دھمکی کیوں اصلاح کیوں نہیں

(کوئی مقدس گائے نہیں) یہ جملہ فقرہ تو آپ نے سنا ہوگا ،یہ اکثر سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ کر استعمال کرتے ہیں،گائے کیوں مقدس ہے یہ ایک لمبی اور دلچسپ کہانی ہے یہ پھر کسی کالم میں بتاوں گا،فی الحال میں ایک مختصر واقع آپ کو سناوں گا۔انڈیا میں ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کا بہت بڑا جلسہ تھا،اس میں ملک بھر سے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں کے علاوہ لاکھوں لوگوں نے بھی شرکت کی ،لوگوں کا ہجوم اتنا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ،اس جلسے میں موجود ایک پولیس والے نے اچانک ایک گائے لا کر چھوڑ دی، گائے جیسے ہی مجمع میں داخل ہوئی تو لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ڈر گئی اس نے ادھر اودھر بھاگناشروع کر دیا،اس کے بھاگنے سے مجمع میں افراتفری پیدا ہو گی،لوگ بھاگنے لگے،جلسہ خراب ہو گیا ،سیاست دانوں کی تقریر سے سب کی توجہ ہٹ گی،گائے بے لگام بھاگی جائے اور کوئی اسے ہاتھ تک نہ لگائے کسی نے اس کو چھیڑا نہیں،مارا نہیں،اس کو پکڑ کر جلسے سے باہر نہیں نکالا،لوگ خود بھاگ گئے مگر گائے کو کچھ نہیں کہا،کیوں؟کیوں کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں وہ اس کو اپنی ماں سے بھی بڑھ کر اس کا احترام کرتے ہیں،ان کی نظر میں گائے مقدس ہوتی ہے اس کو کھلی چھٹی ہے جو چاہئے مرضی کر لے کوئی اس کو روکے گا نہیں۔

ہمارے ہاں سیاست دان چائے وہ بر سر اقتدار ہو،حزب اختلاف ہو،آنے والے وقت کا امیدوار ہو یا نیا نیا سیاست دان بننے کی اوڑان لے رہا ہو،وہ آپنے آپ کو مقدس گائے سمجھتا ہے ،اس خلاف لب کشائی مقدس گائے کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ماضی اس طرح کی بے شمار مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔عوام کی خدمت کرنے کا حلف اٹھا کر کرسی اقتدار تک جاننے والا،قوم و ملک کی ترقی اور فلاح و بہودکی قسمیں کھا کر عوام سے ووٹ لینے والا یہ سیاست دان عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ۔۔مگر کوئی دیانت دار،حق و سچ بات کہنے والا،غریب،مظلوم،بے بس،مجبور،عوام کے حق میں بات کرنے والاصحافی سچ بول جائے یا سچ لکھ دے تو یہ سیاست دان خود کو مقدس گائے سمجھ کر اس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے اس کے ساتھ بد زبانی تک اتر آتا ہے ۔ماضی میں بھی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں مگر وقت بدلتا رہتا ہے،ماضی کی دیکھا دیکھی میں کوئی موجودہ دور میں ایسا کرے تو اسے خود کو مقدس گائے ثابت کرنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے ۔اس روایت کو موجودہ دور میں بھی قائم رکھنے کی کوشش اس وقت کی گی،جب باغ ٹائم کے ایڈیٹر سید عمران حمید گیلانی نے باغ ٹائم 16جون کے شمارے میں ایک سیاسی جماعت پر خبر لگاتے ہوئے تبصرہ کیا کہ (ن لیگ کی بیل منڈے نہ چڑھ سکی)شرقی اور وسطی میں ن لیکی سیاست دانوں میں رسہ کشی۔۔اس صحافی نے گراونڈ کی حقیقت سامنے رکھتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا ۔جس کوپڑھنے کے بعد آزاد کشمیر باغ ن لیگ کے ایک سیاسی امیدوار نے خود کو مقدس گائے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اخبار کے ایڈیٹر کو نہ صرف سنگین نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی دی بلکہ بد زبانی بھی کی۔جو کہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ سیاست دان جو عوامی نمائندہ کہتے ہیں ان کی قوت برداشت ،ان کی اخلاقیات ،ان کی ہمدردی،صرف اور صرف ان کی خوش آمد تک ہوتی ہے ،ان کی کاسہ لیسی کرتے رہو تو یہ خوش جس دن کسی کمزرو نے سچ بول لیا یا ان کے اوپر سے نقاپ اٹھا لیا تو یہ خون خوار بھیڑیے سے بھی زیادہ خطرناک بن جاتے ہیں۔جب کہ ان کی پہچان،ان کی کوششو ں کو حقیقت کا رنگ بھرنے والا یہ صحافی ہی ہوتا ہے جو بلا معاوضہ ان کے لئے کام کرتا ہے،جس طرح انہوں نے عوام کی خدمت کا حلف اٹھایا ہوتا ہے جس پر یہ پورے نہیں اترتے، اسی طرح صحافی نے بھی سچ بولنے اور غیریب کی آواز بننے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے جس کو یہ نبھانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کو پھر دھمکیاں دی جاتیں ہیں ،ان سیاست دانوں میں اتنی اخلاقی جرت نہیں ہوتی کہ یہ اپنے بارے میں سچ سن سکیں،یہ آواز کو اپنی طاقت کہ بل بوتے پر دبانے کی کوشش کرتے ہیں،یہ خود کو سیاہ سفید کا مالک سمجھتے ہیں،جو کہ ممکن نہیں،آج کل پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے جس طرح وہاں پر عوام کو مارہ جارہا ہے اس کی مثال پاکستان بنتے وقت بھی نہیں ملتی،پاکستان دو ٹکڑے ہوتے وقت بھی نہیں ملتی تاریخ کا بد ترین ظلم ،بربریت،چوہدراہٹ،قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس کو سامنے رکھتے ہوئے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو خاص کر کے ن لیگ کو سبق سیکھنا چاہیے۔ایسے اقدامات سے بچنا چاہیے ورنہ بات وہی ہوگی کہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں ایسے ایسے عوام کو بے وقوف بنانے کا ڈفلی تماشہ پھر سے شروع ہو گیا ہے ۔آج ملک خانہ جنگی کے دور سے گزر رہا ہے تو زمہ دار کون ہے ؟،آج عوام بجلی پانی ،ہسپتال،سے محروم ہے تو ذمہ دار کون ہے ؟،باغ میں ایک بھی عوامی زندگی کی سہولیات موجود نہیں،مہنگائی،بے روزگاری،برادری ازم،فرقہ واریت،تعصب،نفرت، دشمنی،خاندنی جنگ،اس کا ذمہ دار کون ہے ؟،یہ سیاست دان جو قوم ،ملک ،عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے اقتدار میں آتا ہے ،جو خود کو عوام کا خادم کے نام سے ظاہر کرتا ہے ،اس کا عوامی مسائل کے حل سے ہٹ کر اور کام ہی کیا ہے ،یہ اقتدار میں کیوں آتا ہے،مگر افسوس کہ یہ لوگ خود کو کسی کا ذمہ دار نہیں سمجھتے خود کو مقدس گائے کہتے ہوئے کسی اور سیارے کی مخلوق تصور کرتے ہیں،یہ الیکشن جیتے کے بعد کتنی بار اس عوام سے ملتے ہیں،کہ آج ان کو کسی بات پر غصہ آجاتا ہے ۔ان لوگوں کو حقیقت کا سامنا کرنے سے اور سچ سننے سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ قوت برداشت کے ساتھ ان کو سمجھتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے،یہ دھمکی دینے کے بجائے خود کو بہتر کریں،آئینے کے سامنے جاننے کی جرت پیدا کریں،طاقت تو فراعون کے پاس بھی تھی،نمرود،شداد کے پاس بھی تھی،اور طاقت ہمارے نبی،ﷺ اور خلفاء راشدین کے پاس بھی تھی یہ خود فیصلہ کر لیں کہ یہ کس طاقت کے مالک ہیں اور ان کو کیا بننا ہے،ہوا میں اڑنے کے بجائے زمین کی حقیقت کو سمجھیں اور سچ کو مان کر عوام کی خدمت کریں۔۔۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69526 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.