفرانس میں بیٹھے انٹرنیٹ پر ’’ سکرین شیئر ‘‘ کے ذریعے آپس میں شطرنج کھیل رہے ہیں،ہمارے یہاں طاہر القادری جیسے غائب الدماغ شخصیت کی موجودہ حالیہ حرکتیں ،الٹے سیدھے بیانات اورخرش پرش دیکھ کر اندازہ ہوتاہے، کہ یہ بھی کسی کا مہرہ ہے ، ان کو کیا سبز باغ دکھا یا گیاہے ، اور اس کے لئے کتنا خون بہے گا ، یا تماشہ پر تماشہ ہو گا،پسِ سکرین کیا سگنلزہیں،کونسی تقسیم ہے،کسی کو نہیں معلوم۔حیف ہے مسلم اقوام کو ان ’’سایکس بیکو‘‘سازشوں کا کبھی توپتہ ہی نہیں چلتا، یا تب پتہ چلتاہے ،جب پانی سرسے گز ر چکاہو،اﷲ خیر کرے ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 823234 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More