ہرشخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے

قانون کی دنیا کی ایک مشہورضرب المثل ہے کہ ’’ہرشخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے‘‘۔ بظاہر یہ 15 الفاظ پر مشتمل ایک ضرب المثل ہے مگر نتائج اور اثرات کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ مصنّف کی تحقیق کے مطابق یہ ضرب المثل ـ’’ دو دھاری تلوار ‘‘ ہے( اس کے مثبت اور منفی اثرات ہیں)۔ اگر اس ضرب المثل کا’’ صحیح استعمال‘‘ کیا جائے تو یہ انسان کی عظمت کی علامت، انصاف کی ضامن، عدالتی نظام کا ستون، امن وامان کی دلیل، سیاسی نظم و نسق کی نگران ، ریاست کے دفاع کی محافظ اور ملکی وقار کی بنیاد ہے۔لیکن اگراس ضرب المثل کا ’ ’غلط استعمال ‘‘کیا جائے تو یہ انصاف سوز، کرپشن پرور، جرائم افزا، غربت ساز اور طبقات پرست ثابت ہوتی ہے جس سے فرد،قوم اور ریاست کے لیے نقصان پہنچتا ہے اور ملک میں کرپشن،عدالتی نا انصافی ، اقتصادی عدم مساوات، سیاسی انتشار وغیرہ کا راج قائم ہو جاتا ہے۔یوں مجوزہ ضرب ا لمثل کا صحیح یا غلط استعمال فرد، قوم اور ریاست کے لیے دُور رس نتائج مرتب کرتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ضرب المثل’’ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک وُہ گناہ گار ثابت نہ ہوجائے‘‘ کا استعمال صحیح ہور ہا ہے-

برطانیہ ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں انتظامی ، تحقیقاتی اور تقتیشی اداروں کے سربراہان اور افسران کا انتخاب انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کیا جاتا ہے ۔صرف اُن افراد کو تعینات کیا جاتا ہے جن کی دیانت داری، قابلیت ، فرض شناسی اور حب الوطنی مسلمہ ہو۔ان اداروں کے افسران کے سامنے جب کوئی کیس آتا ہے تواُس کی تحقیق اور تفتیش نہایت مستعدی سے کرتے ہیں۔سچی شہادتیں اور ٹھوس ثبوت جمع کرتے ہیں اور اگر الزام علیہ بے گناہ ثابت ہو تو معذرت کرکے اُسے چھوڑ دیتے ہیں اور اگر گناہ گار ثابت ہو تو گرفتارکرکے چالان کے ساتھ عدالت میں پیش کر دیتے ہیں ۔اور ایسا کرنے میں وُہ دیانت داری، قابلیت ، فرض شناسی اور حب الوطنی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں اور خوف، لالچ، سفارش یا رشوت کی زد میں نہیں آتے ۔ عدالتیں آزاد ہیں اور مقدمات کے فیصلے بلا خوف، لالچ، سفارش ، بلا امتیاز دیانت داری سے کم از کم وقت میں کر دیتی ہیں۔ عدالت الزام علیہ کے بے گناہ ہونے کے دعوے پرسنجیدگی سے غور کرتی ہے اور ثبوت ، شہادت اور دیگر تمام مطلقہ امور کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کیس کا فیصلہ کرتی ہے ۔ اگر الزام علیہ کی بے گناہی ثابت ہو جائے تو باعزت بری کر دیتی ہے ورنہ قانون کے مطابق سزا سُنا کر جیل بھیج دیتی ہے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جاتا ہے۔

یہاں قابل ذکر بات ہے کہ ان ممالک میں متذکرہ ادارے اور عدالتیں اتنے آزاد اور بااختیار ہیں کہ وزیرِ اعظم یا صدر بھی اُن کی تحقیق، تفتیش اور فیصلوں میں مداخلت نہیں کرسکتا ۔ یوں مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں مجوزہ ضرب المثل کا صحیح استعما ل ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ضرب المثل’’ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے‘‘ کا غلط ا ستعمال ہو رہا ہے

٭ کیونکہ پاکستان میں اقتدارکی کرسی پر جلوہ افروز مفاد پرست حکمران،چاہے منتخب نمائندے ہوں یا فوجی ڈکٹیٹر، ا یسے من پسند افرادکو انتظامی، تحقیقاتی اور تفتیشی اداروں( پولیس، فیڈرل ایف آئی اے ، نیب وغیرہ) کے سربراہان مقرر کرتے ہیں جو اہم اور قومی اہمیت کے مقدمات کی تفتیش اُن کے اشاروں اور احکامات کے مطابق کریں، اُن کے مفادات کا خیال رکھیں اور کوئی ایسا کیس درج یا شروع نہ کریں جس سے اُن کی کرسی کو خطرہ لاحق ہونے کا احتمال ہو یا اُن کی سیاسی ساکھ کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اور اگر کسی ادارے کا سربراہ یا تفتیشی افسر اُن کے اشاروں اور احکامات کی خلاف ورزی کی جسارت کرے تو اُسے فوراََ تبدیل، معطل یا عہدے سے فارغ کرکے گھر بھیج دیا جاتا ہے تا کہ نا فرمانی کی وباء عام نہ ہو۔
٭ کیونکہ تفتیشی اداروں (پولیس ، ایف آئی اے، نیب وغیرہ) کے اکثر سربراہان اور افسران بڑی بڑی رشوت، کرپشن اور قومی جرائم کے مقدمات (ایف آئی آرز) اپنے مقررکندگان کی اجازت سے درج کرتے ہیں، اگرعدالت یا کسی ووسری طاقت کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے مقدمہ درج کرنا پڑ جائے توتفتیش اورتحقیق دیانت داری،قانون اور آئین کے مطابق نہیں کرتے اور دانستہ طور پر کئی کئی سال صرف کر دیتے ہیں۔اور اگر مقدمہ عدالت میں پیش کرنا پڑ جائے تو ایسے کمزور ثبوت اور نا مکمل شہادتیں پیش کرتے ہیں کہ الزام علیہ عدالت سے بری ہو جاتا ہے۔

٭ کیونکہ عام لوگوں کے مقدمات میں پولیس کے اعلیٰ افسران اور ماتحت اہل کار وں کی اکثریت ایسی ہو تی ہے جوتفتیش اورتحقیق دیانت داری،قانون اور آئین کے مطابق کرنے کی بجائے رشوت، سفارش اور دھمکی کے زیرِ اثر کام کرتی ہے ۔ اور عدالت میں کمزور ثبوت اورنامکمل شہادتوں کے ساتھ چالان پیش کرتی ہے جس کی وجہ سے ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں ۔

٭ کیونکہ عدالت میں جو چالان پیش کیے جاتے ہیں اُس کی شہادتیں جھوٹی اور فرضی ہوتی اور جو ثبوت دیے جاتے ہیں وُہ کمزور اور تفتیشی افسر ساختہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے الزام علیہ ہان بری ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں عدالتی نظام پوری طرح آزاد اور با اختیار نہیں ہے۔ عدالتیں اربوں روپوں کی رشوت اورکرپشن اور قومی اہمیت کے مقدمات کے فیصلے کئی کئی سال نہیں کرپاتیں۔ لیکن اگر دباؤ ، سفارش ، دھمکی یا رشوت رنگ دیکھائے تو مقدمے کا فیصلہ چند دنوں میں کر دیتی ہیں۔

٭ کیونکہ پاکستان کے 90 فی صد سیاسی میدان پر اشرافیہ طبقے کا قبضہ ہے۔ اشرافیہ طبقہ 500 خاندانوں پر مشتمل ہے ۔ان خاندانوں کے تقریباََ3000 افراد نے 50 سالوں سے نہایت غورو خوض اور باہمی مشاورت سے ملک کی طاقت کے تمام اداروں ( مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ وغیرہ ) پر قبضہ جما رکھا ہے اور ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔بد قسمتی سے حکمران افراد کی اکثریت کی سوچ کا محور ذات اور کنبہ کے مفادات ہیں۔ یہ حکمران منصوبہ بندی اور اطمینان کے ساتھ اربوں روپوں کی کرپشن کرتے ہیں مگر پھر بھی اپنی پاک دامنی اور ایمان داری کا راگ الاپتے ہیں۔ اور تنقید کرنے والوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس اُن کی کرپشن کا ثبوت ہے تو وُہ عدالت میں پیش کرے اور اُن کی کرپشن ثابت کرے۔ اُنہیں پورا یقین ہوتاہے کہ احتسابی ادارے (پولیس، ایف آئی اے ، نیب وغیرہ) اُن کے کنٹرول میں ہیں اورعدالتیں شہادتوں اور ثبوت کے بغیر اُن کے خلاف فیصلے نہیں سُنّا سکتیں۔ اور وُہ بے گناہ ہیں چاہے وُہ جتنی بڑی کرپشن کریں ، دولت کو ملک میں رکھیں یا بیرونِ ملک بھیج دیں۔یوں اُن کے لیے ضرب المثل ’’ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے‘‘ بہترین دفاع اور مضبوط ڈھال ہے۔

٭ کیونکہ پاکستان میں ایک موثر ،شفاف اورآزاد احتسابی نظام کی عدم موجود گی اور ضرب المثل ’’ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے‘‘ کی موجودگی کا چوروں، بھتہ خوروں، ڈاکوں، قرضہ خوروں، قاتلوں ، دہشت گروں اورعادی مجرموں کو بھی بہت فائدہ ہوا ہے ۔ جب عدالتوں میں اُن کے مقدمات پیش ہوتے ہیں تو اُن کو گناہ گار ثابت کے لیے ٹھوس ثبوت اور سچی شہادتیں موجود نہیں ہوتے جس وجہ سے عدالت شک کا فائدہ دے کر اُنہیں بری کردیتی ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق کی بناء پر مصنّف یہ رائے قائم کرنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان میں ضرب المثل ’’ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے‘‘ کا انتہائی ’ ’غلط استعمال ‘‘ ہو رہا ہے۔ اور اس غلط استعمال سے اربوں روپوں کی کرپشن کے ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں، بھتہ خور وں، ڈاکوں، قرضہ خوروں، قاتلوں ، دہشت گردوں اورعادی مجرموں کو عدالتوں سے سزا ئیں نہیں مل رہیں۔اور ریاست میں کرپشن، اقتصادی عدم مساوات، سیاسی انتشار، دہشت گردی وغیرہ کا راج قائم ہو گیا ہے۔ لہذٰا پاکستا ن کے مروجہ حالات میں مجوزہ ضرب امثل گمراہ کن ، انصاف سوز، کرپشن پرور، جرائم افزا، غربت ساز اور طبقات افروزثابت ہوئی ہے۔

مصنّف کی رائے ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں ضرب المثل ’’ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک وُہ عدالت میں گناہ گار ثابت نہ ہو جائے‘‘ پر عمل درآمد فوری بند ہو جانا چاہیے اور ضرب المثل ’’ آوازِ خلق نقارہ خدا است‘‘ کو نافذ کیا جانا چاہیے اور اسی کے مطابق عدالتی فیصلے ہونے چاہیں۔

صنّف مندرجہ ذیل حقائق کی بناء پراس ضرب المثل کے حق میں ہے

٭ یہ بہت مشہور،درست اور مبنی برانصاف ضرب المثل ہے جس کا مطلب ہے کہ عوام کی آواز خدا کا اعلان ہوتی ہے با الفاظِ دیگر عوام کا فیصلہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے۔
٭ عوام کی عدالت میں لاکھوں یا کروڑوں جج/ لوگ مقدمات کا غیر جانبدارانہ ، بے لوث اور بے خوف جائزہ لیتے ہیں اور پھرفیصلے سُناتے ہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلے 99 فی صد صحیح ہوتے ہیں۔
٭انتظامیہ ،تحقیقاتی ،تفتیشی اداروں اور عدالتوں کے بر عکس عوام کی عدالت کو رشوت سے خریدا نہیں جا سکتا ، دھمکی سے ڈرایا نہیں جا سکتا اور طاقت سے بات نہیں منوائی جا سکتی لہٰذا عوامی عدالت کا فیصلہ عام عدا لت کی نسبت زیادہ صحیح ، وزن دار اور مدلل ہوتا ہے۔

Rana Saeed Ahmad
About the Author: Rana Saeed Ahmad Read More Articles by Rana Saeed Ahmad: 12 Articles with 10480 views Rana Saeed Ahmad:

My name is Rana Saeed Ahmad, father's name is Rana Muhammad Saddique. I am an advocate and Life Time Member of Lahore High Court
.. View More