یہ امت مسلمہ ہے!

یہ پاکستان ہے۔ ایک طویل عرصے سے یہاں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، اس خونی کھیل میں خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور ڈرون حملوں سے اب تک پچاس ہزار سے زاید مسلمان جانوں کی بازی ہارچکے ہیں، یہاں انسان کی جان ساحل پر پڑے ریت کے ذروں سے بھی ارزاں معلوم ہوتی ہے۔ ملک کا چین و سکون عنقا ہوکر رہ گیا ہے۔ اک انجانا سا خوف پورے ملک پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ ان حالات کی وجہ نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان بدنام ہورہا ہے، بلکہ ملک کی معیشت برباد ہوچکی ہے۔ ملک ترقی کی منازل طے کرنے کی بجائے تنزلی کی گھاٹیوں میں گرتا جارہا ہے۔ یہ پڑوسی مسلم ملک افغانستان ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل خانہ جنگی کی لپیٹ میں اس ملک کی چوتھی نسل گولا و بارود ہاتھوں میں تھامے پروان چڑھ رہی ہے۔ شاید ہی اس ملک کا کوئی گھر ایسا ہو جس سے خانہ جنگی نے جانیں نہ لی ہوں۔ برطانیہ، روس اور امریکا کی جارحیت میں لاکھوں افغانوں کے شہادت کی قبا پہننے کے علاوہ آپسی خونریزی میں بھی لاکھوں گھائل و مقتول ہوئے۔ یہ معاملہ اپنے روایتی انداز میں جاری و ساری ہے۔ وراثت میں جنگیں حاصل کرنے والے یہاں کے باسی قتل و قتال کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب یہ خونریزی ہی ان کی زندگی کا مشغلہ بن چکی ہے، کیونکہ جب سے آنکھ کھولی دھرتی پر یہی کچھ دیکھا ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ مستقبل بھی ماضی سے کچھ مختلف دکھائی نہیں دیتا۔ آگے چلتے ہیں۔ خانہ جنگی کی دہکتی بھٹی میں جلتا تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ملک عراق امریکا کے تاریخی ظلم کے بعد سے خونریزی کی دلدل میں بری طرح سے دھنسا ہوا ہے۔ لاکھوں مسلمان خلعت شہادت سے سرفراز ہوچکے ہیں۔ امریکا نے یہاں خونریزی کی آگ جلائی تھی، جبکہ کلمہ گو انسانوں نے اسے مزید بڑھکایا ،جس کے بعد یہاں خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے بہت سے بے گناہ مسلمانوں کو زندگی سے محروم کردیا۔ بے شمار بحرانوں میں پھنسی یہ دھرتی اب ایک نئے اندرونی تباہ کن بحران کی لپیٹ میں ہے۔ قتل و قتال اب تازہ انگڑائی لے کر ایک بار پھر پورے ملک کو بدامنی کی چادر میں لپیٹنے جارہاہے۔ ”آئی ایس آئی ایس“ کے کارکنان مار کاٹ کرتے ہوئے عراقی علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے چلے جارہے ہیں، ان کے سامنے حکومت اور فوج بھی بے بس۔ پشت پہ کون ہے یہ تو خدا جانے، لیکن اس معاملے میں فرقہ وارانہ آمیزش ہوجانے سے موت کا یہ الاﺅ مزید بھڑکنے کا شدید خدشہ ہے۔ یہ خونی بحران نہ صرف لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں نگل سکتا ہے، بلکہ پھیلتا پھیلتا آس پاس کو بھی اپنے خونی شکنجے میں جکڑ سکتا ہے،جو مسلم امہ کو مزید ایک اور بحران کی جانب دھکیل سکتا ہے۔

عراق سے متصل ہی شام واقع ہے۔ یہاں بھی سیاسی انقلاب کے نام سے شروع ہونے والا بحران ایک عرصہ ہوا مسلکی آمیزش سے خونی انقلاب میں بدل کر شام کو خون میں نہلا رہاہے۔ خانہ جنگی شام کو تباہ وبرباد کرچکی ہے۔ دو لاکھ سے اوپر زندگیاں داﺅ پر لگی چکیں، لاکھوں اپاہج اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ان گنت۔ طرفین خون کے آخری قطرے تک لڑنے اورمخالفین کی بستیاں، شہر اور علاقے برباد کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔ روز یہ بحران ہزاروں نہیں تو سیکڑوں انسانوں کی اموات میں اضافہ ضرور کر رہا ہے ۔ایک عرصے سے یہ معاملہ مسلسل جاری ہے اور مستقبل قریب میں امید کی کوئی کرن دکھائی بھی نہیں دیتی۔ یہ اسلامی دنیا کا امیرترین ملک لیبیا ہے۔ یہاں کے باسی بھی ایک عرصے سے سکون کو ترسے ہوئے ہیں۔ تین سال قبل خونی انقلاب کے نتیجے میں آمریت سے تو چھٹکارہ حاصل کر لیا، لیکن خونریزی سے چھٹکارہ حاصل نہ کیا جاسکا۔ صرف تین سالوں میں خونریزی پچاس ہزار سے زاید افراد کی جانیں لے چکی ہے۔ افسوس لیبیا میں بھی قتل و قتال کا یہ سلسلہ زمانہ قریب میں تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مسلمانوں کا قدیم ملک مصر ہے۔ جہد مسلسل اور بہت سی جانوں کے ضیاع کے بعد ایک طویل آمرانہ ستم سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں کامران ہوکر پہلی جمہوری حکومت بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی، جو اس سرزمین کو راس نہ آئی اور ایک سال میں ہی منتخب حکومت کا تیاپانچا کرکے اس پرامن ملک کو بھی بدامنی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ سال سے زیادہ عرصہ ہوا یہ ملک بھی سکون کو ترس رہا ہے۔ صرف ایک سال میں ہی ہزاروں جنازوں اور سیکڑوں پھانسیوں کی سزا کے باوجود بدامنی کے سبب مصر کا بحران مزید خونخوار ہورہا ہے۔ یہاں قتل و قتال کے ساتھ بم دھماکوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے،جس سے بدامنی نے ملک کو مزید بدامنی میں جکڑ لیا ہے اور یہاں بھی جلدی حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

یہ نمونے کے طور پر چند مسلم ممالک کی درد ناک کتھا سنائی ہے، ورنہ اس وقت دنیا میں موجود اسلامی ممالک کو اپنی انگلی کے پوروں پر ایک ایک کر کے گنتے جائیے اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نظر دڑائیے، شاید ہی کوئی ایسا اسلامی ملک نظر آئے جو بدامنی و خونریزی کی نحوست سے پاک ہو۔ انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں مسلمان ہی خونریزی میں ملوث ہیں، طاغوتی طاقتیں تو صرف تلی پھینکتی ہیں، آگ بڑھکانے والے خود مسلمان ہیں۔”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ قتل کرنے والے بھی ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور قتل ہونے والے بھی۔ دونوں اپنے قلب و نطق سے ”لاالہ الا اللہ“کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک جانب مسلح مسلم گروہ ہیں، جبکہ دوسری جانب مسلم حکومتیں۔ حکمران اپنی حکومت بچانا چاہتے ہیں، جبکہ مسلح گروہ اسلحہ کے زور پراپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں، طرفین اپنے مقصد کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ یہ سوچنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں کہ اس لڑائی سے فائدہ اغیار کا اور نقصان امت مسلمہ کا ہورہا ہے، جبکہ اگر غیر مسلم ممالک کا جائزہ لیا جائے تو شاید ہی دنیا کے نقشے پر ایسا ملک دکھائی دے، جہاں مسلم ممالک کی طرح خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہو، جہاں ایک ملک کے لوگ ہی ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہوں۔ ان ممالک میں مسلح گروہ اپنی حکمرانی کے حصول کے لیے بے گناہ انسانوں کی جانیں نہیں لے رہے، جبکہ مسلم ممالک میں انسانی جان موسم خزاں میں بکھرے پتوں سے بھی کم قیمت ہے۔ حالانکہ اسلام کے نزدیک انسانی جان کی حرمت بیت اللہ سے بھی بڑھ کرہے۔

تاریخ انسانی میں اگرچہ ہمیشہ سے طاغوتی قوتیں بڑی کامیابی سے امت مسلمہ کی باہمی قوت و اتحاد کو تقسیم کرکے ان میں فتنہ و انتشار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا جاتا تھا، لیکن اب یہ مسلمان خود ہی مختلف ہوکر ایک دوسرے کو قتل کرکے ان کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک بیرونی قوتوں کے مفادات کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک میں ہونے والے کشت و خون کی صورت میں طاغوتی قوتوں کا ادھورا خواب پورا ہورہا ہے۔ افسوس صد افسوس! پوری امت مسلمہ میںان حالات کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر کوئی بھی کوشش نہیں کی جارہی۔ ہر کسی کے اپنے مفادات، اپنی ترجیحات اور اپنے اصول ہیں۔ مخالفت حق اور باطل کی بنا پر نہیں، بلکہ فائدے اور نقصان کی بنا پر کی جارہی ہے۔ اسی باطل اصول نے امت مسلمہ کو آگ کی بھٹی بنایا ہوا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.