رمضان کے تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں

اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکرو احسان ہے کہ ایک بار پھر چند دنوں کے بعد ہمارے سروں پرنہایت عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے ، جو اپنے دامن میں عظمتوں اور برکتوں کا ایک ذخیرہ سمیٹے ہوئے ہے، ایک ایسا مہینہ جس میں ہمارے ایمان کی مرجھائی ہوئی کلیوں میں ترو تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور ہر سو رحمت وا نوار کی بارش برستی ہوئی نظر آتی ہے۔

اس مہینے کی سعادت کے حصول پر اﷲ تبارک و تعالیٰ کا جتنا بھی شکر بجالایا جائے ، کم ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ جو گذشتہ ہمارے سال ہمارے ساتھ روزے میں شریک تھے وہ آج قبر میں مدفون ہیں۔ کتنے جسم جنہیں ہم نے گذشتہ سال رمضان میں صحیح سالم دیکھا تھا ،آج بستر مرگ پر پڑے ہوئے ہیں۔

رمضان کے اس مبارک مہینے کی آمد آمد ہے جس کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ اس مبارک ماہ میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں،سرکش شیاطین جکڑدئیے جاتے ہیں، نیکیوں کا اجروثواب بڑھادیاجاتاہے، جس کی ہررات اعلان ہوتا ہے’’اے خیر کے متلاشی !آگے بڑھ اور اے شرکے طلبگار ! پیچھے ہٹ‘‘۔ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے ، جواس کے خیرسے محروم رہا وہ واقعی محروم ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آخرشعبان میں نبی کریم ﷺنے صحابہ کرام علہیم الرضوان سے خطاب کرتے ہوئے فرمای’’اے لوگوتم پرعظمت والامہینہ سایہ کررہاہے یہ مہینہ برکت والاہے جس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے یہ و ہ مہینہ ہے جس کے روزے اﷲ پاک نے فرض کیے اورجس کی راتوں کاقیام تطوع ٹھہرایا، جواس مہینہ میں کسی نیکی سے اﷲ رب اللعالمین کاقرب حاصل کرناچاہے تواسے فرض اداکرنے کے برابرثواب ملے گااورجس نے اس مہینہ میں ایک فرض اداکیاتواسے دوسرے مہینوں کے سترفرضوں کے برابرثواب ملے گا۔یہ صبرکامہینہ ہے اورصبرکاثواب جنت ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کامہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کارزق بڑھادیاجاتاہے جواس مہینہ میں کسی روزہ دارکوافطارکرائے تواس کے گناہوں کی بخشش ہوگی اورآگ سے اسکی گردن آزادہوجائے گی اورافطارکرانیوالے کوروزہ رکھنے کاثواب ملے گاروزہ دارکے ثواب میں کمی کے بغیر۔صحابہ کرام علہیم الرضوان فرماتے ہیں ہم نے عرض کیایارسول اﷲ!ہم میں سے ہرشخص کے پاس روزہ افطارکرانے کاانتظام نہیں توآقاﷺنے فرمایااﷲ پاک یہ ثواب اس شخص کوبھی دے گاجودودھ کاایک گھونٹ یاکھجوریاگھونٹ بھرپانی سے کسی کوافطارکرائے اورجس نے روزے دارکوپیٹ بھرکرکھاناکھلایااﷲ تعالیٰ اسے قیامت کے دن وہ پانی پلائے گاجس کے بعدوہ جنت میں جانے تک کبھی پیاسانہ ہوگا، یہ وہ مہینہ ہے جس کے اوَل میں رحمت درمیان میں بخشش اورآخرمیں آگ سے آزادی ہے اورجواس مہینہ میں اپنے غلام (ملازم)سے نرمی کرے گاتواﷲ پاک اسے بخش دے گااورآگ سے آزادکردے گا۔(مشکوٰۃ شریف)

حضرت سیدْناابوسعیدخدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقاﷺنے ارشادفرمایا’’جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے توآسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورآخررات تک بندنہیں ہوتے جوکوئی بندہ اس ماہِ مبارک کی کسی بھی رات میں نمازپڑھتاہے اﷲ تعالیٰ اس کے ہرسجدہ کے عِوض اس کے لئے پندرہ سونیکیاں لکھتاہے اوراس کے لئے جنت میں سْرخ یاقوت کاگھربناتاہے جس میں ساٹھ ہزاردروازے ہوں گے اورہردروازے کے پَٹ سونے کے بنے ہوں گے جن میں سرخ یاقوت جڑے ہوں گے۔پس جوکوئی ماہِ رمضان کاپہلاروزہ رکھتاہے تواس مہینے کے آخردن تک اْس کے گناہ معاف فرمادیتاہے اوراْس کے لئے صبح سے شام تک سترہزارفرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔رات اوردن میں جب بھی وہ سجدہ کرتاہے اس کے ہرسجدہ کے عِوض اْسے (جنت میں)ایک ایک ایسادرخت عطاکیاجاتاہے کہ اْس کے سائے میں گْھڑسوارپانچ سوبرس تک چلتارہے۔(شْعب الایمان)

حضرت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایامیری امت کوماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جواس سے پہلے کسی نبی کونہیں ملے۔

پہلایہ کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تواﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظرالتفات فرماتاہے اورجس پراﷲ تعالیٰ کی نظر(رحمت )پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔

دوسرایہ کہ شام کے وقت انکے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کومشک کی خوشبوسے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔
تیسرایہ کہ فرشتے ہردن اورہررات ان کے لئے بخشش کی دعاکرتے رہتے ہیں۔

چوتھایہ کہ اﷲ تعالیٰ جنت کوحکم دیتے ہوئے کہتاہے میرے بندوں کے لئے تیاری کرلے اورمزین ہوجاقریب ہے وہ دنیاکی تھکاوٹ سے میرے گھراورمیرے دارِرحمت میں پہنچ کرآرام حاصل کریں۔

پانچواں یہ کہ جب (رمضان)کی آخری رات ہوتی ہے ان سب کوبخش دیاجاتاہے \"۔ایک صحابی نے عرض کیا!کیایہ شب قدرکوہوتاہے؟ آپ نے فرمایانہیں کیاتم جانتے نہیں ہوکہ جب مزدورکام سے فارغ ہوجاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے\"۔(الترغیب والترہیب )

مذہب اسلام ایک ایسا پیارا مذہب ہے جس نے باہمی اخوت ، ہمدردی، یکجہتی اور اتحاد کا ایسا حکم دیا ہے کہ اگر آج ہم اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو جائے۔ اسلام میں کسی امیر کو غریب پر، کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اگر کسی کو کوئی فضیلت ہے تو وہ تقوے کی بنیاد پر ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ ان اکرمکم عند اﷲ اتقٰکم‘‘(پارہ ۲۶، سورہ حجرات، آیت ۱۲) یعنی اﷲ کے نردیک تم سے سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوے والا ہے۔

مذہب اسلام نے تقوے کے حصول کے لئے ارکان اسلام کی صورت میں ایسا پانچ نکاتی لائحہ عمل عطا فرمایا جو انسانی فطرت کے ہم آہنگ ہونے ساتھ آسان اور قابل عمل بھی ہے۔ انہی ارکان اسلام میں سے ایک رکن روزہ بھی ہے جس کا اہم مقصد تقوے کا حصول ہے۔ چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے ’’یآٰیھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘۔(پارہ ۲، سورۂ بقرہ، آیت ۱۸۳)یعنی اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگاری (تقویٰ) حاصل کرو۔

اس آیت میں روزے کے مقصد کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ روزے کی فرضیت کا مقصد تقوے کا حصول ہے، اگر انسان روزہ رکھ کر بھی تقویٰ حاصل نہیں کر پایا تو اس نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا۔

تقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ تو بادی النظر میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حرام سے اجتناب کرنا اور فرائض کو بجا لانا یہی تقویٰ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں’’ متقی وہ ہے جو شرک و کبائر وفواحش سے بچے۔ بعض کا قول ہے کہ تقویٰ حرام چیزوں کا ترک اور فرائض کا ادا کرنا ہے، بعض کا قول ہے کہ معصیت پر اصرار اور طاعت پر غرور کا ترک تقویٰ ہے۔ (خزائن العرفان) لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ روزے کے ذریعہ حاصل ہونے والا تقویٰ حرام چیزوں سے تو درکنار حلال چیزوں کو بحالت روزہ روزہ دار کے قریب پھٹکنے نہیں دیتا جن سے متمتع ہونا غیر روزے کی حالت میں جائز ہے۔
اگر ہم تقوے کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ جائیں اور اسی مقصد کے تحت روزہ رکھیں تو ہمیں روزے کے حقیقی ثمرات حاصل ہوں اور ہم روزے کے حقیقی فوائد سے فیض یاب ہوں۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم میں سے بہت روزے کے اس حقیقی مقصد سے غافل ہیں اور حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق ہمیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

رمضان کا یہ مبارک مہینہ ہر سال رحمتوں، مغفرتوں کا انبار لیکر ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے۔ لیکن اس مبارک ماہ کے کچھ تقاضے بھی ہیں جن کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔ روزے دار کا ایک ماہ تک روزے کی حالت میں ان حلال چیزوں کا ترک کردینا جن سے عام زندگی میں نفع اٹھانا جائز ہے، یہ اس بات کے حصول کے لئے ہے کہ اس ایک ماہ میں اس کے اندر تقوی اس درجہ فروغ پاجائے کہ وہ پوری زندگی حلال و حرام کی تمیز رکھتے ہوئے اپنی زندگی اس طرح گذارے کہ حرام چیزتو دور حرام کے شائبے سے بھی اجتناب کرے۔

روزے میں بھوک پیاس کا احساس ہمیں اس جانب بھی مبذول کرتا ہے کہ ہم اس بھوک اور پیاس کے احساس سے ان غریب مسلمان کی حاجتوں کا بھی خیال رکھیں جنھیں دو وقت کی روٹی کے لئے در در بھٹکنا پڑتا ہے۔ یہ ماہ مقدس ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم ہر طرح سے غریب ، مفلس لاچار لوگوں کی مدد کریں اور ان کی ضرورتوں کا خیال کرتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ہم خود تو لذیذ قسم کے طعام اور مشروبات سے روزہ افطار کرتے ہیں، ان کے لئے بھی افطار کا اہتمام کریں جو پانی کے ایک گلاس سے روزہ افطار کرتے ہیں۔ اپنی خوشیوں میں معاشرے میں رہ رہے غربت زدہ لوگوں کو بھی شامل کریں جو کہ اسلام کا عین مدعا ہے۔ اس ماہ مبارک میں جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے اپنا وقت اطاعت خداوندی مین گذاریں، معاشرے کی اصلاح کے لئے تدابیر کریں، گھروں میں قرآن خوانی اور قرآن فہمی کی ترغیب دیں، شرعی مسائل کی محافل منعقد کریں، غریبوں محتاجوں کے لئے امداد مہیا کرائیں۔قرآن کریم کی تلاوت کا ایک مستقل وقت بنائیں،ہرفرض نماز کے بعد چند آیات کی تلاوت مع ترجمہ کا معمول بنالیں،علما ئے کرام اور معتبرکتابوں کی مدد سے روزہ کے احکام ومسائل کی معلومات حاصل کریں اوریہ عزم مصمم کرلیں کہ آپ اپنی زبان کی حفاظت کریں گے ،گالی گلوچ ،لڑائی جھگڑا ،بدکلامی اورچغل خوری،بہتان تراشی، سے دور رہیں گے ،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں پیش پیش رہیں گے اورکسی انسان کو ایذا نہ پہنچائیں گے، اپنے آپ کو اسلامی اخلاق میں ڈھالیں۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو رمضان کے حقیقی مقاصد کے حصول کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اپنی رحمتوں اور مغفرتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔

Tauheed Ahmad Khan
About the Author: Tauheed Ahmad Khan Read More Articles by Tauheed Ahmad Khan: 9 Articles with 9766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.