طالبان کے جرائم

عام آدمی کی زبان پر ان دنوں ایک ہی سوال ہے اب کیا ہوگا؟کالعدم تحریک ِ طالبان نے حکومت اور حکومت نے تحریک ِ طالبان کے خلاف جنگ کااعلان کردیاہے فوجی طیارے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مسلسل نشانہ بنارہے ہیں عسکری اور سیاسی قیادت نے دعویٰ کیاہے کہ اب اپریشن آخری دہشت گردکی ہلاکت تک جاری رہے گا ۔ تحریک ِ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے مذاکرات کی آڑ میں ہمارے ساتھیوں پر ہلاک کیا گیا انہوں جو کچھ کہا یا جو ہم نے پڑھا یہ شاہداﷲ شاہدکا بیان ہے یا پھر درفنطنی ۔۔۔ بہرحال جو بھی ہے تضاذات کا مجموعہ اور منتشر ذہن کی علامت ہے یعنی یہ تووہی بات ہوئی
الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

سب سے پہلے توحکومت کے واری صدقے جائیے کہ ایک طرف تحریک ِ طالبان کو کالعدم قرار دیا گیاہے اور دوسری طرف اس سے مذاکرات کرنے کی کبھی رابطہ کمیٹیاں بنائی گئیں کبھی براہ ِ راست بات چیت کی گئی اور کبھی عسکری قیادت کو بھی ان مذاکرات میں شامل کرنے کی باتیں ہوئیں اس دوران طالبان قیادت نے یہ بھی کہا وہ پاکستان کا آئین بھی تشلیم کرنے سے انکاری ہیں پھر مذاکرات کا ڈرامہ کیونکر کیا گیا ؟ یہ سوال عقل سے بعید ہے۔۔۔ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کیلئے اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز بھی فراہم کئے ۔۔۔خودکش حملوں کو بھی برداشت کیا تاکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے اس نازک، حساس اورقومی ایشوپر بات کرنے کیلئے زمینی حقائق کی روشنی میں بات کی جا سکے ۔ ویسے کالعدم تحریک ِ طالبان کے رہنما ہم جیسے عام مسلمانوں سے زیادہ متقی، پرہیز گار اورنمازی ہیں ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اسلام کو دین ِ فطرت کہا گیاہے جو ہرقسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ اسلام اور انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک دوسرے کی ضد ہیں اب اسلام کے نام پر قتل و غارت والا فلسفہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا اور نہ مسلمانوں کی اکثریت دہشت گردوں کو اسلام کے وارث تسلیم ہی کرسکتی ہے اس لئے عام لوگوں میں یہ تاثرپایا جاتاہے کہ انتہا پسند اسلام کی غلط تشریح کررہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی سبکی ہورہی ہے مغربی دنیا اور اسلام دشمن قوتوں کے زہریلے پروپیگنڈے کے باعث مسلمان کے ساتھ دہشت گردی کو نتھی کردیا گیاہے حالانکہ بیشتر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت سماجی اورمعاشرتی اعتبار غربت کے ہاتھوں انتہائی مجبور ہے وطن ِ عزیز پاکستان میں تو12کروڑ سے بھی زیادہ شہری غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی گذار رہے ہیں غربت کی سب سے خوفناک شکل یہ ہے کہ سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچنے سے بھی دریغ نہیں کررہے، غربت سے تنگ لوگ اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں آئے روز اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔جن علاقوں میں طالبان کا اثرورسوخ زیادہ ہے ان میں عام آدمی کی حالت انتہائی قابل ِ رحم ہے وہاں نہ کوئی انڈسٹری ہے نہ صنعت۔۔۔ایک سیاحت وہاں کا واحد ذریعہ ٔ روزگار تھا جو دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ شمالی علاقہ جات کے شہری ان حالات کی وجہ سے زندگی سے عاجزآئے ہوئے ہیں سندھ پنجاب،بلوچستان کے زیادہ ترشہریوں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے ملک کے چاروں صوبوں کے پوش علاقوں کو چھوڑ کر باقی شہروں کی بیشترآبادیوں میں لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں بھارتی، بنگلہ دیشی، فلسطینی، برما، افریقی،افغانی،عراقی مسلمانوں کی حالت ِ زارایک الگ داستان در داستان ہے کالعدم تحریک ِ طالبان کے اکابرین ملک میں شریعت کا نفاذ کرانا چاہتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے نظام ِ مصطفےٰ ﷺ توہر مسلمان کے دل کی آواز ہے یہ ملک بھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس میں اسلام کی حکمرانی کا خواب ضرور شرمندہ ٔ تعبیر ہونا چاہیے نظام ِ مصطفےٰ ﷺ کے نفاذ کیلئے مذاکرات ہی سب سے بہتر اور سب سے اچھا فیصلہ ہے اسلام میانہ روی کا حکم دیتاہے لیکن اسلام کے نام پر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹنا، اسلام کے نام پر دہشت،خوف وہراس ، دین کے نام پر بم دھماکے،خودکش حملے،اسلام کے نام پر مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا،ٹرینوں پر حملے اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔۔ ایک اور اہم بات جو اسلام کی اصل روح ہے جب تک سٹیٹ کو ایک رفاہی ، فلاحی مملکت نہیں بنایا جاتااسلامی تعزیرات کو نافذنہ کیا جائے اس کیلئے بتدریج اسلامی قوانین پر عمل ہونا ضروری ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہو بھی جائے پھر بھی جرائم اورغربت کی وجوہات ختم کئے بغیراسلامی سزاؤں کیلئے ٹھوس حکمت ِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف مکاتب ِ فکر کے علماء کرام، دانشوروں،اسلامی سکالرزاور ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ہمیں اﷲ تعالیٰ نے ایک موقعہ دیاہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتحاد، اتفاق ،مفاہمت سے اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام نافذکر سکتے ہیں لیکن طاقت کے بل بوتے یابندوق تان کریا دہشت گردی کے زور پر کئے گئے فیصلے ملک و قوم کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں اس وقت طالبان کے100سے زیادہ گروپ ہیں ان میں سے جو ہم خیال ہیں وہ اکٹھے ہو جائیں دوسرے گروپوں کو بھی قائل کیا جائے کہ مسلح جدوجہد اسلام اور پاکستان کے مفاد میں ہرگز، ہرگز، ہرگزنہیں ہے یہ ساری انرجی،کوششیں، جدوجہد اور کاوشیں اسلام کی سربلندی، پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کیلئے وقف کردی جائے تو اس سے نہ صر ف ہمارے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہو گا بلکہ پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنانے کا خواب بھی پورا کیا جا سکتاہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخروکاشغر طالبان کے جرائم کی فہرست بہت لمبی ہے عام شہریوں کا قتل ِ عام سے لے کر حساس نو عیت کے دفاعی اداروں پر خودکش حملے،بم دھماکے،فوجی افسروں کا اغواء کئی، ایئر بیس پر دہشتگردی کے متعدد واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف اپریشن آخری دہشت گردکی ہلاکت تک جاری رہنا چاہیے یہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔
M. Sarwar Siddiqui
About the Author: M. Sarwar Siddiqui Read More Articles by M. Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 161047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.