مسائل،وسائل،رسائل اور سائل

دنیا بھی عجیب ہے اور دنیا کی زبانیں بھی عجیب ہیں۔ زبانوں کے الفاظ کس طرح چیزوں کے باہمی ربط کو اجاگر کرتے ہیں اس کا اندازہ چند الفاظ کو اکٹھا رکھ کے سوچنے سے ہوتا ہے جیسا کہ اوپر چار الفاظ لکھے گئے ہیں ان کو اکٹھا سوچیں تو کتنی بڑی حقیقتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔

انسان نے جب سے زمین پر قدم رکھا ہے وہ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ بے شمار زمانے گزر جانے اور بے پناہ ترقی ہو جانے کے بعد بھی انسان مسائل کی اسی دلدل میں ہے جس میں وہ پہلے دن اترا تھا۔بے انتہا کوشش کہاں گئی جب آج بھی انسان اتنا ہی پریشان ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔ ایک تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انسان پہلے روز بھی اپنی خواہش کے ہاتھوں پریشان تھا اور آج بھی وہ اسی کے ہا تھوں اذیت میں مبتلا ہے۔آج کی خواہش ماضی کی خواہش سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔اس لئے آج کا انسان بھی ماضی کے انسان سے زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ دوسری بات یہ سمجھ آتی ہے کہ فطرت خود بھی انسان کے خلاف نبرد آزما ہے انسان ایک مسئلے کا حل ڈھونڈتا ہے تو فطرت نیا مسئلہ شروع کر دیتی ہے۔ایک بیماری کا علاج نکلا تو دوسرا روگ نکل آیا۔انسان بیچارہ ڈھیٹ ہو کر برسرِ پیکار تو ہے ہی لیکن اس کی سمجھ سے بات بالا تر ہو جاتی ہے کہ آخر اسے سکون کب ملے گا یا وقت کی یہ ٹرین کب سکون کی وادی میں اپنے مسافروں کو اتارے گی۔یہ ایک خام خیالی یا رام کہانی تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ دنیا کی صدیوں پرانی تاریخ اس تصورِ بے بنیاد کو جھٹلانے کے لئے کافی ہے۔غالبؔ کو بھی اسی بات سے اتفاق ہے:
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ہیں ایک
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

یہ بات کس قدر حیرت ناک ہے کہ آج تک تمام انسانوں نے مل کر ایک بھی مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا یا وہ کر ہی نہیں سکے۔ہر مسئلے میں مذید پیچیدگی ہی پیدا ہوئی ہے۔سماجی، لسانی، علاقائی،مذہبی،سائنسی، معاشی، وغیرہ ہر لحاظ سے انسان مذید پریشان ہوا ہے۔بڑے بڑے شہر تو بن گئے لیکن کتنے ہی مسائل ساتھ لائے۔یوں لگتا ہے مسائل انسان سے زیادہ طاقتور ہیں اور آخر ان ہی کی جیت ہو گی۔

مسائل کو دور کرنے کے لئے وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ وسائل، مسائل سے پنجہ آزمائی ہرتے ہیں ۔مسائل کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم صادر فرماتے ہیں۔مسائل ،وسائل کی چال ڈھال دیکھتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کی اپنے طور پر کوشش بھی کرتے ہیں۔اکثر تو مسائل ہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور اگر کبھی ان کو کسی علاقے سے کوچ کرنا بھی پڑ جائے تو وہ بھیس بدل کر پھر وہیں آجاتے ہیں اور وسائل کا منہ چڑاتے ہیں۔یا یہ مسائل کسی اور جگہجا کر جلوہ گر ہوتے ہیں جہاں وسائل نہیں پہنچ پاتے۔دنیا کے بیشتر علاقوں پر مسائل ہی کی حکومت ہے اور وسائل اکثر شہری یا مرکزی علاقوں سے باہر نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں۔انسان کی انفرادی زندگی بھی اسی حقیقت کی مظہر ہے۔ پھر بھی غالبؔ ہی یاد ااتا ہے پتہ نہیں کیوں:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دَم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے

مسائل اور وسائل کے ساتھ جو لسانی ہمسایہ ہے وہ رسائل ہے۔رسائل کا ایک معنی تو ادبی رسالہ کی جمع ہے جو کہ اپنے طور پر علمی، ادبی ، لسانی اور باقی انسانی مسائل کو حل کرنے میں اپنے وسائل سے استفادہ کرتا ہے۔ اور دوسرا معنی ترسیل کے ہیں یعنی چیزوں کی نقل و حرکت۔یعنی وسائل کو مسائل کی جگہ لانے کا کام۔اگر مسائل اپنی جگہ رہیں اور وسائل اپنی جگہ رہیں تو دنیا کا کوئی کارخانہ نہیں چل سکتا۔ ہر کارخانہ یا فیکٹری وسائل کو مسائل کی جگہ پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔یعنی وہ وسیلہ یا رسائل میں سے ہونے کا کام کرتا ہے۔ رسائل کی اہمیت سے انکار اس وجہ سے بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے بغیر مسائل اور وسائل کا ناتاقائم نہیں کیا جا سکتا۔

مسائل، وسائل اور رسائل سب کی اہمیت ان کے آخری تین حروف سے بننے والے لفظ یعنی سائل سے ہے۔اگر سائل نہ ہوں گے تو مسائل بھی نہ ہوں گے، مسائل نہ ہوں گے تو وسائل کی حیثیت بے توقیر ہو جائے گی۔ مسائل اور وسائل کی کہانی نہ بنے گی تو رسائل کا رول بھی بے کار ہو جائے گا۔یعنی مسائل۔ وسائل، رسائل تینوں کا وجود سائل سے قائم ہے۔اس سے ایک بات تو ضرور ذہن میں آتی ہے کہ مسائل حل کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ سائل ہی کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ہم سوچ رہے ہیں اور شاید آپ بھی سوچ رہے ہوں کہ اس موقع پر ہمیں غالبؔ کیوں نہیں یاد آیا۔لو آگیا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ۔نہ ہوتا کچھ تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

غالبؔ نے مسائل اور سائل کا تعلق بہت خوبصورت انداز میں جوڑا ہے:
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مسائل،وسائل ،رسائل اور سائل کے چار الفاظ سے بنی اس دنیا کی کہانی کو کوئی بھی عنوان دیا جائے
بات وہیں پر پہنچتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ یہ چار الفاظ اس میں ہمیشہ شامل رہیں گے۔اور دنیا ایک دائرے میں انہی الفاظ کے حصار میں گھومتی رہی ہے اور گھومتی رہے گی۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284937 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More