برے دنوں کی یلغار

نریندر’بھائی ‘مودی کوجن31فیصدرائے دہندگان نے وزیراعظم کے منصب تک پہنچانے کا کام کیا ان کو یہ خوش فہمی تھی کہ’بھائی ‘ اچھے دن لائیں گے۔‘ عوام کے لئے اچھے دنوں سے مراد یہ ہے کہ مہنگائی کم ہو، روزگار کی کثرت ہو، ملک بھر میں امن و چین کا ماحول ہو، عورتیں بچے اور کمزور طبقے محفوظ ہوں، انصاف کا بول بالا ہو ، بھیڑ ہو یا بھیڑیا، سب ایک گھاٹ پر پانی پی سکیں ۔ مگر مودی کے آتے ہی، اچھی خبروں کے بجائے بری خبروں کا سیلاب آگیا ہے۔

مہنگائی میں اضافہ
مہنگائی کے محاذ سے خبر یہ ہے کہ برسات آنے سے پہلے ہی سبزیوں کے بھاؤ بڑھنے لگے ہیں۔ خاص طور سے آلو کوئی بیس فیصدمہنگا ہوگیا ہے۔ پیٹھا (میٹھا کدو) جو چند ہفتہ پہلے تک دس روپیہ کلو تھا ،اب بیس روپیہ اور پچیس روپیہ کلو ہوگیا ہے۔ پیاز کوئی 35فیصد مہنگی ہوچکی ہے۔ مزید مہنگی ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ گندم، جودیہات میں فصل کے موقع پر کم نرخ پر مل جاتا تھا، اس بار اور مہنگا ہوگیا ۔ کھانے پینے کی اشیاء میں اس گرانی کی بدولت ہی مئی کے تھوک عدد اشاریہ میں زبردست اچھال آیا اور اس میں چھ فیصد سے زیادہ کااضافہ ہوگیا۔مانسون ہلکا ہونے کا ڈھنڈورہ ابھی سے پیٹا جارہا ہے جس کی بدولت بھاؤ بڑھنے کی امید میں تاجر اجناس کو روک کر رکھیں گے اور مصنوعی قلت پیداہوگی، جس سے نرخوں میں اضافہ ہونالازمی ہے۔ سرکار بھاجپا کی ہے اور تاجر بھاجپا کا بڑاووٹ بنک ہیں۔ بقول شخصے، ’’سیاں بنے ہیں تھانیدار، اب ڈر کس کا ہے۔‘‘لیکن اس کا ٹھیکرا ریاستوں سرکاروں سے پھوڑنے کی تیاری کرلی گئی ہے اور وزیر مالیات نے اعلان کردیا ہے کہ ریاستیں جمع خوروں کے خلاف کاروائی کریں۔ نا نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔

اچھی حکمرانی کا حال
انتخابی مہم کے دوران مودی جی ’’اچھی حکمرانی اور جلد فیصلوں‘ ‘ کا نعرہ لگاتے رہے مگر حال یہ ہے کہ مرکز میں سرکار بنے تین ہفتے ہوگئے، مگرابھی تک وزیروں کے نجی سیکریٹریوں تک کا تقرر نہیں ہوا ہے۔ نریندر’بھائی‘ پوری سرکار کو اپنی مٹھی میں بند رکھنا چاہتے ہیں اس لئے پارٹی کے صدر اور مرکزی وزیرداخلہ کو بھی یہ اجازت نہیں ملی کہ وہ اپنی پسند کا سیکریٹری رکھ لیں۔ دوسرے وزیروں کا تو کہنا ہی کیا؟چنانچہ روزگار کے محاذ سے اگر کوئی خوش کن خبر نہیں آئی تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ چند گورنروں کو بیروزگار کرنے کی تیاری ہے تاکہ ان کی جگہ سنگھیوں کو لگایا جاسکے۔

بے روزگاری
گورنر ہی کیا، مودی سرکار کی مار دہلی میں رکشا چلانے والوں پر پڑ گئی ہے۔ سرکار نے بیٹری رکشہ کو غیرقانونی قراردیدیا جن کی تعداد دہلی میں ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ اب یہ کہا گیا ہے کہ وہ فی کس سوروپیہ جمع کریں، تاکہ شناختی کارڈ جاری ہوں اور وہی رکشہ چلا سکے گا جو مالک ہوگا۔ گویا ایک رکشہ سے گھر کے دوافراد، دو سگے بھائی ،باپ اور بیٹا روزگار نہیں کماسکتے۔ مگر فی الحال پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ سائکل رکشہ کی جگہ لینے والے یہ رکشہ گلی کوچوں تک جانے کا واحد ذریعہ ہیں۔یہ رکشہ عمومابنک سے قرض لے کر خریدے گئے ہیں جس پرروز سودچڑھتا ہے۔ اس اقدام سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے روزگاری کے کگار پر ہیں۔خیال رہے کہ دہلی میں اس وقت گورنرراج ہے اور گورنربراہ راست مرکزی وزیرداخلہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس لئے مودی کی سرکار اس فیصلے کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔

روپیہ میں گراوٹ
مودی جی اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈالر کے مقابلے روپیہ کی قیمت میں گراوٹ کا معاملہ بھی اچھالا تھا ، مگر یہ سلسلہ بدستورجاری ہے اور منگل، 17جون کو ایک ڈالر کی قیمت ساٹھ روپیہ پچاس پیسہ ہوگئی ہے۔

امن وقانون کا ابتر حال
نریندربھائی کے برسراقتدارآتے ہی ملک بھر میں ہزاروں ’بھائیوں‘ کی باچھیں کھل گئی ہیں۔عصمت دری اور اس کے بعد قتل کی وارداتوں کی باڑ ھ سی آگئی ہے۔ اقلیت دشمنی کا زہر پونا جیسے پرامن شہر میں بھی ابلنے لگا ہے اور سرعام مودی کے مداح’’ہندوراشٹریہ سینا‘‘ کے غنڈوں نے ایک نوجوان کواس لئے مارمار کر قتل کردیا کہ اس کے چہرے پرداڑھی اورسر پرٹوپی تھی اور وہ نماز پڑھ کرآیا تھا۔ اترپردیش میں بھی لاقانونیت پھیلائی جارہی ہے۔ مہاراشٹرا اور یوپی میں رونما ہونے والی وارداتیں محض اتفاقی نہیں بلکہ سنگھ پریوار کی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نظرآتی ہیں۔یہ دونوں ریاستیں بڑی ہیں۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں ان میں بھاجپا کی انتخابی چال کام کرگئی ۔ اس لئے کوشش یہ ہورہی ہے کہ آئندہ اسمبلی الیکشن تک ان ریاستوں میں فرقہ ورانہ تفرقہ بازی، لاقانونیت اور افراتفری کا ایسا ماحول بنائے رکھا جائے جس میں ایک مرتبہ پھر رائے دہندگان جذبات کی رومیں بہہ جائیں اوربھاجپا کی بلّے بلّے ہوجائے۔

مہاراشٹرا میں اقلیتی فرقہ پر اس تبدیلی کا شاید زیادہ اثر اس لئے نہ پڑے کہ بے قصور نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے معاملوں میں پھنسانے اور اقلیت دشمنی کے دوسرے معاملوں میں موجودہ سرکار کچھ کم نہیں ۔ لیکن اترپردیش میں معاملہ دیگر ہے۔ مودی نے اپنی کابینہ میں اترپردیش کے ایک ایسے داغی ایم پی کوشامل کیا ہے جس کا ہاتھ حالیہ مظفرنگر فساد میں صاف نظرآتا ہے۔ یہ تقرری خاص مقصد سے ہوئی ہے تاکہ شدت پسند وں کے حوصلے بلند رہیں،حالانکہ ایک دن پہلے تک یوپی سے نام ڈاکٹرستہ پا ل سنگھ کا لیا جارہا تھا جو ممبئی میں بڑے کامیاب پولیس کمشنررہے اور جنہوں نے اجیت سنگھ جیسے بڑے لیڈر کو باغپت سے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔اب جو یہ شور مچایا جارہا ہے کہ یوپی میں بھاجپا لیڈروں کو قتل ہورہا ہے، یہ بھی محض پروپگنڈہ ہے۔ قتل کی یہ وارداتیں غیر سیاسی اور مقامی ’بھائیوں‘ میں چپقلش کا نتیجہ ہیں۔ غرض یہ کہ ان وارداتوں کی ذمہ داری سے مرکز میں برسراقتدار بھاجپا بچ نہیں سکتی۔
اندیشہ اس بات کا ہے کہ اپنی عیش کوشی، نااہلی اور خاندان پروری کی وجہ سے یادو وں کی یہ سرکار آئندہ اسمبلی الیکشن میں چاروں خانے چت ہوجائیگی۔ مایاوتی کا معاملہ بقول ثاقبؔ لکھنوی یوں ہے :
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

آنجہانی کانشی رام نے ان کے لئے ایک مخصوص برادری کے ووٹ بنک کی جو مضبوط زمین تیار کی تھی وہ اس بارمودی کے خوش کن نعروں کے طفیل ان کے قدموں تلے سے کھسک گئی اور اب اس کی واپسی بھی مشکل ہے۔ رہا کانگریس کا معاملہ تویوپی کے تعلق سے اس کا رویہ غیرسنجیدہ اور ڈانواڈول ہے۔ گزشتہ اسمبلی چناؤ میں راہل گاندھی نے بہت زور مارا، مگر ہارجانے کے بعد نظر نہیں آئے۔پارٹی بھی کوئی مضبوطی نہیں دکھا سکی۔ اس کے پاس نہ لیڈر ہیں اور نہ کیڈر۔ چنانچہ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں پارٹی صرف دوسیٹوں پر سمٹ کررہ گئی۔ایک سیٹ سونیا کی رائے بریلی اوردوسری راہل کی امیٹھی بچی۔ اب اگر اسمرتی ایرانی امیٹھی آتی جاتی رہیں تواگلا چناؤ آتے آتے امیٹھی کا رنگ بھی بھگوا ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم کی پلٹی
بات یہ چل رہی تھی کہ مودی نے وعدہ تو اچھے دنوں کا کیا تھا، مگر معاملہ بالکل الٹا نظرآتا ہے۔انہوں نے حال ہی میں افسروں اوروزیروں کی ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں مہنگائی کے سوال پر غورہوا، مگر عوام کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے سرکار نے جادو کی کوئی چھڑی دریافت کرلی ہے یا نہیں؟ البتہ اس کے فوراً بعد گوا میں انہوں نے یہ اعلان کرکے کہ عوام کڑوی کسیلی گولیوں کے لئے تیار رہیں، ایک طرح سے اچھے دن لانے کے اپنے وعدے سے دامن چھڑا لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ لوک لبھاون وعدوں کے بل پر مرکز میں اقتدار پانے والی’ بھاجپا-این ڈی اے‘ سرکا ر کا پہلا بجٹ کیسا ہوگا؟

عالم اسلام
اﷲ نظربد سے محفوظ رکھے، اس وقت عالم اسلام میں حجازمقدس کے علاوہ، جہاں حرمین شریفین کی وجہ سے ہردم دنیا بھر سے اہل ایمان کی تشریف آوری کا سلسلہ جاری رہتاہے، ہرجگہ خون خرابہ ہورہا ہے۔ مصر میں ایک مرتبہ پھر اقتدارپر فوجی قبضہ ہوگیا ہے۔ شام میں عوام کا امن چین ختم ہوچکا ہے۔ لاکھوں خاندان تباہ و برباد اور ہزاروں گھر کھنڈر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کل تک جو بستیاں پررونق تھیں ، آج قبرستانوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ عراق میں امریکی پشت پناہی والی المالکی سرکار عوام میں اعتماد قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور اب ملک کے کئی شہروں پر سے اس کا کنٹرول بھی ختم ہوگیا ہے۔ افغانستان میں بھی شورش جاری ہے اور پاکستان کے حال تو کہنا ہی کیا؟ طالبان شدت پسندوں نے انسان کا خون اپنے اوپر حلال کرلیا ہے اور فوج اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی باشندوں پر ہوائی حملے کررہی ہے۔ نائجیریا میں بوکوحرام نام کی انتہا پسند تنظیم ، جس کا اصل نامـ’’ جماعۃ اہل السنۃ للدعوۃ و الجہاد‘‘ ہے ، اسلام کی بدنامی کرارہی ہے۔ہماری نظر میں یہ سب شدت پسند طاقتیں اسلام دشمن اور جدید خارجی ہیں، جن کے خلاف خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جنگ لڑی تھی۔ مگراس نادانی کو کیا کہا جائے کہ ہمارے دانشوروں کو ان شورشوں میں’’ بہار‘‘ نظرآرہی تھی۔ ہرچند کہ سعودی حکام کے بعض اقدامات کھٹکتے ہیں، مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ اگر یہ اقدامات نہ کئے جاتے تو وہ آگ جو آج دیگرعرب ومسلم ممالک کو جھلسارہی ہے، اس خطے تک بھی پھیل جاتی جس میں ہمارے مقدس مقامات مسجد حرام اور مسجد نبوی واقع ہیں۔رمضان کی آمد آمد ہے ۔ اس ماہ مبارک میں خاص طور سے اﷲ سے دعاکیجئے کہ پورے عالم اسلام کو ان شورشوں سے محفوظ ومامون فرمائے ۔آمین (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.